السلام علیکم و رحمۃ اللہ
بھائی اس مقالے کا اردو ترجمہ حاضر ہے لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ ترجمہ ہے اور پھر رومن میں لکھے گئے عربی ناموں کو اردو میں لکھنا مجھے کافی دشوار لگ رہا تھا اس لئے غلطیوں کی معافی۔۔۔ اور میری اس فورم کے علماء سے گزارش ہے کہ اس مسئلے پر ضرور اپنی راء دیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب
سید محمد الیعقوبی کے میلاد پر دئے گئے خطبہ پر اعتراض کا جواب
یہ مقالہ سید محمد الیعقوبی کے اس بیان کے دفاع میں لکھا جا رہا ہے جو انہوں نے نیشنل میلاد کانفرنس میں کہا کہ کاش میں آپ علیہ السلام کا پیشاب ہوتا جو آپ سے گزر کا آتا تھا اور شافعی بھی تھا
نیچے کچھ روایات دی گئے ہیں جو کہ صاف طور پر ظاہر کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب پاک اور شافی تھا
امام جلال الدین السیوطی کی روایات (1)
امام جلال الدین السیوطی نے طبرانی اور بیہقی کی روایت نقل کی جنہوں نے حکیمہ بنت امیہ رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کی ہے وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لکڑی کا پیالا تھا جو آپ کے چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا تھا جس میں اپ علیہ السلام پیشاب کرتے تھے ایک رات آپ علیہ السلام اسے دھونڈنے لگے لیکن نہیں ملا اور پھر آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ وہ کہا ہے اہل بیت نے جواب دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خادمہ برہ نے وہ پی لیا ہے جو کہ ان کے ساتھ حبشہ سے آئیں ہے ، اپ علیہ السلام نے فرمایا یقنن اس نے خود کو دکھتی آگ سے بچا لیا جس کی حفاظت کے لئے دیورین ہیں
امام جلال الدین اسیوطی ابو یعلی ، حاکم ، دارقطنی ، طبرانی اور ابو نعیم سے وہ ام ایمن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات اٹھے اور پیالے میں پیشاب کیا اسی میں پیاس کی شدت کے ساتھ اٹھی اور پیالے میں جو تھا میں نے پی لیا صبح کو میں آپ علیہ السلام کو بتایا کہ مین نے کیا کیا ہے جس آپ علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا کہ یقنن پھر تمہین کبھی بھی معدے کی تکلیف نہین ہوگی۔
امام طبرانی کی روایات (2)
امام طبرانی نےاس مسئلے پر معجم الکبیر میں تین احادیث روایات کی ہیں جس مین سے دو صحیح اور ایک ضعیف ہے جو کہ ابومالک (النخائی لفظ غلط ہوسکتا ہے) لیکن یہی اسی روایت کو ایک اور روایت تقویت بخشتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیشاب پاک بھی ہے اور علاج بھی ہے جبکہ یہ دوسری اسناد کے ساتھ بھی روایت کیا گیا ہے
پہلا واقعہ :
امیمہ بنت رقیہ کی روایت جس مین ہے کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ برہ نے آپ علیہ السلام کا پیشاب پی لیا تھا یہ صحیح روایت ہے
دوسرہ واقعہ
امیمہ بنت رقیہ کی روایت جس میں برکہ جو کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں (ئی ام ایمن سے الگ ہیں ام ایمن کا نام بھی برکہ تھا)
تیسرہ واقعہ
ام ایمن کی روایت جس میں وہ خود اپنے (اپ علیہ السلام کا پیشاب پینے) واقعی کو بیان کرتی ہیں اسی روایت میں ابو مالک نخعی ایک ضعیف راوی ہے لیکن یہ روایت دوسرے اسناد سے بھی آئی جس کو ہم بعد میں دیکھیں گے ان شاء اللہ
