- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
امام جلال الدین السیوطی کی روایات (1)
امام جلال الدین السیوطی نے طبرانی اور بیہقی کی روایت نقل کی جنہوں نے حکیمہ بنت امیہ رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کی ہے وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لکڑی کا پیالا تھا جو آپ کے چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا تھا جس میں اپ علیہ السلام پیشاب کرتے تھے ایک رات آپ علیہ السلام اسے دھونڈنے لگے لیکن نہیں ملا اور پھر آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ وہ کہا ہے اہل بیت نے جواب دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خادمہ برہ نے وہ پی لیا ہے جو کہ ان کے ساتھ حبشہ سے آئیں ہے ، اپ علیہ السلام نے فرمایا یقنن اس نے خود کو دکھتی آگ سے بچا لیا جس کی حفاظت کے لئے دیورین ہیں
وأخرج الطبراني والبيهقي بسند صحيح عن حكيمة بنت أميمة عن أمها قالت كان للنبي صلى الله عليه وسلم قدح من عيدان يبول فيه ويضعه تحت سريره فقام فطلبه فلم يجده فسأل عنه فقال أين القدح قالوا شربته برة خادم أم سلمة التي قدمت معها من أرض الحبشة فقال النبي صلى الله عليه وسلم لقد احتظرت من النار بحظار
طبرانی کی معجم کبیر یہ روایت ذیل کے الفاظ سے موجودہے ؛
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ حُكَيْمَةَ بِنْتِ أُمَيْمَةَ، عَنْ أُمِّهَا، أُمَيْمَةَ، قَالَتْ: كَانَ لِلنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَحٌ مِنْ عِيدَانٍ يَبُولُ فِيهِ، وَيَضَعُهُ تَحْتَ سَرِيرِهِ فَقَامَ فَطَلَبَ فَلَمْ يَجِدُهُ فَسَأَلَ فَقَالَ: «أَيْنَ الْقَدَحُ؟» ، قَالُوا: شَرِبَتْهُ بَرَّةُ خَادِمُ أُمِّ سَلَمَةَ الَّتِي قَدِمَتْ مَعَهَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدِ احْتَظَرَتْ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ»
یہ وہی روایت ہے ،جس پر میں نے اپنے پہلے جواب میں لکھا تھا کہ :
وهو حديث ضعيف ؛ لجهالة حُكيمة بنت أميمة .‘‘یہ حدیث ۔۔حکیمہ بنت امیمہ ۔۔کے مجہول ہونے کے سبب ضعیف ہے ،
علامہ ذہبی اور ابن حجر دونوں ہی اسے ’‘ مجہول ’‘ کہتے ہیں
قال الذهبي في " ميزان الاعتدال " ( 1 / 587 ) : " غير معروفة " انتهى .
وقال ابن حجر في " تقريب التهذيب " ( ص 745 ) : " حُكَيمة بنت أميمة لا تعرف " انتهى .
ومع علة الجهالة فإن متن الحديث مضطرب اضطراباً كبيراً .
اور امام دار قطنی نے ۔۔العلل ۔۔ میں اس کے ایک طرق کو بھی ابو مالک کے ضعف اور اضطراب کے سبب ضعیف کا حکم لگایا ہے ’‘
دوسری روایت
امام جلال الدین اسیوطی نے ابو یعلی ، حاکم ، دارقطنی ، طبرانی اور ابو نعیم سے وہ ام ایمن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات اٹھے اور پیالے میں پیشاب کیا اسی میں پیاس کی شدت کے ساتھ اٹھی اور پیالے میں جو تھا میں نے پی لیا صبح کو میں آپ علیہ السلام کو بتایا کہ مین نے کیا کیا ہے جس آپ علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا کہ یقنن پھر تمہین کبھی بھی معدے کی تکلیف نہین ہوگی۔
وأخرج أبو يعلى والحاكم والدارقطني والطبراني وأبو نعيم عن أم أيمن قالت قام النبي صلى الله عليه وسلم من الليل إلى فخارة فبال فيها فقمت من الليل وأنا عطشانة فشربت ما فيها فلما أصبح أخبرته فضحك وقال أما أنك لا يتجعن بطنك أبدا ولفظ أبي يعلى إنك لن تشتكي بطنك بعد يومك هذا أبدا ‘‘
(الخصائص الكبرى مؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت
ام ایمن کی یہ روایت المعجم الکبیر ۔۔طبرانی میں ان الفاظ سے مروی و موجود ہے :
230 - حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو مَالِكٍ النَّخَعِيُّ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ أُمِّ أَيْمَنَ، قَالَتْ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ إِلَى فَخَّارَةٍ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ فَبَالَ فِيهَا فَقُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ، وَأَنَا عَطْشَانَةُ فَشَرِبْتُ مَا فِيهَا، وَأَنَا لَا أَشْعُرُ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا أُمَّ أَيْمَنَ، قَوْمِي فَأَهْرِيقِي مَا فِي تِلْكَ الْفَخَّارَةِ» قُلْتُ: قَدْ وَاللهِ شَرِبْتُ مَا فِيهَا، قَالَتْ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَا إِنَّكِ لَا تَتَّجِعِينَ بَطْنَكِ أَبَدًا»
میں نے پہلی پوسٹ میں اس حدیث کے متعلق لکھا تھا کہ :
وإسناد الحديث ضعيف ، فيه علتان : العلة الأولى : الانقطاع بين نبيح العنزي وأم أيمن ،
یعنی یہ روایت دو بڑی علت کے سبب ناکارہ ہے اس میں پہلی علت تو یہ ہے کہ اس کی سند منقطع ہے ۔اور یہ انقطاع ۔۔نبیح ۔۔اور ۔۔ام ایمن کے درمیان واقع ہے
والعلة الثانية : أبو مالك النخعي واسمه عبد الملك بن حسين ، وهو متفق على ضعفه ، قال عنه النسائي : متروك ،
وقال أبو حاتم : ضعيف الحديث ، وقال عمرو بن علي : ضعيف منكر الحديث .
