• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ذلك قول شيطانٍ کا مفہوم

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
بالکل صحیح فرمایا ابوحنیفہ کے بارے میں متقدمین کا موقف کچھ اور تھا اور متاخرین کا کچھ اور ہے۔ متقدمین ابوحنیفہ کی مذمت کرتے تھے اور متاخرین جھوٹی تعریفیں۔
کچھ یوں معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن تیمیہ بھی متاخرین میں شامل ہیں


كما أن أبا حنيفة وإن كان الناس خالفوه في أشياء وأنكروها عليه فلا يستريب أحد في فقهه وفهمه وعلمه، وقد نقلوا عنه أشياء يقصدون بها الشناعة عليه، وهي كذب عليه قطعا
منہاج السنہ 2۔619 جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية

جیسا کہ ابو حنیفہ اگر چہ انہوں (محدثین) نے کچھ چیزوں میں ان کی مخالفت کی ہے اور ان پر انکار کیا ہے۔ پس کسی ایک کو ان کی سمجھ، فہم اور علم میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور انہوں نے ان سے ایسی چیزوں کو نقل کیا ہے جن سے ان کی شناعت کا ارادہ کیا ہے حالانکہ وہ قطعی طور پر جھوٹ ہیں۔

کیا خیال ہے شاہد بھائی؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اپنے کسی دعوے کو ثابت کرنے کا معروف طریقہ یہی ہے جو میں نے اختیار کیا ہے۔ آپ علمائے دیوبند کی تمام تحریرات اٹھا کر دیکھ لیں کہ وہ اپنے دعویٰ پر جو روایت پیش کرتے ہیں عموما اسکی سند بھی بیان نہیں کرتے بس بلاسند روایت لکھ کر اسکے صحیح ہونے کا دعویٰ کردیتے ہیں۔ اور اہل حدیث کی کتابوں میں بھی عام طور پر یہی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے کہ باحوالہ روایت لکھ کر سندا صحیح لکھ دیا جاتا ہے۔ اب اگر اس روایت پر مخالف کی جانب سے پہلے ہی سے اعتراض ہو تو دلائل کے ذریعے اس اعتراض کو دور کردیا جاتا ہے اور اگر پہلے سے کوئی اعتراض موجود نہ ہوتو اعتراض سامنے آنے کی صورت میں دلائل دئے جاتے ہیں۔
کیا آپ نے معروف طریقہ میں یہ نہیں دیکھا کہ بسا اوقات مقابل کی طرف سے سند کی تحقیق مانگنے پر تحقیق بھی کر دی جاتی ہے؟ اگر نہیں دیکھا تو بھی احسانا آپ یہ تحقیق کر کے دے سکتے ہیں۔ ویسے میں شیخ معلمی کی شرائط کا ترجمہ کر دیتا ہوں جو آپ نے طلب فرمایا تھا۔ آپ ان شرائط کو پورا فرمادیں اس روایت میں۔

