• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذلك قول شيطانٍ کا مفہوم

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
خطیب بغدادی رحمہ اللہ (المتوفى:643) نے کہا:
أخبرنا ابن رزق، أَخْبَرَنَا أَحْمَد بْن جعفر بْن سلم، حَدَّثَنَا أحمد بن علي الأبار، حدّثنا محمّد بن يحيى النّيسابوريّ- بنيسابور- حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرِ عَبْدُ اللَّه بْنُ عَمْرِو بن أبي الحجّاج ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ: كُنْتُ بِمَكَّةَ- وَبِهَا أَبُو حَنِيفَةَ- فَأَتَيْتُهُ وَعِنْدَهُ نَفَرٌ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَأَجَابَ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: فَمَا رِوَايَةٌ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؟ قَالَ: ذَاكَ قَوْلُ شَيْطَانٍ. قَالَ: فَسَبَّحْتُ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ: أَتَعْجَبُ؟ فَقَدْ جَاءَهُ رَجُلٌ قَبْلَ هَذَا فَسَأَلَهُ عَنْ مَسْأَلَةٍ فَأَجَابَهُ. قال: فَمَا رِوَايَةٌ رُوِيَتْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟ فَقَالَ: هَذَا سَجْعٌ. فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: هَذَا مَجْلِسٌ لا أَعُودُ فِيهِ أَبَدًا. [تاريخ بغداد:13/ 388 ، السنة لعبد الله بن أحمد 1/ 226 واسنادہ صحیح]۔

بخاری و مسلم کے ثقہ راوی عبد الوارث بن سعيد بن ذكوان کہتے ہیں کہ : میں مکہ میں تھااور وہاں ابوحنیفہ بھی تھے ، تو میں بھی ان کے پاس آیا اس وقت وہاں اورلوگ بھی تھے ، اسی بیچ ایک شخص نے ابوحنیفہ سے ایک مسئلہ پوچھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا ، جواب سن کراس شخص نے کہا کہ پھر عمربن الخطاب سے مروی روایت کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو شیطان کی بات ہے ، اس پر انہوں نے سبحان اللہ کہا ، یہ سن کر ایک شخص نے کہا کہ کیا تمہیں تعجب ہورہا ہے ؟؟؟ ارے ابھی اس سے پہلے بھی ایک صاحب نے سوال کیا تھا جس کا ابوحنیفہ نے جواب دیا تو سائل نے کہا کہ پھر آپ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے بارے میں کیا کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ» ؟؟؟؟تو ابوحنیفہ نے کہا کہ یہ تو تک بندی ہے ۔ یہ سب سن کرمیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایسی مجلس میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
یہ آپ نے ثابت کیا ہے؟
اس طرح تو میں بھی کسی کتاب سے کچھ بھی لگا سکتا ہوں۔
امام بخاری رح پر بھی جرح موجود ہے کتابوں میں۔ اور بعض جگہ ان کے اساتذہ کی۔ کیا اس طرح یہ قبول ہوگی؟
مہربانی فرما کر اولا اس کی سند کی تفصیل لکھیں۔ پھر اس کا اتصال لکھیں۔ پھر یہ لکھیں کہ عمر رض کو شیطان کہا گیا ہے یا یہ کہا گیا ہے کہ روایت قول شیطان ہے عمر سے ثابت نہیں۔
دلیل سے بات کیجیے گا۔

ویسے ذم کے لیے شیخ عبد الرحمان المعلمی نے کچھ شرائط ذکر کی ہیں۔ ان شاء اللہ عشاء کے بعد عرض کرتا ہوں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
عبد الرحمان بن یحیی المعلمی الیمانی فرماتے ہیں:۔


