• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذلك قول شيطانٍ کا مفہوم

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ تمام شرائط اس روایت کے لئے ہے جس میں کسی کا قول کسی کی مذمت یا جرح میں پیش کیا جارہا ہو۔



اس بات کی تصریح؟؟؟

یہ شرائط سند اور اس سے حاصل ہونے والے متن میں ظاہر ہو رہی ہیں چاہے وہ کسی کی ذم براہ راست ہو یعنی واضح اقوال سے یا وہ ذم کسی کے بارے میں ایسی روایت لا کر کی گئی ہو جس سے ذم ثابت ہوتی ہے۔ بسا اوقات اس طرح بھی ذم کی جاتی ہے۔
ویسے بائی دی وے ایک بات تو بتائیں۔ خطیب رح اس روایت کو یہاں ذم کے لیے لائے ہیں یا مدح کے لیے؟

یہ شرط یہاں فضول ہے کیونکہ یہ کسی شخصیت پر جرح کے متعلق کسی کا قول نہیں بلکہ ایک واقعہ کا بیان ہے کہ ابوحنیفہ نے اپنے علم کے مقابلے میں عمررضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو کمتر جانا اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ناقص رائے کے مقابلے میں عمررضی اللہ عنہ کا قول اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو ٹھکرادیا اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ عمررضی اللہ عنہ کو شیطان اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کو تک بندی کہہ کر ان دونوں عظیم شخصیات کی توہین و گستاخی کی۔
ابھی عمر رض کے بارے میں قول کی بات ہو رہی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی بات پھر کیجیے گا۔
یہ شرط فضول نہیں جناب آپ کی بات فضول ہے۔ (ظاہر ہے اتنے بڑے اہل علم ہیں کہ نکرہ اور معرفہ سے معنی بدلنا نہیں پتا تو کام کی بات تو کم ہی فرمائیں گے۔ جملہ معترضہ)
جناب عالی اس روایت میں ذکر کی گئی روایت کو ایک معنی پر محمول کیا جا رہا ہے جب کہ وہ دوسرے معنی کی گنجائش کیا، رکھتا ہی دوسرا معنی ہے۔ ذرا واضح معنی لائیں جس میں ایسا احتمال نہ ہو۔

ویسے آپ لوگ دوسروں سے مطالبات تو بہت کرتے ہو اور انہیں اصول بتاتے بھی نہیں تھکتے۔ لیکن اپنا کوئی اصول خود پر لاگو نہیں کرتے۔ اشماریہ صاحب کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ جب بھی حنفی مصنفین کسی راوی پر جرح یا اسکی مذمت نقل کرتے ہیں کیا کبھی ان شرائط کا پاس و لحاظ کرتے ہیں؟
آپ تو فی الحال پورا کریں ان شرائط کو۔ یا کہہ دیں کہ میں ان شرائط کو نہیں مانتا۔ ہم تو کہہ سکتے ہیں۔ آپ بھی کہہ دیجیے۔


بہرحال ہر پڑھنے والا یہ جان لے گا کہ آپ ترجمے کی غلطی کا بہانہ کرکے تصحیح کے نام پر جو ترجمہ پیش کررہے ہیں اس سے بھی ابوحنیفہ پر سے صحابی کی گستاخی کا الزام رفع نہیں ہورہا۔ بات وہیں کی وہیں ہے۔
آپ ایسا کریں کہ آپ ہماری پیش کردہ روایت کا مکمل ترجمہ کریں جو آپ کے نزدیک صحیح ہو۔ پھر واضح ہوجائیگا کہ جو آپ ثابت کرنا چاہ رہے ہو کہ ابوحنیفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی طرف شیطانیت کی نسبت نہیں کی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ان شاء اللہ


پڑھنے والا تو اگر علم رکھتا ہوگا تو میری بات واضح سمجھ جائے گا۔
میں نے باقی عبارت میں آپ کے پیش کیے ہوئے ترجمے کا اعتبار کیا ہے تا کہ اس سے آپ کو انکار نہ ہو۔

