• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبندی عقیدہ: روضۂ رسولﷺ علی الاطلاق افضل ہے۔ عرش، کرسی اور کعبہ سے بھی افضل!

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
آپ سے درخواست کی گئی تھی کہ ا س دعویٰ کی دلیل پیش کیجئے کہ عرش اللہ تعالیٰ سے مس نہیں ہے؟۔ وہ شرعی دلیل کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ کے بتائے بغیر آپ کو کہاں سے معلوم ہو گیا؟​
آپ اپنا عقیدہ تو پہلے واضح کیجیے۔
میں یہ دے دوں گا۔ یہ تو عقل سے بھی ثابت ہوتا ہے۔ آپ پہلے اپنا عقیدہ واضح کر دیجیے بھائیوں سے مشورہ کر کے۔
اللہ تعالیٰ کے عرش سے مس نہ ہونے کی دلیل آپ کے ذمہ ابھی باقی ہے۔ ہمارا عقیدہ ہم نے واضح کر دیا ہے۔
اور امید ہے کہ آپ اپنے عقیدہ کا اثبات قرآن و حدیث کے دلائل سے کریں گے نا کہ اپنی "عقل عیار" سے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
جس عقیدہ کے بارے قرآن و حدیث خاموش ہیں۔ وحی کی روشنی نہیں ہے۔ وہاں اہلحدیث کا خاموش رہنا بھی آپ کو پسند نہیں۔ ضرور آپ نے بات گھڑ کر ہمارے منہ ٹھونسنی ہی ٹھونسنی ہے؟
ہم فقط اتنا کہتے ہیں جب اللہ ن ے نہیں بتایا تو ہمیں کیفیت معلوم ہی نہیں۔ بات ختم۔ جتنی بات بتا دی گئی کہ اللہ عرش پر مستوی ہے وہ ہم نے مان لی۔ اس سے آگے نہیں بتایا، تو ہم بھی اپنی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑاتے۔ اس صاف ستھرے عقیدے کو اپنی عقلی تاویلات سے گندا کرنا آپ کو مبارک ہو۔
ٹھیک ہے میں اپنی بات سے رجوع کرتا ہوں۔ اگرچہ ایک کثیر جماعت کا مسلک غیر مس کا ہے لیکن ہو سکتا ہے کہ آپ کا مسلک یہ ہو کہ اللہ پاک عرش سے مس بھی ہو سکتا ہے اور نہیں بھی۔
اس پر یہ بھی مسئلہ ہے کہ مس جن معانی میں انسان سمجھتے ہیں وہ جسم کی خاصیت ہے اور اللہ پاک جسم سے سب کے نزدیک منزہ ہے(اب یہ بھی آپ کے نزدیک نہ ہو تو الگ بات ہے)۔
تو اللہ پاک کے لیے جسم کا اثبات کیسے ممکن ہے؟

لیکن ہم اس ساری بحث کو چھوڑ کر یہ بات کرتے ہیں کہ ابھی بھی اللہ کریم کا عرش سے مس ہونا اور نہ ہونا آپ کے نزدیک محتمل ہے۔ یعنی ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ جب کہ نبی ﷺ کا قبر اطہر میں ہونا یقینی ہے اور الیقین لا یزول بالشک۔ تو اس لحاظ سے بھی ہماری بات ہی درست ہوتی ہے۔


ماشاءاللہ قبر کی مٹی کے بعد اب کفن بھی عرش و کعبہ و کرسی سے افضل ۔ بہت خوب۔
ہاں جی آپ کو تو اجماع بھی قبول نہیں قبر کی مٹی کے بارے میں۔ یہ کہاں سے قبول ہوگا؟

