• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مذکورہ بدعات اور رسومات کی ہلاکت خیزیاں

دین میں اپنی طرف سے اضافے ہی کو بدعت کہا جاتا ہے۔ پھر یہ چیزیں صرف بدعت ہی نہیں ہیں بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ شرک و بت پرستی کے ضمن میں آجاتی ہیں۔ کیونکہ :
اولاً:
تعزیے میں روح حسین رضی اللہ عنہ کو موجود اور انہیں عالم الغیب سمجھا جاتا ہے، تب ہی تو تعزیوں کو قابل تعظیم سمجھتے اور ان سے مدد مانگتے ہیں حالانکہ کسی بزرگ کی روح کو حاضر ناظر جاننا اور عالم الغیب سمجھنا شرک و کفر ہے، چنانچہ حنفی مذہب کی معتبر کتاب فتاوی بزازیہ میں لکھا ہے
’’ من قال ارواح المشائخ حاضرة تعلم یکفر ‘‘
"جو شخص یہ اعتقاد رکھے کہ بزرگوں کی روحیں ہر جگہ حاضر وناظر ہیں اور وہ علم رکھتی ہیں ، وہ کافر ہے۔"
ثانیاً:
تعزیہ پرست تعزیوں کے سامنے سر نیہوڑتے ہیں جو سجدے ہی کی ذیل میں آتا ہےاور کئی لوگ تو کھلم کھلا سجدے بجا لاتے ہیں اور غیر اللہ کو سجدہ کرنا ، چاہے وہ تعبدی ہو یا تعظیمی ، شرک صریح ہے۔ چنانچہ کتب فقہ حنفیہ میں بھی سجدہ لغیر اللہ کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شمس الائمہ سرخسی کہتے ہیں:
’’ ان کان لغیر اللہ تعالیٰ علی وجہ التعظیم کفر‘‘
"غیر اللہ کو تعظیمی طور (بھی) سجدہ کرنا کفر ہے۔"
اور علامہ قہستانی حنفی فرماتے ہیں
یکفروا لسجدۃ مطلقا (رد المحتار)
یعنی غیر اللہ کو سجدہ کرنے والا مطلقاً کافر ہے چاہے عبادۃًٍ ہو یا تعظیماً"
ثالثاً:
تعزیہ پرست نوحہ خوانی و سینہ کوبی کرتے ہیں اور ماتم و نوحہ میں کلمات شرکیہ ادا کرتے ہیں ، اول تو نوحہ خوانی بجائے خود غیر اسلامی فعل ہے جس سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ صحیح حدیث میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
’’ لَيْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُودَ وَشَقَّ الْجُيُوبَ وَدَعَا بِدَعْوَى الْجَاهِلِيَّةِ ‘‘ (صحیح البخاری، الجنائز، باب لیس منا من ضرب الخدود، ح : ۱۲۹۷)
"وہ شخص ہم میں سے نہیں جس نے رخسار پیٹے، گریبان چاک کیے اور زمانۂ جاہلیت کے سے بین کیے۔"
یہ صورتیں جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہیں ، نوحہ و ماتم کے ضمن میں آتی ہیں، جو ناجائز ہیں۔ اس لیے فطری اظہار غم کی جو بھی مصنوعی اور غیر فطری صورتیں ہوں گی ، وہ سب ناجائز نوحے میں شامل ہوں گی۔ پھر ان نوحوں میں مبالغہ کرنا اور زمین و آسمان کے قلابے ملانا اور عبدومعبود کے درمیان فرق کو مٹادینا تو وہی جاہلانہ شرک ہے جس کے مٹانے کے لیے ہی تو اسلام آیا تھا۔
رابعاً:
تعزیہ پرست تعزیوں سے اپنی مرادیں اور حاجات طلب کرتے ہیں جو صریحاً شرک ہے۔ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ میدان کربلا میں مظلومانہ شہید ہوگئے اور اپنے اہل و عیال کو ظالموں کے پنجے سے نہ بچا سکے تو اب بعد از وفات وہ کسی کے کیا کام آسکتے ہیں؟
خامساً:
تعزیہ پرست حضرت حسین رضی ا للہ عنہ کی مصنوعی قبر بناتے ہیں اور اس کی زیارت کو ثواب سمجھتے ہیں حالانکہ حدیث میں آتا ہے:
’’ من زار قبرا بلا مقبور کانما عبدالصنم ‘‘ (رسالہ تنبیہ الضالین، از مولانا اولاد حسن، والد نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ تعالیٰ)
یعنی" جس نے ایسی خالی قبر کی زیارت کی جس میں کوئی میت نہیں تو گویا اس نے بت کی پوجا کی۔"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
مولانا احمد رضا خاں بریلوی کی صراحت:

علاوہ ازیں اہل سنت عوام کی اکثریت مولانا احمد رضاخاں بریلوی کی عقیدت کیش ہے، لیکن تعجب ہے کہ اس کے باوجود وہ محرم کی ان خودساختہ رسومات میں خوب ذوق وشوق سے حصہ لیتے ہیں۔ حالانکہ مولانا احمد رضا خاں بریلوی نے بھی ان رسومات سے منع کیا ہے اور انہیں بدعت ، ناجائز اور حرام لکھا ہے اور ان کو دیکھنے سے بھی روکا ہے۔ چنانچہ ان کا فتویٰ ہے۔
"تعزیہ آتا دیکھ کر اعراض و روگردانی کریں۔ اس کی طرف دیکھنا ہی نہیں چاہیے۔" (عرفان شریعت، حصہ اول، صفحہ: ۱۵)
ان کا ایک مستقل رسالہ "تعزیہ داری" ہے، اس کے صفحہ ۴ پر لکھتے ہیں:
= "غرض عشرۂ محرم الحرام کہ اگلی شریعتوں سے اس شریعت پاک تک نہایت بابرکت محل عبادت ٹھہرا تھا، ان بے ہودہ رسوم نے جاہلانہ اور فاسقانہ میلوں کا زمانہ کردیا۔"
= یہ کچھ اور اس کے ساتھ خیال وہ کچھ کہ گویا خودساختہ تصویریں بعینہٖ حضرات شہداء رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جنازے ہیں۔"
= "کچھ اتارا باقی توڑا اور دفن کردیے۔ یہ ہر سال اضاعت مال کے جرم دو وبال جداگانہ ہیں۔ اب تعزیہ داری اس طریقۂ نامرضیہ کا نام ہے۔ قطعاً بدعت و ناجائز حرام ہے۔"
صفحہ ۱۱ پر لکھتے ہیں:
= "تعزیہ پر چڑھایا ہوا کھانا نہ کھانا چاہیے۔ اگر نیاز دے کر چڑھائیں، یا چڑھا کر نیاز دیں تو بھی اس کے کھانے سے احتراز کریں۔"
اور صفحہ ۱۵ پر حسب ذیل سوال، جواب ہے۔
سوال:
تعزیہ بنانا اور اس پر نذر ونیاز کرنا، عرائض بہ امید حاجت برآری لٹکانا اور نہ نیت بدعت حسنہ اس کو داخل حسنات جاننا کیسا گناہ ہے؟
جواب:
افعال مذکورہ جس طرح عوام زمانہ میں رائج ہیں، بدعت سیئہ و ممنوع و ناجائز ہیں۔
اسی طرح محرم کی دوسری بدعت مرثیہ خوانی کے متعلق "عرفان شریعت" کے حصہ اول صفحہ ۱۶ پر ایک سوال و جواب یہ ہے۔
سوال:
محرم شریف میں مرثیہ خوانی میں شرکت جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
ناجائز ہے، وہ مناہی و منکرات سے پر ہوتے ہیں۔
محرم کو سوگ کا مہینہ سمجھا جاتا ہے ، اس لیے بالعموم ان ایام میں سیاہ یا سبز لباس پہنا جاتا ہےاور شادی بیاہ سے اجتناب کیا جاتا ہے، اس کے متعلق مولانا احمد رضا خاں لکھتے ہیں:
"محرم میں سیاہ، سبز کپڑے علامت سوگ ہیں اور سوگ حرام۔" (احکام شریعت،۷۱)
مسئلہ:
کیا فرماتے ہیں مسائل ذیل میں؟
1۔ بعض اہل سنت جماعت عشرۂ محرم میں نہ تو دن بھر روٹی پکاتے اور نہ جھاڑو دیتے ہیں، کہتے ہیں بعد دفن روٹی پکائی جائے گی۔