انظر " الضعفاء والمتروكين " للنسائي و " الجرح والتعديل " لابن أبي حاتم و " تهذيب التهذيب " لابن حجر .
اور اس کے ضعف کی دوسری علت ۔۔ابو مالک ۔۔نامی راوی کا ضعیف ہونا ہے ۔اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے ۔۔امام نسائی ، امام ابو حاتم اور علامہ عمرو بن علی سب کا کہنا ہے کہ یہ راوی انتہائی ضعیف ،منکر الحدیث ہے
قال الحافظ ابن حجر – رحمه الله - : " وأبو مالك ضعيف ، ونُبيح لم يلحق أم أيمن " انتهى
من " التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير " ( 1 / 171 ) .
یعنی حافظ ابن حجرؒنے ۔۔التلخیص الحبیر ۔۔میں اس روایت انہی دو علتوں کی بنیاد پر ضعیف کہا ہے ’‘
یہ اصل میں دو ہی روایتیں ہیں جنہیں مختلف کتابوں کے حوالے چار بنادیا گیا ہے
یہ دونوں جیسا کہ آپ نے دیکھا ناقابل استدلال ہیں ؛
امام جلال الدین السیوطی نے طبرانی اور بیہقی کی روایت نقل کی جنہوں نے حکیمہ بنت امیہ رضی اللہ عنہ سے صحیح اسناد کے ساتھ روایت کی ہے وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک لکڑی کا پیالا تھا جو آپ کے چارپائی کے نیچے رکھا ہوتا تھا جس میں اپ علیہ السلام پیشاب کرتے تھے ایک رات آپ علیہ السلام اسے دھونڈنے لگے لیکن نہیں ملا اور پھر آپ علیہ السلام نے پوچھا کہ وہ کہا ہے اہل بیت نے جواب دیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کی خادمہ برہ نے وہ پی لیا ہے جو کہ ان کے ساتھ حبشہ سے آئیں ہے ، اپ علیہ السلام نے فرمایا یقنن اس نے خود کو دکھتی آگ سے بچا لیا جس کی حفاظت کے لئے دیورین ہیں
وأخرج الطبراني والبيهقي بسند صحيح عن حكيمة بنت أميمة عن أمها قالت كان للنبي صلى الله عليه وسلم قدح من عيدان يبول فيه ويضعه تحت سريره فقام فطلبه فلم يجده فسأل عنه فقال أين القدح قالوا شربته برة خادم أم سلمة التي قدمت معها من أرض الحبشة فقال النبي صلى الله عليه وسلم لقد احتظرت من النار بحظار
طبرانی کی معجم کبیر یہ روایت ذیل کے الفاظ سے موجودہے ؛
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، ثنا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ، ثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ حُكَيْمَةَ بِنْتِ أُمَيْمَةَ، عَنْ أُمِّهَا، أُمَيْمَةَ، قَالَتْ: كَانَ لِلنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَحٌ مِنْ عِيدَانٍ يَبُولُ فِيهِ، وَيَضَعُهُ تَحْتَ سَرِيرِهِ فَقَامَ فَطَلَبَ فَلَمْ يَجِدُهُ فَسَأَلَ فَقَالَ: «أَيْنَ الْقَدَحُ؟» ، قَالُوا: شَرِبَتْهُ بَرَّةُ خَادِمُ أُمِّ سَلَمَةَ الَّتِي قَدِمَتْ مَعَهَا مِنْ أَرْضِ الْحَبَشَةِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَقَدِ احْتَظَرَتْ مِنَ النَّارِ بِحِظَارٍ»
یہ وہی روایت ہے ،جس پر میں نے اپنے پہلے جواب میں لکھا تھا کہ :
وهو حديث ضعيف ؛ لجهالة حُكيمة بنت أميمة .‘‘یہ حدیث ۔۔حکیمہ بنت امیمہ ۔۔کے مجہول ہونے کے سبب ضعیف ہے ،
علامہ ذہبی اور ابن حجر دونوں ہی اسے ’‘ مجہول ’‘ کہتے ہیں
قال الذهبي في " ميزان الاعتدال " ( 1 / 587 ) : " غير معروفة " انتهى .