اب ذرا @ابوالحسن علوی بھائی کی بات کا بھی جواب دیجئے کہ کیا ان کا بول و براز بھی سب مخلوق سے افضل ہے؟
اور یہ بھی فرما دیجئے کہ قبر کی مٹی کعبہ سے کیونکر افضل ہو سکتی ہے، حالانکہ کعبہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چھونا، لپٹنا، بوسہ دینا سب ثابت ہے؟ بلکہ دیگر انبیائے کرام نے بھی اسے چھوا ہے۔
اور یہ بھی فرما دیجئے کہ آیا جس جس چیز کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھو لیں وہ عرش و کعبہ و کرسی سے افضل ہو جاتی ہے یا یہ فضیلت فقط قبر کی مٹی ہی کو حاصل ہے؟؟
اس کا جواب میں نے اوپر دیا تھا لیکن مجھے علم نہیں تھا کہ آپ عقل کا استعمال کم کرتے ہیں اور مجھے وضاحت سے جواب دینا ہی ہوگا۔
نبیﷺ کی قبر کی مٹی جب تک آپ کے جسم مبارک سے مس ہے تب تک وہ افضل ہے۔ کعبہ وغیرہ کو نبی ﷺ نے چھوا ہے لیکن وہ ابھی آپ کے جسم سے مس نہیں ہیں۔ جو چیز مستقلا نبی ﷺ سے متصل ہے وہ افضل ہے اس چیز سے جسے آپ نے چھوا اور وہ مستقلا آپ سے متصل نہیں ہے۔


ذرا درج بالا سوالات کے جوابات دیجئے تو معلوم ہو جائے گا کہ غلو اور تعصب کی حقیقی تعریف ہے کیا۔
مجھے ایک بات بتائیں۔ آپ نے نہ تو اجماع کا انکار کیا اور نہ اجماع کو مان رہے ہیں۔ آپ کیا چیز ہیں؟
آپ نے ایک دلیل بھی نہیں دی۔ صرف اپنی "جاہلانہ عقل" (آپ کے لفظ کے جواب میں) لڑا رہے ہیں کہ نہیں ہو سکتا تو نہیں ہو سکتا۔

جب علماء امت کا اس پر اجماع ہے تو آپ اس کے خلاف کوئی دلیل دیں قرآن، حدیث، اجماع سے۔ اپنے عقلی گھوڑے نہ دوڑائیں۔
اب آپ کے دلیل دینے کے بعد بات ہوگی ان شاء اللہ۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
" أما نفس محمد صلى الله عليه وسلم فما خلق الله خلقاً أكرم عليه منه. وأما نفس التراب، فليس هو أفضل من الكعبة البيت الحرام، بل الكعبة أفضل منه، ولا يعرف أحد من العلماء فضل تراب القبر على الكعبة إلا القاضي عياض، ولم يسبقه أحد إليه، ولا وافقه أحد عليه، والله أعلم"
مجموع الفتاوى (27/38)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
وقد ثبت في الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال" أحب البقاع إلى الله المساجد" فليس في البقاع أفضل منها، وليست مساكن الأنبياء، لا أحياء ولا أمواتاً بأفضل من المساجد هذا هو الثابت بنص الرسول واتفاق علماء أمته. وما ذكره بعضهم من أن قبور الأنبياء والصالحين أفضل من المساجد، وأن الدعاء عندها أفضل من الدعاء في المساجد، حتى في المسجد الحرام والمسجد النبوي، فقول يعلم بطلانه بالاضطرار من دين الرسول، ويعلم إجماع علماء الأمة على بطلانه إجماعاً ضرورياً، كإجماعهم على أن الاعتكاف في المساجد أفضل منه عند القبور.

وما ذكره بعضهم من الإجماع على تفضيل قبر من القبور على المساجد كلها، فقول محدث في الإسلام، لم يعرف عن أحد من السلف، ولكن ذكره بعض المتأخرين، فأخذه عنه آخر وظنه إجماعاً، لكون أجساد الأنبياء أنفسها أفضل من المساجد. فقولهم يعم المؤمنين كلهم، فأبدانهم أفضل من كل تراب في الأرض. ولا يلزم من كون أبدانهم أفضل ، أن تكون مساكنهم أحياء وأمواتاً أفضل، بل قد علم بالاضطرار من دينهم أن مساجدهم أفضل من مساكنهم.


مجموع الفتاوى (27/260-263)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641

فإن قيل: إن التفضيل ليس للبقعة ذاتها، بل لمن حلَّ فيها، أما هي فكمثلها من البقاع.

فالجواب : هذا باطل أيضاً، فإن تفضيل الأزمنة والأمكنة والأشخاص لا يخضع لقياس، بل هو أمر توقيفي، فالله تعالى فضل بعضها على بعض، ففضل رمضان على سائر الشهور، وفضل الجمعة ويوم عرفة على سائر الأيام، وفضل المساجد الثلاثة على سائر البقاع، ومنها بيوت الأنبياء ومساكنهم التي يأوون إليها. وقد كان النبي صلى الله عليه وسلم يتحنث في غار حراء، ولم يصيره ذلك أفضل من الكعبة ولا المساجد، لا في وقت تحنثه فيه ولا بعد ذلك.

* ويلزم من تفضيل القبر على الكرسي والعرش، تفضيل المخلوق على الخالق، فإن الأول إن كان قد ضمن جسد المصطفى، فالعرش الرحمن عليه استوى، وصح عن ابن عباس رضي الله عنهما أن الكرسي موضع القدمين
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
أنه لو ثبت أن الميت خلق من ذلك التراب، فمعلوم أن خلق الإنسان من مني أبويه أقرب من خلقه من التراب، ومع هذا فاللّه يخرج الحي من الميت، ويخرج الميت من الحي؛ يخرج المؤمن من الكافر، والكافر من المؤمن، فيخلق من الشخص الكافر مؤمنا نبيا وغير نبي، كما خلق الخليل من آزر، وإبراهيم خير البرية هو أفضل الأنبياء بعد محمد صلى الله عليه وسلم ، وآزر من أهل النار، كما في الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال‏:‏ ‏(‏يلقي إبراهيم أباه آزر يوم القيامة، فيقول إبراهيم‏:‏ ألم أقل لك لا تعصني‏؟‏ فيقول له‏:‏ فإليوم لا أعصيك‏.‏ فيقول إبراهيم‏:‏ يا رب، ألم تعدني ألا تخزيني، وأي خزي أخزي من أبي الأبعد‏؟‏‏!‏ فيقال له‏:‏ التفت، فيلتفت، فإذا هو بذيخ عظيم، والذيخ ذكر الضباع، فيمسخ آزر في تلك الصورة، ويؤخذ بقوائمه فيلقي في النار، فلا يعرف أنه أبو إبراهيم‏)‏‏.‏ وكما خلق نبينا صلى الله عليه وسلم من أبويه، وقد نهي عن الاستغفار لأمه، وفي الصحيح‏:‏ أن رجلا قال له‏:‏ أين أبي‏؟‏ قال‏:‏ ‏(‏إن أباك في النار‏)‏، فلما أدبر دعاه فقال‏:‏ ‏(‏إن أبي وأباك في النار‏)‏‏.‏ وقد أخرج من نوح وهو /رسول كريم ابنه الكافر الذي حق عليه القول، وأغرقه، ونهي نوحا عن الشفاعة فيه‏.‏ والمهاجرون والأنصار مخلوقون من آبائهم وأمهاتهم الكفار‏.‏

فإذا كانت المادة القريبة التي يخلق منها الأنبياء والصالحون لا يجب أن تكون مساوية لأبدانهم في الفضيلة؛ لأن اللّه يخرج الحي من الميت فأخرج البدن المؤمن من مني كافر، فالمادة البعيدة وهي التراب أولي ألا تساوي أبدان الأنبياء والصالحين ، وهذه الأبدان عبدت اللّه وجاهدت فيه، ومستقرها الجنة‏.‏ وأما المواد التي خلقت منها هذه الأبدان فما استحال منها وصار هو البدن فحكمه حكم البدن، وأما ما فضل منها فذاك بمنزلة أمثاله‏.‏

ومن هنا غلط من لم يميز بين ما استحال من المواد فصار بدنا، وبين ما لم يستحل، بل بقي ترابا أو ميتا‏.‏ فتراب القبور إذا قدر أن الميت خلق من ذلك التراب فاستحال منه وصار بدن الميت، فهو بدنه، وفضله معلوم‏.‏ وأما ما بقي في القبر فحكمه حكم أمثاله، بل تراب كان يلاقي جباههم عند السجود ـ وهو أقرب ما يكون العبد من ربه المعبود ـ أفضل من تراب القبور واللحود‏.‏ وبسط هذا له موضع آخر‏.‏
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
وفي مجموع فتاوى شيخ الاسلام ابن تيمية ( وَسُئِلَ عن التربة التي دفن فيها النبي صلى الله عليه وسلم‏:‏ هل هي أفضل من المسجد الحرام‏؟‏

فأجاب‏:‏ وأما ‏[‏التربة‏]‏ التي دفن فيها النبي صلى الله عليه وسلم فلا أعلم أحدا من الناس قال‏:‏ إنها أفضل من المسجد الحرام، أو المسجد النبوي أو المسجد الأقصى، إلا القاضي عياض، فذكر ذلك إجماعا،


وهو قول لم يسبقه إليه أحد فيما علمناه‏.‏ ولا حجة عليه،

بل بدن النبي صلى الله عليه وسلم أفضل من المساجد‏.‏ وأما ما فيه خلق أو ما فيه دفن، فلا يلزم إذا كان هو أفضل أن يكون ما منه خلق أفضل؛ فإن أحدا لا يقول‏:‏ إن بدن عبد الله أبيه أفضل من أبدان الأنبياء، فإن الله يخرج الحي من الميت، والميت من الحي‏.‏ ونوح نبى كريم، وابنه المغرق كافر، وإبراهيم خليل الرحمن، وأبوه آزر كافر‏.‏

والنصوص الدالة على تفضيل المساجد مطلقة، لم يستثن منها قبورالأنبياء، ولا قبور الصالحين‏.‏ ولو كان ما ذكره حقا لكان مدفن كل نبى، بل وكل صالح، أفضل من المساجد التي هي بيوت الله، فيكون بيوت المخلوقين أفضل من بيوت الخالق التي أذن الله أن ترفع ويذكر فيها اسمه، وهذا قول مبتدع في الدين، مخالف لأصول الإسلام‏.
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
ادعاء الإجماع من قبل القاضي أو غيره لابد له من مستند ، وليس هناك آثار عن السلف في الكتب عن السلف الماضين في هذه المسألة، بل الغالب أنها من المسائل التي gم يتكلموا عليها، فمن أين يدعي القاضي وغيره الإجماع على مسألة لايعرف للسلف فيها كلام نفيا ولا إثباتا.

وأما كونه إجماع باطل فلأنه مخالف للنصوص الشرعية ، من مثل قوله صلى الله عليه وسلم(خير البقاع المساجد)، وليس هناك دليل من كتاب ولاسنة ولاقول صاحب ولاقياس صحيح يخصص قبر النبي صلى الله عليه وسلم من عموم النص ، فهذا بطلانه من ناحية أصولية .
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
" أما نفس محمد صلى الله عليه وسلم فما خلق الله خلقاً أكرم عليه منه. وأما نفس التراب، فليس هو أفضل من الكعبة البيت الحرام، بل الكعبة أفضل منه، ولا يعرف أحد من العلماء فضل تراب القبر على الكعبة إلا القاضي عياض، ولم يسبقه أحد إليه، ولا وافقه أحد عليه، والله أعلم"
مجموع الفتاوى (27/38)
وقد ثبت في الصحيح عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال" أحب البقاع إلى الله المساجد" فليس في البقاع أفضل منها، وليست مساكن الأنبياء، لا أحياء ولا أمواتاً بأفضل من المساجد هذا هو الثابت بنص الرسول واتفاق علماء أمته. وما ذكره بعضهم من أن قبور الأنبياء والصالحين أفضل من المساجد، وأن الدعاء عندها أفضل من الدعاء في المساجد، حتى في المسجد الحرام والمسجد النبوي، فقول يعلم بطلانه بالاضطرار من دين الرسول، ويعلم إجماع علماء الأمة على بطلانه إجماعاً ضرورياً، كإجماعهم على أن الاعتكاف في المساجد أفضل منه عند القبور.

وما ذكره بعضهم من الإجماع على تفضيل قبر من القبور على المساجد كلها، فقول محدث في الإسلام، لم يعرف عن أحد من السلف، ولكن ذكره بعض المتأخرين، فأخذه عنه آخر وظنه إجماعاً، لكون أجساد الأنبياء أنفسها أفضل من المساجد. فقولهم يعم المؤمنين كلهم، فأبدانهم أفضل من كل تراب في الأرض. ولا يلزم من كون أبدانهم أفضل ، أن تكون مساكنهم أحياء وأمواتاً أفضل، بل قد علم بالاضطرار من دينهم أن مساجدهم أفضل من مساكنهم.


مجموع الفتاوى (27/260-263)

فإن قيل: إن التفضيل ليس للبقعة ذاتها، بل لمن حلَّ فيها، أما هي فكمثلها من البقاع.

فالجواب : هذا باطل أيضاً، فإن تفضيل الأزمنة والأمكنة والأشخاص لا يخضع لقياس، بل هو أمر توقيفي، فالله تعالى فضل بعضها على بعض، ففضل رمضان على سائر الشهور، وفضل الجمعة ويوم عرفة على سائر الأيام، وفضل المساجد الثلاثة على سائر البقاع، ومنها بيوت الأنبياء ومساكنهم التي يأوون إليها. وقد كان النبي صلى الله عليه وسلم يتحنث في غار حراء، ولم يصيره ذلك أفضل من الكعبة ولا المساجد، لا في وقت تحنثه فيه ولا بعد ذلك.

* ويلزم من تفضيل القبر على الكرسي والعرش، تفضيل المخلوق على الخالق، فإن الأول إن كان قد ضمن جسد المصطفى، فالعرش الرحمن عليه استوى، وصح عن ابن عباس رضي الله عنهما أن الكرسي موضع القدمين
وفي مجموع فتاوى شيخ الاسلام ابن تيمية ( وَسُئِلَ عن التربة التي دفن فيها النبي صلى الله عليه وسلم‏:‏ هل هي أفضل من المسجد الحرام‏؟‏

فأجاب‏:‏ وأما ‏[‏التربة‏]‏ التي دفن فيها النبي صلى الله عليه وسلم فلا أعلم أحدا من الناس قال‏:‏ إنها أفضل من المسجد الحرام، أو المسجد النبوي أو المسجد الأقصى، إلا القاضي عياض، فذكر ذلك إجماعا،

وهو قول لم يسبقه إليه أحد فيما علمناه‏.‏ ولا حجة عليه،
بل بدن النبي صلى الله عليه وسلم أفضل من المساجد‏.‏ وأما ما فيه خلق أو ما فيه دفن، فلا يلزم إذا كان هو أفضل أن يكون ما منه خلق أفضل؛ فإن أحدا لا يقول‏:‏ إن بدن عبد الله أبيه أفضل من أبدان الأنبياء، فإن الله يخرج الحي من الميت، والميت من الحي‏.‏ ونوح نبى كريم، وابنه المغرق كافر، وإبراهيم خليل الرحمن، وأبوه آزر كافر‏.‏

والنصوص الدالة على تفضيل المساجد مطلقة، لم يستثن منها قبورالأنبياء، ولا قبور الصالحين‏.‏ ولو كان ما ذكره حقا لكان مدفن كل نبى، بل وكل صالح، أفضل من المساجد التي هي بيوت الله، فيكون بيوت المخلوقين أفضل من بيوت الخالق التي أذن الله أن ترفع ويذكر فيها اسمه، وهذا قول مبتدع في الدين، مخالف لأصول الإسلام‏.
ادعاء الإجماع من قبل القاضي أو غيره لابد له من مستند ، وليس هناك آثار عن السلف في الكتب عن السلف الماضين في هذه المسألة، بل الغالب أنها من المسائل التي gم يتكلموا عليها، فمن أين يدعي القاضي وغيره الإجماع على مسألة لايعرف للسلف فيها كلام نفيا ولا إثباتا.