2۔ ان دس دن کپڑے نہیں اتارتے۔
3۔ ماہ محرم میں شادی بیاہ نہیں کرتے۔
الجواب
تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔" (احکام شریعت ، حصہ اول ۷۱)
قرآن و حدیث کی ان تصریحات اور مولانا احمد رضا خان بریلوی کی توضیح کے بعد امید ہے کہ بریلوی علماء اپنے عوام کی صحیح رہنمائی فرمائیں گے اور عوام اپنی جہالت اور علماء کی خاموشی کی بنا پر جو مذکورہ بدعات وخرافات کا ارتکاب کرتے ہیں یا کم از کم ایساکرنے والوں کے جلوسوں میں شرکت کرکے ان کے فروغ کا سبب بنتے ہیں، ان کو ان سے روکنے کی پوری کوشش کریں گے۔
وَمَا عَلَيْنَآ إِلَّا ٱلْبَلَغُ ٱلْمُبِينُ
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شیعی رسومات کی تاریخ ایجاد و آغاز

لعنت کا آغاز
"۳۵۱ھ میں معزالدولہ(احمد بن بُویہ دیلمی) نے جامع مسجد بغداد کےک دروازے پر نعوذ باللہ "نقل کفر کفر نہ باشد" یہ عبارت لکھوا دی۔
"لعن اللہ معاویة بن ابی سفیان ومن غصب فاطمة فدکا ومن منع من دفن الحسن عند جدہ ومن نفی ابا ذر ومن خرج العباس عن الشوری"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
عید غدیر کی ایجاد

معزالدولہ نے ۱۸ذوالحجہ ۳۵۱ھ کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیااور اس عید کا نام "عید خم غدیر" رکھا، خوب ڈھول بجائے گئے اور خوشیاں منائی گئیں۔ اسی تاریخ کو یعنی ۱۸ ذوالحجہ ۳۵ھ کو حضرت عثمان غنی چونکہ شہید ہوئے تھے لہٰذا اس روز شیعوں کےلیے "خم غدیر" کی عید منانے کا دن تجویز کیا گیا۔ احمد بن بویہ دیلمی یعنی معزالدولہ کی اس ایجاد کو جو ۳۵۱ھ میں ہوئی، شیعوں نے یہاں تک رواج دیا کہ آج کل کے شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عید غدیر کا مرتبہ عیدالاضحٰی سے زیادہ بلند ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
ماتم اور تعزیہ داری کی ایجاد

۳۵۲ھ کے شروع ہونے پر ابن بویہ مذکور نے حکم دیا کہ ۱۰ محرم کو حضرت "امام" حسین کی شہادت کے غم میں تمام دکانیں بند کردی جائیں، بیع و شراء بالکل موقوف رہے، شہر و دیہات کے لوگ ماتمی لباس پہنیں اور علانیہ نوحہ کریں۔ عورتیں اپنے بال کھولے ہوئے، چہروں کو سیاہ کیے ہوئے، کپڑوں کو پھاڑتے ہوئے سڑکوں اور بازاروں میں مرثیے پڑھتی، منہ نوچتی اور چھاتیاں پیٹتی ہوئی، نکلیں۔ شیعوں نے اس حکم کی بخوشی تعمیل کی مگر اہل سنت دم بخود اور خاموش رہے کیونکہ شیعوں کی حکومت تھی۔ آئندہ سال ۳۵۳ھ میں پھر اسی حکم کا اعادہ کیا گیا اور سنیوں کو بھی اس کی تعمیل کا حکم دیا گیا۔اہل سنت اس ذلت کو برداشت نہ کرسکےچنانچہ شیعہ اور سنیوں میں فساد برپا ہوا اور بہت بڑی خون ریزی ہوئی۔ اس کے بعد شیعوں نے ہر سال اس رسم کو زیر عمل لانا شروع کردیا اور آج تک اس کا رواج ہندوستان میں ہم دیکھ رہے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ ہندوستان (متحدہ) میں اکثر سنی لوگ بھی تعزیے بناتے ہیں۔ ("تاریخ اسلام" اکبر خان نجیب آبادی۔ ج:۲، ص ۵۶۶، طبع کراچی)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
شیعیت کا فتنہ

"بنی بویہ نہایت متعصب شیعہ تھے، چند دنوں تک وہ خاموش رہے پھر ان کے تعصب کا ظہور ہونے لگا۔ دولت عباسیہ کے بہت سے ورزاء اور متوسل عجمی اور شیعہ تھے لیکن ان میں سے کسی نے علانیہ شیعیت کی ترویج واشاعت کی جرأت نہ کی تھی۔ معز الدولہ نے خلفاء کی قوت ختم کرنے کے ساتھ ہی بغداد میں شیعیت کی تبلیغ شروع کردی اور ۳۵۱ھ میں جامع اعظم کے پھاٹک پر یہ تبرا لکھوایا۔
"معاویہ بن ابی سفیان، غاصبین فدک، "امام" حسن کو روضہ نبوی ﷺ میں دفن کرنے سے روکنے والوں ، حضرت ابو ذر کو جلاوطن کرنے والوں ، عباس کو شوری سے خارج کرنے والوں پر لعنت ہو۔" (تاریخ ابن اثیر، ج: ۸، ص: ۱۷۹)
خلیفہ میں اس بدعت کو روکنے کی طاقت نہ تھی، کسی سنی نے رات کو یہ عبارت مٹا دی، معزالدولہ نے پھر لکھوانے کا ارادہ کیا لیکن اس کے وزیر مہلبی نے مشورہ دیا کہ صرف معاویہ کے نام کی تصریح کی جائے اور ان کے نام کے بعد والظالمین لآل محمد یعنی "آل محمد ﷺ پر ظلم کرنے والوں" کا فقرہ بڑھا دیا جائے۔ معزالدولہ نے یہ مشورہ قبول کرلیا۔ غالباً تبرا کی اس منافقانہ شکل کی ابتداء اسی سے ہوتی ہے۔
معزالدولہ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ بغداد میں شیعوں کے تمام مراسم جاری کردیے عید غدیر کے دن عام عید اور جشن مسرت منانے کا حکم دیا۔ محرم کے لیے حکم جاری کیا کہ عاشورے کے دن تمام دکانیں اور کاروبار بند رکھے جائیں، کل مسلمان خاص قسم کی ٹوپیاں پہن کر نوحہ و ماتم کریں۔ عورتیں چہرے پر بھبھوت مل پریشان مووگریبان چاک سینہ کوبی کرتی ہوئی شہر میں ماتمی جلوس نکالیں، سینوں پر یہ احکام بہت شاق گزرے لیکن شیعوں کی قوت اور حکومت کے کے سامنےبے بس تھے اس لیے ان احکام کو منسوخ تو نہ کرا سکے لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ محرم ۳۵۳ھ میں شیعوں اور سنیوں میں سخت فساد ہوا۔ اور بغداد میں بڑی بدامنی پھیل گئی۔" (ابن اثیر، ج:۸، ص: ۱۸۴۔ تاریخ اسلام ، شاہ معین الدین احمد ندوی، اعظم گڑھ، ج:۴، ص:۱۲، ۱۳)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
اہل سنت کے غور وفکر کے لیے چند باتیں

ماہ محرم کی ان بدعات و رسومات غیر شرعیہ کے علاوہ واقعۂ کربلاسے متعلق بھی اکثر اہل سنت کا زاویہ ٔ فکر صحیح نہیں۔ اس سلسلے میں چند باتیں پیش خدمت ہیں، امید ہے کہ اہل سنت حلقے اس پر پوری سنجیدگی، متانت اور علم وبصیرت کی روشنی میں غور فرمائیں گے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
کیا یہ معرکہ ، حق و باطل کا تھا یا عام معمول کے مطابق ایک حادثہ؟

اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اہل سنت کے خطباء اور وعاظ فلسفہ شہادت حسین رضی اللہ عنہ کو بالعموم اس طرح بیان کرتے ہیں جو خالصتاً شیعی انداز فکر اور رافضی آئیڈیالوجی کا مظہر ہوتا ہے اور اس کے متعلق یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ تاریخ اسلام میں حق و باطل کا سب سے بڑا معرکہ تھا۔ یہ واعظین خوش بیان یہ نہیں سوچتے کہ اگر ایسا ہی ہوتا تو اس دور خیر القرون میں جب کہ صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم کی بھی ایک معتدبہ جماعت موجود تھی اور ان کے فیض یافتگان تابعین تو بکثرت تھے اس معرکے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ ہی اکیلے کیوں صف آراء ہوتے؟ معرکہ ہوتا حق و باطل اور کفر واسلام کا اور صحابہ و تابعین اس سے نہ صرف یہ کہ الگ رہتے بلکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بھی اس سے روکتے ، کیا ایسا ممکن تھا؟
شیعی آئیڈیالوجی تو یہی ہے کہ وہ (معاذ اللہ) صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے کفر و ارتداد اور منافقت کے قائل ہیں اور وہ یہی کہیں گے کہ ہاں اس معرکہ ٔ کفر و اسلام میں ایک طرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری طرف صحابہ سمیت یزید اور دیگر ان کے تمام حمایتی ، صحابہ و تابعین اس جنگ میں خاموش تماشائی بنے رہے اور حسین رضی اللہ عنہ نے اسلام کو بچانے کے لیے جان کی بازی لگا دی۔
لیکن کیا اہل سنت اس نقطہ ٔ نظر کو تسلیم کرلیں گے؟
کیا صحابہ وتابعین کی اس بے غیرتی و بے حمیتی کی وہ تصدیق کریں گے جو شیعی انداز فکر کا منطقی نتیجہ ہے؟
کیا صحابہ نعوذ باللہ بے غیرت تھے؟ ان میں دینی حمیت اور دین کو بچانے کا جذبہ نہیں تھا؟
یقیناً کوئی اہل سنت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق اس قسم کا عقیدہ نہیں رکھتا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی بڑی تلخ ہے کہ اہل سنت شہادت حسین کا جو فلسفہ بیان کرتے ہیں وہ اسی تال سر سے ترتیب پاتا ہے جو شیعیت کا مخصوص راگ ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ سانحۂ کربلاکو معرکہ حق و باطل باور کرانے سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت کردار اور ان کی دینی حمیت مجروح ہوتی ہے اور شیعوں کا مقصد بھی یہی ہے لیکن یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ واقعہ ایسا ہے یا نہیں؟ تو حقیقت یہ ہے کہ یہ حق و باطل کا تصادم نہیں تھا، یہ کفر واسلام کا معرکہ نہیں تھا، یہ اسلامی جہاد نہ تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو اس راہ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اکیلے نہ ہوتے ، ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعاون بھی انہیں حاصل ہوتا جن کی پوری عمریں اعلائے کلمۃ اللہ میں گزریں جو ہمہ وقت باطل کے لیے شمشیر برہنہ اور کفر وارتداد کےلیے خدائی للکار تھے۔ یہ تصادم دراصل ایک سیاسی نوعیت کا تھا اس نکتے کو سمجھنے کے لیے حسب ذیل پہلو قابل غور ہیں۔
واقعات کربلا سے متعلقہ سب ہی تاریخوں میں ہے کہ حضرت حسین جب کوفے کی طرف کوچ کرنے کے لیے تیار ہوگئے تو ان کے رشتہ داروں اور ہمدردوں نے انہیں روکنے کی پوری کوشش کیاور اس اقدام کے خطرناک نتائج سے ان کو آگاہ کیا۔ ان میں حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت ابو سعید خدری، حضرت ابو الدرداء،حضرت ابو واقد لیثی، جابر بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے بھائی محمد بن الحنفیہ نمایاں ہیں۔ آپ نے ان کے جواب میں نہ عزم سفر ملتوی فرمایا نہ اپنے موقف کی کوئی دلیل پیش کی،ورنہ ممکن ہے کہ وہ بھی اس موقف میں ان کے ساتھ تعاون کے لیے آمادہ ہوجاتے۔ دراصل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اہل کوفہ ان کو مسلسل کوفہ آنے کی دعوت دے رہے ہیں ،یقیناً وہاں جانا ہی مفید رہے گا۔
یہ بھی تمام تاریخوں میں آتا ہے کہ ابھی آپ راستے ہی میں تھے کہ آپ کو خبر پہنچی کہ کوفے میں آپ کے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل شہید کردئیے گئے جن کو آپ نے کوفے کے حالات معلوم کرنے کےلیے ہی بھیجا تھا۔ اس المناک خبر سے آپ کا اہل کوفہ پر سے اعتماد متزلزل ہوگیا اور واپسی کا عزم ظاہر کیا، لیکن حضرت مسلم رحمۃ اللہ علیہ کے بھائیوں نے یہ کہہ کر واپس ہونے سے انکار کردیا کہ ہم تو اپنے بھائی مسلم کا بدلہ لیں گے یا خود بھی مر جائیں گے اس پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "تمہارے بغیر میں بھی جی کر کیا کروں گا؟"
" فھم ان یرجع وکان معہ اخوۃ مسلم بن عقیل فقالواواللہ لا نرجع حتی نصیب بثارنا او نقتل" (تاریخ الطبری: ۲۹۲/۴، مطبعۃ الاستقامۃ، قاہرۃ: ۱۹۳۹ء)
"چنانچہ حضرت حسین نے رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ کرلیا، لیکن آپ کے ساتھ مسلم بن عقیل کے جو بھائی تھے، انہوں نے کہا کہ ہم تو اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک کہ ہم انتقام نہ لے لیں یا پھر خود بھی قتل ہوجائیں۔"
اور یوں اس قافلے کا سفر کوفے کی طرف جاری رہا۔
پھر اس پر بھی تمام تاریخیں متفق ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ جب مقام کربلا پر پہنچے تو گورنر کوفہ ابن زیاد نے عمر بن سعد کو مجبور کرکے آپ کے مقابلے کےلیے بھیجا۔ عمر بن سعد نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر آپ سے گفتگو کی تو متعدد تاریخی روائتوں کے مطابق حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے یہ تجویز رکھی۔
" اختر منی احدیٰ ثلاث اما ان الحق بثغر من الثغور واما ان ارجع الی المدینة واما ان اضع فی ید یزید بن معاویۃ فقبل ذلک عمر منہ" (الاصابۃ: ۷۱/۲ الطبعۃ ۱۹۹۵ء، دارالکتب العلمیۃ)
یعنی "تین باتوں میں سے ایک بات مان لو۔ میں یا تو کسی اسلامی سرحد پر چلا جاتا ہوں یا واپس مدینہ منورہ لوٹ جاتا ہوں یا پھر میں (براہ راست جاکر) یزید بن معاویہ کی ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیتا ہوں(یعنی ان سے بیعت کرلیتا ہوں)
عمر بن سعد نے ان کی یہ تجویز قبول کرلی۔
ابن سعد نے خود منظور کر لینے کے بعد یہ تجویز ابن زیاد (گورنر کوفہ ) کو لکھ کر بھیجی مگر اس نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کردیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ پہلے وہ (یزید کے لیے)میرے ہاتھ پر بیعت کریں۔
" فکتب الیہ عبید اللہ (ابن زیاد) لا اقبل منہ حتی یضع یدہ فی یدی " (الاصابۃ: ۷۱/۲، الطبری: ۲۹۳/۴)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار نہ ہوئے اور ان کی طبع خوددار نے یہ گوارا نہیں ، چنانچہ اس شرط کو مسترد کردیا جس پر لڑائی چھڑ گئی اور آپ کی مظلومانہ شہادت کا یہ حادثہ ٔ فاجعہ پیش آگیا۔
" فانا للہ وانا الیہ راجعون۔ فامتنع الحسین فقاتلوہ۔۔۔ ثم کان آخر ذلک ان قتل رضی اللہ عنہ وارضاہ "
اس روایت کے مذکورہ الفاظ جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت یزید پر رضا مندی کا اظہار فرمایا" الاصابہ" کے علاوہ تہذیب التہذیب، ۳۲۸/۲، ۳۵۳ *تاریخ طبری، ۲۹۳/۴ *تہذیب تاریخ ابن عساکر، ۳۲۵/۴، ۳۳۷ *البدایۃ والنہایۃ، ۱۷۰/۸۔۱۷۵ *کامل ابن اثیر،۲۸۳/۳ اور دیگر کئی کتابوں میں بھی موجود ہیں ۔ حتی کہ شیعی کتابوں میں بھی ہیں۔ ان کے دوسرے الفاظ بھی ہیں تاہم نیتجے میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔
ان تاریخی شواہد سے معلوم ہوا کہ اگر یہ حق و باطل کا معرکہ ہوتا توکوفے کے قریب پہنچ کر جب آپ کو مسلم بن عقیل کی مظلومانہ شہادت کی خبر ملی تھی۔ آپ واپسی کا عزم ظاہر نہ فرماتے۔ ظاہر بات ہے کہ راہ حق میں کسی کی شہادت سے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ ساقط نہیں ہوجاتا۔
پھر ا ن شرائط مصالحت سے جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے عمر بن سعد کے سامنے رکھیں، یہ بات بالکل نمایاں ہوجاتی ہے ہے کہ آپ کے ذہن میں کچھ تحفظات تھے بھی تو آپ ان سے دست بردار ہوگئے تھے ، بلکہ یزید کی حکومت تک کو تسلیم کرلینے پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔
ایک یہ بات اس سے واضح ہوئی کہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ ، امیر یزید کو فاسق و فاجر یا حکومت کا نااہل نہیں سمجھتے تھے، اگر ایسا ہوتا تو وہ کسی حالت میں بھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے کے لیے تیار نہ ہوتے جیسا کہ وہ تیار ہوگئے تھے، بلکہ یزید کے پاس جانے کے مطالبے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو ان سے حسن سلوک ہی کی توقع تھی۔ ظالم وسفاک بادشاہ کے جانے کی آرزو (آخری چارہ ٔ کارکے طور پر بھی) کوئی نہیں کرتا۔
اس تفصیل سے اس حادثے کے ذمہ دار بھی عریاں ہوجاتے ہیں اور وہ ہے ابن زیاد کی فوج، جس میں سب وہی کوفی تھے جنہوں نے آپ کو خط لکھ کر بلایا تھا، انہی کوفیوں نے عمر بن سعد کی سعیٔ مصالحت کو بھی ناکام بنادیا جس سے کربلا کا یہ المناک سانحۂ شہادت پیش آیا۔ وَكَانَ أَمْرُ ٱللَّهِ قَدَرًا مَّقْدُورًا (اس کی مزید تفصیل کتاب کے آخر میں ۔۔۔ سانحۂ کربلا، پس منظر اور اسباب۔۔۔ میں ملاحظہ فرمائیں۔)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حضرت عثمان اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی شہادت

جب واقعہ یہ ہے کہ یہ معرکہ سیاسی نوعیت کا حامل ہے، حق وباطل کا معرکہ نہیں ہے ، تو بہتر ہے کہ ایام محرم میں اس موضوع ہی سےاحتراز کیا جائے کہ ان دنوں میں اس سانحے کو اپنے بیان و خطابت کا موضوع بنانا بھی شیعیت کو فروغ دینا ہےکیونکہ تاریخ اسلام میں اس سے بھی زیادہ اہم شہادتوں کو نظر انداز کرکے سانحۂ کربلا کو اجاگر کرنا یہ بھی رفض و تشیع ہی کا انداز ہے۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کچھ کم جگر سوز اور دل دوز ہے جو ۱۸ ذو الحجہ کو ہوئی؟ حضر ت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت ِ عظمیٰ کیا معمولی سانحہ ہے جو یکم محرم کو پیش آیا؟ اسی طرح اور بڑی بڑی شہادتیں ہیں لیکن ان سب کو نظر انداز کرکے صرف شہادت حسین کو اپنی زبان و قلم کا موضوع بنانا کسی طرح صحیح نہیں، اور جو شخص ایساکرتا ہے وہ بالواسطہ اور شعوری یا غیر شعوری طور پر شیعی انداز فکر کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
امام اور علیہ السلام

اسی طرح اہل سنت کی اکثریت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا سوچےسمجھے "اما م حسین علیہ السلام" بولتی ہے حالانکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام" کا لفظ بولنا اور اسی طرح "رضی اللہ عنہ" کے بجائے "علیہ السلام" کہنا بھی شیعیت ہے۔ ہم تمام صحابہ ٔ کرام کے ساتھ عزت و احترام کے لیے "حضرت" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ ہم کبھی "امام ابو بکر صدیق، امام عمر " نہیں بولتے۔ اسی طرح ہم صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کے بعد "رضی اللہ عنہ" لکھتے اور بولتے ہیں۔ اور کبھی "ابو بکر صدیق علیہ السلام یا حضر ت عمر علیہ السلام" نہیں بولتے، لیکن حضرت حسین کے ساتھ "رضی اللہ عنہ" کے بجائے" علیہ السلام" بولتے ہیں۔ کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ دراصل یہ شیعیت کا وہ اثر ہے جو غیر شعوری طور پر ہمارے اندر داخل ہوگیا ہے اس لیے یاد رکھیے کہ چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی مسئلہ "امامت" کا بھی ہے اور امام ان کے نزدیک انبیاء کی طرح من جانب اللہ نامزد اور معصوم ہوتا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ان کے بارہ اماموں میں سے ایک امام ہیں، اس لیے ان کے لیے "امام" کا لفظ بولتے ہیں اور اسی طرح ان کے لیے "علیہ السلام" لکھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ ایک صحابی ٔ رسول ہیں "امام معصوم" نہیں، نہ ہم شیعوں کی امامت معصومہ کے قائل ہی ہیں۔ اس لیے ہمیں انہیں دیگر صحابہ ٔ کرام کی طرح "حضرت حسین رضی اللہ عنہ " لکھنا اور بولنا چاہیے۔ "امام حسین علیہ السلام" نہیں۔ کیونکہ یہ شیعوں کے معلوم عقائد اور مخصوص تکنیک کے غماز ہیں۔
 
Top