• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دیوبند سے ایک سوال ؟؟؟؟؟؟

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
پانچواں ٹکڑا
باقی قبور کا طواف اورسجدے کرنا ، وهاں چراغ جلانا ، قبرپراذان پڑهنا ، وهاں عرس میلے قوالی کرنا ، قبرکوبوس وکنار کرنا ،ان سے حاجات طلب کرنا ، ان کومتصرف سمجهنا وغیره سب بدعات وخرافات هیں .

پانچواں رد
یہی تو ہم آپ سے چاہتے ہیں کہ آپ آگبوٹ میں ڈوبنے والے کو گریہ زاری کرنے سے سختی سے معن کریں گے تو کل کو کوئی نہیں کرے گا مگر جب آپ کا عمل آپ کے قول کے خلاف ہو گا تو لوگ تو آپ کے عمل کو دیکھیں گے
قول اور عمل میں فرق والی مشہور حدیث تو آپ نے سنی ہو گی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو روزہ توڑنے کا کہا تو قول پر عمل میں تردد ہوا مگر حضرت عائشہ کے کہنے پر جب آپ نے عمل کر کے دکھایا تو سب صحابہ نے بھی کیا پس آپ کے اقوال کی بجائے ہمیں آپ اپنی کتابوں میں ایسے اعمال کا بھی رد کریں جس سے معاملہ بگڑتا ہے

چھٹا ٹکڑا
صحيح بخاري میں امام بخاري نے ایک باب قائم کیا هے
حافظ ابن حجر رحمہ الله اس حدیث کی شرح میں لکهتے هیں کہ
وفيه الحرص على مجاورة الصالحين في القبور طمعا في إصابة الرحمة إذا نزلت عليهم وفي دعاء من يزورهم من أهل الخير
اس حدیث میں اس بات كا ثبوت هے کہ صالحین کے ساتھ قبورمیں پڑوسی هونے كا حرص کرنا چائیے ، اس امید ونیت سے کہ صالحین پرنازل هونے والی رحمت اس کوبهی پہنچے گی ، اورنیک صالح لوگ جب ان کی زیارت کریں گے اوردعا کریں گے تواس کوبهی حصہ ملے گا.

چھٹا رد
یعنی وہی بات کہ ثبت آپ کو بزرگوں سے مانگنا کرنا ہے مگر مثالیں انکی زیارت کرنے پر فائدہ ہونے کی دی جا رہی ہیں

ساتواں ٹکڑا
اسی طرح ایک حدیث حسن میں هے کہ
کسی صحابی نے کسی قبر پراپنا خیمہ نصب کیا ، اوراس معلوم نہیں تها کہ یہ قبرهے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة (تبارك الذي بيده الملك) پڑھ رها تها یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، پس وه حضور صلى الله عليه وسلم کے پاس تشریف
لائے ، اور فرمایا يا رسول الله میں نے اپنا خیمہ ایک قبر پرنصب کیا ، اورمجهے معلوم نہیں تها کہ وه قبر هے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة (تبارك الذي بيده الملك) پڑھ رها تها ، یہاں تک کہ سورت ختم کردی ، تو رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورت عذاب قبرکو روکتی هے ، عذاب قبر سے نجات دیتی هے اس (صاحب قبر) کو عذاب قبرسے نجات دیتی هے .
وقال الإمام الترمذي بسنده عن ابن عباس قال ضرب رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم خباءه على قبر وهو لا يحسب أنه قبر فإذا قبر إنسان يقرأ سورة الملك حتى ختمها فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله ضربت خبائي على قبر وأنا لا أحسب أنه قبر فإذا قبر إنسان يقرأ سورة الملك حتى ختمها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هي المانعة هي المنجية تنجيه من عذاب القبر . وقال الترمذي حديث حسن غريب . ورواه الطبراني في الكبير وأبونعيم في الحلية والبيهقي في إثبات عذاب القبر
قبور اولیاء سے فیض کا مطلب استمداد واستغاثہ نہیں هے

