• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
یزید پر سب و شتم کا مسئلہ

اسی طرح ایک مسئلہ یزید رحمۃ اللہ علیہ پر سب و شتم کا ہے جسے بدقسمتی سے رواج عام حاصل ہوگیا ہے اور بڑے بڑے علامہ فہامہ بھی یزید کا نام برے الفاظ سے لیتے ہیں ، بلکہ اس پر لعنت کرنے میں بھی کوئی حرج نہین سمجھتے اور اس کو "حب حسین " اور "حب اہل بیت" کا لازمی تقاضا سمجھتے ہیں حالانکہ یہ بھی اہل سنت کے مزاج اور مسلک سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے محققین علمائےاہل سنت نے یزید پر سب و شتم کرنے سے بھی روکا ہے اور اسی ضمن میں اس امر کی صراحت بھی کی ہے کہ یزید کا قتل حسین میں نہ کوئی ہاتھ ہے نہ اس نے کوئی حکم دیا اور نہ اس میں اس کی رضا مندی ہی شامل تھی۔ ہم یہاں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال کے بجائے امام غزالی کی تصریحات نقل کرتے ہیں جن سے عام اہل سنت بھی عقیدت رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں امام ابن تیمیہ کا موقف کتاب کےآخر میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔امام غزالی فرماتے ہیں:
" ما صح قتلہ للحسین رضی اللہ عنہ ولا امرہ ولا رضاہ بذٰلک ومھما لم یصح ذٰلک لم یجز ان یظن ذٰلک فان اسآءة الظن ایضا بالمسلم حرام قال اللہ تعالیٰ: }يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ ٱجْتَنِبُوا۟ كَثِيرًۭا مِّنَ ٱلظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ ٱلظَّنِّ إِثْمٌۭ {۔۔۔فھذا الامر لا یعلم حقیقہ اصلا واذا لم یعرف وجب احسان الظن بکل مسلم یمکن احسان الظن بہ" (وفیات الاعیان: ۴۵۰/۲، طبع جدید)
یعنی"حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کا قتل کرنا یا ان کے قتل کرنے کا حکم دینا یا ان کے قتل پر راضی ہونا، تینوں باتیں درست نہیں اور جب یہ باتیں یزید کے متعلق ثابت ہی نہیں تو پھر یہ بھی جائز نہیں کہ اس کے متعلق اسی بدگمانی رکھی جائے کیونکہ کسی مسلمان کے متعلق بدگمانی حرام ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے، بنا بریں ہر مسلمان سے حسن ظن رکھنے کے وجوب کا اطلاق یزید سے حسن ظن رکھنے پر بھی ہوتا ہے۔
اسی طرح اپنی معروف کتاب احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:
" فان قیل ھل یجوز لعن یزید بکونہ قاتل الحسین او آمراً بہ قلنا ھٰذا لم یثبت اصلاً ولا یجوز ان یقال انہ قتلہ او امر بہ مالم یثبت" (۱۳۱/۳)
یعنی "اگر سوال کیا جائے کہ کیا یزید پر لعنت کرنی جائز ہے کیونکہ وہ (حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ) قاتل ہے یا قتل کاحکم دینے والا ہے ؟ تو ہم جواب میں کہیں گے کہ یہ باتیں قطعاً ثابت نہیں ہیں اور جب تک یہ باتیں ثابت نہ ہوں اس کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ اس نے قتل کیا یا قتل کا حکم دیا۔"
پھر مذکورۃ الصدر مقام پر اپنے فتوے کو آپ نے ان الفاظ پر ختم کیا ہے:
" واما الترحم علیہ فجائز بل مستحب بل ہو داخل فی قولنا فی کل صلوٰة اللھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات فانہ کان مؤمنا۔ واللہ اعلم" (وفیات الاعیان: ۴۵۰/۳، طبع جدید)