میں واشگاف الفاظ میں عرض کرتا ہوں۔
معرفہ تعیین پر دلالت کرتا ہے اور نکرہ غیر معین ہوتا ہے۔
ذاک قول شیطانٍ کا مطلب ہے یہ (غیر معین، جس کی تعیین نہ ہو، جو معین نہ ہو، جس کا ترجمہ کسی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے) کسی شیطان کا قول ہے۔

پوچھا گیا: عمر کی روایت کے بارے میں کیا خیال ہے۔ کہا: وہ کسی شیطان کا قول ہے۔
یعنی؟؟؟؟ عمر کی طرف اس روایت کی نسبت غلط ہے یہ تو کسی شیطان کا قول ہے جسے اس نے عمر رض سے روایت بنا دیا ہے۔

اب آپ کو اس کا رد کرنا ہو تو باقاعدہ کسی دلیل یا قاعدے سے کیجئے گا۔ اپنی سمجھ کے گھوڑے نہیں دوڑائیے گا۔
ابھی تو آپ کی طرف سے ثبوت پر بات ہو رہی ہے ہمارے رد کی باری تو بعد میں آئے گی۔
اب جب اس مسئلہ کو دلیل کے ساتھ حل فرمائیں گے تب آگے بات ہوگی ان شاء اللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ وہ واحد متقدم عالم ہیں جنھوں نے ابوحنیفہ کی حمایت میں پہلی مرتبہ قلم اٹھایا ورنہ اس سے پہلے محدثین اور علماء کا ابوحنیفہ کی مذمت پر اتفاق رہا ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ابوحنیفہ کے بارے میں موقف غلط ہونے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ ان سے بڑے اور عظیم محدثین و علماء کا موقف انکے خلاف ہے۔ اور دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کا دفاع یا حمایت کرتے ہوئے کوئی مضبوط دلیل ذکر نہیں کی صرف احتمالات پیش کئے ہیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے احتمالات ابوحنیفہ کے بارے میں حسن ظن کے زمرے میں تو آسکتے ہیں لیکن دلیل نہیں بن سکتے اور اہل حدیث دلیل کی پیروی کرتے ہیں اور تقلید کی لعنت سے کوسوں دور ہیں۔والحمدللہ۔



ابو حنیفہ کی مذمت پر اتفاق۔۔۔۔ اہل حدیث دلیل کی پیروی۔۔۔۔۔۔
اسی پر دلیل دے دیں کہ مذمت پر اتفاق ہے۔

جس کی توقع علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے ثقہ امام سے بعید ہے۔ یہ کوئی حنفی تھوڑی تھے جو باآسانی اور دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے۔
ارے نہیں یار یہ تو بلا دلیل بات ہو گئی۔ جھوٹ کو جھوٹ بولیں نا۔