ساتواں رد
پھر وہی احادیث کی سند کو چھوڑ کر یہ ویسے ہی غیر متعلق ہیں جیسے آخر میں خود لکھا ہے کہ فیض کا مطلب مانگنا نہیں ہوتا تو یہ بات تو الٹا موصوف کے تضاد کو ظاہر کر رہی ہے وہ نیچے سمجھاتا ہوں
موصوف کہ رہے ہیں کہ فیض سے مراد مانگنا نہیں ہوتا اور جب ہم کہتے ہیں کہ آپ کی کتابوں میں بزرگوں یا قبروں سے مانگنے کی روایات درج ہیں انکا انکار کریں تو آپ جواب دیتے ہیں کہ جہ ہم قبروں سے فیض کا انکار نہیں کر سکتے
بھئی ہم نے فیض احمد فیض کے انکار کرنے کا کب کہا ہے ہم نے تو مانگنے کے انکار کرنے کا کہا ہے اور آپ مانگنے کو فیض احمد فیض سے علیحدہ ہی سمجھتے ہیں جیسے کہ خود اوپر اقرار کیا ہے پس ہماری یہ الجھن تو حل کر دیں اللہ آپ کو جزائے خیر دے امین

ابھی جاری ہے انتظار کیا جائے جزاکم اللہ خیرا
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,038
ری ایکشن اسکور
1,225
پوائنٹ
425
آٹھواں ٹکڑا
سوال = مُردوں سے بطریق دعاء مد د چاهنا جائزهے یا نہیں ؟
جواب = مد د چاهنا تین قسم کا هے
1 = ایک یہ کہ اهل قبور سے مد د چاهے ، اسی کوسب فقہاء نے ناجائزلکهاهے
2 = دوسرے یہ کہ کہے اے فلاں خدا تعالی سے دعاء کرکہ فلاں کام میرا پورا هوجائے ، یہ مبنی هے اس بات پرکہ مردے سنتے هیں کہ نہیں ، جوسماع موتی کے قائل هیں ، ان کے نزدیک درست ، دوسروں کے نزدیک ناجائز
( سماع موتی کے مسئلہ میں صحابہ کے زمانہ سے اختلاف هے ، دونوں طرف اکابر امت هیں ، لہذا ایسے اختلافی امرکا فیصلہ کون کرسکتا هے ، لیکن بہتریہ هے اس دوسری قسم پربهی عمل نہ کرے )
3 = تیسرے یہ کہ دعاء مانگے الہی بحرمت فلاں میرا کام پورا کردے یہ بالاتفاق جائز هے .( فتاوی رشیدیه ص 57 ). حضرت گنگوهی رحمہ الله کا یہ فتوی بالکل واضح هے ، کہ مردوں سےمدد طلب کرنا تمام فقہاء کے نزدیک ناجائزهے ، اوریہی فیصلہ وفتوی تمام اکابرعلماء دیوبند کا بهی هے ، لہذا جو لوگ فیض عن القبور کا مطلب استعانت واستمداد وغیره بیان کرکے اس کو اکابرعلماء دیوبند کا عقیده قرار دیتے هیں ، یہ سب دجل وفریب هے . هداهم الله
آٹھواں رد
آپ نے تین قسم کی مدد لکھی ہے لیکن میری بات وہیں پر ہے کہ میرے اعتراض والی مدد کا اس میں ذکر نہیں ہے جو اگرچہ آپ نے پہلی قسم میں مطلقا بیان کی ہے مگر وضاحت نہیں کی کہ سیدھا کسی زندہ یا مردہ سے ہزاروں میل دور بغیر کسی ٹیلی فون وغیرہ کے مشکل میں گریہ زاری کر کے مدد مانگی جائے یہ مدد قولی و فعلی دونوں طرح آپ اور ہم میں بالاتفاق حرام ہے سوائے ایک استثنی کے کہ آپ اپنے بزرگوں کے لئے اسکو حرام نہیں سمجھتے- پس محل نزاع تو یہ مدد ہے پس اس پر دلیل چاہئے کہ آپ اس کے حرام ہونے کا مطلق فتوی دے رہے ہیں تو آگبوٹ والے گریہ زار کے بارے میں یہ فٹ کیوں نہیں ہو سکتا اس کا ذکر ہی گول کر گئے حالانکہ جن لوگوں کے اعتراضات کا اس موصوف نے جواب دینے کی ناکام کوشش کی ہے ان میں پہلی مثال ہی آگبوٹ کی لکھی ہوتی ہے جس میں کوئی احتمال نہیں ہو سکتا
آپ کی باقی باتوں پر تبصرہ یہ ہے کہ دوسری میں اگرچہ سماع موتی کے اختلاف کا مسئلہ ہے مگر وہ ایک علیحدہ بحث ہے جس میں دلائل دیکھ کر ہی لوگوں کو فیصلہ کرنا چاہئے لیکن مدد کا معاملہ وہاں بھی نہیں
تیسری بات کو جو الاتفاق کہا ہے وہ عقل اور نقل کے ہی خلاف ہے تو بالاتفاق کیسے ہو گیا بلکہ انکی ہی کتاب صراط مستقیم میں فقہ حنفی کے حوالے سے اسکو ناجائز کہا گیا ہے

نواں ٹکڑا
قبور اور أهل قبور کے متعلق فرقہ جدید اهل حدیث کے اکابرکا مذهب
جیسا کہ میں گذشتہ سطورمیں عرض کرچکا کہ اس فرقہ جدید کے اکابراورآج کل کے اس فرقہ جدید کے هم نواوں میں بہت سخت اختلاف هے ، مثلا اسی مذکوره مسئلہ میں اس فرقہ جدید اهل حدیث کے بانی ومُوجد نواب صدیق حسن خان صاحب کا نظریہ ملاحظہ فرمائیں اپنی کتاب ( ألتاجُ المُكلل ) میں اپنے والد ابواحمد حسن بن علی الحُسینی البخاری القنوجی کے تذکره میں لکها کہ
لايـَزال يـُرى النـورعَـلى قـبـره الشـريـف والنـاسُ يـَتـَبَـرَّكـُون بـه
آپ کی کی قبرشریف پرهمیشہ نور رهتا هے ،اورلوگ آپ کی کی قبرسے تـَـبـَـرُّکـــْـــــــ حاصل کرتے هیں. ( ألتاجُ المُكلل صفحه 543 ، مكتبة دارالسلام )
------------------

نواں رد
اس کے مختلف رد ہیں
1-اہل حدیث کے کسی بھی قول میں مدد مانگنے کے اثبات کا ذکر نہیں
2-ہم جب اہل حدیث ہیں تو ہمیں ان اہل حدیث علماء کی باتیں نقصان ہی نہیں پہنچا سکتی کیونکہ ہم تو امام شافعی کی طرح انکو دیوار پر دے ماریں گے مسئلہ تو آپ لوگوں کے لئے ہے جو اس کا اقرار بھی جگہ جگہ کر رہے ہوتے ہیں کہ ایسا نہیں کرنا چاہئے مگر بزرگوں کے لئے بے جا تاویلوت بھی کرتے ہیں اگر آپ کو ہمارا حال دیکھنا ہو تو ایک نام نہاد اہل حدیث (اصلی دیوبندی ) کی تصوف پر بحث پڑھ لیں اور دیکھ لیں کہ ہم کس طرح غلط بات کو دیوار پر مارتے ہیں ہمارا تو بچہ بچہ قرآن و حدیث کی بات کرتا ہے پس جہنوں نے کوئی ایسی مدد کی باتیں لکھی ہیں پتا نہیں وہ اہل حدیث تھے یا نہیں ہم ابھی آپ کے سامنے انکا رد کرنے کو تیار ہیں مگر کیا آپ بھی تیار ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے

دسواں ٹکڑا
تقریبا اسی طرح کی بات ( المهند علی المفند ) اور دیگرکتب مشائخ میں بهی موجود هے ، اور حضرت گنگوهی رحمہ الله اوردیگرتمام اکابرعلماء دیوبند کا اجماعی فتوی یہ هے کہ اهل قبورسے استمداد واستعانت جائزنہیں هے ، تومعلوم هوا کہ اس فیض سے مراد اهل قبورسے استمداد واستعانت وغیره نہیں هے
دسواں رد
یہ تو بار بار کہ رہا ہوں کہ یہ صرف باتیں ہیں عملی رد ان واقعات کا بھی کریں تو اعتراض ہی ختم ہو جائے