فإن المقالة المسندة، إذا كان ظاهرها الذم أو ما يقتضيه لا يثبت الذم إلا باجتماع عشرة أمور:
الأول: أن يكون الرجل المعين الذي وقع في الإسناد ووقعت فيه المناقشة ثقة.
الثاني: أن يكون بقية رجال الإسناد كلهم ثقات.
الثالث: ظهور اتصال السند تقوم به الحجة.
الرابع: ظهور أنه ليس هناك علة خفية يتبين بها انقطاع أو خطأ أو نحو ذلك مما يوهن الرواية.
الخامس: ظهور أنه لم يقع في المتن تصحيف أو تحريف أو تغيير قد توقع فيه الرواية بالمعنى.
السادس: ظهور أن المراد في الكلام ظاهره.
السابع: ظهور أن الذامّ بنى ذمه على حجة لا نحو أن يبلغه إنسان أن فلاناً قال كذا أو فعل كذا فيحسبه صادقاً وهو كاذب أو غالط.
الثامن: ظهور أن الذام بنى ذمه على حجة لا على أمر حمله على وجه مذموم وإنما وقع على وجه سائغ.
التاسع: ظهور أنه لم يكن للمتكلم فيه عذر أو تأويل فيما أنكره الذام.
العاشر: ظهور أن ذلك المقتضي للذم لم يرجع عنه صاحبه. والمقصود بالظهور في هذه المواضع الظهور الذي تقوم به الحجة.
وقد يزاد على هذه العشرة، وفيها كفاية.
فهذه الأمور إذا اختل واحد منها لم يثبت الذم، وهيهات أن تجتمع على باطل.
التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 1۔188، المکتبۃ الاسلامی


تو کیا خیال ہے ان شرائط کی رعایت تو کریں گے نا؟

ابھی آپ کی جانب سے ثابت کرنا باقی ہے۔

پھر ایک اہم بات عرض کرتا چلوں۔ روایت کے الفاظ ہیں ذَاكَ قَوْلُ شَيْطَانٍ۔ یہاں شیطان نکرہ ہے اور جب شیطان معروف کا ذکر کرنا ہوتا ہے تو اسے معرفہ ذکر کیا جاتا ہے جیسے
اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللَّهِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُون
یا صفت لائی جاتی ہے۔

یہاں تو اصل ترجمہ (نکرہ کی وجہ سے) یہ ہوگا "یہ کسی شیطان کا قول ہے"۔ اب اس ترجمہ کو دیکھیں اور اپنے کیے ہوئے ترجمے کو ملاحظہ فرمائیں۔
یہاں واضح پتا چل رہا ہے کہ یہ عمر رض کی نہیں کسی شیطان کی بات ہے۔
کیا میں غلط ہوں؟
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
یہاں تو اصل ترجمہ (نکرہ کی وجہ سے) یہ ہوگا "یہ کسی شیطان کا قول ہے"۔ اب اس ترجمہ کو دیکھیں اور اپنے کیے ہوئے ترجمے کو ملاحظہ فرمائیں۔
یہاں واضح پتا چل رہا ہے کہ یہ عمر رض کی نہیں کسی شیطان کی بات ہے۔
کیا میں غلط ہوں؟
اگر آپ نکرہ کی وجہ سے اس کا ترجمہ ’’کسی شیطان‘‘ سے کرتے ہیں پھر بھی اس سے پہلے والے جملے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کسی شیطان والے قول کی بات ابوحنیفہ نے عمررضی اللہ عنہ کے لئے ہی کہی ہے۔ یعنی جب کسی نے کہا کہ عمررضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے اور جواب میں اگر ابوحنیفہ یہ کہے کہ ’’یہ شیطان کا قول ہے‘‘ یا یہ کہے کہ ’’یہ کسی شیطان کا قول ہے‘‘ دونوں جملوں کا مطلب یہی ہے کہ ابوحنیفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو شیطان کہا۔کیونکہ وہ قول بہرحال عمررضی اللہ عنہ کا ہی ہے، اب جیسے بھی گھما پھرا کر بات کی جائے اسکی زد عمررضی اللہ عنہ پر ہی پڑے گی۔

ویسے اشماریہ صاحب آپ کا دوغلا پن آپکی ہر تحریر سے ٹپک رہا ہے۔ کیا اگر یہ بات آپکے کسی مخالف کی ہوتی تو کیا اسی طرح احتمالات پیش کرتے؟؟؟ آپ کا جواب چاہے ہاں میں ہو یا ناں میں لیکن یہ حقیقت ہے آج تک ہر مقلد کی حالت یہ رہی ہے کہ اسکے لینے کے باٹ اور ہوتے ہیں اور دینے کے باٹ اور۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
عبد الرحمان بن یحیی المعلمی الیمانی فرماتے ہیں:۔


