سوالات اور ان کے جوابات
مذکورہ مضمون کی
"الاعتصام" میں اشاعت کے بعد ایک بریلوی ماہنامہ "رضائے مصطفٰے" گوجرانوالہ کے مدیر نے اس پر آٹھ سوالات لکھ کر راقم کو بھیجے، جن کا جواب بھی انہی دنوں "الاعتصام" کے چار شماروں میں شائع کردیا گیا تھا۔ افادۂ عام کی غرض سے یہ سوالات و جوابات بھی ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
سوال نمبر۱:
واقعۂ کربلامیں حق و صحیح موقف کس کا تھا اور ناحق و غلط کس کا ۔ یزید کا یا امام حسین رضی اللہ عنہ کا؟
جواب نمبر۱:
موقف حسین و یزید :
افسوس ہے کہ مدیر مذکور نے یہ سوال کرکے وہ روایت دہرا دی ہے جو مشہور ہے کہ ساری رات یوسف و زلیخا کا قصہ سننے کے بعد دن کو کسی نے پوچھا کہ زلیخا مرد تھی یا عورت؟ حالانکہ راقم نے اپنے مذکورہ مضمون میں سب سے پہلے اسی نکتے پر بحث کی ہے کہ اس معرکے کو جو حق و باطل اور کفر واسلام کا معرکہ باور کرایا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اور ا س کو فی الواقع حق و باطل کا معرکہ تسلیم کر لینے سے اہل سنت کے بنیادی عقیدے (صحابہ کرام کی عظمت و رفعت اور ا ن کی بے مثال دینی حمیت و عصبیت) پر سخت ضرب پڑتی ہے۔
اس کے بعد بتلایا تھا کہ یہ معرکہ اگر حق و باطل کا نہ تھا تو اس کی نوعیت کیا تھی؟ اور خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ انہوں نے مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر پا کر واپس لوٹ جانے کا جو ارادہ ظاہر فرمایا اور پھر کوفہ پہنچنے کے بعد وہاں سے واپس جانے کی جو صورتیں پیش فرمائیں۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ سابقہ موقف سے ، جو بھی ان کے ذہن میں تھا ، رجوع فرمالیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ معرکہ حق و باطل کا ہوتا تو وہ ہرگز اس سے رجوع نہ فرماتے۔
دراصل موصوف یہ سوال کرکے کہ صحیح موقف حضرت حسین کا تھا یا یزید کا؟ ایک عام جذباتی فضا سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ عام ذہن یہ بنا دیا گیا ہے کہ یزید بہت برا شخص تھا ، خانوادۂ رسول کا دشمن تھا اور دنیا جہان کی خرابیاں اس میں جمع تھیں ۔ اس فضا میں کون شخص حقیقت سے پردہ اُٹھانے کی ہمت کرسکتا ہے؟ اور اگر کوئی شخص یہ جرأت کرلے تو ایسے شخص کے متعلق فوراً یہ کہہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ تو "اہل بیت" کا دشمن ہے۔ دیکھو تو کتنی جرأت سے حادثہ ٔ کربلا کی تحقیق کے درپے ہے۔
تاہم چندباتیں اہل علم و فکر کے غور کے لیے پیش خدمت ہیں۔
یزید کے موقف کی وضاحت تاریخ میں موجود ہے اور وہ یہ کہ حضرت معاویہ کی وفات کے بعد اس وقت کی ساری قلمرو میں وہ حضرت معاویہ کے صحیح جانشین قرار دیے گئے، صرف مدینہ منورہ میں چار صحابیوں سے بیعت لینی باقی تھی۔
1۔حضرت عبداللہ بن عمر
2۔حضرت عبداللہ بن عباس
3۔عبداللہ بن زبیر
4۔اور حضرت حسین۔۔رضی اللہ عنہم
اول الذکر دونوں بزرگوں نے یزید کی حکومت باقاعدہ طور پر منظور کرلی جیساکہ تاریخ طبری وغیرہ، سب تاریخ کی کتابوں میں موجود ہےجب کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے پہلو تہی کی جس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا:
" اتقیا اللہ ولا تفرقا بین جماعة المسلمین" (البدایۃ النہایۃ: ۱۵۰/۸، الطبری: ۲۵۴/۴)یعنی
"اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ نہ ڈالو۔
اور واقعہ یہ ہے کہ جن محققین علمائے امت نے حقائق کی روشنی میں جذبات سے الگ ہوکر اس پر غور کیا ہے وہ یزید کی حکومت کو اسی طرح تسلیم کرتے رہے جس طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر سارے شہروں کے سب صحابہ و تابعین نے، صرف مذکور الصدر دو صحابیوں کے سوا، یزید کو وقت کا امیر المومنین تسلیم کرلیا تھا۔ چنانچہ ۶۰۰ھ میں وفات پانے والے ایک بڑے عابد و زاہد اور اونچے پائے کے محدث و فقیہ حافظ عبدالغنی بن عبدالواحد مقدسی رحمۃ اللہ علیہ سے جب یزید کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے جواب دیا:
" خلافتة صحیحة قال بعض العلمآء بایعہ ستون من اصحاب رسول اللہ ﷺ منھم ابن عمر وأما محبتہ فمن أحبہ فلا ینکر علیہ ومن لم یحبہ فلا یلزمہ ذٰلک لأنہ لیس من الصحابة الذین صحبوا رسول اللہ ﷺ فیلتزم محبھم إکراما ً لصحبتھم" (ذیل طبقات الحنابلۃ لابن رجب رحمۃ اللہ علیہ: ۳۴/۲)
یعنی "یزید کی خلافت صحیح تھی چنانچہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ساٹھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بشمول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کی بیعت کر لی تھی۔ رہی اس سے محبت رکھنے کی بات تو اگر اس سے کوئی محبت رکھتا ہے تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہیے تاہم کوئی اس سے محبت نہ رکھے جب بھی کوئی ایسی بات نہیں، وہ صحابی تو نہیں جس سے محبت رکھنا شرعاً ضروری ہو۔"
اس سے معلوم ہوا کہ جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تک نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو ظاہر ہے یزیدکا موقف یہی ہوسکتا تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوکر اس کی حکومت کو صحیح جانیں تاکہ انتشار کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
رہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف؟ تو حقیقت یہ ہے کہ بعد کی حاشیہ آرائیوں اور فلسفہ طرازیوں سے صرف نظر کرکے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واضح الفاظ میں اپنے موقف کی کبھی وضاحت ہی نہیں فرمائی کہ وہ کیا چاہتے تھے؟ اور ان کے ذہن میں کیا تجویز تھی؟ یزید کے خلیفہ بن جانے کے بعد جب گورنر مدینہ ولید بن عتبہ نے انہیں یزید کی بیعت کی دعوت دی تو انہوں نے فرمایا کہ میں خفیہ بیعت نہیں کرسکتا، اجتماع عام میں بیعت کروں گا۔
"أما ما سألتنی من البیعة فإن مثلی لا یعطی بیعتہ سراً ولا أراک تجتزی ء بھا منی سراً دون أن نظھرھا علی رؤوس الناس علانیة" (الطبری: ۲۵۱/۴، مطبوعہ دارالاستقامۃ)
گورنرنے انہیں مزید مہلت دے دی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ یہ مہلت پاکر مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے۔ مکہ پہنچ کر بھی انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی، البتہ وہاں سے کوفہ جانے کی تیاریاں شروع کردیں جس کی خبر پاکر ہمدرد وبہی خواہ، جن میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ متعدد صحابی بھی تھے، انہیں کوفہ جانے سے روکتے رہے لیکن وہ کوفہ جانے پر ہی مصر رہے۔ حتی کہ ایک موقعے پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار عبداللہ بن جعفر گورنر کوفہ عمر و بن سعید کے پاس آئے اور ان کے استدعا کی آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام ایک چٹھی لکھ دیں جس میں واضح الفاظ میں انہیں امان دیے جانے اور ان سے حسن سلوک کرنے کا ذکر ہو تاکہ حسین رضی اللہ عنہ واپس آجائیں اور کوفہ نہ جائیں۔ گورنر مکہ نے کہا کہ آپ جو چاہیں لکھ کر لے آئیں میں اس پر اپنی مہر لگادوں گا۔ چنانچہ وہ اپنے الفاظ میں ایک امان نامہ لکھ لائے جس پر گورنر کوفہ نے اپنی مہر لگادی۔عبداللہ بن جعفر نے پھر درخواست کی کہ یہ چٹھی بھی آپ خود اپنے ہی بھائی کے ہاتھ حضرت حسین تک پہنچائیں تاکہ حسین پوری طرح مطمئن ہوجائیں کہ ساری جدوجہد گورنر مکہ کی طرف سے ہورہی ہے۔ گورنر مکہ نے ان کی یہ بات بھی قبول کرلی اورا پنے بھائی کو بھی عبداللہ بن جعفر کے ساتھ روانہ کردیا۔ یہ دونوں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جاکر ملے لیکن حضرت حسین نے معذرت کردی اور کوفہ جانے پر ہی اصرار کیا اور یہاں بھی اپنے موقف کی وضاحت نہیں کی بلکہ صاف لفظوں میں کہا کہ میں کوفہ جس مقصد کے لیے جارہا ہوں وہ صرف مجھے معلوم ہے اور وہ میں بیان نہیں کروں گا۔ (الطبری: ۲۹۱/۴۔۲۹۲)
خود شیعہ مورخ ابن طقطقی بھی لکھتا ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ روانہ ہوئے تو انہیں مسلم کے حال کا کوئی علم نہیں تھا۔ جب کوفے کے قریب پہنچ گئے تو انہیں مسلم کے قتل کا علم ہوا۔ وہاں انہیں لوگ ملے اور انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ جانے سے روکا اور انہیں ڈرایا لیکن حسین رضی اللہ عنہ واپس ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے اور کوفہ جانے کا عزم جاری رکھا۔ ایک ایسے مقصد کے لیے جسے وہ خود ہی جانتے تھے۔
" فلم یرجع وصمم علی الوصول إلی الکوفة لأمر ھو أعلم بہ من الناس" (الفخری، ص:۸۵، طبع مصر ۱۹۲۷ء)
شاید ایسے ہی مبہم طرز عمل کی وجہ سے یزید کے غالی حمایتیوں نے حضرت حسین کو جب اس حدیث کا مصداق قرار دینے کی کوشش کی۔
" فمن أراد أن یفرق أمر ھٰذہ الأمة وھی جمیع فاضربوہ بالسیف کائناً من کان" (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وھو مجتمع، ح:۱۸۵۲)
تو حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی سخت تردید کرتے ہوئے فرمایا:
" وأھل السنة یردون غلو ھؤلآء ویقولون إن الحسین قتل مظلوماً شہیداً والذین قتلوہ کانوا ظالمین" (منہاج السنۃ: ۲۵۶/۲)
"اہل سنت والجماعت اس غلو کو مسترد کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ کو ظلماً شہید کیا گیا ، اور ان کے قاتل ظالم تھے۔"
پھر لکھا:
"اس لیے وہ حدیث مذکور کا مصداق نہیں ہوسکتے کہ آپ (آخراً) جماعت مسلمین سے الگ نہیں رہے وہ مسلمانوں کی اجتماعیت میں شامل تھے اور وہ یوں کہ انہوں نے (کوفی فوج سے) صاف فرمایا تھا کہ (تم لوگ) مجھے واپس اپنے شہر لوٹ جانے دو یا سرحد کی کسی چوکی پر چلے جانے دو یا (پھر) یہ کہ میں یزید کے پاس براہ راست چلا جاتا ہوں۔" (منہاج السنۃ: ۲۵۶/۲)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر الزام مذکور کی تردید میں "منہاج السنہ: کے ایک دوسرے مقام میں ہے:
" الحسین رضی اللہ عنہ لم یقتل إلا مظلوماً شہیداً تارکاً لطلب الإمارة طالباً للرجوع إما إلی بلدة أو إلی الثغر أو إلی المتولی علی الناس یرید" (منہاج السنۃ: ۲۴۳/۲)
یزید کے پاس جانے سے حضرت کی غرض کیا تھی؟ تاریخی روایتوں نے یہ بھی بتادیا ہے۔
چنانچہ تاریخ کی ایک متداول کتاب تاریخ الخلفاء میں علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
" فلما رھقہ السلاح عرض علیھم الاستسلام والرجوع المضی إلی یرید فیضع یدہ فی یدہ " (تاریخ الخلفاء ، ص:۱۳۸، طبع مصر)
"جب کوئی چارہ ٔ کارباقی نہیں رہا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں صلح کی، واپسی کی اور یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لیے یزیدکے پاس جانے کی پیش کش کی۔"
اس قسم کے الفاظ اصابہ (حافظ ابن حجر)، تہذیب ابن عساکر، تاریخ طبری اور البدایہ والنہایہ وغیرہ تاریخ وتراجم کی کتابوں میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
اس بحث سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حق اور صحیح موقف کس کا تھا؟
یزیدکے طلب بیعت کے صحیح ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ گویا نعوذ باللہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل ناروا کا اقدام بھی صحیح تھا۔ اس کا اہل سنت میں سے کوئی بھی قائل نہیں نہ ہم ہی اس کو درست سمجھتے ہیں اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں موقف کی بحث میں مراد ہے وہ موقف جو یزید کی طرف سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مطالبۂ بیعت سے متعلق ہے۔
البتہ رہی یہ بات کہ یزید مطالبۂ بیعت میں حق بجانب تھا یا نہیں؟ تو یہ خود مدیر موصوف غور فرما لیں جب کہ یزید کو ساری اسلامی قلمرو میں بشمول صحابہ ٔ کرام واجب الاطاعت حاکم تسلیم کر لیا گیا تھا۔