گیارواں ٹکڑا
پهر قبور اولیاء سے فیض سے متعلق جو طرق وتفصیلات هیں ، یہ صرف علماء کاملین کے لیئے هیں ، نہ کہ عوام کے لیئے ، اورپهر عوام میں هروه شخص داخل هے جواس طریق سے نابلد هو ، چاهے کسی اورفن میں معلومات رکهتا هے ، عربی کا مشہور مقولہ هے (( لکُـل فـَنٍّ رِجـَال )) هرفن کے اپنے ماهرلوگ هوتے هیں ، لہذا اس وجہ سے اس میدان کے کامل وماهرلوگوں کواجازت هے
کچھ لوگ اس قول پراعتراض کرتے هیں ، کہ عوام کواس کی اجازت دینی کیوں جائزنہیں هے ؟؟ اورعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کهولنے کےمترادف کیوں هے ؟؟
---------
یعنی یہ باب هے اس شخص کے بارے میں جس نے بعض جائز چیزوں کو اس ڈرسے چھوڑ دیا کہ بعض کم فہم لوگ اس سے سخت بات میں مبتلا نہ ہو جائیں ، اوراس باب وترجمہ کے تحت یہ حدیث نقل کی هے
--------
یعنی کوئی بهی غامض ودقیق وباریک بات جوعوام کے سمجھ وفہم سے باهرهوتوان کووه بیان نہ کی جائے
اس باب کے تحت امام بخاری رحمہ الله نے حضرت معاذ بن جبل رضی الله عنہ کی یہ روایت نقل کی هے
-------------

گیارواں رد
یہی تو میں کہتا ہوں کہ جو چیز عوام میں کفر کا دروازہ کھول سکتی ہے اسکو آپ اپنے خواص میں چاہے بیان کرتے رہیں مگر عوام میں خالی بیان نہ کرنا ہی کافی نہیں بلکہ انکا رد کرنا بھی لازمی ہے کیونکہ آپ بتائیں یہ عوام تک کیسے پہنچے اب جب پہنچ ہی گئے ہیں تو آپ مولانا عثمانی کی طرح رد تو کھل کر کریں

بارواں ٹکڑا
اس باب میں دیگر آثار وروایات واقوال بهی هیں ، لیکن حق وهدایت کے طالبین کے لیئے اس قدر میں کفایت هے ، حاصل کلام یہ کہ حضرت الامام گنگوهی رحمہ الله کا قول ( مگرعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کهولنا هے ) بالکل صحیح ہے ، کیونکہ عوام اس قسم کے امور سمجهنے سے قاصرہیں . والله أعلم بالصواب
Last edited by Hafiz M Kh

بارواں رد
بھئی خالی اس قول کو لے کر کچھ نہیں بنے گا بلکہ جو پہلے شرک کے دروازے عوام کی پہنچ میں آ چکے ہیں کم از کم ایک متفقہ اعلان کر دیا جائے کہ یہ باتیں خالی علماء کے لئے ہیں عوام کے لئے یہ سراسر شرک ہے مگر یہ کبھی نہیں کریں گے کیونکہ پھر عوام پوچھے گی کہ یہ شرک ہمارے لئے کیوں ہے آگبوٹ میں ڈوبنے والے ایک عام مرید کے لئے شرک کیوں نہیں ہے
باقی حق و ہدایت کے طالبین تو قارئین ہی ہو سکتے ہیں ہم تو بقول موصوف عوام کو گمراہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں پس اب میری بات ختم ہو گئی اب قارئین ہی خود اس پر فیصلہ کریں اور ہماری باتوں کی گمراہی سے بچتے ہوئے موصوف کی مندرجہ ذیل نصیحت پر عمل کریں تاکہ آپ ہم سے بچ سکیں اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو

باقی اس سے زیاده اگرکوئی شخص وساوس پیش کرے ، تواس کی طرف توجه نہیں کرنی چائیے کیونکہ وساوس کا اصل علاج عدم التفات هے
نوٹ: جس لہجے میں سوالات تھے اسی طرح جوابات ہیں
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,786
پوائنٹ
1,069
یہ ایک الگ فن ہے اور میں اس فن میں کامل نہیں ہوں اس لیے جو جانتا ہوں اس کے مطابق نظری بحث تو کرسکتا ہوں لیکن کیا کیسے ہو سکتا ہے اس کی حقیقت کو بیان نہیں کر سکتا۔
اس لیے مجھے معذرت دیجیے۔ انسان کو صرف بولتے نہیں رہنا چاہیے نا۔