چلیں اس مسئلہ کو تھریڈ کے مسئلہ کے بعد الگ تھریڈ میں لائیے گا۔ پہلے یہ ثابت ہو جائے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
اشماریہ صاحب ہمیں تو بالکل بھی اس بات کی آپ سے توقع نہیں کہ آپ اپنے امام یا علماء کی زبان یا تحریروں سے نکلی ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی گستاخیوں کو گستاخی تسلیم کرینگے کیونکہ آپ کے مذہب میں تو امام کا قول ہی آخری دلیل ہے۔قرآن وحدیث بھی جس کی مخالفت میں آنے کی وجہ سے منسوخ ہوجاتے ہیں۔ چونکہ آپ لوگ عملا ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے معبود کی کسی غلط بات کو غلط تسلیم کرلینگے۔ اب اوکاڑوی ہی کی مثال لے لیں کہ اسکی خباثتیں اور زبان درازی بھی آپ کو بری معلوم نہیں ہورہی۔ اور آپ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دوران نماز گدھی اور کتیا کی شرمگاہوں کو دیکھنے کی نسبت انکی گستاخی نہیں ہے۔ یعنی آپ نے شرم وحیا سے ہاتھ دھو لئے لیکن اپنی اکابر پرستی سے ہاتھ نہیں اٹھایا۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں آپ نے ایک ساتھ تین بحثیں چھیڑ دی ہیں ایک روایت کی سند پر اعتراض ایک ترجمے پر اعتراض اور ایک اسکے متن پر اعتراض۔ چونکہ اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور آپ اس پر معترض ہونے کے باوجود اپنا اعتراض نہیں بتا رہے تو ہمارے مطابق آپ کے نزدیک بھی اسکی سند صحیح ہے۔ دوسری گزارش آپ سے یہ ہے کہ چونکہ آپ ترجمہ پر غیرمطمئن ہیں اس لئے اس روایت کا مکمل ترجمہ نقل کردیں جو آپکے نزدیک صحیح ہو پھر ترجمہ پر بات ہوجانے کے بعد دیگر باتوں کو دیکھیں گے۔ ان شاء اللہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اشماریہ صاحب ہمیں تو بالکل بھی اس بات کی آپ سے توقع نہیں کہ آپ اپنے امام یا علماء کی زبان یا تحریروں سے نکلی ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی گستاخیوں کو گستاخی تسلیم کرینگے کیونکہ آپ کے مذہب میں تو امام کا قول ہی آخری دلیل ہے۔قرآن وحدیث بھی جس کی مخالفت میں آنے کی وجہ سے منسوخ ہوجاتے ہیں۔ چونکہ آپ لوگ عملا ابوحنیفہ کی عبادت کرتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ اپنے معبود کی کسی غلط بات کو غلط تسلیم کرلینگے۔ اب اوکاڑوی ہی کی مثال لے لیں کہ اسکی خباثتیں اور زبان درازی بھی آپ کو بری معلوم نہیں ہورہی۔ اور آپ یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دوران نماز گدھی اور کتیا کی شرمگاہوں کو دیکھنے کی نسبت انکی گستاخی نہیں ہے۔ یعنی آپ نے شرم وحیا سے ہاتھ دھو لئے لیکن اپنی اکابر پرستی سے ہاتھ نہیں اٹھایا۔

میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہاں آپ نے ایک ساتھ تین بحثیں چھیڑ دی ہیں ایک روایت کی سند پر اعتراض ایک ترجمے پر اعتراض اور ایک اسکے متن پر اعتراض۔ چونکہ اس روایت کی سند بالکل صحیح ہے اور آپ اس پر معترض ہونے کے باوجود اپنا اعتراض نہیں بتا رہے تو ہمارے مطابق آپ کے نزدیک بھی اسکی سند صحیح ہے۔ دوسری گزارش آپ سے یہ ہے کہ چونکہ آپ ترجمہ پر غیرمطمئن ہیں اس لئے اس روایت کا مکمل ترجمہ نقل کردیں جو آپکے نزدیک صحیح ہو پھر ترجمہ پر بات ہوجانے کے بعد دیگر باتوں کو دیکھیں گے۔ ان شاء اللہ
میں آپ کے ترجمے سے مطمئن ہوں۔ جہاں اعتراض تھا وہاں لکھ دیا۔
آپ ایسا کریں اپنے ترجمے میں میرے الفاظ شامل کر کے یہاں لگا دیں۔
(یاد رہے یہ صرف قول شیطان تک کے ترجمے کی بات ہو رہی ہے۔)
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
أخبرنا ابن رزق، أَخْبَرَنَا أَحْمَد بْن جعفر بْن سلم، حَدَّثَنَا أحمد بن علي الأبار، حدّثنا محمّد بن يحيى النّيسابوريّ- بنيسابور- حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرِ عَبْدُ اللَّه بْنُ عَمْرِو بن أبي الحجّاج ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ قَالَ: كُنْتُ بِمَكَّةَ- وَبِهَا أَبُو حَنِيفَةَ- فَأَتَيْتُهُ وَعِنْدَهُ نَفَرٌ، فَسَأَلَهُ رَجُلٌ عَنْ مَسْأَلَةٍ، فَأَجَابَ فِيهَا، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: فَمَا رِوَايَةٌ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ؟ قَالَ: ذَاكَ قَوْلُ شَيْطَانٍ.