فإن المقالة المسندة، إذا كان ظاهرها الذم أو ما يقتضيه لا يثبت الذم إلا باجتماع عشرة أمور:
الأول: أن يكون الرجل المعين الذي وقع في الإسناد ووقعت فيه المناقشة ثقة.
الثاني: أن يكون بقية رجال الإسناد كلهم ثقات.
الثالث: ظهور اتصال السند تقوم به الحجة.
الرابع: ظهور أنه ليس هناك علة خفية يتبين بها انقطاع أو خطأ أو نحو ذلك مما يوهن الرواية.
الخامس: ظهور أنه لم يقع في المتن تصحيف أو تحريف أو تغيير قد توقع فيه الرواية بالمعنى.
السادس: ظهور أن المراد في الكلام ظاهره.
السابع: ظهور أن الذامّ بنى ذمه على حجة لا نحو أن يبلغه إنسان أن فلاناً قال كذا أو فعل كذا فيحسبه صادقاً وهو كاذب أو غالط.
الثامن: ظهور أن الذام بنى ذمه على حجة لا على أمر حمله على وجه مذموم وإنما وقع على وجه سائغ.
التاسع: ظهور أنه لم يكن للمتكلم فيه عذر أو تأويل فيما أنكره الذام.
العاشر: ظهور أن ذلك المقتضي للذم لم يرجع عنه صاحبه. والمقصود بالظهور في هذه المواضع الظهور الذي تقوم به الحجة.
وقد يزاد على هذه العشرة، وفيها كفاية.
فهذه الأمور إذا اختل واحد منها لم يثبت الذم، وهيهات أن تجتمع على باطل.
التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 1۔188، المکتبۃ الاسلامی


تو کیا خیال ہے ان شرائط کی رعایت تو کریں گے نا؟
میں عرض کردوں کہ مجھے عربی نہیں آتی لہذا مجھ سے بحث کرتے ہوئے آئندہ آپ جو بات بھی پیش کریں وہ اردو میں ہونی چاہیے۔ امید ہے عربی نہ جاننے پر کوئی طنز نہیں کرینگے ورنہ لاجواب کرنے والا جواب ملے گا۔
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
کیوں کیا آپ کے ہاں ابوحنیفہ کے لئے ثبوت کا کوئی انوکھا انداز موجود ہے؟؟؟ اگر ہاں تو بتائیے۔
سبحان اللہ! مقلدین کا ابوحنیفہ اور حنفی مذہب کے دفاع کے لئے دماغ خوب چلتا ہے اتنا دماغ اگر قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے استعمال کیا ہوتا تو آج حق کے راہی ہوتے۔خیر اپنی اپنی قسمت ہے حنفی کے مقدر میں باطل کا دفاع ہی ہے۔
اس بات کو ختم کر دیا جاے تو بہتر ہے میری انتظا میہ سے گزارش ہے کہ اس تھریڈ کو ختم کر دیں اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو امام صاحب کے بارے متقدمین کا موقف کچھ اور ہی ہوتا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
کیوں کیا آپ کے ہاں ابوحنیفہ کے لئے ثبوت کا کوئی انوکھا انداز موجود ہے؟؟؟ اگر ہاں تو بتائیے۔
سبحان اللہ! مقلدین کا ابوحنیفہ اور حنفی مذہب کے دفاع کے لئے دماغ خوب چلتا ہے اتنا دماغ اگر قرآن و حدیث کو سمجھنے کے لئے استعمال کیا ہوتا تو آج حق کے راہی ہوتے۔خیر اپنی اپنی قسمت ہے حنفی کے مقدر میں باطل کا دفاع ہی ہے۔
کہاں امام بخاری اور کہاں ابوحنیفہ مثال پیش کرتے ہوئے کم ازکم امام بخاری کی جلالت اور شان کا لحاظ ہی کرلیتے۔ اول تو امام بخاری پر جرح ثابت نہیں ہے اور اگر ثابت ہے بھی تو جمہور محدثین کی توثیق کی وجہ سے مردود ہے۔ محدثین کا امام بخاری کی ثقاہت پر اتفاق ہے جبکہ محدثین کا ابوحنیفہ کی تضعیف اور مذمت پر اتفاق ہے۔اس لئے امام بخاری اور ابوحنیفہ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔
یہ ابوحنیفہ پر جرح تو بعد میں ہے پہلے ابوحنیفہ کی عمررضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جرح ہے۔ کیا امام بخاری بھی بدبختی کی اس سطح پر پہنچے تھے کہ ایک جلیل القدر صحابی اور پیغمبر کے لئے اپنے بغض کا ایسے اعلانیہ اظہار کرتے جیسے ابوحنیفہ نے کیا؟؟؟

دیکھئے مقلد صاحب دلیل پیش کرنے کا جوطریقہ ہے ہم نے وہی اختیار کیا ہے یعنی باسند روایت لکھ دی ہے اور یہ سند بالکل صحیح ہے، جب کسی سند کے بارے میں صحیح ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے تو یہ اس سند کے اتصال اور متصل ہونے کا دعویٰ بھی ہوتا ہے۔ یعنی یہ صحیح اور متصل سند ہے۔اب آپ کو اس سند پر جو اعتراض ہے وہ پیش کریں۔ جب صحیح سند سے ایک روایت پیش کردی گئی تو اس روایت میں موجود چیز خودبخود ثابت ہوجاتی ہے۔ اور اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ ابوحنیفہ ایک گھمنڈی انسان تھا جسے اپنے علم پر غرور تھا حتی کہ یہ اپنی آراء کے خلاف آنے والی حدیثوں اور صحابہ کے فتوؤں کی بھی کوئی رعایت نہیں کرتا تھا یعنی ابوحنیفہ صحابہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ تھا۔
معذرت جناب آپ سے ثابت کرنے کی بات ہوئی تھی۔ آپ سند کو صرف صحیح کہیں نہیں ثابت بھی کریں۔
اپنی جان ادھر ادھر کی گفتگو کے ذریعے نہیں چھڑائیں۔
جزاک اللہ

اگر آپ نکرہ کی وجہ سے اس کا ترجمہ ’’کسی شیطان‘‘ سے کرتے ہیں پھر بھی اس سے پہلے والے جملے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ کسی شیطان والے قول کی بات ابوحنیفہ نے عمررضی اللہ عنہ کے لئے ہی کہی ہے۔ یعنی جب کسی نے کہا کہ عمررضی اللہ عنہ کا یہ قول ہے اور جواب میں اگر ابوحنیفہ یہ کہے کہ ’’یہ شیطان کا قول ہے‘‘ یا یہ کہے کہ ’’یہ کسی شیطان کا قول ہے‘‘ دونوں جملوں کا مطلب یہی ہے کہ ابوحنیفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کو شیطان کہا۔کیونکہ وہ قول بہرحال عمررضی اللہ عنہ کا ہی ہے، اب جیسے بھی گھما پھرا کر بات کی جائے اسکی زد عمررضی اللہ عنہ پر ہی پڑے گی۔

ویسے اشماریہ صاحب آپ کا دوغلا پن آپکی ہر تحریر سے ٹپک رہا ہے۔ کیا اگر یہ بات آپکے کسی مخالف کی ہوتی تو کیا اسی طرح احتمالات پیش کرتے؟؟؟ آپ کا جواب چاہے ہاں میں ہو یا ناں میں لیکن یہ حقیقت ہے آج تک ہر مقلد کی حالت یہ رہی ہے کہ اسکے لینے کے باٹ اور ہوتے ہیں اور دینے کے باٹ اور۔