پہلی حدیث : طبرانی کہتے ہیں عبداللہ بن احمد بن حنبل نے ہمیں بتایا ان کو یحی بن معین نے بتایا ان کو حجاج بن محمد نے بتایا جو کہ ابن جریج سے روایت کرتا ہے اور وہ حکیمہ بنت امیمہ سے اور وہ اپنی والدہ امیمہ سے روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لکڑی کا پیالا تھا جو آپ کے چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا تھا جس میں اپ علیہ السلام پیشاب کرتے تھے ایک رات آپ علیہ السلام اسے دھونڈنے لگے لیکن نہیں ملا اور پھر آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ وہ کہا ہے اہل بیت نے جواب دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خادمہ برہ نے وہ پی لیا ہے جو کہ ان کے ساتھ حبشہ سے آئیں ہے ، اپ علیہ السلام نے فرمایا یقنن اس نے خود کو دکھتی آگ سے بچا لیا جس کی حفاظت کے لئے دیورین ہیں
اس روایت کو کئی علماء نے صحیح کہا ہے امام نورالدین الہیثمی کہتے ہیں کہ طبرانی کی اس روایت کے راوی صالح ہیں جیسا کہ بخاری سواء عبداللہ بن احمد اور حکیمہ کے جوکہ ثقہ ہیں (3)
عبداللہ امام احمد کے فرزند ہیں جو کہ مسند کے راوی اور لیکھنے والے ہیں اور سنن نسائی کے راوی بھی ہیں
حکیمہ تابعات صالحات میں سے ہیں اور ابو داود ، نسائی اور بیہقی اور دوسروں نے ان سے روایت کی ہے
ابن حبان نے اپنی صحیح میں یہ حدیث روایت کی ہے (5)
حاکم نے مستدرک میں یہ حدیث روایت کی ہے اور ذہبی نے اس کی صحت کو تسلیم کیا ہے 1:167
امام السیوطی اپنے دو کتابوں میں اس روایت کو صحیح کہا ہے ایک الجامع الصغیر اور دوسری الخصائص الکبری جس میں انہوں نے پورہ ایک باب اس مسئلہ پر لکھا ہے جس کا عنوان یہ ہے آپ علیہ السلام کی خصوصیت اور آپ علیہ السلام کے پیشاب و خون کا پاک ہونا
حدیث دوم:
طبرانی کہتے ہیں حسین بن اسحاق التستری نے انہیں بتایا ان کو عثمان بن ابی شیبہ نے بتایا ان کو شبابہ بن سور جس کو ابو مالک النخعی نے بتایا جو کہ اسودبن قیس سے روایت کرتا ہے وہ نوبیہ الانزی سے وہ ام ایمن رضی اللہ عنہا سے روایت کرتا ہے کہ کہ وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات اٹھے اور پیالے میں پیشاب کیا اسی میں پیاس کی شدت کے ساتھ اٹھی اور مین پیالے میں جو تھا میں نے پی لیا اور مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ اس میں کیا ہے صبح کو آپ علیہ السلام نے کہا اے ام ایمن پیالے میں جو بھی ہے اس کو پھنک دو میں نے کہا اس میں جو تھا میں نے پی لیا ہے جس آپ علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا کہ جان لو کہ پھر تمہین کبھی بھی معدے کی تکلیف نہین ہوگی۔
امام جلال الدین السیوطی ابو یعلی سے ، حاکم ، دار القطنی ، طبرانی ، ابو نعیم وغیرہ کی روایت ام ایمن رضی اللہ عنہا (جنہیں برکہ بھی کہتے تھے) بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات اٹھے اور پیالے میں پیشاب کیا اسی میں پیاس کی شدت کے ساتھ اٹھی اور مین پیالے میں جو تھا میں نے پی لیا صبح کو میں آپ علیہ السلام کو بتایا کہ مین نے کیا کیا ہے جس آپ علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا کہ یقنن پھر تمہین کبھی بھی معدے کی تکلیف نہین ہوگی۔ ابو یعلی کے الفاظ اس طرح ہیں آج کے بعد تم کبھی بھی معدی میں تکلیف محسوس نہیں کروگی۔
امام الہیثمی مجمع الزوائد میں کہتے ہیں اس کی سند میں ابو مالک نخعیالنخئی ضعیف ہے (7)
قاضی عیاض اس روایت کو صحیح مانتے ہیں کہتے ہیں کہ دارالقطنی نے بخاری و مسلم کے اصول کے مطابق اسے صحیح کہا ہے (8)
امام النواوی نے بھی شرح المہذب میں اس کو صحیح کہا ہے اور امام الزرقانی نے اس کی تشریح الموہب الدنیہ میں اس کی تصدیق کی ہے کہ امام نواوی نے کہا کہ یہ روایت حسن صحیح ہے اور انہوں نے اپنی اس راء کی بنیاد امام دارالقطنی کی راء کو بنایا جنہوں اس کو صحیح کہا ہے اور نواوی کہتے ہیں کہ دارالقطنی کی راء ثبوت کے طور کافی ہے (10)
ملا علی القاری نے ام ایمن رضی اللہ عنہا کی روایات کو صحیح کہا ہے وہ جامع الوسائل 2:3 میں کہتے ہیں
وہ (ام ایمن) کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات اٹھے اور پیالے میں پیشاب کیا اسی میں پیاس کی شدت کے ساتھ اٹھی اور مین پیالے میں جو تھا میں نے پی لیا اور مجھے پتا ہی نہیں چلا کہ اس میں کیا ہے صبح کو آپ علیہ السلام نے کہا اے ام ایمن پیالے میں جو بھی ہے اس کو پھنک دو میں نے کہا اس میں جو تھا میں نے پی لیا ہے جس آپ علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا کہ جان لو کہ پھر تمہین کبھی بھی معدے کی تکلیف نہین ہوگی
اسی مقالے میں ملا علی القاری کہتے ہیں کہ ابن الحجر نے کہا ہے کہ مقدمین میں سے بہت سے علماء نے اس بات کو لیا ہے کہ آپ علیہ السلام کا پیشاب وغیرہ پاک ہے اور انہوں نے اسی روایت کو بنیاد بنایا ہے۔
بہت سارے محدیثین کا اس روایت کو صحیح کہنا اس بات کو تقویت دینا ہے کہ ام ایمن رضی اللہ عنہا سے یہ روایت بہت سے اسناد سے آئی ہے کہ صرف ابو مالک نخعی سے اور پھر اس حدیث کے دوسری تمام اسناد و متن عام طور پر ضعیف نہیں کہا جاسکتا ملا علی القاری قاضی عیاض کی شرح کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس حدیث کے راوی صحت و ایمانداری میں ویسے ہیں جیسے بخاری و مسلم کے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اخری بات یہ ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے معیار پر ہے البتہ ان دونوں نے اس کو بیان کرنے سے گریز کیا ہے (11)
ابن الکثیر نے البدایہ و النہایہ (12) میں ام ایمن رضی اللہ عنہا کی اس روایت کو اس سند سے نقل کیا ہے حافظ ابو یعلی کہتے ہیں کہ محمد ابن ابی بکر المقدمی نے مججھے بتایا ان کو ابن قتیبہ نے بتایا جو کہ حسین بن حرب سے روایت کرتے ہیں وہ یعلی بن عطا سے روایت کرتے ہیں وہ ولید بن عبدالرحمن سے وہ ام ایمن رضی اللہ عنہا سے وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پیالا تھا جس میں آپ علیہ السلام پیشاب کرتے تھے اور صبح کو آپ علیہ السلام ہمیشہ کہتے تھے کہ اے ام ایمن پیالے میں جو بھی ہے اس کو باہر پھینک دو ایک رات میں اٹھی اور مجھے سخت پیاس لگی تھی تو میں پیالے میں جو بھی تھا میں نے پی لیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اس مین جو بھی ہے باہر پھینک دو انہوں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول میں اٹھی مجھے بہت پیاس لگی تھی اس مین جو تھا میں نے پی لیا ہے تو آپ علیہ السلام نے کہا کہ آج کے بعد تمہیں معدی میں تکلیف نہین ہوگی۔
قابل غور بات ہے کہ امام ذہبی مستدرک میں ام ایمن کی اسی روایت پر خاموشی اختیار کی ہے ورنہ وہ احادیث کی صحت و ضعف میں بہت سخت تھے جیسا کہ امام حاکم اس معاملے مین احتیاط کم کرتے تھے انکی خاموشی کو دو ممکنہ سبب ہوسکتے ہیں ایک: وہ اس روایت کے دوسرے سند اور متن سے واقف تھے ۔ دوم: یہ کہ یہ حدیث اس کی ضعیف سند ہونے کے باوجود معیار کے حساب سے اچھی تھی جس کو صحیح کہنا ضروری نہیں تھا ۔
حافظ حسن بن سفیان نے اپنی مسند میں یہ حدیث ابو مالک النخعی کی سند سے روایت کی ہے (13)
حافظ ابو احمد العسکری نے بھی ابو مالک نخعی کی ہی سند سے روایت کی ہے (14)
حافظ ابو نعیم نے یہ واقعہ دلائل النبوۃ اور حلیات الاولیاء میں ابو مالک نخعی سے روایت کی ہے (15)
حافظ ابو علی بن السکون نے یہ روایت کی ہے جس کو ابن حجر نے الاصابہ میں ابو مالک نخعی کی ہی سند بیان کیا ہے (16)
حدیث سوم :
طبرانی کہتے ہیں کہ انہیں احمد بن زیاد الحزہ الرقعی نے بتایا ان کو حجاج بن محمد نے انہو ں ابن جریج سے روایت کی اور انہوں نے حکیمہ بن امیمہ سے اور انہوں نے اپنی والدہ امیمہ بنت رقیہ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لکڑی کا پیالا تھا جو آپ کے چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا تھا جس میں اپ علیہ السلام پیشاب کرتے تھے ایک رات آپ علیہ السلام اسے دھونڈنے لگے لیکن نہیں ملا اور پھر آپ علیہ السلام نے برکہ جو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں جو کہ ان کے ساتھ حبشہ سے آئیں ہے سے پوچھا کہ اس پیالے مین جو پیشاب تھا وہ کہاں ہےاس نے کہا کہ میں نے پی لیا ہے ، اپ علیہ السلام نے فرمایا یقنن اس نے خود کو دکھتی آگ سے بچا لیا (17)
امام النسائی اور ابو داود اس روایت کو امیمہ سے بہت مختصر روایت کرتے ہیں ابن عبدالبر نے نسائی کی اس حدیث کو الاستعیاب میں مکمل کیا ہے جیساکہ السیوطی نے اپنی شرح سنن النسائی میں بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لکڑی کا پیالی میں پیشاب کرتے تھے جو آپ کے چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا تھااور پھر آپ علیہ السلام نے برکہ جو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں جو کہ ان کے ساتھ حبشہ سے آئیں ہے سے پوچھا کہ اس پیالے مین جو پیشاب تھا وہ کہاں ہےاس نے کہا کہ میں نے پی لیا ہے (18)
السیوطی نے جامع الصغیر میں ابو داود ، نسائی اور حاکم سے روایت کیا ہے اور اس کو صحیح کہا ہے ، امام مناوی نے اس کی شرح میں مکمل حدیث کو بیان کردیا ہے اور کہتے ہین کہ اس کے روات بخاری و مسلم کے روایوں کے برابر ہیں (19)
یاد رکھنا چاہئے کہ علماء احادیث حدیث کے کسی حصہ کو لے لیتے ہیں اور باقی کو چھور دیتے ہیں تاکہ جو عنوان انہوں بنایا ہے اس سے مطابق ہو اور ہم اس کی مثال امام بخاری کی صحیح اور دوسری کتب میں دیکھ سکتے ہیں
امام القرطبی اسی واقعہ کو بیان کرتے ہیں جو کہ ابن عبدالبر نے الاستعیاب میں نوٹ کیا ہے (20)
امام البہقی اس کو سنن الکبری پوری باب قائم کرکہ روایت کیا ہے جس کا عنوان ہے ان لوگوں کے ساتھ خصوصی رعایت جنہوں نے اپ علیہ السلام کا پیشاب یا خون پیا ہے (12)
