اگر اس بات کی روشنی میں ہم ابوحنیفہ کا معاملہ دیکھیں تو محدیثین کی معقول اکثریت نے ابوحنیفہ کی مذمت کی ہے اس لئے حق یہی ہے اگر کوئی ابوحنیفہ کی مذمت نہ کرے تو کم ازکم ابوحنیفہ کا دفاع بھی نہ کرے۔
محترم بھائی محدثین نے جب کسی کا رد کیا ہے تو وہ دو پہلوؤں سے کیا ہے ایک بطور راوی قبولیت کے لحاظ سے اور دوسرا مسلمان ہونے کا ہی انکار کرنے کے لحاظ سے
پہلی کا تو کوئی انکار نہیں کرتا بلکہ وہ تو اور بھی بہت سے علماء کے بارے میں آتا ہے مثلا ابن سیریں رحمہ اللہ وغیرہ مگر دوسری جگہ انکو امام بھی مانا جاتا ہے
البتہ مسلمان ہونے سے انکار والی جو مذمت آپ نے بتائی ہے وہ میرے خیال میں محدثین کی اکثریت تو کیا اقلیت نے بھی نہیں کی
آپ کچھ محدثین کے ان اقوال مع دلائل کو پیش کریں جو انکو اسلام سے خآرج کرتے ہیں کیونکہ اہل حدیث خالی قول نہیں بلکہ دلیل کا اعتبار کرتا ہے تاکہ دیکھا جا سکے کہ کتنی اکثریت انکو مسلمان نہیں سمجھتی
آپ مجھے بتا دیں کہ محدثین جو بجا طور پر سلف صالحین تھے ان بڑی ہستیوں کے مقابلے میں پاکستان کے اہل حدیث علماء کی کیا حیثیت ہے؟ اکابرین کو چھوڑ کر اصاغرین اور افضل کو چھوڑ کر مفضول کا موقف اپنا لینا کون سی عقل مندی ہے؟
محترم بھائی ایک بات تو یہ کہ آپ کے مطابق ہم مقلد نہیں پس ہمیں تو دلیل چاہئے آج بھی اگر کوئی کسی کو کافر کہتا ہے تو ہم اس سے دلیل پوچھتے ہیں پس اگر آپ کسی محدث کے بارے میں یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ انکو کافر سمجھتا تھا تو اسکی دلیل تو لازمی ہو گی اور اگر آپ بغیر دلیل کے موقف رکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو اکثریت کو ثابت کرنا پڑے گا
یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس مجلس میں جو واقع ہوا اس کے بعد بھی لوگ ابوحنیفہ کی مجلس میں شامل ہوتے رہے یعنی یہ دلیل ہے کہ ابوحنیفہ نے صحابی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی نہیں کی۔ سبحان اللہ! میرے بھائی جو لوگ اور راوی اس خاص مجلس میں موجود تھے کیا آپ ان کے بارے میں ثابت کرسکتے ہیں کہ اس واقع کے بعد بھی وہ ابوحنیفہ کی مجلس کا حصہ رہے۔
محترم بھائی یہ میں نے نہیں بلکہ آپ نے دلیل بنائی تھی کہ چونکہ راوی نے تعجب ظاہر کیا تھا پس ثابت ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کوئی کفریہ بات کی تھی تو محترم بھائی میرا سوال اب بھی یہ ہے کہ کسی بڑے عالم کی کفریہ بات پر کیا صرف اتنا تعجب سوچا جا سکتا ہے جس کے لیے میں نے محترم حافظ سعید ضفظہ اللہ کی مثال دی تھی مگر آپ نے جواب نہیں دیا کہ اگر وہ اسی طرح کی بات کسی کے سامنے کریں تو سامنے والا مسلمان بس اتنا ہی تعجب کرے گا
ہر صحیح حدیث چاہے اسکا متن جو بھی ہو ہر اہل حدیث قبول کرتا ہے۔
محترم بھائی یہاں بات متن کو قبول کرنے کی نہیں اس متن کے مفہوم کو دو احتمالات ہوتے ہوئے کمزور مفہوم پر محمول کرنے کی ہو رہی ہے
یہی میں نے اوپر سوال پوچھا تھا کہ صحیح حدیث تو سجدہ میں ہاتھ رکھنے کی ہے مگر ابن باز رحمہ اللہ کیا اہل حدیث سے نکل جاتا ہے جب وہ اسکے مفہوم کو آپ کی مرضی کے مطابق قبول نہیں کرتا
