• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رد تقلید احادیث کی روشنی میں

شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
عرباض رضی اللہ عنہ بن ساریہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر ایک بلیغ نصیحت فرمائی جس سے دل دھڑک اٹھے اور آنکھیں بہہ پڑیں لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے تو ایسی نصیحت کی ہے جیسے ایک رخصت ہونے والا نصیحت کرتا ہے تو ہمیں آپ کوئی نصیحت فرمائیے تو آپ نے فرمایا کہ تقویٰ کو لازم پکڑو اور سننے اور اطاعت کرنے کو اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام ہی امیر ہو اورعنقریب میرے بعد تم سخت اختلاف دیکھو گے تو اس وقت میری سنت اور خلفائے راشدین جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو لازم پکڑنا اور اسے دانتوں سے زور سے پکڑنا اور نئے نئے کاموں سے بچنا کیوں کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
یہ حدیث بڑی کثیر الفوائد ہے۔ اس سے بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
ایک تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ایسا پر تا ثیر ہوتا تھا کہ اس سے دل ڈر جاتے تھے اور آنکھیں آنسو بہانے لگتی تھیں۔
دوسری یہ کہ رخصت کے وقت نصیحت و وصیت منسون ہے۔
تیسری یہ کہ تقویٰ شریعت کی روح ہے۔
چوتھی یہ کہ حاکم کی فرمانبرداری لازم ہے۔ بشرطیکہ وہ مومن ہو اور خلاف شریعت حکم
نہ کرتا ہو یعنی لوگوں کو ایسا کام کرنے کا حکم نہ دے جس میں خالق کی معصیت ہو۔
پانچویں یہ کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بڑا اختلاف ہوگا اور ویسا ہی ہوا خیرالقرون (قرون ثلاثہ) کے بعد بہت سے مذاہب محدثہ اور مشارب متفرقہ پھیلے اورہر ایک اپنے اپنے مذہب پر ہی راضی ہوگیا اور ہر ایک نے اپنا ایک امام اور پیشوا ٹھہر الیا کہ اختلاف کے وقت اسی کی طرف رجوع کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت بھول گیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی کہ اس وقت میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت پر چلنا۔
چھٹی بات یہ کہ امور محدثات ( دین میں نئے نئے کام ) سے بچو اس میں وہ تمام بدعتیں آگئیں جو قرون ثلاثہ کے بعد پھیلی ہیں انہی میں سے ایک تقلید بھی ہے اس لیے کہ خیرالقرون میں تقلید کا وجود نہ تھا۔
ساتویں یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور جس سے معلوم ہوا کہ بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنا غلط اور لغو بحث ہے۔
( ابن ماجہ اتباع سنتہ الخلفاء الراشدین، ح 46 قال الالبانی صحیح )
 
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
جابر سے روایت ہے کہ حضرت عمر تورات کا ایک نسخہ لے کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ار عرض کیا اے اللہ کے رسول یہ تورات کا ایک نسخہ ہے ۔ یہ سن کر آپ چپ رہے تو حضرت عمر اسے پڑھنے لگے ار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ بدلنے لگا تو حضرت ابو بکر نے کہا کہ رونے والیاں تجھ پر روئیں کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو نہیں دیکھ رہا ہے حضرت عمر نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ دیکھا تو کہا ہم راضی ہوئے اللہ کے رب ہونے کے اعبار سے اور اسلام کے دین ہونے کے اعتبار سے اور محمد کے نبی ہونے کے اعتبار سے پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر موسیٰ بھی ظاہر ہوجائیں اور تم ان کی اتباع کرنے لگو تو سیدھی راہ سے بھٹک جاو گے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میری نبوت کو پاتے تو انھیں بھی میری اتباع کرنی پڑتی ۔
( دارمی ، المقد مۃ ، مایتقی من تفسیر حدیث النبی و قول غیرہ عند قول صلی اللہ علیہ وسلم ،ح 449 ط: انصارالسنۃ ، و سندہ ضعیف ، بعض علماء نے اسے حسن قرار دیا ہے)
اس ارشاد نبوی سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام کی پیروی کرنے والا گمراہ ہوگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث و سنن کی موجودگی میں جو اماموں کی تقلید کو فرض و واجب سمجھے اور ان کے قول کو دستور العمل بنائے اور انہیں حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دے تو ایسے شخص کے عمل کے اکارت ہوجانے اور اس کے گمراہ ہونے میں کیا شہبہ باقی رہ جاتا ہے۔
تقلید کی شرعی حیثیت
تالیف: جلال الدین قاسمی
 