وأما كونه إجماع باطل فلأنه مخالف للنصوص الشرعية ، من مثل قوله صلى الله عليه وسلم(خير البقاع المساجد)، وليس هناك دليل من كتاب ولاسنة ولاقول صاحب ولاقياس صحيح يخصص قبر النبي صلى الله عليه وسلم من عموم النص ، فهذا بطلانه من ناحية أصولية .
جزاک اللہ خیرا۔

سوال یہ ہے کہ ابن تیمیہؒ کے اس نظریہ سے کیا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جو یہ عقیدہ رکھے گا وہ کافر ہوگا اور یہ عقیدہ اللہ تعالی کی توہین (مکفر) ہے؟؟؟ کیا ابن تیمیہ نے قاضی عیاض کی تکفیر بھی کی ہے؟
اگر نہیں تو کیا وجہ ہے کہ علماء دیوبند یہ عقیدہ رکھنے پر کافر ہیں؟
اسی کو میں نے یوں پوچھا تھا کہ یہ عقیدہ کیا ہے؟ کفر؟ فسق؟ یا جائز؟

اب ابن تیمیہؒ کی اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔
اس بات کا خلاصہ یہ ہے کہ

  1. یہ اجماع قاضی عیاض سے پہلے کسی سے منقول نہیں۔
  2. اس اجماع پر ان کی متابعت کسی نے نہیں کی۔
  3. تفضیل امر توقیفی ہے نہ کہ قیاسی۔
  4. اخذ تراب والی دلیل کمزور ہے۔
  5. وہ نصوص جو تفضیل مساجد پر دال ہیں ان سے قبر کا استثناء نہیں کیا گیا۔
پہلی بات ابن تیمیہؒ نے اپنے علم کے مطابق کی ہے اور ہمارے سامنے موجود حوالہ جات کے مطابق تسلیم ہے۔ لیکن قاضی عیاض بھی عام سی شخصیت نہیں ہیں کہ کسی ایک شخص نے کہا ہو اور انہوں نے اسے لا خلاف کے الفاظ سے بطور اجماع نقل کر دیا ہو اور علماء امت بھی اسے اجماع مان لیں۔
ہمارے علم یا ابن تیمیہؒ کے علم سے قاضی عیاض کے علم میں بھی نہ ہونا لازم نہیں آتا۔ ہاں اگر اس کے خلاف اقوال موجود ہوتے تو ہم یہ کہہ سکتے تھے کہ قاضی عیاض کو اجماع کے دعوی میں غلطی ہوئی ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔
یہ اسی طرح ہے جیسے ابن صلاح نے بخاری کی اصحیت بعد کتاب اللہ پر اجماع کا دعوی کیا ہے۔ یہ اشکال وہاں بھی ہوتا ہے لیکن وہاں دعوی قبول کیا جاتا ہے۔

دوسری بات ابن تیمیہؒ نے اپنے زمانے تک ممکن ہے درست کہی ہو لیكن عجیب بات ہے کہ جمہور علماء کرام نے خود ان کی موافقت نہیں کی حتی کہ ان کے معاصر سبکی نے بھی۔
قاضی عیاض کے اجماع کے دعوی کو علماء کرام نے قبول کیا ہے اور خود بھی اجماع کا دعوی کیا ہے۔ سبکی، خفاجی، حصفکی، سخاوی، ابو عبد اللہ علیش المالکی، ملا علی القاری، ابن عابدین، رحمت اللہ سندی مکی، ابن حجر ہیثمی، شمس رملی، مناوی۔۔۔۔ ایک طویل فہرست ہے جنہوں نے یہ بات کی ہے اور ان میں سے بعض نے خود اجماع کا دعوی بھی کیا ہے (تفصیل گزر چکی ہے) ایسی صورت میں یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ابن تیمیہؒ سے اس سلسلے میں اجتہادی خطا ہوئی ہے۔

