• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

راولپنڈی:ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی - انالله وانا اليه راجعون

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم شیخ نے جو لکھا ہے اس سے یہی واضح ہو رہا ہے کہ انکے ہاں ممتاز قادری نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا ہے
مجھے اس سلسلے میں بہت کنفیوزن ہے کیونکہ کچھ بھائی فیس بک پہ سوالات ممتاز قادری کے بارے پوچھ رہے ہیں کہ کیا اسنے درست کیا کیا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہو گا یا نہیں
اکثر بھائی اسکے شرک کو چھوڑ کر اسکے قتل والے عمل کے بارے پوچھ رہے ہیں کہ اس قتل کا حکم کیا ہے پس مجھے اوپر تو یہی لگا ہے کہ یہ گناہ کبیرہ کا کام کیا ہے مگر اس سے پہلے بہت سے علماء کے اس بارے کلپ فیس بک پہ دیکھے ہیں جن میں اہل حدیث بریلوی دیوبندی علماء شامل ہیں جو اس کو گناہ کبیرہ نہیں بلکہ درست کہ رہے ہیں اب جب جمہور علماء سلمان تاثیر کے قتل کو درست کہ رہے ہوں اور اسکی دلیل یہ کہ کسی بھی عالم نے سلمان تاثیر کا جنازہ نہیں پڑھا تو پھر ہم اسکو گناہ کبیرہ کا مرتکب کیسے کہ سکتے ہیں
نوٹ: یہ واضح رہے کہ یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ میں سلمان تاثیر کے قتل کو گناہ کبیرہ نہیں بلکہ درست سمجھتا ہوں میں صرف جمہور علماء کے موقف سے پریشان ہوں
محترم شیخ @رفیق طاھر بھائی اس پہ وضاحت دے دیں یا محترم عامر یونس بھائی ان سے پوچھ کر بتا دیں تاکہ میں فیس بک پہ درست موقف اختیار کر سکوں
محترم @خضر حیات بھائی
کبیرہ گناہ کی علماء نے جو تعریف کی ہے ، وہ اس پر صادق آتی ہے یا نہیں ؟
اگرچہ ’’ قتل ‘‘ کبائر میں سے ہے ، لیکن جو قادری صاحب نے کیا ہے ، وہ محض قتل نہیں ، اسی لیے ہم ان کی پھانسی کو درست عمل نہیں سمجھتے ۔
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
760
پوائنٹ
290
لیکن ہم آپس میں کیوں الجہیں ، ہماری توجہ اصل پر مرکوز ہو ۔
جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته !

کسی کو شہید کہنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کسی کو شہید کہنے کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں:

۱۔ اسے وصف کے ساتھ مقید کیا جائے، مثلاً: یوں کہا جائے کہ ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے رستے میں مارا جائے وہ شہید ہے،یا جو اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے،یا جو طاعون کے مرض سے فوت ہو جائے وہ شہید ہے، تو اس طرح کہنا جائز ہے جیسا کہ نصوص میں آیا ہے کیونکہ آپ تو اس بات کی شہادت دے رہے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے۔ ہمارے یہ کہنے کہ ’’یہ جائز ہے‘‘ کا مطلب یہ کہ ایسا کہنا ممنوع نہیں ہے حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے ایسی شہادت دینا تو واجب ہے۔

۲۔ شہادت کو کسی معین شخص کے ساتھ مقید کیا جائے :

مثلاً: آپ کسی معین شخص کے بارے میں یہ کہیں کہ وہ شہید ہے تو یہ جائز نہیں، سوائے اس کے جس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شہادت دی ہو یا جس کی شہادت پر امت کا اتفاق ہو۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کا عنوان اس طرح قائم کیا ہے:

(باب لا یقال فلان شہید) ’’یہ نہ کہا جائے کہ فلاں شہید ہے‘‘

اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات کے تحت لکھا ہے :

یعنی کسی معین شخص کے بارے میں قطعی طور پر یہ نہ کہا جائے الا یہ کہ وحی کے ذریعے سے ایسا معلوم ہوجائے۔ انہوں نے گویا اپنے اس قول سے حدیث عمر رضی اللہ عنہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ آپ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھاکہ تم اپنے غزوات میں کہتے ہو کہ فلاں شہید ہے، فلاں شہادت کی موت مرا ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ سواری سے گر کر مرا ہو، لہٰذا تم اس طرح نہ کہا کرو بلکہ یہ کہا کرو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں فوت ہو یا قتل ہو وہ شہید ہے۔‘‘ یہ حدیث حسن ہے۔ امام احمد اور سعید بن منصور وغیرہ نے بطریق محمد بن سیرین اسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
فتح الباری: ۶/۱۱۰۔

کسی چیز کی شہادت اس کے بارے میں علم ہی کی بنیاد پر ہو سکتی ہے اور کسی انسان کے شہید ہونے کی شرط یہ ہے کہ اس نے اس لیے لڑائی لڑی ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے کلمے کو سربلندی حاصل ہواجائے دراصل اس کا تعلق باطنی نیت سے ہے جسے معلوم کرنے کی کوئی کسوٹی نہیں۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:

«مَثَلُ الْمُجَاهِدِ فِیْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَنْ يُجَاهِدُ فِی سَبِيْلِهِ»صحیح البخاری، الجهاد والسير، باب افضل الناس مومن مجاهد بنفسه وماله فی سبيل اللہ، ح:۲۷۸۷۔