السیوطی نے بھی خصائص الکبری میں پورہ ایک باب باندہا ہے اس مسئلے پر جس میں وہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہیں اس باب کا عنوان ہے " آپ علیہ السلام کے پیشاب سے شفا پانا "
امام عسقلانی الاصابہ فی معرفۃ الصحابہ اور تلخیص مین برکہ الحبشیہ میں اس کو روایت کرتے ہیں روایت کرتے ہیں (22)
حافظ عبدالرزاق الصنعانی اس واقعہ کو ابن جریج سے مختلف الفاظ میں روایت کرتے ہیں یعنی ابن جریج کہتے ہیں مجھے بتایا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لکڑی کا پیالا تھا جو آپ کے چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا تھا جس میں اپ علیہ السلام پیشاب کرتے تھے ایک رات آپ علیہ السلام اسے دھونڈنے لگے لیکن نہیں ملا اور پھر آپ علیہ السلام نے برکہ جو ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ تھیں جو کہ ان کے ساتھ حبشہ سے آئیں ہے سے پوچھا کہ اس پیالے مین جو پیشاب تھا وہ کہاں ہےاس نے کہا کہ میں نے پی لیا ہے ، اپ علیہ السلام نے فرمایا اے ام یوسف تم نے شفا پالی ام یوسف یہ ان کی کنیہ تھیں اور اس کے بعد وہ کبھی بھی بیمار نہین ہوئین اور اچھی صحت میں وفات پائی۔
اس واقعے سے ہمیں پتا چلا کہ ام یوسف کو برکہ کہا جاتا تھا اور ام ایمن کو بھی یعنی یہ دو الگ الگ واقعی ہیں ابن دحیہ نے دونوں واقعات الگ الگ طور پر صحیح کہا ہے جو کہ اسیوطی نے الخصائص اور العسقلانی نے تلخیص اور الاصابہ مین بیان کیا ہے
ابو نعیم الاصبھانی نے یہ حدیث کو امیمہ بنت رقیہ کی سند سے روایت کی ہے (23)
ابن المندہ الاصبھانی نے اسے معرفت الاصحابہ میں بیان کیا ہے (24)
اخر میں اس پر صحابہ کے دو اور وقعات بیان کرتے ہیں
امام ابو نعیم انس رضی اللہ عنہ کی عادت کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر بہت طویل مدت تک نماز و قیام کرتے تھے ایک دفعہ آپ علیہ السلام نے میرے کوئیں میں پیشاب کیا جو کہ گھر کے اندر تھا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مدینہ اس جیسا میٹھا کنواں کوئی نہیں تھا وہ کہتے ہیں کہ جب صحابہ میرے گھر پر آتے تھے تو میں ان کو اس کنویں کا پانی پیش کرتا تھا جاہلیت کے دورمیں اس کنویں کو البارد کہا جاتا تھا (25)
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وضو کے لئے پانی لیا اور دیکھا کہ دو کھجور کے درخت الگ الگ موجود ہیں آپ علیہ السلام نے اے جابر جا ان کو کہو کہ ایک ہوجائیں وہ ایک ہوگئے اور ایسے لگ رہا تھا ان کی جڑین ایک ہی ہیں پھر میں پانی لایا اور آپ علیہ السلام نے وضو کیا پھر میں نے سوچا کہ اگر اللہ تعالی مجھے آپ علیہ السلام کا پاخانہ کہاں ہے تو میں اسے کہا لیتا لیکن میں نے دیکھا کہ جس جگہ آپ بیتھے تھے وہاں زمین صاف تھی تو میں آپ علیہ السلام سے پوچھا کیا آپ نے پاخانہ نہیں کیا اس پر آپ علیہ السلام نے جواب دیا کہ کیا لیکن زمین کو حکم دیا گیا ہےکہ ہم پیغمبروں کا پاخانہ نگل لے اور پھر کھجور کے درخت الگ ہوگئے (26)
اس پہلی روایت مین ہم نے دیکھا کہ انس رضی اللہ عنہ کا کنواں اپ کے پیشاب سے میٹھا ہوگیا 2.اور انہوں نے اس سے پانی پیا 3. اور وہ اسی سے صحابہ کو پانی پلاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد والی روایت مین ہم نے دیکھا کہ جابر رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پاخانہ کھائے 2.. زمین کو آپ علیہ السلام کے پاخانہ کو نگلنے کاحکم دیا گیا ۔