فإن المقالة المسندة، إذا كان ظاهرها الذم أو ما يقتضيه لا يثبت الذم إلا باجتماع عشرة أمور:
الأول: أن يكون الرجل المعين الذي وقع في الإسناد ووقعت فيه المناقشة ثقة.
الثاني: أن يكون بقية رجال الإسناد كلهم ثقات.
الثالث: ظهور اتصال السند تقوم به الحجة.
الرابع: ظهور أنه ليس هناك علة خفية يتبين بها انقطاع أو خطأ أو نحو ذلك مما يوهن الرواية.
الخامس: ظهور أنه لم يقع في المتن تصحيف أو تحريف أو تغيير قد توقع فيه الرواية بالمعنى.
السادس: ظهور أن المراد في الكلام ظاهره.
السابع: ظهور أن الذامّ بنى ذمه على حجة لا نحو أن يبلغه إنسان أن فلاناً قال كذا أو فعل كذا فيحسبه صادقاً وهو كاذب أو غالط.
الثامن: ظهور أن الذام بنى ذمه على حجة لا على أمر حمله على وجه مذموم وإنما وقع على وجه سائغ.
التاسع: ظهور أنه لم يكن للمتكلم فيه عذر أو تأويل فيما أنكره الذام.
العاشر: ظهور أن ذلك المقتضي للذم لم يرجع عنه صاحبه. والمقصود بالظهور في هذه المواضع الظهور الذي تقوم به الحجة.
وقد يزاد على هذه العشرة، وفيها كفاية.
فهذه الأمور إذا اختل واحد منها لم يثبت الذم، وهيهات أن تجتمع على باطل.
التنكيل بما في تأنيب الكوثري من الأباطيل 1۔188، المکتبۃ الاسلامی
نسبت کیے گئے کلام کا ظاہر اگر ذم ہو یا ایسی بات ہو جس کا مقتضی (ضمنا) مذمت ہو تو مذمت دس چیزوں کے جمع ہونے پر ہی ہوگی۔
اول: وہ معین شخص جو اسناد میں واقع ہے اور اس کے بارے میں مناقشہ ہو رہا ہے وہ ثقہ ہو۔
ثانی: اسناد کے باقی تمام رجال ثقہ ہوں۔
ثالث: اتصال سند ظاہر ہو جس سے دلیل قائی ہوتی ہے۔
رابع: یہ بات ظاہر ہو کہ اس میں ایسی کوئی مخفی علت نہ ہو جس سے انقطاع یا خطا یا اس جیسی کوئی اور چیز ظاہر ہوتی ہو جو کہ روایت کو کمزور کرے۔
خامس: یہ ظاہر ہو کہ متن میں تصحیف، تحریف یا ایسی تغییر نہ ہو جس میں روایت بالمعنی متوقع ہو۔
سادس: یہ ظاہر ہو کہ کلام سے اس کا ظاہر ہی مراد ہے۔
سابع: یہ ظاہر ہو کہ مذمت کرنے والے نے مذمت کسی حجت کی بنا پر کی ہو اس مثال کی طرح نہیں کہ اسے کسی انسان نے بتایا کہ فلاں نے یہ کہا یا یہ کیا تو اس نے اسے سچا، جھوٹا یا غلطی پر سمجھ لیا ہو۔
ثامن: یہ ظاہر ہو کہ مذمت کرنے والے نے مذمت کسی حجت کی بنا پر کی ہو نہ کہ ایسے معاملے میں کہ اس نے اسے مذموم طریقے پر محمول کیا ہو اور اس میں گنجائش ہو۔
تاسع: یہ ظاہر ہو کہ جس کے بارے میں بات ہو رہی ہے اس کے پاس عذر نہ ہو یا جس بارے میں مذمت کر رہا ہو اس میں تاویل نہ ہو۔
عاشر: یہ بات ظاہر ہو کہ جو امر مذمت کا تقاضا کر رہا ہے اس سے بولنے والے نے رجوع بھی نہ کیا ہو۔
اور ظاہر ہونے سے مراد ان جگہوں میں وہ ظاہر ہونا ہے جس سے حجۃ قائم ہو سکے۔
کبھی ان دس سے زائد بھی ہوتے ہیں لیکن یہ کافی ہیں۔
یہ وہ امور ہیں کہ ان میں سے ایک میں بھی خلل آ جائے تو مذمت ثابت نہیں ہوتی۔ اور کتنی بعید بات ہے کہ آپ باطل پر جمع ہو جائیں۔

تو شاہد نذیر بھائی مجھے امید ہے کہ آپ نے ان امور کو جمع فرمایا ہوگا۔ بس وہ جمع شدہ یہاں بھی بھیج دیجیے۔ اور اگر جمع نہیں فرمایا تو مذمت آپ کے ہاں نہیں ثابت ہوئی مجھ پر کیسے ثابت کریں گے؟

عربی نہ آنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ میں اردو میں لکھے گئے کسی بحث کے نتیجے کو بھی نہیں سمجھ سکتا۔ آپ نے نکرہ معرفہ کی بحث کرکے جو نتیجہ نکالا تھا کہ اس کا صحیح ترجمہ ''کسی شیطان کا قول'' ہوگا۔ ہم نے اس نتیجہ کو قبول کرتے ہوئے بتادیا کہ اس صورت میں بھی ابوحنیفہ پر سے جلیل القدر صحابی کی شدید گستاخی کا الزم رفع نہیں ہوتا۔
یا للعجب۔ جب آپ کو عربی نہیں آتی تو آپ تحقیق کیسے فرما لیتے ہیں؟

پوچھا گیا: عمر رض کی روایت کیا ہے؟ (یعنی کیا خیال ہے) کہا: وہ کسی شیطان کا قول ہے۔
پوچھا روایت کے بارے میں گیا ہے۔ کہا بھی روایت کے بارے میں ہے۔ یعنی عمر رض کی طرف اس روایت کی نسبت کسی شیطان نے کی ہے۔ آپ نے وہ نتیجہ کہاں سے نکال لیا؟ اور کیا آپ کا نتیجہ ساری دنیا کے لیے قابل تقلید ہے؟ جبکہ آپ کو وہ زبان ہی نہیں آتی جس کی بنا پر اعتراض ہے۔
شیخ معلمی کی بھی کئی شرائط یہاں پوری نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر۔
ثامن: یہ ظاہر ہو کہ مذمت کرنے والے نے مذمت کسی حجت کی بنا پر کی ہو نہ کہ ایسے معاملے میں کہ اس نے اسے مذموم طریقے پر محمول کیا ہو اور اس میں گنجائش ہو۔
جناب عالی یہاں آپ نے ثابت کرنا ہے۔ نہ گھوڑا دور نہ میدان۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، کیجیے ثابت۔

ویسے جناب ارسلان بھائی فرمارہے تھے کہ آپ کی کافی نظر ہے فقہ حنفی پر۔ فقہ حنفی اور اصول فقہ کا اکثر حصہ تو عربی میں ہے۔ آپ نے کیسے نظر فرمائی؟

یہ تو ہمیں یقین ہے کہ ثابت ہونے کی صورت میں بھی آپ کنی کترا کر گزر جائیں گے اور ابوحنیفہ سے براءت کا اظہار نہیں کرینگے کیونکہ آپ کے مذہب میں ابوحنیفہ کے اقوال کے بالمقابل قرآن وحدیث کو ترک کرکے کلام اللہ اور فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براءت کا اظہارکردیا جاتا ہے اور ہمیشہ سے حنفیوں کی یہی روایت رہی ہے اور یہ روایت اسی وقت ٹوٹتی ہے جب کوئی حنفی اپنے مذہب سے براءت کا اظہار کرتا ہے۔
یہ غلط ہے میرے فاضل دوست۔ صحیح یہ ہے کہ آپ کو احناف کے دلائل کا نہ تو علم ہوتا ہے اور نہ آپ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ایک جانب سے احادیث دیکھ کر تو یہ اعتراض مناسب نہیں۔ (حقیقت یہ ہے کہ میں نے مناسب کا لفظ آپ کے احترام میں استعمال کیا ہے)۔
عرض یہ بھی ہے کہ اپنے مضمون کا حوالہ نہ دیجیے گا۔ وہ میں پڑھ چکا ہوں اور اسی کی بنا پر یہ کہہ رہا ہوں۔
 
شمولیت
نومبر 14، 2013
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
43
ہم کچھ عرض کریں تو گستاخی ہوگی
--------------------------
مشہور مورخ اسحق بھٹی صاحب مولانا داود غزنوی مرحوم کے تذکرہ میں تحریر فرماتے ہیں۔" ايک دن میں ان کی خدمت میں حاضر تھا کہ جماعت اہلحدیث کی تنظیم سے متعلق گفتگو شروع ہوئی، بڑے درد ناک لہجے میں فرمایا:
مولوی اسحق! جماعت اہلحدیث کو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے، ہر شخص ابو حنیفہ ابو حنیفہ کہہ رہا ہے، کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے تو امام ابو حنیفہ کہہ دتیا ہے،پھر ان کے بارے میں ان کی تحقیق يہ ہے کہ وہ تین حدیثیں جانتے تھے، یا زیادہ سے زیادہ گیارہ اگر کوئی بڑا احسان کرے تو وہ سترہ حدیثوں کا عالم گردانتا ہے، جولوگ اتنے جلیل القدر امام کے بارے میں يہ نقطہ نظر رکھتے ہوں ان میں اتحاد ويک جہتی کیوں کر پیدا ہو سکتی ہے۔
یا غربتہ العلم انما اشکو بثی وحزنی الی اﷲ
( حضرت مولانا دجود غزنوی رحمہ اﷲ علیہ، ترتیب و تحریر ابوبکر غزنوی ص136)
ايک موقعہ پر آپ نے فرمایا:
" دوسرے لوگوں کی شکایت کہ اہل حدیث حضرات ائمہ اربعہ کی توہین کرتے ہیں بلاوجہ نہیں ہے اور میں ديکھ رہا ہوں کہ ہمارے حلقہ میں عوام اس گمراہی میں مبتلا ہو رہے ہی اور ائمہ کرام کے اقوال کا تذکرہ حقارت کے ساتھ بھی کر جاتے ہیں، يہ رجحان سخت گمراہ کن اور خطرناک ہے اور ہمیں سختی کے ساتھ اس کو روکنے کی کوشش کرنی چاہيے"
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
( حضرت مولانا دجود غزنوی رحمہ اﷲ علیہ، ترتیب و تحریر ابوبکر غزنوی ص87)
 
شمولیت
نومبر 14، 2013
پیغامات
177
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
43
واقعی
ذَاكَ قَوْلُ شَيْطَانٍ.۔۔۔اور ۔۔۔۔ ذَاكَ قَوْلُ الشَيْطَانٍ. میں فرق ہے
 
شمولیت
مارچ 06، 2013
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
54
پوائنٹ
42
! جماعت اہلحدیث کو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے، ہر شخص ابو حنیفہ ابو حنیفہ کہہ رہا ہے، کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے تو امام ابو حنیفہ کہہ دتیا ہے،پھر ان کے بارے میں ان کی تحقیق يہ ہے کہ وہ تین حدیثیں جانتے تھے، یا زیادہ سے زیادہ گیارہ اگر کوئی بڑا احسان کرے تو وہ سترہ حدیثوں کا عالم گردانتا ہے،
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
شاہد نذیر بھائی میں منتظر ہوں۔
اگر ثابت نہیں کر پا رہے تو اپنے وعدے کے مطابق اعلان فرما دیجیے کہ آئیندہ کبھی یہ الزام ابو حنیفہ رح پر نہیں لگائیں گے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
کچھ یوں معلوم ہوتا ہے کہ امام ابن تیمیہ بھی متاخرین میں شامل ہیں


كما أن أبا حنيفة وإن كان الناس خالفوه في أشياء وأنكروها عليه فلا يستريب أحد في فقهه وفهمه وعلمه، وقد نقلوا عنه أشياء يقصدون بها الشناعة عليه، وهي كذب عليه قطعا
منہاج السنہ 2۔619 جامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية

جیسا کہ ابو حنیفہ اگر چہ انہوں (محدثین) نے کچھ چیزوں میں ان کی مخالفت کی ہے اور ان پر انکار کیا ہے۔ پس کسی ایک کو ان کی سمجھ، فہم اور علم میں کوئی شک نہیں ہے۔ اور انہوں نے ان سے ایسی چیزوں کو نقل کیا ہے جن سے ان کی شناعت کا ارادہ کیا ہے حالانکہ وہ قطعی طور پر جھوٹ ہیں۔

کیا خیال ہے شاہد بھائی؟
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ وہ واحد متقدم عالم ہیں جنھوں نے ابوحنیفہ کی حمایت میں پہلی مرتبہ قلم اٹھایا ورنہ اس سے پہلے محدثین اور علماء کا ابوحنیفہ کی مذمت پر اتفاق رہا ہے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا ابوحنیفہ کے بارے میں موقف غلط ہونے کی پہلی دلیل یہ ہے کہ ان سے بڑے اور عظیم محدثین و علماء کا موقف انکے خلاف ہے۔ اور دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کا دفاع یا حمایت کرتے ہوئے کوئی مضبوط دلیل ذکر نہیں کی صرف احتمالات پیش کئے ہیں۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے احتمالات ابوحنیفہ کے بارے میں حسن ظن کے زمرے میں تو آسکتے ہیں لیکن دلیل نہیں بن سکتے اور اہل حدیث دلیل کی پیروی کرتے ہیں اور تقلید کی لعنت سے کوسوں دور ہیں۔والحمدللہ۔

اور انہوں نے ان سے ایسی چیزوں کو نقل کیا ہے جن سے ان کی شناعت کا ارادہ کیا ہے حالانکہ وہ قطعی طور پر جھوٹ ہیں۔
چونکہ ابوحنیفہ کی مذمت میں کچھ ایسے اقوال و روایات بھی کتابوں میں درج ہوگئیں ہیں جو کمزور اسناد کی وجہ سے قابل قبول نہیں اگرچہ ایسی روایات کم ہیں لہٰذا ایسی روایات و اقوال کو جھوٹ کہنا تو صحیح ہے۔ اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی اس بات کو ہم اسی پر محمول کرتے ہیں کہ ابوحنیفہ کے متعلق وہ انہیں باتوں اور اقوال کو جھوٹ کہہ رہے ہیں جو واقعتاً جھوٹ ہیں۔ اسکے برعکس مطلقاً یہ سمجھنا کہ روایات میں جو کچھ بھی ابوحنیفہ کی مذمت آئی ہے جھوٹ ہے تو یہ بذات خود بہت بڑا جھوٹ ہے۔ جس کی توقع علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے ثقہ امام سے بعید ہے۔ یہ کوئی حنفی تھوڑی تھے جو باآسانی اور دیدہ دلیری سے جھوٹ بولتے۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
آپ ان شرائط کو پورا فرمادیں اس روایت میں۔

نسبت کیے گئے کلام کا ظاہر اگر ذم ہو یا ایسی بات ہو جس کا مقتضی (ضمنا) مذمت ہو تو مذمت دس چیزوں کے جمع ہونے پر ہی ہوگی۔
اول: وہ معین شخص جو اسناد میں واقع ہے اور اس کے بارے میں مناقشہ ہو رہا ہے وہ ثقہ ہو۔
ثانی: اسناد کے باقی تمام رجال ثقہ ہوں۔
ثالث: اتصال سند ظاہر ہو جس سے دلیل قائی ہوتی ہے۔
یہ تینوں شرائط ہماری روایت میں موجود ہیں کیونکہ سند کے تمام راوی ثقہ و صدوق ہیں۔الحمدللہ

رابع: یہ بات ظاہر ہو کہ اس میں ایسی کوئی مخفی علت نہ ہو جس سے انقطاع یا خطا یا اس جیسی کوئی اور چیز ظاہر ہوتی ہو جو کہ روایت کو کمزور کرے۔
ہم نے صحیح روایت پیش کی ہے۔ اور کوئی روایت اسی وقت ہی صحیح ہوتی ہے جب اس میں کوئی مخفی علت نہ ہو۔

خامس: یہ ظاہر ہو کہ متن میں تصحیف، تحریف یا ایسی تغییر نہ ہو جس میں روایت بالمعنی متوقع ہو۔
سادس: یہ ظاہر ہو کہ کلام سے اس کا ظاہر ہی مراد ہے۔
الحمدللہ نہ تو یہ راویت بالمعنی ہے اور نہ ہی اس میں اس بات کا کوئی امکان کہ ظاہر مراد نہ ہو۔

سابع: یہ ظاہر ہو کہ مذمت کرنے والے نے مذمت کسی حجت کی بنا پر کی ہو اس مثال کی طرح نہیں کہ اسے کسی انسان نے بتایا کہ فلاں نے یہ کہا یا یہ کیا تو اس نے اسے سچا، جھوٹا یا غلطی پر سمجھ لیا ہو۔
ثامن: یہ ظاہر ہو کہ مذمت کرنے والے نے مذمت کسی حجت کی بنا پر کی ہو نہ کہ ایسے معاملے میں کہ اس نے اسے مذموم طریقے پر محمول کیا ہو اور اس میں گنجائش ہو۔
تاسع: یہ ظاہر ہو کہ جس کے بارے میں بات ہو رہی ہے اس کے پاس عذر نہ ہو یا جس بارے میں مذمت کر رہا ہو اس میں تاویل نہ ہو۔
عاشر: یہ بات ظاہر ہو کہ جو امر مذمت کا تقاضا کر رہا ہے اس سے بولنے والے نے رجوع بھی نہ کیا ہو۔
اور ظاہر ہونے سے مراد ان جگہوں میں وہ ظاہر ہونا ہے جس سے حجۃ قائم ہو سکے۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہ تمام شرائط اس روایت کے لئے ہے جس میں کسی کا قول کسی کی مذمت یا جرح میں پیش کیا جارہا ہو۔ ہماری پیش کردہ روایت پر یہ تمام شرائط لاگو نہیں ہونگی کیونکہ ہم نے کسی کا ابوحنیفہ کی مذمت میں قول نہیں بلکہ خود ابوحنیفہ کی عمررضی اللہ عنہ کی شان میں براہ راست گستاخی پیش کی ہے۔

کبھی ان دس سے زائد بھی ہوتے ہیں لیکن یہ کافی ہیں۔
یہ وہ امور ہیں کہ ان میں سے ایک میں بھی خلل آ جائے تو مذمت ثابت نہیں ہوتی۔ اور کتنی بعید بات ہے کہ آپ باطل پر جمع ہو جائیں۔
تو شاہد نذیر بھائی مجھے امید ہے کہ آپ نے ان امور کو جمع فرمایا ہوگا۔ بس وہ جمع شدہ یہاں بھی بھیج دیجیے۔ اور اگر جمع نہیں فرمایا تو مذمت آپ کے ہاں نہیں ثابت ہوئی مجھ پر کیسے ثابت کریں گے؟
ویسے آپ لوگ دوسروں سے مطالبات تو بہت کرتے ہو اور انہیں اصول بتاتے بھی نہیں تھکتے۔ لیکن اپنا کوئی اصول خود پر لاگو نہیں کرتے۔ اشماریہ صاحب کیا آپ بتانا پسند فرمائیں گے کہ جب بھی حنفی مصنفین کسی راوی پر جرح یا اسکی مذمت نقل کرتے ہیں کیا کبھی ان شرائط کا پاس و لحاظ کرتے ہیں؟

یا للعجب۔ جب آپ کو عربی نہیں آتی تو آپ تحقیق کیسے فرما لیتے ہیں؟
میں پہلے بھی کسی اور جگہ عرض کرچکا ہوں کہ چونکہ قرآن و حدیث کے علاوہ قرآن کی تفاسیر، شروحات حدیث اور دیگر کئی اہم کتابوں کے تراجم اردو زبان میں ہوچکے ہیں اس میں فقہ حنفی کی بھی کئی اہم کتابیں شامل ہیں جو اب صرف عربی زبان میں نہیں بلکہ اردو میں بھی دستیاب ہیں اس لئے اب ایک اردو دان کے لئے تحقیق بہت بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ آپ کو تو ابوحنیفہ پر حیرت کرنی چاہیے جنھیں عربی نہیں آتی تھی اور اس پر متزاد کہ انکے دور میں عربی کتابوں کے تراجم بھی نہیں ہوئے تھے اس لئے انکے اکثر اقوال یا تو غلط سلط یا قرآن و حدیث کے سراسر خلاف ہیں اور یہ عربی سے جہالت ہی کے کرشمے ہیں۔

پوچھا گیا: عمر رض کی روایت کیا ہے؟ (یعنی کیا خیال ہے) کہا: وہ کسی شیطان کا قول ہے۔
پوچھا روایت کے بارے میں گیا ہے۔ کہا بھی روایت کے بارے میں ہے۔ یعنی عمر رض کی طرف اس روایت کی نسبت کسی شیطان نے کی ہے۔ آپ نے وہ نتیجہ کہاں سے نکال لیا؟ اور کیا آپ کا نتیجہ ساری دنیا کے لیے قابل تقلید ہے؟ جبکہ آپ کو وہ زبان ہی نہیں آتی جس کی بنا پر اعتراض ہے۔
آپکی ہٹ دھرمی اور فضول اعتراضات سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ آپ کا بھی شمار ابوحنیفہ کے ان اندھے مقلدین میں ہوتا ہے جو اللہ اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے بڑھکر اپنے امام کا دفاع ضروری سمجھتے ہیں چاہے اسکے لئے جھوٹ بولنا پڑے دھوکا دینا ہو، مغالطے سے کام چلانہ ہو یا کوئی تحریف کرنی ہو سب کچھ جائز ہے۔

بہرحال ہر پڑھنے والا یہ جان لے گا کہ آپ ترجمے کی غلطی کا بہانہ کرکے تصحیح کے نام پر جو ترجمہ پیش کررہے ہیں اس سے بھی ابوحنیفہ پر سے صحابی کی گستاخی کا الزام رفع نہیں ہورہا۔ بات وہیں کی وہیں ہے۔

آپ ایسا کریں کہ آپ ہماری پیش کردہ روایت کا مکمل ترجمہ کریں جو آپ کے نزدیک صحیح ہو۔ پھر واضح ہوجائیگا کہ جو آپ ثابت کرنا چاہ رہے ہو کہ ابوحنیفہ نے عمر رضی اللہ عنہ کی طرف شیطانیت کی نسبت نہیں کی کا بھانڈا پھوٹ جائے گا۔ان شاء اللہ

شیخ معلمی کی بھی کئی شرائط یہاں پوری نہیں ہوتیں۔ مثال کے طور پر۔
ثامن: یہ ظاہر ہو کہ مذمت کرنے والے نے مذمت کسی حجت کی بنا پر کی ہو نہ کہ ایسے معاملے میں کہ اس نے اسے مذموم طریقے پر محمول کیا ہو اور اس میں گنجائش ہو۔
جناب عالی یہاں آپ نے ثابت کرنا ہے۔ نہ گھوڑا دور نہ میدان۔ ہاتھ کنگن کو آرسی کیا، کیجیے ثابت۔
یہ شرط یہاں فضول ہے کیونکہ یہ کسی شخصیت پر جرح کے متعلق کسی کا قول نہیں بلکہ ایک واقعہ کا بیان ہے کہ ابوحنیفہ نے اپنے علم کے مقابلے میں عمررضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو کمتر جانا اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ناقص رائے کے مقابلے میں عمررضی اللہ عنہ کا قول اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو ٹھکرادیا اور صرف اسی پر بس نہیں بلکہ عمررضی اللہ عنہ کو شیطان اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کو تک بندی کہہ کر ان دونوں عظیم شخصیات کی توہین و گستاخی کی۔

ویسے جناب ارسلان بھائی فرمارہے تھے کہ آپ کی کافی نظر ہے فقہ حنفی پر۔ فقہ حنفی اور اصول فقہ کا اکثر حصہ تو عربی میں ہے۔ آپ نے کیسے نظر فرمائی؟
یہ غلط ہے میرے فاضل دوست۔ صحیح یہ ہے کہ آپ کو احناف کے دلائل کا نہ تو علم ہوتا ہے اور نہ آپ ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ایک جانب سے احادیث دیکھ کر تو یہ اعتراض مناسب نہیں۔ (حقیقت یہ ہے کہ میں نے مناسب کا لفظ آپ کے احترام میں استعمال کیا ہے)۔
میں آپکے اس جاہلانہ اعتراض کا ماقبل جواب دے چکا ہوں کہ فی زمانہ ایک عربی نہ جاننے والا شخص بھی تحقیق کرسکتا ہے اور فقہ حنفی پر نظر رکھ سکتا ہے کیونکہ فقہ حنفی کی اکثر کتابوں اور انکی شروحات کے اردو میں تراجم ہوچکے ہیں۔ جہاں تک آپ کا احناف کے دلائل نہ جاننے کا رونا ہے تو ہر گمراہ شخص یہی رونا رو رہا ہوتا ہے کہ مخالفین نے ہماری دلیل نہیں جانی۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
شاہد نذیر بھائی میں منتظر ہوں۔
اگر ثابت نہیں کر پا رہے تو اپنے وعدے کے مطابق اعلان فرما دیجیے کہ آئیندہ کبھی یہ الزام ابو حنیفہ رح پر نہیں لگائیں گے۔
سبحان اللہ!
ایک ثابت شدہ راویت میں بارے میں آپ فرمارہے ہیں کہ ثابت کردوں، میراخیال ہے کہ زرا تقلید کی پٹی آنکھوں سے اتار کو تھوڑا غور فرمائیں۔ ہاں اگر اس ثابت شدہ اور سنداً صحیح روایت پر آپکے پاس اعتراض کرنے کو کچھ نہیں تو ابوحنیفہ سے براءت کا اظہار کردیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
1,969
ری ایکشن اسکور
6,263
پوائنٹ
412
ہم کچھ عرض کریں تو گستاخی ہوگی
--------------------------
مشہور مورخ اسحق بھٹی صاحب مولانا داود غزنوی مرحوم کے تذکرہ میں تحریر فرماتے ہیں۔" ايک دن میں ان کی خدمت میں حاضر تھا کہ جماعت اہلحدیث کی تنظیم سے متعلق گفتگو شروع ہوئی، بڑے درد ناک لہجے میں فرمایا:
مولوی اسحق! جماعت اہلحدیث کو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے، ہر شخص ابو حنیفہ ابو حنیفہ کہہ رہا ہے، کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے تو امام ابو حنیفہ کہہ دتیا ہے،پھر ان کے بارے میں ان کی تحقیق يہ ہے کہ وہ تین حدیثیں جانتے تھے، یا زیادہ سے زیادہ گیارہ اگر کوئی بڑا احسان کرے تو وہ سترہ حدیثوں کا عالم گردانتا ہے، جولوگ اتنے جلیل القدر امام کے بارے میں يہ نقطہ نظر رکھتے ہوں ان میں اتحاد ويک جہتی کیوں کر پیدا ہو سکتی ہے۔
یا غربتہ العلم انما اشکو بثی وحزنی الی اﷲ
( حضرت مولانا دجود غزنوی رحمہ اﷲ علیہ، ترتیب و تحریر ابوبکر غزنوی ص136)
ايک موقعہ پر آپ نے فرمایا:
" دوسرے لوگوں کی شکایت کہ اہل حدیث حضرات ائمہ اربعہ کی توہین کرتے ہیں بلاوجہ نہیں ہے اور میں ديکھ رہا ہوں کہ ہمارے حلقہ میں عوام اس گمراہی میں مبتلا ہو رہے ہی اور ائمہ کرام کے اقوال کا تذکرہ حقارت کے ساتھ بھی کر جاتے ہیں، يہ رجحان سخت گمراہ کن اور خطرناک ہے اور ہمیں سختی کے ساتھ اس کو روکنے کی کوشش کرنی چاہيے"
--------------------------------------------------------------------------------------------------------
( حضرت مولانا دجود غزنوی رحمہ اﷲ علیہ، ترتیب و تحریر ابوبکر غزنوی ص87)
! جماعت اہلحدیث کو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اﷲ کی روحانی بددعا لے کر بیٹھ گئی ہے، ہر شخص ابو حنیفہ ابو حنیفہ کہہ رہا ہے، کوئی بہت ہی عزت کرتا ہے تو امام ابو حنیفہ کہہ دتیا ہے،پھر ان کے بارے میں ان کی تحقیق يہ ہے کہ وہ تین حدیثیں جانتے تھے، یا زیادہ سے زیادہ گیارہ اگر کوئی بڑا احسان کرے تو وہ سترہ حدیثوں کا عالم گردانتا ہے،
خیر ہے۔ ابوحنیفہ صاحب کون سے ولی اللہ تھے جن کی بددعائیں کسی کو لگیں گیں۔ لیکن ابوحنیفہ اور انکے مقلدین کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے صحابہ کی شان میں زبان درازی ضرور انکو آخرت میں لے ڈوبے گی۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top