Last edited:
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
جابر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے آپ نے ایک خط کھینچا پھر اس خط کے دائیں طرف دو خط کھینچے اور اس کے بعد اس خط کے بائیں طرف دو خط کھینچے پھر درمیان والے خط پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا:
یہ اللہ کا راستہ ہے پھر یہ ایت تلاوت کی ( وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفر ق بکم عن سبیلہ ) (6 سورۃ انعام 153)
یعنی اللہ فرماتا ہے کہ یہ میری راہ ہے جو بالکل سیدھی ہے تو تم اسی راہ پر چلو دیگر راہوں پر نہ چلو کیوں کی وہ راہیں تمہیں اس کی راہ سے بھٹکا دیں گی۔
( ابن ماجہ ، السنتہ اتباع سنتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ح 11 قال الالبانی صحیح ، جبکہ بعض محققین نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔)
یہ حدیث درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قوللی معجزات میں سے ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ سے خبر پا کر امت کو یہ تنبیہ کی ہے کہ اس پر ایک پر آشوب زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ کتاب و سنت کی اتباع چھوڑ کر کئی اماموں کی تقلید اپنے اوپر لازم کر کے فرقہ بندی میں گرفتار ہو جائیں گے ۔ آپ نے درمیانی لکیر کو سبیل اللہ ( اللہ کا راستہ ) کہا۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ فرقے اس صراط مستقیم سے علیحدہ ہوئے پھر اسی میں آکر مل گئے ہیں۔ سوال یہ کہ کہ نکلے کیوں تھے؟
سیدھے راستے کو چھوڑ کر الگ الگ راستوں پر چلنا پھر آگے چل کر سیدھے راستے پر مل جانا آخر کیا فائد مقصود ہے؟
 
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
شام سے ایک شخص عبداللہ بن عمر کی خدمت میں آیا اور ان سے حج تمتع کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا :
حج تمتع جائز ہے تو شامی نے کہا لیکن آپ کے والد عمر بن خطاب نے تو حج تمتع سے منع کیا ہے۔ تو عبداللہ بن عمر نے کہا کہ بتاو اگر میرے باپ نے منع کیا ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہو تو میرے باپ کی اتباع کی جائے گی یا پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی؟ شامی نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم کی۔
تو فر مایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا ہے۔
( ترمذی ، الحج ، ما جاء فی التمتع، ح 824 )
 
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
مروان بن حکم نے کہا میں حضرت عثمان اور حضرت علی کے دور میں موجود تھا حضرت عثمان اپنی خلافت میں حج تمتع ارو حج قران سے منع کرتے تھے ۔
حضرت علی نے یہ دیکھ کر یوں احرام باندھا لبیک بعمرۃ و حجۃ قران کیا ) اور فرمایا کہ میں کسی کے کہنے کی وجہ سے نبی کی سنت نہیں چھوڑ سکتا ۔( بخاری ، الحج ، التمتع و الاقران ۔۔۔ح 1563)
مذکورہ بلا دونوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کے مقابلے میں عمر رضی اللہ عنہ اورعثمان رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم کی بات نہیں مانی جا سکتی تو بھلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مقابلے میں اماموں کے اقوال و اجتہاد کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔
 