ان احادیث و روایات کو قبول کرنے کے تین اصول:
ام ایمن و امیمہ رضی اللہ عنہما کی احادیث ایک سے زیادہ اسناد سے آئی ہیں اور ان میں صرف ایک سند جو کہ ابو مالک نخعی سے ہوتی ہوئی ام ایمن رضی اللہ عنہا تک جاتی ہے ضعیف ہے ، اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث بہت سے اسناد سے ائی ہے اور صرف ایک ضعیف سند سب اسناد پر لاگو نہیں ہوسکتی ۔
جس سند میں ابو مالک نخعی ہے وہ صرف دوسری روایات کو سپورٹ کرتی ہے یا پھر یہ صرف دہرائی جانی والی حدیث ہے
البتہ ابو مالک نخعی والی سند ضعیف ہے لیکن اس کو فضائل وغیرہ میں لیا جا سکتا ہے اس پر تمام علماء حدیث کا اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث جو کہ گھڑی نہ گئی ہو وہ فضائل میں قابل قبول ہوتی ہے اس کے لئے السخاوی کی فتح المغیث اور السیوطی کی تدریب الراوی یا دوسرے کتب دیکھ سکتے ہین۔
حرف آخر
السید محمد الیعقوبی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشاب و خون کا پاک اور شفا دینے کے متعلق بیان صحیح حدیث و مضبوط دلائل پر مبنی ہے ۔ اور وہ جو ان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ولہانہ محبت پر اعتراضات کرتے ہیں وہ مضبوط و صاف دلائل پیش کریں تاکہ اس بحث کو آگے بڑہا سکیں ۔
اور وہ لوگ جو کسی عالم کا علمی بیان سن کر اس کے متعلق کہتے ہیں اس میں ان کو احتیاط برتنی چاہئے۔ اکثر اوقات لوگ کسی ہدایت یافتہ عالم کی بیان کو غلط سمجھ بیٹھتے ہیں اور اس کا غلط مطلب نکالتے ہیں اور پھر ان کو اپنی کم علمی کی وجہ سے پشیمانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے
اللہ تعالی ہمیں نیکی کی راہ پر رکھے اور ہمیں سچ سمجھنے کی توفیق دے آمین
منور عتیق رضوی
شیخ اشرف القادری کے مقلات " حدیث شرب بول النبوی اردو سے لئے گئے ہیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشاب کے متعلق مزید معلومات
ایک بڑی عالم و محقق اور صوفی اسماعیل حقی البروصی اپنی تفسیر روح البیان میں کہتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کے مبارک بال جنت کی سبزی سے ہیں آپ علیہ السلام کی لعاب جنت کی شہد ہے اور آپ علیہ السلام کا پیشاب جیسا کچھ حکماء کہتے ہین کہ جنت کا پانی ہے
اور پھر قاضی عیاض کے الشفا کی شرح بنام نسیم الریاض میں امام الخفاجی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ واقعہ صحیح ہے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمن کے اس عمل پر نہ اعتراض کیا اور نہ ہی آپ علیہ السلام نے انہیں منھن صاف کرنے کے لئے کہا۔
امام مالک رحمہ اللہ اپنی مشہور کتاب بلغت السالک میں کہتے ہیں یقینن تمام انبیاء کا پیشاب وپاخانہ پاک ہے
امام قسطلانی المواہب میں ہشام بن عروہ کی حدیث بیان کرتے ہیں وہ اپنے والد عروہ اور وہ سیدہ عائشہ رضہ اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں عائشہ رضہ نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فورن بعد توائیلٹ میں جاتی تو مجھے صرف عنبر کی خوشبو کے علاوہ کچھ نہیں محسوس ہوتا۔