جب آپ کو عربی نہیں آتی تو میں آپ کو یہ کیسے سمجھا سکتا ہوں؟ نکرہ معرفہ کا تعلق عربیت سے ہے اور اردو ترجمے میں بھی وہ چیز بیان نہیں ہو سکتی جو عربی الفاظ نکرہ اور معرفہ میں بیان کرتے ہیں۔
کسی اہل علم بھائی سے معلوم کر لیجیے۔
اور ثابت کریں تا کہ میں برائت کا اظہار کر سکوں ابو حنیفہ سے۔ اب یہ تو اچھا نہیں ہے کہ آپ ثابت نہ کریں اور میں سند کی تحقیق کرتا پھروں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
اس بات کو ختم کر دیا جاے تو بہتر ہے میری انتظا میہ سے گزارش ہے کہ اس تھریڈ کو ختم کر دیں اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو امام صاحب کے بارے متقدمین کا موقف کچھ اور ہی ہوتا
بھائی اس بات سے مجھے اتفاق ہے لیکن محترم شاہد نذیر بھائی نے اس سے میرے ابو حنیفہ رح سے برائت کو اور ثابت نہ کرنے کی صورت میں اپنے اس الزام کو کبھی نہ دہرانے کو متعلق کر رکھا ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو امام صاحب کے بارے متقدمین کا موقف کچھ اور ہی ہوتا
بالکل صحیح فرمایا ابوحنیفہ کے بارے میں متقدمین کا موقف کچھ اور تھا اور متاخرین کا کچھ اور ہے۔ متقدمین ابوحنیفہ کی مذمت کرتے تھے اور متاخرین جھوٹی تعریفیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,010
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
معذرت جناب آپ سے ثابت کرنے کی بات ہوئی تھی۔ آپ سند کو صرف صحیح کہیں نہیں ثابت بھی کریں۔
اپنی جان ادھر ادھر کی گفتگو کے ذریعے نہیں چھڑائیں۔
جزاک اللہ
اپنے کسی دعوے کو ثابت کرنے کا معروف طریقہ یہی ہے جو میں نے اختیار کیا ہے۔ آپ علمائے دیوبند کی تمام تحریرات اٹھا کر دیکھ لیں کہ وہ اپنے دعویٰ پر جو روایت پیش کرتے ہیں عموما اسکی سند بھی بیان نہیں کرتے بس بلاسند روایت لکھ کر اسکے صحیح ہونے کا دعویٰ کردیتے ہیں۔ اور اہل حدیث کی کتابوں میں بھی عام طور پر یہی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ باحوالہ روایت لکھ کر سندا صحیح لکھ دیا جاتا ہے۔ اب اگر اس روایت پر مخالف کی جانب سے پہلے ہی سے اعتراض ہو تو دلائل کے ذریعے اس اعتراض کو دور کردیا جاتا ہے اور اگر پہلے سے کوئی اعتراض موجود نہ ہوتو اعتراض سامنے آنے کی صورت میں دلائل دئے جاتے ہیں۔

اس لئے ہم آپ سے بھی یہ درخواست کررہے ہیں کہ آپکو روایت کی سند پر جو اعتراض ہے پیش کریں۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ روایت ثابت شدہ صحیح ہے۔ آپکی طرف سے اعتراض سامنے آنے کی صورت میں ہم یہ ثابت کردینگے کہ پیش کی گئی روایت کی سند میں کوئی طعن نہیں۔ ان شاء اللہ

جب آپ کو عربی نہیں آتی تو میں آپ کو یہ کیسے سمجھا سکتا ہوں؟ نکرہ معرفہ کا تعلق عربیت سے ہے اور اردو ترجمے میں بھی وہ چیز بیان نہیں ہو سکتی جو عربی الفاظ نکرہ اور معرفہ میں بیان کرتے ہیں۔
عربی نہ آنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں اردو میں لکھے گئے کسی بحث کے نتیجے کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ آپ نے نکرہ معرفہ کی بحث کرکے جو نتیجہ نکالا تھا کہ اس کا صحیح ترجمہ ’’کسی شیطان کا قول‘‘ ہوگا۔ ہم نے اس نتیجہ کو قبول کرتے ہوئے بتادیا کہ اس صورت میں بھی ابوحنیفہ پر سے جلیل القدر صحابی کی شدید گستاخی کا الزم رفع نہیں ہوتا۔

اور ثابت کریں تا کہ میں برائت کا اظہار کر سکوں ابو حنیفہ سے۔ اب یہ تو اچھا نہیں ہے کہ آپ ثابت نہ کریں اور میں سند کی تحقیق کرتا پھروں۔
یہ تو ہمیں یقین ہے کہ ثابت ہونے کی صورت میں بھی آپ کنی کترا کر گزر جائیں گے اور ابوحنیفہ سے براءت کا اظہار نہیں کرینگے کیونکہ آپ کے مذہب میں ابوحنیفہ کے اقوال کے بالمقابل قرآن وحدیث کو ترک کرکے کلام اللہ اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براءت کا اظہارکردیا جاتا ہے اور ہمیشہ سے حنفیوں کی یہی روایت رہی ہے اور یہ روایت اسی وقت ٹوٹتی ہے جب کوئی حنفی اپنے مذہب سے براءت کا اظہار کرتا ہے۔

ہم نے معروف طریقے سے اپنے دعویٰ کو ثابت کردیا ہے اگر آپ سند کی تحقیق نہیں کرسکتے تو ہماری تحقیق پر بھروسہ کرتے ہوئے ابوحنیفہ سے بےزاری اظہار کردیں۔ وگرنہ سند پر اپنا اعتراض پیش کریں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top