Last edited:
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
کثیر ابن قیس نے کہا: کہ میں ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کے پاس مسجد دمشق میں بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اے ابو درداء میں آپ کے پاس نبی کے شہر مدینہ سے ایک حدیث کے لیے آیا ہوں مجھے خبر ملی ہے کہ تم اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہو۔ ابودرداء نےکہا : تم کسی تجارت کےلیے آئے ہو؟ اس نے کہا نہیں ۔
انہوں نے کہا: اس کے علاوہ کسی اور کام سے آئے ہو ؟
اس نے کہا نہیں ۔
تب ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: بے شک میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستے پر چلے گا تو اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دے گا بے شک طالب علم سے خوش ہو کر فرشتے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اور طالب علم کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں جو آسمانوں
اور زمین میں ہیں حتی کہ پانی میں مچھلیاں بھی۔ اور عالم کی ٍفٍضیلت عابد کے اوپر
ایسی ہے جیسے چاند کی فضیلت تمام تاروں پر ۔
بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاءاپنا ترکہ درہم و دینار میں نہیں چھوڑتےوہ اپنا ترکہ علم کی شکل میں چھوڑتے ہیں ۔
جس نے علم کو لیا اس نے بڑا حصہ لیا۔
(ابن ماجۃ ، فضل العماء ، والحث علی طلب العلم ، ح 223 ، قال الالبانی صحیح ،
جبکہ بعض محققین نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انبیاء علم کا ترکہ چھوڑ کر جاتے ہیں اور ظاہر
ہے علم نام ہے اس معرفت کا جو دلیل سے حاصل ہو اور تقلید نام ہے بے دلیل کا ، پس تقلید کو علم سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ مقلد علماء کی جماعت سے خارج ہے۔
انبیاء کی میراث سے محروم ہے جو درہم و دینار نہیں بلکہ علم ہے ۔
 
