• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبند سے ایک سوال ؟؟؟؟؟؟

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
وہاں پڑھنا ہے تو پڑھ لیں ورنہ آپ جانیں اور آپ کا کام۔
آپ نے تو پورا کالم پڑھا ہے، اس کا خلاصہ بیان کر دینے میں کیا حرج ہے۔ آخر آپ اپنے عقائد کو سامنے لانے کی کیا امر مانع ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
آپ نے تو پورا کالم پڑھا ہے، اس کا خلاصہ بیان کر دینے میں کیا حرج ہے۔ آخر آپ اپنے عقائد کو سامنے لانے کی کیا امر مانع ہے؟
اچھا بھائی کر دیتا ہوں۔ جس معنی میں فیض کو آپ شرک کہہ رہے ہیں اس معنی میں ہمارے یہاں بھی شرک ہے یعنی صاحب قبر سے مدد لینا یا اس کا کوئی فائدہ پہنچانا وغیرہ۔
فیض ایک اصطلاح ہے تصوف کی اور یہ یاد رکھیے کہ کسی لفظ کو جب اصطلاح بنا دیا جائے تو اس کے معنی میں تبدیلی آ جاتی ہے۔
اس اصطلاح کا کیا مطلب ہے۔ یہ وہاں تفصیلا لکھا ہوا ہے۔ ایک بار پڑھ لیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
جس معنی میں فیض کو آپ شرک کہہ رہے ہیں اس معنی میں ہمارے یہاں بھی شرک ہے یعنی صاحب قبر سے مدد لینا یا اس کا کوئی فائدہ پہنچانا وغیرہ۔
اگر کوئی اسی معنی میں فیض حاصل کرنے کی بات کرے تو وہ مشرک ہو گا یا نہیں؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اگر کوئی اسی معنی میں فیض حاصل کرنے کی بات کرے تو وہ مشرک ہو گا یا نہیں؟
اگر کوئی شخص دنیوی استعانت بلا کسی سبب کے حاصل کرنے کی بات کرے تو وہ مشرک ہوگا جسے عرف عام میں صاحب قبر سے مانگنا کہتے ہیں۔
اگر وہ کرامۃ مدد کریں، یا ان سے دعا کی درخواست کرے یا ان کی ارواح سے بذریعہ تعلق روحی روحانی استفادہ کرے تو وہ مشرک نہیں ہوگا۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اگر وہ کرامۃ مدد کریں،
کرامتا مدد کرنا کیا ہوتا ہے؟
یا ان سے دعا کی درخواست کرے
زندہ نیک شخص سے دعا کروائی جا سکتی ہے، البتہ فوت شدہ کی قبر پر جا کر دعا کی درخواست کرنا شرک ہے۔
یا ان کی ارواح سے بذریعہ تعلق روحی روحانی استفادہ کرے تو وہ مشرک نہیں ہوگا۔
اس استفادے سے کیا مراد ہے؟ کیا ایسا کوئی استفادہ حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھم اجمعین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا یا نہیں؟اگر کیا تو دلیل دیں، اگر نہیں تو پھر بعد میں تعلق روحانی استفادہ کرنے والے کیسے درست ہو سکتے ہیں؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کرامتا مدد کرنا کیا ہوتا ہے؟
اس میں کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں؟ جسد مثالی یا حقیقی کے ذریعے یا کسی بھی اور طریقے سے جیسے اللہ پاک چاہے۔ کرامت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے انسان کی طرف سے نہیں لہذا ہر طرح ممکن ہے۔ ایسے مختلف واقعات ملتے ہیں جن کا نہ ہم رد کر سکتے ہیں اور نہ تائید لیکن اصلا درست ہونے میں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوتا۔

زندہ نیک شخص سے دعا کروائی جا سکتی ہے، البتہ فوت شدہ کی قبر پر جا کر دعا کی درخواست کرنا شرک ہے۔