اسی طرح کیا آپ اہل حدیث سے نکل جاتے ہیں جب آپ کلمہ کی بشارت والی حدیث کے مفہوم کو اس طرح نہیں سمجھتے جس طرح علی بہرام سمجھتا ہے
صحابی کا کسی دوسرے صحابی پر اعتراض کی صورت میں ہمارا مذہب خاموشی کا ہے کیونکہ ہر صحابی قطعی جنتی ہے۔ کہاں ایک جنتی صحابی اور کہاں ابوحنیفہ جن کی دین میں رائے نے ایک عظیم فتنے کا بیج بویا اور خلق کثیر کو گمراہ کیا۔ اہل حدیث مذہب میں صحابہ پر تنقید ناجائز اور حرام ہے۔اگر آپ کے پاس ابوحنیفہ پر تنقید کے حرام ہونے کی کوئی دلیل ہو تو پیش فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
اجتنبوا کثیرا من الظن والی آیت کس کے بارے میں ہے
محترم بھائی ہم نے کب کہا ہے کہ وہ غلطی سے مبرا تھے ہم تو صحابہ کو بھی غلطی سے مبرا نہیں کہتے بلکہ صحابہ سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں البتہ کسی پر خالی تنقید نہیں بلکہ اسلام سے خآرج کرنے کے لئے آپ کے پاس ایسے دلائل ہوں کہ جس میں ایک سے زیادہ احتمالات نہ ہو سکتے ہوں تو پھر آپ شوق سے یہ کام کریں مگر اس کے خلاف صورت میں تو آپ قرآن کی آیت کی ہی خلاف ورزی کر رہے ہوں گے
اور کسی دینی مسئلے میں رائے کا اختلاف ہوجانا تو معیوب بات نہیں نہ ہی اختلاف کرنے والوں پر تنقید درست ہے۔ لیکن زیر بحث روایت کا معاملہ قطعا مختلف ہے اس میں کسی دینی مسئلہ کا اختلاف نہیں بلکہ ابوحنیفہ کی عمر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں واضح گستاخی کی بات ہے۔ برائے مہربانی آپ کس بات کے جواب میں کیا پیش کررہے ہیں زرا سوچئے۔
یا للعجب
محترم بھائی یعنی دینی مسئلہ میں تو اختلاف ہو سکتا ہے جو معیوب نہیں مگر یہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو کافر شیعہ ثابت کرنا دینی مسئلہ ہی نہیں بلکہ صرف دنیاوی مسئلہ ہے اگر ایسا ہی ہے تو اس پر اتنا ٹائم ضائع کرنے کا فائدہ
دیکھیں ابن باز کا بخاری کی واضح حدیث کے انکار کی بات ہے کہ جس پر قرآن کہتا ہے کہ فلا وربک لا یومنون کہ تیرے رب کی قسم ایسے لوگ مومن ہی نہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے
پھر آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صحابہ کا معاملہ عموما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ خصوصا اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ایک مسلمان ایسے الفاظ بھی نہ استعمال کرے جس سے ان مبارک ہستیوں کی توہین کا کوئی ادنی سہ بھی پہلو نکلتا ہو۔ کیا ابوحنیفہ کو نبی اور صحابہ کے یہ آداب معلوم نہیں تھے؟ ابوحنیفہ کی بدزبانی اور بے باکی آپکے دفاع کو بہت کمزور کررہی ہے۔
میرا سوال یہ ہے
کہ آپ کے نزدیک جمہوریت کفر ہے اور آپ کے پاس اسکے صحیح دلائل بھی ہیں اور آپ کے پاس ایک معقول محدثین کی اکثریت بھی اس مسئلہ پر ہے
اب محترم ساجد میر حفظہ اللہ نے صوفی محمد کو چیلنج دیا تھا کہ
مجھ سے مناظرہ کر لو کہ جمہوریت جائز ہے
آپ ان حالات کی روشنی میں انصاف سے کام لیں اور ساجد میر حفظہ اللہ پر کفر کا حکم لگائیں اور بتائیں کہ یہاں شریعت کی توہین کا کوئی پہلو کیوں نہیں نکلتا ورنہ دلیل دیں جزاک اللہ خیرا