شاہد نذیر
سینئر رکن
- شمولیت
- فروری 17، 2011
- پیغامات
- 2,010
- ری ایکشن اسکور
- 6,264
- پوائنٹ
- 437
السلام على من اتبع الہدى
سچ بات تو یہ ہے کہ اشماریہ صاحب کی ناجائز تاؤیلات، مضحکہ خیز احتمالات اور ہٹ دھرمی کے ذریعے ایک ثابت شدہ حقیقت کو جھٹلانے کی فضول کوشش کی وجہ سے میری اس تھریڈ میں کوئی خاص دلچسپی باقی نہیں رہی۔یہی وجہ ہے کہ اسکا جواب بہت عرصہ سے اپنی ڈائری میں لکھنے کے باوجود ٹائپ کرکے یہاں پوسٹ نہیں کیا۔ جواب نہ دینے کی ایک بڑی وجہ میری اپنے مضمون ''حقیقت مذہب صوفیاء اور اہل حدیث'' میں مصروفیت بھی تھی جسے میں پچھلے چار ماہ سے لکھ اور ترتیب دے رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اشماریہ صاحب کے ساتھ بحث برائے بحث میں وقت ضائع کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ میں اپنا مضمون مکمل کروں۔
اب چونکہ بنا کوئی دلیل دئیے ہی اشماریہ صاحب دوسروں کو محاکمہ کی دعوت دے رہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے ابوحنیفہ کا دفاع کرلیا ہے تو مجبوری میں جواب دینا پڑ رہا ہے۔قارئین یہ بات زہن نشین کرلیں کسی بھی شخصیت کے اچھے اور برے ہونے کا دارومدار ان روایات پر ہے جو اس شخصیت سے متعلق ہم تک پہنچی ہیں اور روایات کا دارومدار اسناد پر۔ چناچہ اگر روایت کی سند ثابت ہوگئی تو اسکا متن بھی ثابت ہوجائے گا اور اس متن میں موجود کسی شخصیت پر جرح یا اسکی توصیف بھی ثابت ہوجائے گی الا یہ کہ کوئی محدث سند صحیح ہونے کے باوجودکسی خفیہ علت کی بنا پر روایت کا متن ضعیف ثابت کردے۔ سند کی اسی اہمیت کی بناء پر عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسناد دین میں سے ہیں اگر اسناد نہ ہوتیں تو آدمی جو چاہتا کہہ دیتا۔(صحیح مسلم)
اب اشماریہ صاحب کے پاس علمی اور شریفانہ طریقہ تو یہ تھا کہ اپنے خودساختہ امام کے دفاع میں وہ ہماری جانب سے پیش کی گئی روایت کی سند پر کچھ کلام کرتے یا پھر بذریعہ محدثین وہ علت بتاتے جو روایت کے متن کو مشکوک ثابت کرتی۔ لیکن اس علمی اور شریفانہ طریقے کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے اکابرین کی طرح دجل کا راستہ اختیار کیا اور کمزور اور بےجان احتمالات پیش کرنے لگے۔ حالانکہ احتمال تو ہر شخص اپنے مخالف کی عبارت میں ڈھونڈ ہی لیتا ہے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ اس لئے اصولی اور اخلاقی طور پر تو اشماریہ صاحب اپنے امام کے دفاع کی جنگ ہار ہی چکے ہیں اب بس بحث کو طول دینے کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔
یہاں ہونے والی ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے ابوحنیفہ پر صحابہ کی گستاخی کا الزام لگایا جس پر آپ نے ہم سے اسے ثابت کرنے کا مطالبہ کیا۔ اور ہم نے معلوم اور معروف طریقے کے مطابق اس الزام کی باسند روایت پیش کردی۔ اگرچہ سند کے تمام راویوں کی تحقیق ہماری ذمہ داری میں شامل نہیں تھی بلکہ اشماریہ صاحب کو ہی سند پر اعتراض قائم کرنا تھا لیکن انکی تسلی و تشفی کے لئے ہم نے تمام روایوں کی تحقیق بھی پیش کردی لیکن اشماریہ صاحب نے اسے تسلیم کرنے کے بجائے اپنی زاتی رائے اور بیمار زہن میں اٹھنے والے احتمالات پیش کرکے شور مچایا کہ دعویٰ ثابت نہیں ہوا حالانکہ دعویٰ تو پہلی ہی پوسٹ میں ثابت ہوچکا ہے اور پایہ ثبوت کو پہنچے ہوئے دعویٰ کو محض لفاظی اور ڈھٹائی پن کے مظاہرے سے جھٹلانا دیوبندیوں کے غیردیانت دار ہونے کا عکاس ہے۔
اشماریہ صاحب نے یہاں وہی روش اختیار کی ہے جوامین اوکاڑوی کی تھی۔جب حنفیوں کے کسی مسئلہ پر اعتراض کیا جاتا ہے اور امین اوکاڑوی کے پاس اسکا کوئی معقول جواب موجود نہیں ہوتا تو وہ جواب دینے کے بجائے الٹا معترض سے ہی مطالبہ کر ڈالتا ہے کہ جس مسئلہ پر آپ اعتراض کررہے ہیں اگر یہ مسئلہ غلط ہے تو ایک صاف، صریح اور غیرمعارض حدیث پیش کرو جس میں اس مسئلہ کا غلط ہونا مذکور ہو اور اس غلط مسئلہ کے مقابلے میں آپ کے نزدیک جو مسئلہ صحیح ہو اس پر ایک صاف صریح غیر متعارض دلیل پیش کرو۔ یعنی انہوں نے خود کچھ نہیں کرنا سب کچھ اعتراض کرنے والے سے ہی کروانا ہے۔ یعنی اگر کوئی اہل حدیث حنفیوں کے مفتی بہا مسئلہ پیشاب سے قرآن لکھنے پر اعتراض کرے تو یہ کہیں گے کہ قرآن کی کون سی آیت یا حدیث میں پیشاب سے قرآن لکھنے کا منع آیا ہے؟ یا پھر امین اوکاڑوی کی طرح کہیں گے کہ تمہارے نزدیک جو پیشاب پاک ہے جیسے دودھ پیتے بچے کا یا حلال جانوروں کا اس پیشاب سے تو قرآن لکھا ہی جاسکتا ہے۔مطلب یہ کہ جب مسئلہ فقہ حنفی کا ہے تو اسے ثابت کرنا بھی تو حنفیوں ہی کی ذمہ داری ہے ناکہ ان اہل حدیثوں کی جو ان مسائل پر اعتراض کرتے ہیں؟ یہاں بھی وہی کیفیت ہے کہ جب روایت ابوحنیفہ کے خلاف ہے تو اسکے متعلق ہر بات کو ثابت کرنا اس شخص کی ذمہ داری کیسے ہوئی جو صرف معترض ہے یہ تو حنفیوں کی ہی ذمہ داری اور فریضہ ہے کہ ہر لحاظ سےمضبوط دلائل کے ذریعہ ثابت کریں کہ ابوحنیفہ پر عائد کیا گیا صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا الزام غلط ہے۔لیکن آپ تو پکے پکائے حلوے کی تلاش میں ہیں اور سب کچھ ہم ہی سے ثابت کروانا چاہتے ہیں حتی کہ آپ جو فضول قسم کے احتمالات پیش کررہے ہیں آپکی خواہش ہے کہ ہم ہی دلائل پیش کرکے آپکے احتمالات کا رد کریں۔ حالانکہ ہم تو اس وقت آپکے احتمالات پر توجہ کریں گے جب آپ انکی کوئی معقول دلیل ذکر کریں گے اور جب آپکے پیش کردہ احتمالات سرے سے روایت پر اثرانداز ہی نہیں ہورہے تو ان میں پڑ کر وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟
چلیں آپ صاف صاف وہ وجہ یا وجوہات بیان کریں جس کی بناء پر روای نے ابوحنیفہ کی مجلس سے توبہ کی۔ ساتھ میں اس وجہ کا شاہد بھی پیش کرنا پڑے گا یا روایت سے ہی اس جملے کی نشاندہی فرما دیجئے گا تو آپکی وجہ کی تائید کررہی ہو۔ ایسی وجوہات پیش کرنے سے گریز کیجئے گا جو روایت کے جملوں سے میل نہ کھاتی ہو۔
(غیر مناسب الفاظ حذف کرنےکی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے ۔ انتظامیہ )
سچ بات تو یہ ہے کہ اشماریہ صاحب کی ناجائز تاؤیلات، مضحکہ خیز احتمالات اور ہٹ دھرمی کے ذریعے ایک ثابت شدہ حقیقت کو جھٹلانے کی فضول کوشش کی وجہ سے میری اس تھریڈ میں کوئی خاص دلچسپی باقی نہیں رہی۔یہی وجہ ہے کہ اسکا جواب بہت عرصہ سے اپنی ڈائری میں لکھنے کے باوجود ٹائپ کرکے یہاں پوسٹ نہیں کیا۔ جواب نہ دینے کی ایک بڑی وجہ میری اپنے مضمون ''حقیقت مذہب صوفیاء اور اہل حدیث'' میں مصروفیت بھی تھی جسے میں پچھلے چار ماہ سے لکھ اور ترتیب دے رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اشماریہ صاحب کے ساتھ بحث برائے بحث میں وقت ضائع کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ میں اپنا مضمون مکمل کروں۔
اب چونکہ بنا کوئی دلیل دئیے ہی اشماریہ صاحب دوسروں کو محاکمہ کی دعوت دے رہے ہیں اور یہ سمجھ رہے ہیں کہ انہوں نے ابوحنیفہ کا دفاع کرلیا ہے تو مجبوری میں جواب دینا پڑ رہا ہے۔قارئین یہ بات زہن نشین کرلیں کسی بھی شخصیت کے اچھے اور برے ہونے کا دارومدار ان روایات پر ہے جو اس شخصیت سے متعلق ہم تک پہنچی ہیں اور روایات کا دارومدار اسناد پر۔ چناچہ اگر روایت کی سند ثابت ہوگئی تو اسکا متن بھی ثابت ہوجائے گا اور اس متن میں موجود کسی شخصیت پر جرح یا اسکی توصیف بھی ثابت ہوجائے گی الا یہ کہ کوئی محدث سند صحیح ہونے کے باوجودکسی خفیہ علت کی بنا پر روایت کا متن ضعیف ثابت کردے۔ سند کی اسی اہمیت کی بناء پر عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اسناد دین میں سے ہیں اگر اسناد نہ ہوتیں تو آدمی جو چاہتا کہہ دیتا۔(صحیح مسلم)
اب اشماریہ صاحب کے پاس علمی اور شریفانہ طریقہ تو یہ تھا کہ اپنے خودساختہ امام کے دفاع میں وہ ہماری جانب سے پیش کی گئی روایت کی سند پر کچھ کلام کرتے یا پھر بذریعہ محدثین وہ علت بتاتے جو روایت کے متن کو مشکوک ثابت کرتی۔ لیکن اس علمی اور شریفانہ طریقے کو چھوڑ کر انہوں نے اپنے اکابرین کی طرح دجل کا راستہ اختیار کیا اور کمزور اور بےجان احتمالات پیش کرنے لگے۔ حالانکہ احتمال تو ہر شخص اپنے مخالف کی عبارت میں ڈھونڈ ہی لیتا ہے یہ کوئی مشکل کام نہیں۔ اس لئے اصولی اور اخلاقی طور پر تو اشماریہ صاحب اپنے امام کے دفاع کی جنگ ہار ہی چکے ہیں اب بس بحث کو طول دینے کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔
یہاں ہونے والی ساری بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ ہم نے ابوحنیفہ پر صحابہ کی گستاخی کا الزام لگایا جس پر آپ نے ہم سے اسے ثابت کرنے کا مطالبہ کیا۔ اور ہم نے معلوم اور معروف طریقے کے مطابق اس الزام کی باسند روایت پیش کردی۔ اگرچہ سند کے تمام راویوں کی تحقیق ہماری ذمہ داری میں شامل نہیں تھی بلکہ اشماریہ صاحب کو ہی سند پر اعتراض قائم کرنا تھا لیکن انکی تسلی و تشفی کے لئے ہم نے تمام روایوں کی تحقیق بھی پیش کردی لیکن اشماریہ صاحب نے اسے تسلیم کرنے کے بجائے اپنی زاتی رائے اور بیمار زہن میں اٹھنے والے احتمالات پیش کرکے شور مچایا کہ دعویٰ ثابت نہیں ہوا حالانکہ دعویٰ تو پہلی ہی پوسٹ میں ثابت ہوچکا ہے اور پایہ ثبوت کو پہنچے ہوئے دعویٰ کو محض لفاظی اور ڈھٹائی پن کے مظاہرے سے جھٹلانا دیوبندیوں کے غیردیانت دار ہونے کا عکاس ہے۔
اشماریہ صاحب نے یہاں وہی روش اختیار کی ہے جوامین اوکاڑوی کی تھی۔جب حنفیوں کے کسی مسئلہ پر اعتراض کیا جاتا ہے اور امین اوکاڑوی کے پاس اسکا کوئی معقول جواب موجود نہیں ہوتا تو وہ جواب دینے کے بجائے الٹا معترض سے ہی مطالبہ کر ڈالتا ہے کہ جس مسئلہ پر آپ اعتراض کررہے ہیں اگر یہ مسئلہ غلط ہے تو ایک صاف، صریح اور غیرمعارض حدیث پیش کرو جس میں اس مسئلہ کا غلط ہونا مذکور ہو اور اس غلط مسئلہ کے مقابلے میں آپ کے نزدیک جو مسئلہ صحیح ہو اس پر ایک صاف صریح غیر متعارض دلیل پیش کرو۔ یعنی انہوں نے خود کچھ نہیں کرنا سب کچھ اعتراض کرنے والے سے ہی کروانا ہے۔ یعنی اگر کوئی اہل حدیث حنفیوں کے مفتی بہا مسئلہ پیشاب سے قرآن لکھنے پر اعتراض کرے تو یہ کہیں گے کہ قرآن کی کون سی آیت یا حدیث میں پیشاب سے قرآن لکھنے کا منع آیا ہے؟ یا پھر امین اوکاڑوی کی طرح کہیں گے کہ تمہارے نزدیک جو پیشاب پاک ہے جیسے دودھ پیتے بچے کا یا حلال جانوروں کا اس پیشاب سے تو قرآن لکھا ہی جاسکتا ہے۔مطلب یہ کہ جب مسئلہ فقہ حنفی کا ہے تو اسے ثابت کرنا بھی تو حنفیوں ہی کی ذمہ داری ہے ناکہ ان اہل حدیثوں کی جو ان مسائل پر اعتراض کرتے ہیں؟ یہاں بھی وہی کیفیت ہے کہ جب روایت ابوحنیفہ کے خلاف ہے تو اسکے متعلق ہر بات کو ثابت کرنا اس شخص کی ذمہ داری کیسے ہوئی جو صرف معترض ہے یہ تو حنفیوں کی ہی ذمہ داری اور فریضہ ہے کہ ہر لحاظ سےمضبوط دلائل کے ذریعہ ثابت کریں کہ ابوحنیفہ پر عائد کیا گیا صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا الزام غلط ہے۔لیکن آپ تو پکے پکائے حلوے کی تلاش میں ہیں اور سب کچھ ہم ہی سے ثابت کروانا چاہتے ہیں حتی کہ آپ جو فضول قسم کے احتمالات پیش کررہے ہیں آپکی خواہش ہے کہ ہم ہی دلائل پیش کرکے آپکے احتمالات کا رد کریں۔ حالانکہ ہم تو اس وقت آپکے احتمالات پر توجہ کریں گے جب آپ انکی کوئی معقول دلیل ذکر کریں گے اور جب آپکے پیش کردہ احتمالات سرے سے روایت پر اثرانداز ہی نہیں ہورہے تو ان میں پڑ کر وقت ضائع کرنے کا کیا فائدہ؟
آپکی بے شرمی کو سلام کرتا ہوں۔ جس ثابت شدہ روایت نے آپکے امام کے کردار پر کالک مل دی اسے آپ کس بے حیائی سے بڑبولا دعویٰ کہہ رہے ہیں۔شاہد نذیر بھائی ماشاء اللہ کافی جگہوں میں آپ کا فیض محسوس ہو رہا ہے لیکن یہ تھریڈ محروم ہے جہاں آپ نے اپنی بڑبولے دعوے کو ثابت کرنا ہے۔
اگر ایسا ہوتا تو اچھا ہوتا اور لوگ وہ سینگ دیکھ کر ہی ابوحنیفہ کی صحبت سے باز آجاتےاور انکے مردود علم سے توبہ کرلیتے۔ لیکن جس کی قسمت میں رب العالمین نے بھلائی لکھ دی ہو وہ سینگ دیکھے بغیر ہی ابوحنیفہ کو ترک کردیتے ہیں جیسے عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے ابوحنیفہ کو ترک کردیا تھا۔کاش کہ جاہلوں کے سر پر سینگ ہوتے۔ (معذرت کے ساتھ)