یہ اندھی تقلید ہے
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
دسواں ٹکڑا
تقریبا اسی طرح کی بات ( المهند علی المفند ) اور دیگرکتب مشائخ میں بهی موجود هے ، اور حضرت گنگوهی رحمہ الله اوردیگرتمام اکابرعلماء دیوبند کا اجماعی فتوی یہ هے کہ اهل قبورسے استمداد واستعانت جائزنہیں هے ، تومعلوم هوا کہ اس فیض سے مراد اهل قبورسے استمداد واستعانت وغیره نہیں هے
دسواں رد
یہ تو بار بار کہ رہا ہوں کہ یہ صرف باتیں ہیں عملی رد ان واقعات کا بھی کریں تو اعتراض ہی ختم ہو جائے

باقی اس سے زیاده اگرکوئی شخص وساوس پیش کرے ، تواس کی طرف توجه نہیں کرنی چائیے کیونکہ وساوس کا اصل علاج عدم التفات هے
نوٹ: جس لہجے میں سوالات تھے اسی طرح جوابات ہیں

دیوبندی مولویوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہی یہ قول و فعل کا تضاد ہے یہ لوگوں کے درمیان اسٹیج پر توحید ہی کی بات کرتے ہیں جو کہ فطری طور پر لوگوں کو
Appeal
کرتی ہے اور جب اہلِ حدیث اندرخانے کے حالات ان کے معتقدین کے سامنے لاتے ہیں تو یہ اُن کے بارے میں "گمراہ٬ گستاخ اور بد مذہب ہونے" کا پروپیگنڈہ کرکے اپنے معتقدین کو اُن سے بچنے اور اُن کے وساوس سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.
والله اعلم بالصواب
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
میرے بھائیوں ! جب کوئی قرآن کو چھوڑتا ہے تو اسکا یہی ''حال'' ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ قرآن کو '' جانتا '' تو ہے جیسے کفار و مشرکین مگر '' مانتا '' نہیں ہے۔ کیوں کہ جب انسان '' قرآن '' کو چھوڑتا ہے تو وہ اسی طرح کبھی '' تصوف'' کی ظلمتوں میں پناہ لینے کی ناکام کوشش کرتا ہے اور کبھی '' نبیﷺ'' کے اسوہء حسنہ کی جگہ '' تصورِ شیخ '' کو اپنا شعار بناتا ہے۔ چونکہ وہ قبروں سے '' فیض'' حاصل کرنے کے مشتاق ہوتے ہیں اس لیے قرآن بھی ان کو اپنے '' حقیقی فیض '' سے محروم رکھتا ہے۔ اور لطف یہ ہے کہ ان کو اس '' ضلالت '' کی خبر تک نہیں ہوتی۔ کیوں کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ کس چیز '' قرآن '' کو چھوڑ کر وہ کس چیز '' تصوف '' کو اپنا بیٹھے ہیں۔
میں سب کو دعوت دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے قرآن کو اپنا شعار بناؤ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر رحم فرمائے۔ آمین !

اَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيْدٌ 78؀
کیا تم میں ایک بھی بھلا آدمی نہیں۔
قرآن ، سورت ہود، آیت نمبر 78
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,121
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
اگر کوئی قرآن کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد حافظ ایم خان صاحب کا مضمون پڑھے تو وہ '' الف لیلی '' کی کہانیوں کو اس سے بہتر پائےگا کیوں کہ تصوف کی '' بھول بھلیوں '' سے تو یہی کہانیاں اور قصے بہتر ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ '' الف لیلی '' کی کہانیوں میں تو وقت ضائع ہوتا ہے مگر '' تصوف '' میں تو دینِ اسلام سے ہاتھ دھونا پڑھتا ہے جو میں سمجھتا ہوں کوئی ہوش مند کسی بھی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔

مَا كَانَ حَدِيْثًا يُّفْتَرٰى وَلٰكِنْ تَصْدِيْقَ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَتَفْصِيْلَ كُلِّ شَيْءٍ وَّهُدًى وَّرَحْمَةً لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ ١١١۝ۧ
یہ قرآن جھوٹ بنائی ہوئی بات نہیں بلکہ یہ تصدیق ہے، ان کتابوں کی جو اس سے پہلے کی ہیں، کھول کھول کر بیان کرنے والا ہے ہرچیز کو اور ہدایت اور رحمت ہے ایمان دار لوگوں کے لئے۔
قرآن ، سورت یوسف ، آیت نمبر111
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
marnay kay dobara rooh lotana quran kay khilaf hai.jpg
 
Top