’’اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی مثال یہ ہے… اور یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے راستے میں جہاد کرنے والا کون ہے؟‘‘

اور فرمایا:

«وَالَّذِی نَفْسِی بِيَدِهِ لَا يُکْلَمُ أَحَدٌ فِی سَبِيْلِ اللّٰهِ وَاللّٰهُ أَعْلَمُ بِمَنْ يُکْلَمُ فِی سَبِيْلِهِ إِلَّا جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وکلمه يثعب دما، َاللَّوْنُ لَوْنُ الدَّمِ وَالرِّيحُ رِيحُ الْمِسْکِ»صحيح البخاری، الجهاد والسير، باب من يجرح فی سبيل الله عزوجل، ح:۲۸۰۳۔

’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جسے اللہ تعالیٰ کے رستے میں زخم لگے… اور یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے رستے میں کسے زخم لگتا ہے… وہ روز قیامت اس طرح آئے گا کہ اس کے زخم سے خون رس رہاہوگا اس کا رنگ خون کا رنگ ہو گا اور خوشبو کستوری کی خوشبو ہوگی۔‘‘

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ان دونوں حدیثوں کو امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت فرمایا ہے۔ جو شخص بظاہر نیک ہو، اس کے لیے ہم یہ امید کر سکتے ہیں، مگر اس کے بارے میں یہ گواہی دے سکتے ہیں نہ اس کے بارے میں کوئی بدگمانی کر سکتے ہیں۔ امید ان دونوں مرتبوں کے درمیان کا ایک مرتبہ ہے۔ ہاں! ایسے شخص کے بارے میں دنیا میں معاملہ احکام شہداء کے مطابق کیا جائے گا، یعنی اگر وہ اللہ تعالیٰ کے رستے میں جہاد کرتے ہوئے قتل ہواہو تو اسے اس کے خون آلود کپڑوں میں دفن کیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی اور اگر اس کا تعلق دوسرے شہداء سے ہو تو پھر اسے غسل اور کفن دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ بھی پڑھی جائے گی۔اگر کسی معین شخص کے بارے میں ہم یہ شہادت دیں کہ وہ شہید ہے تو اس شہادت سے یہ لازم آتا ہے کہ ہم ا س کے جنتی ہونے کی شہادت دے رہے ہیں اور یہ بات اہل سنت کے مذہب کے خلاف ہے کہ ہم کسی کے قطعی جنتی ہونے کی شہادت دیں شرعا ہمارے لئے اس کا جواز نہیں سوائے اس کے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصف بیان کر کے یا شخصی طور پر اس کا تعین فرما کر شہادت دی ہو۔ کچھ لوگوں نے ایسے شخص کے بارے میں شہادت دینے کو بھی جائز قرار دیا ہے جس کی تعریف پر امت کا اتفاق ہو۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ نص یا اتفاق امت کے بغیر کسی معین شخص کے شہید ہونے کی شہادت دینا جائز نہیں، البتہ جو شخص بظاہر نیک ہو تو اس کے لیے ایسی امید کی جا سکتی ہے جیساکہ قبل ازیں بیان کیا گیا ہے دراصل اس کی منقبت کے لیے یہی کافی ہے اوراس کی شہادت کا علم تو اس کے خالق ومالک سبحانہ و تعالیٰ ہی کے پاس ہے۔


وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام


عقائد کے مسائل
محدث فتویٰ


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
12800243_843730815753213_3729018908749212979_n.jpg

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

شیخ محترم @خضر حیات بھائی اخبار کی ہیڈنگ

جنت کا مسافر جنت میں داخل !
ممتاز قادری دربار مصطفی میں حاضر ہو گئے !

شیخ ان دونوں ہیڈنگ پر کچھ روشنی ڈال دے قرآن و سنت کی روشنی میں
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ممتاز قادری مرحوم جو 5 سال جیل میں رہا اور پھر پھانسی کے پھندے تک، ان 5 سالوں میں اسے نہ بشارت ہوئی اور نہ ہی خواب میں دیدار مصطفٰے صلی اللہ وسلم حاصل ہوا تو ایسے میں اخبارات میں ایسی خبریں لگوانا شعبدہ بازی کہلاتی ہیں، توبہ استغفار! اس لئے اس کے چاہنے والے اگر اس کی مغفرت کی دعا کریں تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔

والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !
شیخ محترم @خضر حیات بھائی اخبار کی ہیڈنگ
جنت کا مسافر جنت میں داخل !
ممتاز قادری دربار مصطفی میں حاضر ہو گئے !
شیخ ان دونوں ہیڈنگ پر کچھ روشنی ڈال دے قرآن و سنت کی روشنی میں
و علیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ہمارے نزدیک ایسے دعووں کے ایک ہی ذریعہ ہے ، اور وہ ہے وحی ۔ لہذا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کئی صحابہ کرام کے بارے میں ایسی خوش خبریں سنائی تھیں ۔
اس کے بعد کسی بھی شخص کا ایسے دعوے کرنا درست نہیں ۔
نیگ لوگوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ ایسی نیک امیدوں کا اظہار اور دعا کی جاسکتی ہے ، اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔
 
Top