اگر آپ نے دن دھاڑے آنکھ بند کرکے سورج کی موجودگی کے انکار کا فیصلہ کر لیا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں؟متن کے الفاظ جو بیان کررہے ہیں اسی کو میں نے اپنے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ میں نےاضافی کچھ ثابت نہیں کیا بلکہ روایت خود ہی اس بات کو بیان اور ثابت کررہی ہے جسے آپ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اور وجہ صرف یہ ہے کہ روایت کا ظاہر ابوحنیفہ کے خلاف ہے اور باطنی معنوں کو ثابت کرنے کے لئے آپ کے پاس دلیل نہیں۔بار بار رٹ لگائی ہے کہ روایت کے الفاظ سے ثابت ہو رہا ہے۔ یہ نہیں بتایا کہ کیسے ثابت ہو گیا روایت کے متن سے۔
آپ کے کہنے کی حیثیت ہی کیا ہے۔پھر آپ کا یہ کہنا اس لئے ناقابل التفات ہے کہ جس طرح ابوحنیفہ سے عمررضی اللہ عنہ کے قول کی بابت سوال کیا گیا تو ابوحنیفہ نے اسے شیطان کا قول کہا بالکل اسی طرح جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں سوال ہوا تو ابوحنیفہ نے اسے تک بندی کہہ کر رد کردیا۔ اگر آپ ابوحنیفہ کی صحابی رسول کے حق میں اس گستاخی کی تاویل کرکے اسے صحابی کے دفاع میں تبدیل کر بھی دیں تو پھر بھی اپنے امام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سے نہیں بچا سکتے۔ اس روایت کا ہرجملہ ابوحنیفہ کی گستاخیوں کی چغلی کھا رہا ہے۔ آپ جو بھی جیسی بھی تاؤیل کروگے روایت کا متن اسکا ساتھ نہیں دے گا۔اور جیسا کہ ہو بھی رہا ہے کہ آپ ایک تاویل کرتے ہو لیکن روایت کی آگے پیچھے کی عبارات اسکی تردید کردیتی ہیں جیسے آپ کہتے ہیں کہ ابوحنیفہ عمر رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی کرنے کے بجائے ان کی ذات سے اس قول کی نفی کررہے ہیں لیکن اگلے ہی جملے اس مکاری کا پول کھول کررکھ دیتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ ابوحنیفہ صاحب نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں چھوڑا اور ان کی حدیث کو بھی توہین آمیز انداز میں رد کردیا ہے پھر آخر میں راوی کا ابوحنیفہ کی مجلس میں آنے سے توبہ کرلینا بھی معاملہ کو بالکل صاف کردیتا ہے کہ ابوحنیفہ اپنی ناقص رائے کے مقابلے میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتے تھے نہ نبی کو اور نہ انکے ساتھیوں کو۔ اب ایسا تو ہو نہیں سکتا کہ ابوحنیفہ صاحب عمررضی اللہ عنہ کا دفاع کریں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین۔ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح توہین کررہے ہیں تو عمررضی اللہ عنہ کی بھی توہین ہی کررہے ہیں ان کا دفاع نہیں کررہے وہ صرف اپنی رائے کا دفاع کررہے ہیں۔ آپ روایت کے ایک جملے کو لے کر مکاری نہ کریں بلکہ ہرجملے کی وضاحت کریں اور مکمل روایت پر تبصرہ کریں۔میں نے تو کہا تھا۔ متن میں شیطان نکرہ ہے اس کا مطلب کوئی شیطان ہے۔ یعنی یہ ابو حنیفہ رح نے عمر رض سے اس قول کی نفی کی ہے۔
اول تو راوی نے صاف لکھا ہے:راوی نے اسے گستاخی سمجھا ہے اور دلیل میں کہا کہ راوی نے تعجب کیا ہے اور دوبارہ ان کی مجلس میں آنے سے انکار کیا ہے۔بندہ نے عرض کیا کہ راوی کے انکار کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ان الفاظ کو سمجھنے میں
یعنی ابوحنیفہ کے عمررضی اللہ عنہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں خیالات جان کر ہی راوی نے انکی مجلس سے توبہ کی ہے۔ حیرت ہے اب اتنی واضح بات کی بھی آپ تاویل کروگے؟ اگر تو راوی صرف یہ کہتا کہ میں آئندہ ابوحنیفہ کی مجلس میں نہیں آؤنگا تو پھر اس بات کا معمولی سا امکان تھا کہ مجلس میں آنے سے توبہ کی وجہ کوئی اور بھی ہوسکتی ہے لیکن راوی واضح طور پر مجلس سے توبہ کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ یہ سب (عمر رضی اللہ عنہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ابوحنیفہ کا کلام) سن کر اس نے ابوحنیفہ کی مجلس سے توبہ کی۔یہ سب سن کرمیں میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں ایسی مجلس میں آئندہ کبھی نہیں آؤں گا۔
چلیں آپ صاف صاف وہ وجہ یا وجوہات بیان کریں جس کی بناء پر روای نے ابوحنیفہ کی مجلس سے توبہ کی۔ ساتھ میں اس وجہ کا شاہد بھی پیش کرنا پڑے گا یا روایت سے ہی اس جملے کی نشاندہی فرما دیجئے گا تو آپکی وجہ کی تائید کررہی ہو۔ ایسی وجوہات پیش کرنے سے گریز کیجئے گا جو روایت کے جملوں سے میل نہ کھاتی ہو۔
روایت کے ظاہر الفاظ چیخ چیخ کر بیان کررہے ہیں کہ ابوحنیفہ گستاخ رسول اور گستاخ صحابہ تھا۔پھر راوی بھی تو اسی بات کو بیان کررہا ہے۔ اور مذکورہ روایت کا متن خود ہی یہ سب کچھ ثابت کررہا ہے۔ اس کے لئے کسی اضافی دلیل کی ضرورت نہیں۔ چونکہ خود آپ ہی روایت کے ظاہر الفاظ کے خلاف تاویلیں کررہے ہیں اس لئے آپ کو ضرور ان تاویلات کے لئے اضافی دلیل کی ضرورت ہے۔اب کہتا ہوں کہ بندہ خدا اگر تم ایک ہی وجہ پر بضد ہو تو ذرا ثابت کرو نا کہ نہیں یہی وجہ مراد تھی۔ کسی محدث نے کہا ہو۔ راوی نے خود ذکر کیا ہو۔ خالی تمہارے کہنے پر مان لوں کیا؟
اثبات میں نہیں کررہا اثبات تو روایت سے ہوچکا ہے۔ ہم نے صحیح الاسناد روایت پیش کردی یہی ہمارے ذمہ تھا۔ اب آپ کے ذمہ ہے کہ اپنی تاویلوں اور احتمالات پر دلائل پیش کرو۔مزید دیکھیں کہ اس ڈر سے کہ میں یہ نہ پوچھ لوں خود یہ سوال کر دیے حالاں کہ اس "عالم کی ضد" کو یہ نہیں پتا کہ اثبات یہ کر رہا ہے دلیل بھی اسی کے ذمہ ہے۔ نافی پر دلیل کب ہوتی ہے جی؟؟؟؟؟؟
چلیں اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ ابوحنیفہ کا عمررضی اللہ عنہ کے بارے میں اچھا عقیدہ پیش کریں تو ہم سمجھیں گے کہ ابوحنیفہ نے عمررضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی سے رجوع کرلیا تھا۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے لیکن کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی سے بھی ابوحنیفہ نے رجوع کیا تھا؟اوپر سے موصوف کہتے ہیں کہ اگر دیگر روایات سے عمر رض کی تعریف ثابت کر دی تو ہم اسے تقیہ سمجھیں گے۔ ارے او "عالم کی ضد"! تقیہ کرنے والا یوں کھلی مجالس میں اپنے عقیدے کا اظہار کرتا ہے۔
خیر چلو اب شاباش کسی محدث سے یہ ثابت کرو کہ ابو حنیفہ نے عمر کو ہی اس روایت میں شیطان کہا ہے۔
اور یہ بھی کہ ابو حنیفہ تقیہ کرتے تھے۔
آپ تو عالم اس کو کہتے ہو جو حنفی مدارس سے فقہ میں مہارت حاصل کرلے اور جس کو خواہشات کی تکمیل کے جتنے حنفی طریقے آتے ہوں وہ اتنا بڑا عالم۔ حنفی مدارس میں جو حدیث پڑھائی جاتی ہے اس کا کوئی نیک مقصد نہیں ہوتا بلکہ اس میں یہ سکھایا جاتا ہے حدیثوں کی تاویل کرکے کس طرح انہیں فقہ کےتابع کرنا ہے۔ تو ہمارے نزدیک تو ایسے علماء سے ان علماء کی ضد ہی بہتر ہیں۔تم تو ٹھہرے عالم کی ضد۔
ابوحنیفہ کے بارے میں سلف میں اختلاف تھا سلف کی اکثریت ابوحنیفہ کی مذمت پر متفق تھی اور اقلیت انکی تعریف کرتی تھی۔ حق سلف کی اکثریت کے ساتھ تھا کیونکہ ابوحنیفہ کے کردار کو واضح کرتی شہادتیں صحیح الاسناد ہیں اور تعریف کی اکثر روایات جھوٹی ہیں۔تمہیں یہ بتاتا چلوں کہ امام ذہبی نے ابو حنیفہ اور صاحبین کے مناقب میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اور ذہبی نے خطیب کی تاریخ بغداد پڑھی ہوئی تھی۔
اس کے علاوہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں ابو حنیفہ کے بارے میں کہا ہے: الإمام الأعظم
اور سیر اعلام النبلاء میں کہتے ہیں: الإِمَامُ، فَقِيْهُ المِلَّةِ، عَالِمُ العِرَاقِ، أَبُو حَنِيْفَةَ النُّعْمَانُ بنُ ثَابِتِ بنِ زُوْطَى التَّيْمِيُّ، الكُوْفِيُّ
کیا ذہبی کو یہ روایت نظر نہیں آئی تھی پھر بھی تعریفیں کر ڈالیں؟ کہہ دو کہ ذہبی نے جھوٹ بولا ہے، ذہبی نے تقیہ کیا ہے، ذہبی نے علم چھپایا ہے۔ کہہ دو اب۔
میں نے یہ حوالے یہ بتانے کے لیے دیے ہیں کہ علماء نے اس روایت کو قبول نہیں کیا حالاں کہ یہ مجھ پر لازم نہیں تھا۔
محدثین کا ابوحنیفہ کو یہودی، گمراہ، خبیث، منحوس، شیطان وغیرہ کہنا تو سو فیصد ثابت کرتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اس روایت کو قبول کیا ہے بلکہ ابوحنیفہ کو اسلام دشمن بتا کر اس کے مفہوم پر مہر تصدیق بھی ثبت کردی ہے۔والحمدللہشاہد نذیر بھائی ایک چیز مزید۔ ابو حنیفہ رح پر لگائے گئے الزام کی وجہ سے کیا ان پر کسی معتدل محدث نے تشیع کا قول کیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر جان لو کہ آپ کی روایت محدثین کرام کو قبول نہیں ہے اس معنی میں جس میں آپ پیش کر رہے ہو۔
شک تو آپ کو ہے ہمیں تو کوئی شک نہیں اس لئے اپنے شکوک کی دلیل بھی آپ ہی پیش کرو۔ ہاں البتہ اگر آپ کوئی ایسا شک پیش کرو جو روایت کے مجموعی مفہوم کی تردید نہ کرتا ہو اور اسکی تائید روایت کے متن سے ہوتی ہو اور اس شک کے بعد روایت میں تطبیق بھی ممکن ہو تو ضرور ہم جواب دیں گے۔اثبات تمہارا کام ہے۔ میں نے روایت کے الفاظ میں واضح شک بتا دیا اب تم حوالے دو اہل علم کے اور ثابت کرو۔
(غیر مناسب الفاظ حذف کرنےکی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے ۔ انتظامیہ )