چلیں میں خود کر دیتا ہوں۔
ہمیں ابن رزق نے خبر دی، کہ ہمیں احمد بن جعفر بن سلم نے خبر دی، کہ ہمیں احمد بن علی الابار نے بیان کیا، کہ ہمیں محمد بن یحیی نیسابوری نے نیسابور میں بتایا، کہ ہمیں ابو معمر عبد اللہ بن عمرو بن ابی الحجاج نے بتایا، کہ ہمیں عبد الوارث نے بتایا: میں مکہ میں تھا اور وہاں ابو حنیفہ بھی تھے تو میں ان کے پاس آیا اور ان کے پاس ایک جماعت بھی تھی تو ایک شخص نے ایک مسئلہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا۔ اس شخص نے کہا: تو عمر رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں ایک روایت کیا ہے (یعنی آپ اس کی حیثیت کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟)۔ فرمایا: وہ کسی شیطان کا قول ہے۔

اب عقل سے سوچیں اگر عمر رض کو شیطان کہنا ہوتا تو الفاظ یہ ہوتے۔
وہ تو شیطان ہے۔ یا یہ اس شیطان کی روایت ہے۔ یا کم از کم وہ "اس" شیطان کا قول ہے۔
عربی میں اس آخری والے لفظ کو ذاک قول "الشیطان" سے تعبیر کرتے ہیں نہ کہ ذاک قول شیطانٍ سے۔

جب اس کا معنی یہ "کسی شیطان کا قول" ہے تو پھر آگے مزید اعتراض نکلتے ہیں جو ان شاء اللہ اس کا مسئلہ حل ہونے پر۔
اب مہربانی فرمائیے دلیل سے بات کیجیے گا۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
شاہد نذیر بھائی میں منتظر ہوں۔
آپ غالبا اس بحث کو بھول جاتے ہیں۔ مجھے یاد دلانی پڑتی ہے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
شاہد نذیر بھائی میں منتظر ہوں۔
آپ غالبا اس بحث کو بھول جاتے ہیں۔ مجھے یاد دلانی پڑتی ہے۔
جی نہیں ایسی کوئی بات نہیں میں بھولتا نہیں ہوں مصروفیت آڑے آجاتی ہے۔اور ویسے بھی چونکہ آپ نے عربی گرائمر کی بحث چھیڑ دی ہے جو میرے بس کی بات نہیں اس لئے ایک بھائی سے اس سلسلے میں مدد مانگی ہے ہوسکتا ہے کہ وہ خود اس دھاگے میں آپکے ترجمہ پر اعتراض کا جواب دیں۔اس لئے تھوڑے سے انتظار کی زحمت گوارا کیجئے۔

اشماریہ صاحب میں نے آپ سے درخواست کی تھی کہ آپ روایت کا مکمل ترجمہ کردیں لیکن آپ نے جان بوجھ کر صرف ایک حصہ کا ترجمہ کیا لیکن عربی زبان کےاصول سے قطع نظر آپ نے روایت کا جو ترجمہ کیا ہے وہ بے ربط اور بے معنی محسوس ہورہا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ آپ نے ترجمے میں ڈنڈی مارنے کی کوشش کی ہے اور غلط ترجمہ کیا ہے۔ جب ابوحنیفہ نے عمررضی اللہ عنہ کے قول کے بارے میں کہا کہ یہ شیطان کا قول ہے تو راوی نے فطری طور پر حیرت اور تعجب کا اظہار کیا دیکھئے فَقَالَ لِي رَجُلٌ: أَتَعْجَبُ؟ لیکن آپ نے ترجمہ کرتے وقت راوی کے ان الفاظ کا ترجمہ اس لئے نہیں کیا کہ آپ کا ترجمہ غلط تھا اور اس میں راوی کے ان الفاظ کی کوئی گنجائش ہی نہیں بنتی تھی۔ ظاہر ہے جب آپ کے مطابق ابوحنیفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اس قول کی نسبت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسی شیطان کا قول ہے تو اس میں راوی کے تعجب کرنے کا جواز نہیں بنتا۔ اس کے علاوہ آپ کے ترجمے کے غلط ہونے کی جو سب سے بڑی دلیل ہے وہ اس راوی کے آخری الفاظ ہیں هَذَا مَجْلِسٌ لا أَعُودُ فِيهِ أَبَدًا. یعنی میں اس مجلس (ابوحنیفہ کی مجلس) میں دوبارہ نہیں آونگا۔ اگر آپ کے مطابق ابوحنیفہ نے نہ تو عمر رضی اللہ کے خلاف بدزبانی کی اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو راوی نے آئندہ ابوحنیفہ کی مجلس میں آنے سے کیوں توبہ کی؟؟؟
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top