وقال ابن حجر في " تقريب التهذيب " ( ص 745 ) : " حُكَيمة بنت أميمة لا تعرف " انتهى .
ومع علة الجهالة فإن متن الحديث مضطرب اضطراباً كبيراً .
اور امام دار قطنی نے ۔۔العلل ۔۔ میں اس کے ایک طرق کو بھی ابو مالک کے ضعف اور اضطراب کے سبب ضعیف کا حکم لگایا ہے ’‘
دوسری روایت
امام جلال الدین اسیوطی نے ابو یعلی ، حاکم ، دارقطنی ، طبرانی اور ابو نعیم سے وہ ام ایمن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات اٹھے اور پیالے میں پیشاب کیا اسی میں پیاس کی شدت کے ساتھ اٹھی اور پیالے میں جو تھا میں نے پی لیا صبح کو میں آپ علیہ السلام کو بتایا کہ مین نے کیا کیا ہے جس آپ علیہ السلام مسکرائے اور فرمایا کہ یقنن پھر تمہین کبھی بھی معدے کی تکلیف نہین ہوگی۔
وأخرج أبو يعلى والحاكم والدارقطني والطبراني وأبو نعيم عن أم أيمن قالت قام النبي صلى الله عليه وسلم من الليل إلى فخارة فبال فيها فقمت من الليل وأنا عطشانة فشربت ما فيها فلما أصبح أخبرته فضحك وقال أما أنك لا يتجعن بطنك أبدا ولفظ أبي يعلى إنك لن تشتكي بطنك بعد يومك هذا أبدا ‘‘
(الخصائص الكبرى مؤلف: عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى: 911هـ)
الناشر: دار الكتب العلمية - بيروت
ام ایمن کی یہ روایت المعجم الکبیر ۔۔طبرانی میں ان الفاظ سے مروی و موجود ہے :
230 - حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، ثنا شَبَابَةُ بْنُ سَوَّارٍ، حَدَّثَنِي أَبُو مَالِكٍ النَّخَعِيُّ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ أُمِّ أَيْمَنَ، قَالَتْ: قَامَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ إِلَى فَخَّارَةٍ فِي جَانِبِ الْبَيْتِ فَبَالَ فِيهَا فَقُمْتُ مِنَ اللَّيْلِ، وَأَنَا عَطْشَانَةُ فَشَرِبْتُ مَا فِيهَا، وَأَنَا لَا أَشْعُرُ فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «يَا أُمَّ أَيْمَنَ، قَوْمِي فَأَهْرِيقِي مَا فِي تِلْكَ الْفَخَّارَةِ» قُلْتُ: قَدْ وَاللهِ شَرِبْتُ مَا فِيهَا، قَالَتْ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: «أَمَا إِنَّكِ لَا تَتَّجِعِينَ بَطْنَكِ أَبَدًا»
میں نے پہلی پوسٹ میں اس حدیث کے متعلق لکھا تھا کہ :
وإسناد الحديث ضعيف ، فيه علتان : العلة الأولى : الانقطاع بين نبيح العنزي وأم أيمن ،
یعنی یہ روایت دو بڑی علت کے سبب ناکارہ ہے اس میں پہلی علت تو یہ ہے کہ اس کی سند منقطع ہے ۔اور یہ انقطاع ۔۔نبیح ۔۔اور ۔۔ام ایمن کے درمیان واقع ہے
والعلة الثانية : أبو مالك النخعي واسمه عبد الملك بن حسين ، وهو متفق على ضعفه ، قال عنه النسائي : متروك ،
وقال أبو حاتم : ضعيف الحديث ، وقال عمرو بن علي : ضعيف منكر الحديث .
انظر " الضعفاء والمتروكين " للنسائي و " الجرح والتعديل " لابن أبي حاتم و " تهذيب التهذيب " لابن حجر .
اور اس کے ضعف کی دوسری علت ۔۔ابو مالک ۔۔نامی راوی کا ضعیف ہونا ہے ۔اس کے ضعیف ہونے پر اتفاق ہے ۔۔امام نسائی ، امام ابو حاتم اور علامہ عمرو بن علی سب کا کہنا ہے کہ یہ راوی انتہائی ضعیف ،منکر الحدیث ہے
قال الحافظ ابن حجر – رحمه الله - : " وأبو مالك ضعيف ، ونُبيح لم يلحق أم أيمن " انتهى
من " التلخيص الحبير في تخريج أحاديث الرافعي الكبير " ( 1 / 171 ) .
یعنی حافظ ابن حجرؒنے ۔۔التلخیص الحبیر ۔۔میں اس روایت انہی دو علتوں کی بنیاد پر ضعیف کہا ہے ’‘
یہ اصل میں دو ہی روایتیں ہیں جنہیں مختلف کتابوں کے حوالے چار بنادیا گیا ہے
یہ دونوں جیسا کہ آپ نے دیکھا ناقابل استدلال ہیں ؛
Last edited: