کیا یہ معرکہ ، حق و باطل کا تھا یا عام معمول کے مطابق ایک حادثہ؟
اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اہل سنت کے خطباء اور وعاظ فلسفہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کو بالعموم اس طرح بیان کرتے ہیں جو خالصتاً شیعی انداز فکر اور رافضی آئیڈیالوجی کا مظہر ہوتا ہے اور اس کے متعلق یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ تاریخ اسلام میں حق و باطل کا سب سے بڑا معرکہ تھا۔ یہ واعظین خوش بیان یہ نہیں سوچتے کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو اس دور خیر القرون میں جب کہ صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی ایک معتدبہ جماعت موجود تھی اور ان کے فیض یافتگان تابعین تو بکثرت تھے اس معرکے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہی اکیلے کیوں صف آراء ہوتے؟ معرکہ ہوتا حق و باطل اور کفر واسلام کا اور صحابہ و تابعین اس سے نہ صرف یہ کہ الگ رہتے بلکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی اس سے روکتے ، کیا ایسا ممکن تھا؟
شیعی آئیڈیالوجی تو یہی ہے کہ وہ (معاذ اللہ) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے کفر و ارتداد اور منافقت کے قائل ہیں اور وہ یہی کہیں گے کہ ہاں اس معرکہ ٔ کفر و اسلام میں ایک طرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری طرف صحابہ سمیت یزید اور دیگر ان کے تمام حمایتی ، صحابہ و تابعین اس جنگ میں خاموش تماشائی بنے رہے اور حسین رضی اللہ عنہ نے اسلام کو بچانے کے لیے جان کی بازی لگا دی۔
لیکن کیا اہل سنت اس نقطہ ٔ نظر کو تسلیم کرلیں گے؟
کیا صحابہ وتابعین کی اس بے غیرتی و بے حمیتی کی وہ تصدیق کریں گے جو شیعی انداز فکر کا منطقی نتیجہ ہے؟
کیا صحابہ نعوذ باللہ بے غیرت تھے؟ ان میں دینی حمیت اور دین کو بچانے کا جذبہ نہیں تھا؟
یقیناً کوئی اہل سنت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اس قسم کا عقیدہ نہیں رکھتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بڑی تلخ ہے کہ اہل سنت شہادت حسین کا جو فلسفہ بیان کرتے ہیں وہ اسی تال سر سے ترتیب پاتا ہے جو شیعیت کا مخصوص راگ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سانحۂ کربلاکو معرکہ حق و باطل باور کرانے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کردار اور ان کی دینی حمیت مجروح ہوتی ہے اور شیعوں کا مقصد بھی یہی ہے لیکن یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ واقعہ ایسا ہے یا نہیں؟ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ حق و باطل کا تصادم نہیں تھا، یہ کفر واسلام کا معرکہ نہیں تھا، یہ اسلامی جہاد نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس راہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اکیلے نہ ہوتے ، ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعاون بھی انہیں حاصل ہوتا جن کی پوری عمریں اعلائے کلمۃ اللہ میں گزریں جو ہمہ وقت باطل کے لیے شمشیر برہنہ اور کفر وارتداد کےلیے خدائی للکار تھے۔ یہ تصادم دراصل ایک سیاسی نوعیت کا تھا اس نکتے کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل پہلو قابل غور ہیں۔
واقعات کربلا سے متعلقہ سب ہی تاریخوں میں ہے کہ حضرت حسین جب کوفے کی طرف کوچ کرنے کے لیے تیار ہوگئے تو ان کے رشتہ داروں اور ہمدردوں نے انہیں روکنے کی پوری کوشش کیاور اس اقدام کے خطرناک نتائج سے ان کو آگاہ کیا۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو الدرداء،حضرت ابو واقد لیثی، جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے بھائی محمد بن الحنفیہ نمایاں ہیں۔ آپ نے ان کے جواب میں نہ عزم سفر ملتوی فرمایا نہ اپنے موقف کی کوئی دلیل پیش کی،ورنہ ممکن ہے کہ وہ بھی اس موقف میں ان کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ ہوجاتے۔ دراصل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اہل کوفہ ان کو مسلسل کوفہ آنے کی دعوت دے رہے ہیں ،یقیناً وہاں جانا ہی مفید رہے گا۔
یہ بھی تمام تاریخوں میں آتا ہے کہ ابھی آپ راستے ہی میں تھے کہ آپ کو خبر پہنچی کہ کوفے میں آپ کے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل شہید کردئیے گئے جن کو آپ نے کوفے کے حالات معلوم کرنے کےلیے ہی بھیجا تھا۔ اس المناک خبر سے آپ کا اہل کوفہ پر سے اعتماد متزلزل ہوگیا اور واپسی کا عزم ظاہر کیا، لیکن حضرت مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس ہونے سے انکار کردیا کہ ہم تو اپنے بھائی مسلم کا بدلہ لیں گے یا خود بھی مر جائیں گے اس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "تمہارے بغیر میں بھی جی کر کیا کروں گا؟"
" فھم ان یرجع وکان معہ اخوۃ مسلم بن عقیل فقالواواللہ لا نرجع حتی نصیب بثارنا او نقتل" (تاریخ الطبری: ۲۹۲/۴، مطبعۃ الاستقامۃ، قاہرۃ: ۱۹۳۹ء)
"چنانچہ حضرت حسین نے رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ کرلیا، لیکن آپ کے ساتھ مسلم بن عقیل کے جو بھائی تھے، انہوں نے کہا کہ ہم تو اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ ہم انتقام نہ لے لیں یا پھر خود بھی قتل ہوجائیں۔"
اور یوں اس قافلے کا سفر کوفے کی طرف جاری رہا۔
پھر اس پر بھی تمام تاریخیں متفق ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب مقام کربلا پر پہنچے تو گورنر کوفہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو مجبور کرکے آپ کے مقابلے کےلیے بھیجا۔ عمر بن سعد نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے گفتگو کی تو متعدد تاریخی روائتوں کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھی۔
" اختر منی احدیٰ ثلاث اما ان الحق بثغر من الثغور واما ان ارجع الی المدینة واما ان اضع فی ید یزید بن معاویۃ فقبل ذلک عمر منہ" (الاصابۃ: ۷۱/۲ الطبعۃ ۱۹۹۵ء، دارالکتب العلمیۃ)
یعنی "تین باتوں میں سے ایک بات مان لو۔ میں یا تو کسی اسلامی سرحد پر چلا جاتا ہوں یا واپس مدینہ منورہ لوٹ جاتا ہوں یا پھر میں (براہ راست جاکر) یزید بن معاویہ کی ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتا ہوں(یعنی ان سے بیعت کرلیتا ہوں)
عمر بن سعد نے ان کی یہ تجویز قبول کرلی۔
ابن سعد نے خود منظور کر لینے کے بعد یہ تجویز ابن زیاد (گورنر کوفہ ) کو لکھ کر بھیجی مگر اس نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ پہلے وہ (یزید کے لیے)میرے ہاتھ پر بیعت کریں۔
" فکتب الیہ عبید اللہ (ابن زیاد) لا اقبل منہ حتی یضع یدہ فی یدی " (الاصابۃ: ۷۱/۲، الطبری: ۲۹۳/۴)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور ان کی طبع خوددار نے یہ گوارا نہیں ، چنانچہ اس شرط کو مسترد کردیا جس پر لڑائی چھڑ گئی اور آپ کی مظلومانہ شہادت کا یہ حادثہ ٔ فاجعہ پیش آگیا۔
" فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ فامتنع الحسین فقاتلوہ۔۔۔ ثم کان آخر ذلک ان قتل رضی اللہ عنہ وارضاہ "
اس روایت کے مذکورہ الفاظ جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت یزید پر رضا مندی کا اظہار فرمایا" الاصابہ" کے علاوہ
تہذیب التہذیب، ۳۲۸/۲، ۳۵۳ *تاریخ طبری، ۲۹۳/۴ *تہذیب تاریخ ابن عساکر، ۳۲۵/۴، ۳۳۷ *البدایۃ والنہایۃ، ۱۷۰/۸۔۱۷۵ *کامل ابن اثیر،۲۸۳/۳ اور دیگر کئی کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔ حتی کہ شیعی کتابوں میں بھی ہیں۔ ان کے دوسرے الفاظ بھی ہیں تاہم نیتجے میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
ان تاریخی شواہد سے معلوم ہوا کہ اگر یہ حق و باطل کا معرکہ ہوتا توکوفے کے قریب پہنچ کر جب آپ کو مسلم بن عقیل کی مظلومانہ شہادت کی خبر ملی تھی۔ آپ واپسی کا عزم ظاہر نہ فرماتے۔ ظاہر بات ہے کہ راہ حق میں کسی کی شہادت سے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ ساقط نہیں ہوجاتا۔
پھر ا ن شرائط مصالحت سے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے رکھیں، یہ بات بالکل نمایاں ہوجاتی ہے ہے کہ آپ کے ذہن میں کچھ تحفظات تھے بھی تو آپ ان سے دست بردار ہوگئے تھے ، بلکہ یزید کی حکومت تک کو تسلیم کرلینے پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔
ایک یہ بات اس سے واضح ہوئی کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ، امیر یزید کو فاسق و فاجر یا حکومت کا نااہل نہیں سمجھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو وہ کسی حالت میں بھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہ ہوتے جیسا کہ وہ تیار ہوگئے تھے، بلکہ یزید کے پاس جانے کے مطالبے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ان سے حسن سلوک ہی کی توقع تھی۔ ظالم وسفاک بادشاہ کے جانے کی آرزو (آخری چارہ ٔ کارکے طور پر بھی) کوئی نہیں کرتا۔
اس تفصیل سے اس حادثے کے ذمہ دار بھی عریاں ہوجاتے ہیں اور وہ ہے ابن زیاد کی فوج، جس میں سب وہی کوفی تھے جنہوں نے آپ کو خط لکھ کر بلایا تھا، انہی کوفیوں نے عمر بن سعد کی سعیٔ مصالحت کو بھی ناکام بنادیا جس سے کربلا کا یہ المناک سانحۂ شہادت پیش آیا۔ وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا (اس کی مزید تفصیل کتاب کے آخر میں ۔۔۔ سانحۂ کربلا، پس منظر اور اسباب۔۔۔ میں ملاحظہ فرمائیں۔)