محمد طالب حسین
رکن
- شمولیت
- فروری 06، 2013
- پیغامات
- 156
- ری ایکشن اسکور
- 93
- پوائنٹ
- 85
عرباض رضی اللہ عنہ بن ساریہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان کھڑے ہو کر ایک بلیغ نصیحت فرمائی جس سے دل دھڑک اٹھے اور آنکھیں بہہ پڑیں لوگوں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول آپ نے تو ایسی نصیحت کی ہے جیسے ایک رخصت ہونے والا نصیحت کرتا ہے تو ہمیں آپ کوئی نصیحت فرمائیے تو آپ نے فرمایا کہ تقویٰ کو لازم پکڑو اور سننے اور اطاعت کرنے کو اگرچہ تم پر کوئی حبشی غلام ہی امیر ہو اورعنقریب میرے بعد تم سخت اختلاف دیکھو گے تو اس وقت میری سنت اور خلفائے راشدین جو ہدایت یافتہ ہیں کی سنت کو لازم پکڑنا اور اسے دانتوں سے زور سے پکڑنا اور نئے نئے کاموں سے بچنا کیوں کہ ہر بدعت گمراہی ہے۔
یہ حدیث بڑی کثیر الفوائد ہے۔ اس سے بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
ایک تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ایسا پر تا ثیر ہوتا تھا کہ اس سے دل ڈر جاتے تھے اور آنکھیں آنسو بہانے لگتی تھیں۔
دوسری یہ کہ رخصت کے وقت نصیحت و وصیت منسون ہے۔
تیسری یہ کہ تقویٰ شریعت کی روح ہے۔
چوتھی یہ کہ حاکم کی فرمانبرداری لازم ہے۔ بشرطیکہ وہ مومن ہو اور خلاف شریعت حکم
نہ کرتا ہو یعنی لوگوں کو ایسا کام کرنے کا حکم نہ دے جس میں خالق کی معصیت ہو۔
پانچویں یہ کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بڑا اختلاف ہوگا اور ویسا ہی ہوا خیرالقرون (قرون ثلاثہ) کے بعد بہت سے مذاہب محدثہ اور مشارب متفرقہ پھیلے اورہر ایک اپنے اپنے مذہب پر ہی راضی ہوگیا اور ہر ایک نے اپنا ایک امام اور پیشوا ٹھہر الیا کہ اختلاف کے وقت اسی کی طرف رجوع کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت بھول گیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی کہ اس وقت میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت پر چلنا۔
چھٹی بات یہ کہ امور محدثات ( دین میں نئے نئے کام ) سے بچو اس میں وہ تمام بدعتیں آگئیں جو قرون ثلاثہ کے بعد پھیلی ہیں انہی میں سے ایک تقلید بھی ہے اس لیے کہ خیرالقرون میں تقلید کا وجود نہ تھا۔
ساتویں یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور جس سے معلوم ہوا کہ بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنا غلط اور لغو بحث ہے۔
( ابن ماجہ اتباع سنتہ الخلفاء الراشدین، ح 46 قال الالبانی صحیح )
یہ حدیث بڑی کثیر الفوائد ہے۔ اس سے بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔
ایک تو یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان ایسا پر تا ثیر ہوتا تھا کہ اس سے دل ڈر جاتے تھے اور آنکھیں آنسو بہانے لگتی تھیں۔
دوسری یہ کہ رخصت کے وقت نصیحت و وصیت منسون ہے۔
تیسری یہ کہ تقویٰ شریعت کی روح ہے۔
چوتھی یہ کہ حاکم کی فرمانبرداری لازم ہے۔ بشرطیکہ وہ مومن ہو اور خلاف شریعت حکم
نہ کرتا ہو یعنی لوگوں کو ایسا کام کرنے کا حکم نہ دے جس میں خالق کی معصیت ہو۔
پانچویں یہ کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بعد بڑا اختلاف ہوگا اور ویسا ہی ہوا خیرالقرون (قرون ثلاثہ) کے بعد بہت سے مذاہب محدثہ اور مشارب متفرقہ پھیلے اورہر ایک اپنے اپنے مذہب پر ہی راضی ہوگیا اور ہر ایک نے اپنا ایک امام اور پیشوا ٹھہر الیا کہ اختلاف کے وقت اسی کی طرف رجوع کرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت بھول گیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی کہ اس وقت میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت پر چلنا۔
چھٹی بات یہ کہ امور محدثات ( دین میں نئے نئے کام ) سے بچو اس میں وہ تمام بدعتیں آگئیں جو قرون ثلاثہ کے بعد پھیلی ہیں انہی میں سے ایک تقلید بھی ہے اس لیے کہ خیرالقرون میں تقلید کا وجود نہ تھا۔
ساتویں یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر بدعت گمراہی ہے اور جس سے معلوم ہوا کہ بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرنا غلط اور لغو بحث ہے۔
( ابن ماجہ اتباع سنتہ الخلفاء الراشدین، ح 46 قال الالبانی صحیح )