شمولیت
فروری 06، 2013
پیغامات
156
ری ایکشن اسکور
93
پوائنٹ
85
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سب زمانوں سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر جو اس کے بعد ہوگا ، پھر جو اس کے بعد ہوگا ، پھر ایسے لوگ آئیں گے جو گواہی سےپہلے قسم کھائیں گے اور قسم سےپہلے گواہی دیں گے ۔
( ترمذی ، المناقب، ماجاء فضل من رای النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ح 3859 ، قال الالبانی ۔صحیح)
استشہاد۔۔۔۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین زمانوں کے بہتر ہونے کی خبر دی ہے اور ان تینوں زمانوں کے لوگوں کا مذہب قرآن اور حدیث تھا ۔ ان زمانوں میں آنکھیں بند کر کے کوئی کسی بزرگ ، امام یا عالم کے پیچھے نہیں بھاگتا تھا بلکہ ہر شخص علی وجہ البصیر ۃ دلائل قرآن و حدیث دیکھ کر دین پر چلتا تھا ۔ وہ قال اللہ اور قال الرسول پر جان چھڑکتا تھا ۔
اسکے بعدچوتھے زمانے کی برائی بطور خاص جھوٹی گواہی کی خبر دی۔
پس مومن متبع کےلیے لازم ہے کہ دین کی سند انھیں تین زمانوں میں ڈھونڈے اس کے بعد جو امور مسلمانوں میں ایسے پیدا ہوئے جن کی نظیر ان تین زمانوں میں نہ ہو اسے لغو جانے ظاہر ہےکہ جب خیرالقرون میں تقلید کا وجود نہ تھا تو تقلید لغو ہی ٹھہری اور مومن کےلیے ضروری ہے کہ لغو سے اعراض کرے۔
http://www.jalaluddinqasmi.com/wp-content/uploads/2014/07/Taqleed-ki-sharai-haisiat-Hafiz-Jalaluddin-Qasmi.pdf
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
عرباض رضی اللہ عنہ بن ساریہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر ایک بلیغ نصیحت فرمائی جس سے دل دھڑک اٹھے اور آنکھیں بہہ پڑیں لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے تو ایسی نصیحت کی ہے جیسے ایک رخصت ہونے والا نصیحت کرتا ہے تو ہمیں آپ کوئی نصیحت فرمائیے تو آپ نے فرمایا کہ تقویٰ کو لازم پکڑو اور سننے اور اطاعت کرنے کو اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام ہی امیر ہو اورعنقریب میرے بعد تم سخت اختلاف دیکھو گے تو اس وقت میری سنت اور خلفائے راشدین جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو لازم پکڑنا اور اسے دانتوں سے زور سے پکڑنا اور نئے نئے کاموں سے بچنا کیوں کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
یہ حدیث بڑی کثیر الفوائد ہے۔ اس سے بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
ایک تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ایسا پر تا ثیر ہوتا تھا کہ اس سے دل ڈر جاتے تھے اور آنکھیں آنسو بہانے لگتی تھیں۔
دوسری یہ کہ رخصت کے وقت نصیحت و وصیت منسون ہے۔
تیسری یہ کہ تقویٰ شریعت کی روح ہے۔
چوتھی یہ کہ حاکم کی فرمانبرداری لازم ہے۔ بشرطیکہ وہ مومن ہو اور خلاف شریعت حکم
نہ کرتا ہو یعنی لوگوں کو ایسا کام کرنے کا حکم نہ دے جس میں خالق کی معصیت ہو۔
پانچویں یہ کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بڑا اختلاف ہوگا اور ویسا ہی ہوا خیرالقرون (قرون ثلاثہ) کے بعد بہت سے مذاہب محدثہ اور مشارب متفرقہ پھیلے اورہر ایک اپنے اپنے مذہب پر ہی راضی ہوگیا اور ہر ایک نے اپنا ایک امام اور پیشوا ٹھہر الیا کہ اختلاف کے وقت اسی کی طرف رجوع کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت بھول گیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی کہ اس وقت میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت پر چلنا۔
چھٹی بات یہ کہ امور محدثات ( دین میں نئے نئے کام ) سے بچو اس میں وہ تمام بدعتیں آگئیں جو قرون ثلاثہ کے بعد پھیلی ہیں انہی میں سے ایک تقلید بھی ہے اس لیے کہ خیرالقرون میں تقلید کا وجود نہ تھا۔
ساتویں یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور جس سے معلوم ہوا کہ بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنا غلط اور لغو بحث ہے۔
( ابن ماجہ اتباع سنتہ الخلفاء الراشدین، ح 46 قال الالبانی صحیح )
آٹھویں بات یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اپنی سنت اور اپنی احادیث کی اطاعت کا حکم نہیں دیا بلکہ ساتھ میں خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے پکڑنے کا بھی حکم دیا اور اس میں طلب دلیل کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس سے تقلید ثابت ہوئی۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
سب زمانوں سے بہتر میرا زمانہ ہے پھر جو اس کے بعد ہوگا ، پھر جو اس کے بعد ہوگا ، پھر ایسے لوگ آئیں گے جو گواہی سےپہلے قسم کھائیں گے اور قسم سےپہلے گواہی دیں گے ۔
( ترمذی ، المناقب، ماجاء فضل من رای النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، ح 3859 ، قال الالبانی ۔صحیح)
استشہاد۔۔۔۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین زمانوں کے بہتر ہونے کی خبر دی ہے اور ان تینوں زمانوں کے لوگوں کا مذہب قرآن اور حدیث تھا ۔ ان زمانوں میں آنکھیں بند کر کے کوئی کسی بزرگ ، امام یا عالم کے پیچھے نہیں بھاگتا تھا بلکہ ہر شخص علی وجہ البصیر ۃ دلائل قرآن و حدیث دیکھ کر دین پر چلتا تھا ۔ وہ قال اللہ اور قال الرسول پر جان چھڑکتا تھا ۔
اسکے بعدچوتھے زمانے کی برائی بطور خاص جھوٹی گواہی کی خبر دی۔
پس مومن متبع کےلیے لازم ہے کہ دین کی سند انھیں تین زمانوں میں ڈھونڈے اس کے بعد جو امور مسلمانوں میں ایسے پیدا ہوئے جن کی نظیر ان تین زمانوں میں نہ ہو اسے لغو جانے ظاہر ہےکہ جب خیرالقرون میں تقلید کا وجود نہ تھا تو تقلید لغو ہی ٹھہری اور مومن کےلیے ضروری ہے کہ لغو سے اعراض کرے۔
http://www.jalaluddinqasmi.com/wp-content/uploads/2014/07/Taqleed-ki-sharai-haisiat-Hafiz-Jalaluddin-Qasmi.pdf
پہلا زمانہ نبی ﷺ اور صحابہ رض کا، دوسرا تابعین کا، تیسرا تبع تابعین کا،
امام ابو حنیفہ رح تابعی ابن حجر ہیثمی وغیرہ کی صراحت کے مطابق، امام مالک، امام ابو یوسف، امام محمد تبع تابعی۔
انہوں نے جو مسائل مستنبط کیے ان پر عمل کے بارے میں کیا خیال ہے؟
 
Top