اس بات کا دار و مدار مسئلہ سماع موتی پر ہے اور یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانے سے مختلف فیہ ہے۔ جن کے نزدیک مردے سنتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ دعا کا کہا جا سکتا ہے اور جن کے نزدیک نہیں سن سکتے وہ کہتے ہیں کہ نہیں کہا جا سکتا۔ عوام کی موجودگی میں نہ کہنا زیادہ مناسب ہے کیوں کہ وہ اس تفصیل سے واقف نہیں ہوتے اور بن جانے اتباع میں غلط بھی جا سکتے ہیں۔ بہرحال مسئلہ کی جب یہ صورت ہو کہ اس میں سلف کا اختلاف ہو تو اس پر کفر و شرک کا حکم نہیں لگایا جا سکتا۔ محققین معتدلین کا یہی طرز رہا ہے۔

اس استفادے سے کیا مراد ہے؟
اس کی مکمل وضاحت میں شاید نہ کرسکوں۔ جو سنا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح مومنین کی ارواح کی ملاقات حالت نوم (نیند) میں ہوتی ہے اسی طرح ان کا حالت بیداری میں ملاقات کرنا۔ حالت نوم میں ملاقات کو ابن القیمؒ نے الروح میں ذکر کیا ہے۔ یہ تو درست ہے کہ نیند کی حالت میں روح قبض ہوتی ہے تو وہ مردوں کی روحوں سے ملاقات کرتی ہے جس کی وجہ سے مختلف لوگوں کی مختلف بزرگوں سے ملاقات کا تذکرہ ملتا ہے۔ حالت یقظہ یا بیداری کی حالت میں اس روح کا ان بزرگوں کی روح سے تعلق قائم کرنے پر کئی ثقات کی گواہی موجود ہے جس کی وجہ سے اس کے انکار کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس لیے اس مسئلہ کو چھیڑا نہیں جاتا۔

کیا ایسا کوئی استفادہ حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھم اجمعین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا یا نہیں؟اگر کیا تو دلیل دیں، اگر نہیں تو پھر بعد میں تعلق روحانی استفادہ کرنے والے کیسے درست ہو سکتے ہیں؟
آپ کی یہ بات عقلا درست ہے لیکن یہ سوال غلط ہے۔ قرآن و آثار سے دلیل و ثبوت صرف ان واقعات کا طلب کیا جاتا ہے جو ڈائریکٹ، بلا واسطہ، بنفسہ ثواب کہلائیں۔ ان کے ثواب اور شریعت کا جزو ہونے پر دلیل چاہیے ہوتی ہے۔ بصورت دیگر وہ بدعت کہلاتے ہیں۔
لیکن جو چیزیں بلا واسطہ، بنفسہ ثواب نہ کہلائیں ان پر کوئی شاہد مل جائے تو بہت خوب ورنہ ان کی ذات میں کوئی حرج نہیں آتا۔ وہ دنیا کے دیگر ذرائع کی طرح ہوتی ہیں۔ صحابہ کرام رض سے چار گھنٹے میں جزیرہ نمائے عرب سے ہند کا سفر ثابت نہیں لیکن کون ایسا ہوگا جو اس بنیاد پر جہاز کے سفر کا ہی انکار کر دے گا؟ صحابہ کرام سے ہزاروں کلو میٹر دور بات چیت کرنا ثابت نہیں لیکن اس سے کون موبائل فون کا انکار کرتا ہے؟
اس کے فنکشنز میں آواز کے مائیک سے ٹکراتے ہی بجلی کی لہروں میں تبدیل ہونا، ان لہروں کا بیسیوں ڈائیورٹس، ریزسٹرز اور چپس سے گزر کر انٹینا تک پہنچنا اور وہاں سے لاسلکی لہروں میں تبدیل ہو کر ہوا کے دوش پر سوار ہوجانا اور دوسری طرف اس کا الٹ عمل ہو کر آواز بن جانا اور یہ سب ایک سیکنڈ کے اندر ہوجانا، یہ سب باتیں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ اور ذرا سے پچھلے دور میں چلے جائیں تو ان باتوں کو کوئی تسلیم نہیں کرتا لیکن الیگزینڈر گراہم بیل اور مارکونی وغیرہ نے ان سب سے کام لیا۔ صحابہ سے یہ بھی ثابت نہیں۔
اسی طرح بھاری بھرکم جہاز کا زمین کی کشش اور اپنے وزن سے زیادہ قوت پیدا کرنا اور اس کی قوت کی بدولت زمین سے کئی ہزار میٹر اوپر اٹھ جانا اور پھر انجن بند کرتے ہی زمین پر نہ آپڑنا بلکہ ہوا میں تیرتے رہنا کیا آپ اس سب کا ثبوت عقل یا اثر سے دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں اور صحابہ کرام سے اس کا خیال بھی ثابت نہیں۔ لیکن رائٹ برادرز نے یہ کرلیا۔
فرق ہمارے لحاظ سے یہ ہے کہ موبائل اور ہوائی جہاز وغیرہ ہمارے لیے ظاہر ہیں تو ہم اس کا انکار نہیں کرتے۔ جب کہ تعلق ارواح ہمارے لیے ظاہر نہیں تو ہم اس کا انکار کر دیتے ہیں حالاں کہ ایسی صورت میں جو اس فن کے لوگ ہیں ان کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے۔ اور اگر اعتماد نہیں تو پھر خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔
اب یہاں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں آپ علمائے اہل حدیث میں جو تصوف سے منسلک رہے ہیں ان کی بات بھی نہیں ماننا چاہتے۔ تو اگر ہر چیز کا فیصلہ آپ اپنی عقل اور اپنی آنکھ سے کرنا چاہیں گے میرے بھائی تو پھر تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آپ کچھ بھی تسلیم نہیں کریں گے۔
صحابہ کرام سے اگر یہ چیزیں ثابت نہیں تو ان کو دین کا جزو یا ثواب بھی کوئی نہیں کہتا بلکہ یہ ایک ذریعہ اور واسطہ ہیں اور بے شمار ایسی چیزیں ذریعہ اور واسطے کے طور پر آج استعمال ہو رہی ہیں اور آئیندہ استعمال ہوں گی جن کا خیال تک صحابہ کے دور میں موجود نہیں تھا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ارواح ہمارے لیے ظاہر نہیں تو ہم اس کا انکار کر دیتے ہیں حالاں کہ ایسی صورت میں جو اس فن کے لوگ ہیں ان کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے۔ اور اگر اعتماد نہیں تو پھر خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔



اس فن کے لوگ کون ہیں - کیا حضور صلی اللہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ اس فن سے واقف تھے یا نہیں - اگر وہ اس فن سے واقف نہیں تھے تو پھر کون لوگ ہیں جو ان سے بڑھ کر اس فن سے واقف تھے -


 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اس میں کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں؟ جسد مثالی یا حقیقی کے ذریعے یا کسی بھی اور طریقے سے جیسے اللہ پاک چاہے۔ کرامت اللہ کی طرف سے ہوتی ہے انسان کی طرف سے نہیں لہذا ہر طرح ممکن ہے۔ ایسے مختلف واقعات ملتے ہیں جن کا نہ ہم رد کر سکتے ہیں اور نہ تائید لیکن اصلا درست ہونے میں کوئی مسئلہ بھی نہیں ہوتا۔
کوئی ایک مثال؟
اس کی مکمل وضاحت میں شاید نہ کرسکوں۔ جو سنا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح مومنین کی ارواح کی ملاقات حالت نوم (نیند) میں ہوتی ہے اسی طرح ان کا حالت بیداری میں ملاقات کرنا۔ حالت نوم میں ملاقات کو ابن القیمؒ نے الروح میں ذکر کیا ہے۔ یہ تو درست ہے کہ نیند کی حالت میں روح قبض ہوتی ہے تو وہ مردوں کی روحوں سے ملاقات کرتی ہے جس کی وجہ سے مختلف لوگوں کی مختلف بزرگوں سے ملاقات کا تذکرہ ملتا ہے۔ حالت یقظہ یا بیداری کی حالت میں اس روح کا ان بزرگوں کی روح سے تعلق قائم کرنے پر کئی ثقات کی گواہی موجود ہے جس کی وجہ سے اس کے انکار کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس لیے اس مسئلہ کو چھیڑا نہیں جاتا۔
کتاب الروح کے رد میں عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ کی کتاب "روح، عذاب قبر اور سماع موتی" کا بھی مطالعہ کر لیں۔
کیا ایسی کوئی حالت نوم اور حالت بیداری میں ملاقات حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھم اجمعین نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کی یا نہیں؟اگر کی تو دلیل دیں، اگر نہیں تو پھر بعد میں حالت نیند اور حالت بیداری میں ملاقات کرنے والے کیسے درست ہو سکتے ہیں؟
آپ کی یہ بات عقلا درست ہے لیکن یہ سوال غلط ہے۔ قرآن و آثار سے دلیل و ثبوت صرف ان واقعات کا طلب کیا جاتا ہے جو ڈائریکٹ، بلا واسطہ، بنفسہ ثواب کہلائیں۔ ان کے ثواب اور شریعت کا جزو ہونے پر دلیل چاہیے ہوتی ہے۔ بصورت دیگر وہ بدعت کہلاتے ہیں۔
لیکن جو چیزیں بلا واسطہ، بنفسہ ثواب نہ کہلائیں ان پر کوئی شاہد مل جائے تو بہت خوب ورنہ ان کی ذات میں کوئی حرج نہیں آتا۔ وہ دنیا کے دیگر ذرائع کی طرح ہوتی ہیں۔ صحابہ کرام رض سے چار گھنٹے میں جزیرہ نمائے عرب سے ہند کا سفر ثابت نہیں لیکن کون ایسا ہوگا جو اس بنیاد پر جہاز کے سفر کا ہی انکار کر دے گا؟ صحابہ کرام سے ہزاروں کلو میٹر دور بات چیت کرنا ثابت نہیں لیکن اس سے کون موبائل فون کا انکار کرتا ہے؟