تیسری، چوتھی اور پانچویں شقیں اجماع کی موجودگی میں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔

زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی اس عقیدہ پر اجماع کے وجود کے انکار کی وجہ سے یقین نہ رکھے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔ لیکن یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ جو یہ عقیدہ رکھے وہ کافر ہو جائے گا؟؟
آپ کے ہم مسلک مباحثین یہاں یہ نتیجہ بیان فرما رہے ہیں۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جزاک اللہ خیرا ابوالحسن علوی بھائی۔ آپ نے ان کے اجماع کے دعویٰ کی قلعی بھی کھول دی اور مسئلہ سے متعلق علمی معلومات بھی مہیا فرما دیں۔

میں شروع سے یہی کہنا چاہ رہا تھا کہ یہ کوئی قیاسی مسئلہ تو ہے نہیں، نا کوئی علمی معمہ کے کون سی چیز ، کس چیز سے افضل ہے، وحی کی رہنمائی کے بغیر حل کی جا سکے۔ اسی کو اشماریہ صاحب نے مختصر الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ:
تفضیل امر توقیفی ہے نہ کہ قیاسی۔

اور یہ چیز بغیر اللہ کے بتائے حاصل نہیں ہو سکتی۔ چاہے کتنا ہی بڑا عالم، محدث یا فقیہ ہو۔
دوسری جانب ہمارے بھائی کئی مرتبہ عرش، کرسی اور کعبہ کی فضیلت پر مبنی آیات پیش فرما چکے ہیں۔ مثلا


اس کا جواب کیا دیا گیا ہے؟ فقط یہ کہ:

ان آیات سے یہ کہاں سے ثابت ہوتا ہے کہ کعبہ یا عرش ہر چیز سے افضل ہے؟
ٹھیک ہے ان آیات سے یہ ثابت نہیں ہوتا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کسی آیت میں زمین کے اس حصے کی فضیلت مذکور بھی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن (سے نہیں، بلکہ بدن سے لگے کفن سے) مس ہے؟ کسی حدیث میں ایسی کوئی فضیلت آئی ہو؟ کسی صحابی کا یہ عقیدہ رہا ہو؟احناف کے مزعومہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہو؟

ایک جانب کعبہ، عرش و کرسی کی فضیلت پر مشتمل ڈھیروں آیات و احادیث ہوں۔ اور دوسری جانب فقط یہ کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا۔ فقط اجماع کا دعویٰ ہی دعویٰ، نا کوئی ثبوت، نہ ایک زمانے کے تمام علماء کا اتفاق ہوا، کچھ بھی نہیں۔ چندعلماء کے اقوال اور وہ بھی ایسے مسئلہ کے ضمن میں جو نہ قیاسی ہے اور نہ اجتہادی۔

زیادہ سے زیادہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی اس عقیدہ پر اجماع کے وجود کے انکار کی وجہ سے یقین نہ رکھے تو وہ کافر نہیں ہوگا۔ لیکن یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ جو یہ عقیدہ رکھے وہ کافر ہو جائے گا؟؟
آپ کے ہم مسلک مباحثین یہاں یہ نتیجہ بیان فرما رہے ہیں۔
ذرا اشماریہ صاحب تھوڑی محنت کریں اور باحثین کا یہ نتیجہ اس دھاگے سے نکال کر دکھا دیں کہ جو یہ عقیدہ رکھے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ شروع سے آپ ہی اب تک کافر کافر کی گردان کرتے نظر آئے ہیں۔ میں نے احتیاطا دوبارہ اس دھاگے کا مطالعہ بھی کیا تو مجھے کہیں یہ نہیں ملا۔ ذرا بتائیے گا کہ یہ کافر کا فتویٰ کس بھائی نے لگایا ہے آپ پر؟
یا اہلحدیث پر بہتان لگانے میں آپ بھی اپنے علماء کی روش پر چل نکلے ہیں؟؟
 
Top