اس کے فنکشنز میں آواز کے مائیک سے ٹکراتے ہی بجلی کی لہروں میں تبدیل ہونا، ان لہروں کا بیسیوں ڈائیورٹس، ریزسٹرز اور چپس سے گزر کر انٹینا تک پہنچنا اور وہاں سے لاسلکی لہروں میں تبدیل ہو کر ہوا کے دوش پر سوار ہوجانا اور دوسری طرف اس کا الٹ عمل ہو کر آواز بن جانا اور یہ سب ایک سیکنڈ کے اندر ہوجانا، یہ سب باتیں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ اور ذرا سے پچھلے دور میں چلے جائیں تو ان باتوں کو کوئی تسلیم نہیں کرتا لیکن الیگزینڈر گراہم بیل اور مارکونی وغیرہ نے ان سب سے کام لیا۔ صحابہ سے یہ بھی ثابت نہیں۔
اسی طرح بھاری بھرکم جہاز کا زمین کی کشش اور اپنے وزن سے زیادہ قوت پیدا کرنا اور اس کی قوت کی بدولت زمین سے کئی ہزار میٹر اوپر اٹھ جانا اور پھر انجن بند کرتے ہی زمین پر نہ آپڑنا بلکہ ہوا میں تیرتے رہنا کیا آپ اس سب کا ثبوت عقل یا اثر سے دے سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں اور صحابہ کرام سے اس کا خیال بھی ثابت نہیں۔ لیکن رائٹ برادرز نے یہ کرلیا۔
فرق ہمارے لحاظ سے یہ ہے کہ موبائل اور ہوائی جہاز وغیرہ ہمارے لیے ظاہر ہیں تو ہم اس کا انکار نہیں کرتے۔ جب کہ تعلق ارواح ہمارے لیے ظاہر نہیں تو ہم اس کا انکار کر دیتے ہیں حالاں کہ ایسی صورت میں جو اس فن کے لوگ ہیں ان کی بات پر اعتماد کرنا چاہیے۔ اور اگر اعتماد نہیں تو پھر خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔
اب یہاں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اس سلسلے میں آپ علمائے اہل حدیث میں جو تصوف سے منسلک رہے ہیں ان کی بات بھی نہیں ماننا چاہتے۔ تو اگر ہر چیز کا فیصلہ آپ اپنی عقل اور اپنی آنکھ سے کرنا چاہیں گے میرے بھائی تو پھر تو یہی نتیجہ نکلے گا کہ آپ کچھ بھی تسلیم نہیں کریں گے۔
صحابہ کرام سے اگر یہ چیزیں ثابت نہیں تو ان کو دین کا جزو یا ثواب بھی کوئی نہیں کہتا بلکہ یہ ایک ذریعہ اور واسطہ ہیں اور بے شمار ایسی چیزیں ذریعہ اور واسطے کے طور پر آج استعمال ہو رہی ہیں اور آئیندہ استعمال ہوں گی جن کا خیال تک صحابہ کے دور میں موجود نہیں تھا۔
آپ نے یہاں بریلویوں والا انداز اپنایا ہے، ہم دین کے موضوع پر بات کر رہے ہیں نا کہ دنیا کے موضوع پر، ہوائی جہاز، موبائل فون، انٹرنیٹ یہ دنیاوی چیزیں ہیں۔

میرے کہنے کا مقصد ہے کہ سب سے زیادہ تقویٰ والے خیرالقرون کے دور کے لوگ تھے، جو ایک مٹھی بھر کھجور صدقہ کریں تو ان کا اتنا ثواب ہے کہ ہم سونے کا پہاڑ بھی خرچ کر کے اتنا ثواب نہیں پا سکتے۔

جن باتوں کو آپ نے دین بنا کر پیش کیا، یہ چیزیں اگر اتنی ہی بہتر تھیں، مثلا ایک دیوبندی مولوی کا دوسرے دیوبندی مولوی کی قبر پر جا کر ملاقاتیں کرنا اور "فیض" حاصل کرنا۔
تو
  • حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرنے والے تھے انہوں نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ وہ تو ملاقات کے زیادہ مشاق تھے؟
  • حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر دعا کروانے کے لئے کیوں نہیں گئے؟
  • حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایسی ملاقات حالت نیند اور حالت بیداری میں کیوں نہیں کی؟
  • حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جنگ جمل اور جنگ صفین کے وقت قبر نبوی پر جا کر ایسی ملاقات کیوں نہیں کی، کیوں نہیں ان جنگوں کے خاتمے کے بارے میں رہنمائی حاصل کی؟
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر رونے والی ان کی لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بابا کی قبر پر جا کر ایسا فیض کیوں نہ حاصل کیا، کیوں ان کی اپنے بابا سے حالت نیند اور حالت بیداری میں وفات کے بعد ملاقات ثابت نہیں؟
  • حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی حالت بیداری اور حالت نیند میں ملاقات کیوں ثابت نہیں؟
ہم تو ان ہستیوں کے منہج پر ہیں اور دین کے معاملے میں ان کو اہمیت دیتے ہیں۔ اگر ایسی ہستیوں سے ایسا کچھ ثابت نہیں تو ایک دیوبندی مولوی کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
وہ لنک کاپی کر کے لکھ دیتا ہوں اور ٹکڑے ٹکڑے کر کے جواب دے دیتا ہوں البتہ میری باتوں پر اعتراض کرنے سے پہلے تمام دیوبندی بھائی میرا مندرجہ ذیل نظریہ پڑھ لیں
میرا مذکورہ معاملہ پر نظریہ
میں یہ نہیں کہتا کہ دیوبندی عقیدتا شرکیہ اعمال کرتے ہیں بلکہ یہ کہتا ہوں کہ ان کا بزرگوں کے بارے معصومیت کا نظریہ اوراسکے ساتھ پھر انکے بزرگوں کی کچھ ایسی عبارتیں جن سے شرک جھلک رہا ہوتا ہے یہ دونوں چیزیں ملکر بہت نقصان کا باعث بن سکتی ہیں

اب میں نیچے لنک کے جواب کا جواب دیتا ہوں
دیوبندی عالم سے پوچھا گیا سوال
وسوسه = علماء دیوبند قبور سے فیض حاصل کرنے کا عقیده رکهتے هیں جو کہ ایک شرکیہ عقیده هے
دیوبندی عالم کا ٹکڑوں میں جواب مع رد

پہلا ٹکڑا
فرقہ جدید نام نہاد اهل حدیث میں فی زمانہ کچھ نام نہاد شیوخ عوام الناس کوگمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ استعمال کرتے هیں ، ان کا دجل وفریب اس طرح هوتا هے کہ حکایات وسوانح اور وعظ ونصیحت وتصوف وغیره کسی کتاب ورسالہ سے کوئی بات لیتے هیں ، اورکوئی مُحتمل ومُشتبہ عبارت پیش کرتے هیں ، اورپهرعوام سے کہتے هیں کہ یہ علماء دیوبند کا عقیده هے

پہلا رد
کچھ اہل حدیث شاہد ایسا کرتے ہوں کہ کچھ محتمل عبارات کو لے کر اعتراضات کرتے ہوں جیسے اس فورم پر بھی کرتے ہیں مگر سارے ایسا نہیں کرتے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو غیر محتمل عبارت کو ہی پیش کرتے ہیں جیسے آگبوٹ والا واقعہ کہ جس میں کوئی اور احتمال ہو ہی نہیں سکتا اسی لئے جواب دینے والے نے اس واقعے کو لے کر جواب نہیں دیا اور جن دیوبندی علماء نے اس واقعے کو لے کر یہ جواب دیا ہے وہ پھر یہ بھی مان گئے ہیں کہ ہم مانتے ہیں کہ بزرگ مدد کر سکتے ہیں مگر وہاں بھی انھوں نے اس بات کا جواب نہیں دیا کہ ہمارا اعتراض خالی مدد کر سکنے پر نہیں ہے بلکہ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ کیا پھر ہم ان بزرگوں سے مشکل میں مدد مانگ سکتے ہیں جیسے آگبوٹ میں ڈوبنے والے نے گریہ وزاری کی تھی
چنانچہ اس پر میرا یہ دعوی ہے کہ ہر دیوبندی نے ہمیشہ اس جواب کو گول کیا ہے پس میرا سوال یہ ہے کہ جب بزرگ مدد کر سکتے ہیں تو ہم کیا ان سے مدد مانگ سکتے ہیں کیونکہ جو مدد کر سکتا ہے اس سے مدد مانگنا شرک نہیں ہوتا بلکہ قرآن کہتا ہے کہ جو مدد نہیں کر سکتا اس سے مدد نہ مانگی جائے پس میاں بیوی سے اور بچے بڑوں سے مدد مانگ سکتے ہیں
پس موصوف نے جو کہا ہے کہ ہمارا یہ عقیدہ نہیں تو اگرچہ واقعی ایسا نہیں مگر بزرگوں کی حد سے زیادہ لا شعوری غلطی سے ہی مبرا ٹھہرانے کے لئے وہ اس بات کو بھول گئے کہ بزرگوں نے جو بات کی ہے وہ کیا نتائج نکال سکتی ہے پس میں نے ہمیشہ ان سے یہی سنا ہے کہ جی لگتا تو ایسے ہی ہے کہ یہ غلط ہے مگر ہم بزرگو کو غلط نہیں کہ سکتے تو بھائی آپ بزرگوں کو غلط نہ کہو مگر کھلے طور پر اسکا رد تو کروں میں نے ایک کچھ دیوبندی علماء کو اسکا رد کرتے دیکھا ہے جو بہت پسند آیا جیسے ماہانہ تجلی کے مدیر غالبا عثمان یا کوئی اسی طرح کا نام ہے

دوسرا ٹکڑا
اوراس طرح کرکے جاهل عوام کو ورغلاتے هیں ، خوب یاد رکهیں همارے اکابرومشائخ حضرات علماء دیوبند (کثرهم الله سوادهم ) کا مسلک ومنهج تمام امورمیں افراط وتفریط سے پاک اورمبنی براعتدال هے اوراعتدال کی یہ شان ان اکابراعلام کا ایک خصوصی وصف وامتیاز هے ، لیکن اعتدال کا یہ طریق اختیارکرنے کی وجہ سے کچھ جہلاء نے بوجہ جہالت وتعصب وحسد کےان اکابراعلام کو افراط وتفریط میں مبتلا قراردیا ،چند جہلاء مذکوره بالا وسوسہ پیش کرکے عوام کویہ باورکراتے هیں کہ قبورسے فیض کا مطلب یہ هے کہ یہ لوگ قبرپرست هیں ، قبورکا طواف کرتے هیں ، اهل قبورسے استمداد کرتے هیں ، ان کومشکل کشا حاجت روا سمجهتے هیں وغیره ، خوب یادرکهیں همارے اکابر ومشائخ حضرات علماء دیوبند میں سے کسی نے بهی یہ تعلیم نہیں دی ،

دوسرا رد
یہ اوپر واضح کر چکا ہوں کہ تعلیم اور کس کو کہتے ہیں میرا تو اعتراض ہی تعلیم دینے پر ہے نہ کہ عقیدتا ایسا کرنے پر ہے

تیسرا ٹکڑا
بلکہ قبور واهل قبورسے متعلق بهی ان کا مسلک اعتدال والا هے ، نہ تواتنی تفریط هے کہ اهل قبورکی زیارت ودعاء وایصال ثواب کوبهی منع کردیں ، اورنہ اتنا افراط هے کہ قبور سے متعلق تمام مُروجہ بدعات وخرافات کوجائزقراردیں ، لہذا احادیث مبارکہ سے قبور کی زیارت ودعاء مسنون وایصال ثواب برائے اهل قبورثابت هے ، تویہی تعلیم وطریق علماء دیوبند کا بهی هے ، باقی اس سے زیاده اگرکوئی شخص وساوس پیش کرے ، تواس کی طرف توجه نہیں کرنی چائیے کیونکہ وساوس کا اصل علاج عدم التفات هے
تیسرا رد
یعنی ہم نے قبروں کی زیارت سے منع کیا ہے جو موصوف اسکو ہماری غلطی گنوا رہے ہیں بھائی ایسی کوئی بات نہیں آپ زیارت قبور کو ثابت نہ کریں بلکہ انسے مانگنے کو ثابت کریں
اسی لئے آگے کہ دیا کہ قبروں کی زیارت پر اعتراض کریں گے تو ہم جواب دے سکتے ہیں اس سے زیادہ وسواس کوئی ڈالے تو کوئی اس طرف توجہ نہ کرے کیونکہ عدم التفات سے ہی وہ ختم ہو سکتے ہیں کونکہ زیارت سے زیادہ ثابت کرنا مشکل ہو جاتا ہے

چوتھا ٹکڑا
انبیاء واولیاء وصالحین کی قبورسے فیض حاصل کرنے کا عام فہم مطلب
حدیث میں آتا هے کہ قبرجنت کے باغوں میں سے ایک باغ هے یا جهنم کے گهڑوں میں سے ایک گهڑا هے .قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ، أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّارِ. رواه الترمذي في سننه عن أبي سعيد والبيهقى فى شعب الإيمان والطبراني
اب قبر کا یہ گهڑا جس میں انبیاء وصحابہ واولیاء الله وعلماء وصُلحاء مدفون هیں ، همارا اعتقاد هے کہ یہ جنت کے باغات هیں ، جیسا کہ حدیث میں بیان هوا ، اب جنت الله تعالی کے انعامات ورحمتوں وتجلیات کا مقام هے ، کیونکہ صالحین کے قبورپرالله تعالی رحمتوں کا نزول هوتا هے ، لہذا زیارت کرنے والا شخص اس رحمت سے محروم نہیں رهتا ، اگرچہ اس کومحسوس هو یا نہ هو ، یہی سارا مفہوم هے فیض وفائده کا ، ایک لحظہ کے لیئے اس حدیث کوسامنے رکھ کریہ دیکهیں کہ انبیاء وصحابہ وعلماء وصالحین کے قبور جنت کے باغ هیں ، یقینا اس بات میں کوئ شک نہیں کرسکتا ، لہذا جنت کے ان باغات کی زیارت ونفع کا کون انکارکرسکتا هے ؟؟
چوتھا ٹکڑا
موصوف کو یہ ہی نہیں پتا کہ اسی طرح فرضی نفع ثابت کر کے ہی تو بریلوی کام چلاتے ہیں بھائی مجھے بتایا جائے کہ اگر بریلوی آپ کو کہے کہ جو قبر ہے وہ جنت کا باغ ہے تو اسکی اتنی فضیلت ہے تو جس کے لئے وہ بنائی گئی ہے اسکی کتنی فضیلت ہو گی اور پھر جو ذات اس کا سبب بنی یعنی محمد صلی اللہ علیہ سولم (تبلیغ کر کے) تو وہ کتنی فائدہ مند ہو گی اگر اسی طرح مدد ثابت ہوتی ہے تو پھر نوح علیہ اسلام کی قوم جنتی بندوں سے ہی مدد مانگتی تھی اور عیسائی تو ہمارے نبی عیسی سے ہی مدد مانگتے ہیں اور بریلوی تو محد صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد مانگتے ہیں
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ہم مدد نہیں مانگتے تو وہ میں نے اوپر بات کر لی ہے کہ ہمارا محل نزاع ہی یہ ہے کہ مانگتے شاہد نہ ہوں مگر مانگنے کا شبہ کھل کر ڈالتے ہیں
باقی تبصرہ اگلی قسط میں
 
Top