یعنی "یزید کے لیے رحمت کی دعا کرنا (رحمۃ اللہ علیہ کہنا) نہ صرف جائز بلکہ مستحب ہے اور وہ اس دعا میں داخل ہے جو ہم کہا کرتے ہیں ۔ (یا اللہ! مومن مردوں او ر مومن عورتوں سب کو بخش دے) اس لیے کہ یزید مومن تھا! واللہ اعلم"
مولانا احمد رضا خاں کی صراحت


مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی، جو تکفیر مسلم میں نہایت بے باک مانے جاتے ہیں، یزید رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں یہ وضاحت فرمانے کے بعد کہ امام احمد رحمۃاللہ علیہ اسے کافر جانتے ہیں او رامام غزالی وغیرہ مسلمان کہتے ہیں، اپنا مسلک یہ بیان کرتے ہیں کہ:
"اور ہمارے امام سکوت فرماتے ہیں کہ ہم نہ مسلمان کہیں نہ کافر، لہٰذا یہاں بھی سکوت کریں گے۔۔۔" (احکام شریعت، ص:۸۸، حصہ دوم)
فسق و فجور کے افسانے


رہی بات یزید رحمۃ اللہ علیہ کے فسق وفجور کے افسانوں کی، تو یہ بھی یکسر غلط ہے جس کی تردید کے لیے خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے برادر اکبر محمد بن الحنفیہ کا یہ بیان ہی کافی ہے جو انہوں نے اس کے متعلق اسی قسم کے افسانے سن کردیا تھا۔
" ما رایت منہ ما تذکرون وقد حضرتہ واقمت عندہ فرایتہ مواظباً علی الصلوٰة متحریا للخیر یسال عن الفقہ ملازماً للسنة" (البدایۃ والنہایۃ: ۲۳۶/۸، دارالدیان للتراث، الطبعۃ ۱۹۸۸ء)
یعنی "تم ان کے متعلق جو کچھ کہتے ہو میں نے ان میں سے ایسی کوئی چیز نہیں دیکھی، میں نے ان کے ہاں قیام کیا ہے اور میں نے انہیں پکا نمازی ، خیر کا متلاشی، مسائل شریعت سے لگاؤ رکھنے والا اور سنت کا پابند پایا ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج:۸، ص:۲۳۳)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
غزوۂ قسطنطنیہ کے شرکاء کی مغفرت کے لیے بشارت نبویﷺ

علاوہ ازیں کم از کم ہم اہل سنت کو اس حدیث کے مطابق یزید کو برا بھلا کہنے سے باز رہنا چاہیے جس میں رسول اللہ ﷺ نے غزوۂ قسطنطنیہ میں شرکت کرنے والوں کے متعلق مغفرت کی بشارت دی ہے اور یزید اس جنگ کا کمانڈر تھا۔ یہ بخاری کی صحیح حدیث ہے اور آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے، کسی کاہن یا نجومی کی پیشین گوئی نہیں کہ بعد کے واقعات اسے غلط ثابت کردیں۔ اگر ایساہوتو پھر نبی کے فرمان اور کاہن کی پیشین گوئی میں فرق باقی نہ رہے گا۔ کیا ہم اس حدیث کی مضحکہ خیز تاویلیں کرکے یہی کچھ ثابت کرنا چاہتے ہیں؟ یہ حدیث مع ترجمہ درج ذیل ہے:
" أَوَّلُ جَيْشٍ مِنْ أُمَّتِي يَغْزُونَ مَدِينَةَ قَيْصَرَ مَغْفُورٌ لَهُمْ " (صحیح البخاری ، الجہاد والسیر، باب ما قیل فی قتال الروم، ح: ۲۹۲۴)
"میری امت کا پہلا لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ) میں جہاد کرے گا، وہ بخشا ہوا ہے۔"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوالات اور ان کے جوابات

مذکورہ مضمون کی "الاعتصام" میں اشاعت کے بعد ایک بریلوی ماہنامہ "رضائے مصطفٰے" گوجرانوالہ کے مدیر نے اس پر آٹھ سوالات لکھ کر راقم کو بھیجے، جن کا جواب بھی انہی دنوں "الاعتصام" کے چار شماروں میں شائع کردیا گیا تھا۔ افادۂ عام کی غرض سے یہ سوالات و جوابات بھی ذیل میں درج کیے جاتے ہیں۔
سوال نمبر۱:
واقعۂ کربلامیں حق و صحیح موقف کس کا تھا اور ناحق و غلط کس کا ۔ یزید کا یا امام حسین رضی اللہ عنہ کا؟
جواب نمبر۱:
موقف حسین و یزید :
افسوس ہے کہ مدیر مذکور نے یہ سوال کرکے وہ روایت دہرا دی ہے جو مشہور ہے کہ ساری رات یوسف و زلیخا کا قصہ سننے کے بعد دن کو کسی نے پوچھا کہ زلیخا مرد تھی یا عورت؟ حالانکہ راقم نے اپنے مذکورہ مضمون میں سب سے پہلے اسی نکتے پر بحث کی ہے کہ اس معرکے کو جو حق و باطل اور کفر واسلام کا معرکہ باور کرایا جاتا ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اور ا س کو فی الواقع حق و باطل کا معرکہ تسلیم کر لینے سے اہل سنت کے بنیادی عقیدے (صحابہ کرام کی عظمت و رفعت اور ا ن کی بے مثال دینی حمیت و عصبیت) پر سخت ضرب پڑتی ہے۔
اس کے بعد بتلایا تھا کہ یہ معرکہ اگر حق و باطل کا نہ تھا تو اس کی نوعیت کیا تھی؟ اور خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے طرز عمل سے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ انہوں نے مسلم بن عقیل کی شہادت کی خبر پا کر واپس لوٹ جانے کا جو ارادہ ظاہر فرمایا اور پھر کوفہ پہنچنے کے بعد وہاں سے واپس جانے کی جو صورتیں پیش فرمائیں۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ سابقہ موقف سے ، جو بھی ان کے ذہن میں تھا ، رجوع فرمالیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک یہ معرکہ حق و باطل کا ہوتا تو وہ ہرگز اس سے رجوع نہ فرماتے۔
دراصل موصوف یہ سوال کرکے کہ صحیح موقف حضرت حسین کا تھا یا یزید کا؟ ایک عام جذباتی فضا سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ کیونکہ عام ذہن یہ بنا دیا گیا ہے کہ یزید بہت برا شخص تھا ، خانوادۂ رسول کا دشمن تھا اور دنیا جہان کی خرابیاں اس میں جمع تھیں ۔ اس فضا میں کون شخص حقیقت سے پردہ اُٹھانے کی ہمت کرسکتا ہے؟ اور اگر کوئی شخص یہ جرأت کرلے تو ایسے شخص کے متعلق فوراً یہ کہہ دیا جا سکتا ہے کہ یہ تو "اہل بیت" کا دشمن ہے۔ دیکھو تو کتنی جرأت سے حادثہ ٔ کربلا کی تحقیق کے درپے ہے۔
تاہم چندباتیں اہل علم و فکر کے غور کے لیے پیش خدمت ہیں۔
یزید کے موقف کی وضاحت تاریخ میں موجود ہے اور وہ یہ کہ حضرت معاویہ کی وفات کے بعد اس وقت کی ساری قلمرو میں وہ حضرت معاویہ کے صحیح جانشین قرار دیے گئے، صرف مدینہ منورہ میں چار صحابیوں سے بیعت لینی باقی تھی۔
1۔حضرت عبداللہ بن عمر
2۔حضرت عبداللہ بن عباس
3۔عبداللہ بن زبیر
4۔اور حضرت حسین۔۔رضی اللہ عنہم
اول الذکر دونوں بزرگوں نے یزید کی حکومت باقاعدہ طور پر منظور کرلی جیساکہ تاریخ طبری وغیرہ، سب تاریخ کی کتابوں میں موجود ہےجب کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے پہلو تہی کی جس پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا:
" اتقیا اللہ ولا تفرقا بین جماعة المسلمین" (البدایۃ النہایۃ: ۱۵۰/۸، الطبری: ۲۵۴/۴)یعنی
"اللہ سے ڈرو اور مسلمانوں کی جماعت میں تفرقہ نہ ڈالو۔
اور واقعہ یہ ہے کہ جن محققین علمائے امت نے حقائق کی روشنی میں جذبات سے الگ ہوکر اس پر غور کیا ہے وہ یزید کی حکومت کو اسی طرح تسلیم کرتے رہے جس طرح حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر سارے شہروں کے سب صحابہ و تابعین نے، صرف مذکور الصدر دو صحابیوں کے سوا، یزید کو وقت کا امیر المومنین تسلیم کرلیا تھا۔ چنانچہ ۶۰۰ھ میں وفات پانے والے ایک بڑے عابد و زاہد اور اونچے پائے کے محدث و فقیہ حافظ عبدالغنی بن عبدالواحد مقدسی رحمۃ اللہ علیہ سے جب یزید کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے جواب دیا:
" خلافتة صحیحة قال بعض العلمآء بایعہ ستون من اصحاب رسول اللہ ﷺ منھم ابن عمر وأما محبتہ فمن أحبہ فلا ینکر علیہ ومن لم یحبہ فلا یلزمہ ذٰلک لأنہ لیس من الصحابة الذین صحبوا رسول اللہ ﷺ فیلتزم محبھم إکراما ً لصحبتھم" (ذیل طبقات الحنابلۃ لابن رجب رحمۃ اللہ علیہ: ۳۴/۲)
یعنی "یزید کی خلافت صحیح تھی چنانچہ بعض علماء کا کہنا ہے کہ ساٹھ صحابہ رضی اللہ عنہم نے بشمول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کی بیعت کر لی تھی۔ رہی اس سے محبت رکھنے کی بات تو اگر اس سے کوئی محبت رکھتا ہے تو اس پر نکیر نہیں کرنی چاہیے تاہم کوئی اس سے محبت نہ رکھے جب بھی کوئی ایسی بات نہیں، وہ صحابی تو نہیں جس سے محبت رکھنا شرعاً ضروری ہو۔"
اس سے معلوم ہوا کہ جب صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم تک نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو ظاہر ہے یزیدکا موقف یہی ہوسکتا تھا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوکر اس کی حکومت کو صحیح جانیں تاکہ انتشار کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔
رہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا موقف؟ تو حقیقت یہ ہے کہ بعد کی حاشیہ آرائیوں اور فلسفہ طرازیوں سے صرف نظر کرکے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واضح الفاظ میں اپنے موقف کی کبھی وضاحت ہی نہیں فرمائی کہ وہ کیا چاہتے تھے؟ اور ان کے ذہن میں کیا تجویز تھی؟ یزید کے خلیفہ بن جانے کے بعد جب گورنر مدینہ ولید بن عتبہ نے انہیں یزید کی بیعت کی دعوت دی تو انہوں نے فرمایا کہ میں خفیہ بیعت نہیں کرسکتا، اجتماع عام میں بیعت کروں گا۔
"أما ما سألتنی من البیعة فإن مثلی لا یعطی بیعتہ سراً ولا أراک تجتزی ء بھا منی سراً دون أن نظھرھا علی رؤوس الناس علانیة" (الطبری: ۲۵۱/۴، مطبوعہ دارالاستقامۃ)
گورنرنے انہیں مزید مہلت دے دی۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ یہ مہلت پاکر مدینہ سے مکہ تشریف لے گئے۔ مکہ پہنچ کر بھی انہوں نے کوئی وضاحت نہیں کی، البتہ وہاں سے کوفہ جانے کی تیاریاں شروع کردیں جس کی خبر پاکر ہمدرد وبہی خواہ، جن میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ متعدد صحابی بھی تھے، انہیں کوفہ جانے سے روکتے رہے لیکن وہ کوفہ جانے پر ہی مصر رہے۔ حتی کہ ایک موقعے پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قریبی رشتہ دار عبداللہ بن جعفر گورنر کوفہ عمر و بن سعید کے پاس آئے اور ان کے استدعا کی آپ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نام ایک چٹھی لکھ دیں جس میں واضح الفاظ میں انہیں امان دیے جانے اور ان سے حسن سلوک کرنے کا ذکر ہو تاکہ حسین رضی اللہ عنہ واپس آجائیں اور کوفہ نہ جائیں۔ گورنر مکہ نے کہا کہ آپ جو چاہیں لکھ کر لے آئیں میں اس پر اپنی مہر لگادوں گا۔ چنانچہ وہ اپنے الفاظ میں ایک امان نامہ لکھ لائے جس پر گورنر کوفہ نے اپنی مہر لگادی۔عبداللہ بن جعفر نے پھر درخواست کی کہ یہ چٹھی بھی آپ خود اپنے ہی بھائی کے ہاتھ حضرت حسین تک پہنچائیں تاکہ حسین پوری طرح مطمئن ہوجائیں کہ ساری جدوجہد گورنر مکہ کی طرف سے ہورہی ہے۔ گورنر مکہ نے ان کی یہ بات بھی قبول کرلی اورا پنے بھائی کو بھی عبداللہ بن جعفر کے ساتھ روانہ کردیا۔ یہ دونوں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو جاکر ملے لیکن حضرت حسین نے معذرت کردی اور کوفہ جانے پر ہی اصرار کیا اور یہاں بھی اپنے موقف کی وضاحت نہیں کی بلکہ صاف لفظوں میں کہا کہ میں کوفہ جس مقصد کے لیے جارہا ہوں وہ صرف مجھے معلوم ہے اور وہ میں بیان نہیں کروں گا۔ (الطبری: ۲۹۱/۴۔۲۹۲)
خود شیعہ مورخ ابن طقطقی بھی لکھتا ہے کہ جب حضرت حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ روانہ ہوئے تو انہیں مسلم کے حال کا کوئی علم نہیں تھا۔ جب کوفے کے قریب پہنچ گئے تو انہیں مسلم کے قتل کا علم ہوا۔ وہاں انہیں لوگ ملے اور انہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو کوفہ جانے سے روکا اور انہیں ڈرایا لیکن حسین رضی اللہ عنہ واپس ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے اور کوفہ جانے کا عزم جاری رکھا۔ ایک ایسے مقصد کے لیے جسے وہ خود ہی جانتے تھے۔
" فلم یرجع وصمم علی الوصول إلی الکوفة لأمر ھو أعلم بہ من الناس" (الفخری، ص:۸۵، طبع مصر ۱۹۲۷ء)
شاید ایسے ہی مبہم طرز عمل کی وجہ سے یزید کے غالی حمایتیوں نے حضرت حسین کو جب اس حدیث کا مصداق قرار دینے کی کوشش کی۔
" فمن أراد أن یفرق أمر ھٰذہ الأمة وھی جمیع فاضربوہ بالسیف کائناً من کان" (صحیح مسلم، الإمارۃ، باب حکم من فرق أمر المسلمین وھو مجتمع، ح:۱۸۵۲)
تو حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس کی سخت تردید کرتے ہوئے فرمایا:
" وأھل السنة یردون غلو ھؤلآء ویقولون إن الحسین قتل مظلوماً شہیداً والذین قتلوہ کانوا ظالمین" (منہاج السنۃ: ۲۵۶/۲)
"اہل سنت والجماعت اس غلو کو مسترد کرتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ حسین رضی اللہ عنہ کو ظلماً شہید کیا گیا ، اور ان کے قاتل ظالم تھے۔"
پھر لکھا:
"اس لیے وہ حدیث مذکور کا مصداق نہیں ہوسکتے کہ آپ (آخراً) جماعت مسلمین سے الگ نہیں رہے وہ مسلمانوں کی اجتماعیت میں شامل تھے اور وہ یوں کہ انہوں نے (کوفی فوج سے) صاف فرمایا تھا کہ (تم لوگ) مجھے واپس اپنے شہر لوٹ جانے دو یا سرحد کی کسی چوکی پر چلے جانے دو یا (پھر) یہ کہ میں یزید کے پاس براہ راست چلا جاتا ہوں۔" (منہاج السنۃ: ۲۵۶/۲)
حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر الزام مذکور کی تردید میں "منہاج السنہ: کے ایک دوسرے مقام میں ہے:
" الحسین رضی اللہ عنہ لم یقتل إلا مظلوماً شہیداً تارکاً لطلب الإمارة طالباً للرجوع إما إلی بلدة أو إلی الثغر أو إلی المتولی علی الناس یرید" (منہاج السنۃ: ۲۴۳/۲)
یزید کے پاس جانے سے حضرت کی غرض کیا تھی؟ تاریخی روایتوں نے یہ بھی بتادیا ہے۔
چنانچہ تاریخ کی ایک متداول کتاب تاریخ الخلفاء میں علامہ سیوطی لکھتے ہیں:
" فلما رھقہ السلاح عرض علیھم الاستسلام والرجوع المضی إلی یرید فیضع یدہ فی یدہ " (تاریخ الخلفاء ، ص:۱۳۸، طبع مصر)
"جب کوئی چارہ ٔ کارباقی نہیں رہا تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے انہیں صلح کی، واپسی کی اور یزید کے ہاتھ میں ہاتھ دینے کے لیے یزیدکے پاس جانے کی پیش کش کی۔"
اس قسم کے الفاظ اصابہ (حافظ ابن حجر)، تہذیب ابن عساکر، تاریخ طبری اور البدایہ والنہایہ وغیرہ تاریخ وتراجم کی کتابوں میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔
اس بحث سے معلوم ہوسکتا ہے کہ حق اور صحیح موقف کس کا تھا؟
یزیدکے طلب بیعت کے صحیح ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا کہ گویا نعوذ باللہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قتل ناروا کا اقدام بھی صحیح تھا۔ اس کا اہل سنت میں سے کوئی بھی قائل نہیں نہ ہم ہی اس کو درست سمجھتے ہیں اس لیے یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہاں موقف کی بحث میں مراد ہے وہ موقف جو یزید کی طرف سے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے مطالبۂ بیعت سے متعلق ہے۔
البتہ رہی یہ بات کہ یزید مطالبۂ بیعت میں حق بجانب تھا یا نہیں؟ تو یہ خود مدیر موصوف غور فرما لیں جب کہ یزید کو ساری اسلامی قلمرو میں بشمول صحابہ ٔ کرام واجب الاطاعت حاکم تسلیم کر لیا گیا تھا۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال نمبر 2:
واقعۂ کربلا سے قبل باختلاف روایات، یزید جو کچھ بھی تھا مگر واقعۂ کربلا و واقعۂ حرہ کے بعد بھی کیا وہ ظالم وقاتل اور فاسق وفاجر قرار نہیں پاتا؟ اگر نہیں تو کیوں؟ اتنے عظیم ظالمانہ واقعات کا یزید پر کوئی بوجھ نہیں؟ یہ واقعات اس کا کارنامہ ہیں یا سیاہ نامہ؟
جواب نمبر 2:

واقعۂ حرہ کی حقیقت


سانحۂ کربلا۶۱ھ میں رونما ہوا۔ اس وقت صحابۂ کرام کی بھی ایک معقول تعداد موجود تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاندان بھی تھا بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اپنی اولاد ہی ڈھائی درجن سے زیادہ تھی۔ اسی طرح دیگر قرابت مند بھی تھے، لیکن جہاں تک سانحہ کربلا کا تعلق ہے اس پر ساری قلمرو میں کوئی عمومی رد عمل ظاہر نہیں ہوا نہ اس حادثہ ٔ الیمہ کے باعث یزید کو "ظالم و قاتل اور فاسق و فاجر" قرار دے کر اس کے خلاف کسی نے بھی خروج کو جائز سمجھا، گو ذاتی قلق اس کا کیسا بھی شدید رہا ہو۔ جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ ان دونوں کے سوا باقی سب لوگوں نے یزید کی حکومت یا (خلافت) کو درست تسلیم کرلیا تھا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ مکہ میں قیام پذیر تھے اور شاید سمجھ رہے تھے کہ ان کے لیے میدان اب صاف ہےچنانچہ وہ حکومت حاصل کرنے کے لیے کاروائیوں میں مصروف تھے۔ ۶۳ھ میں حسب تحریر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ اہل مدینہ میں سے متعدد حضرات کی جن میں بعض صحابہ رضی اللہ عنہم بھی تھے، ہمدردیاں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھیں۔ انہی دنوں ایک وفد مرتب ہوا ۔ جو "یزید " کے ہاں گیا۔ یزید نے ان کی خوب آؤ بھگت کی لیکن اس وفد نے مدینہ منورہ واپس آکر یزید کے عیوب گنوانے شروع کردیے اور اس کی طرف شراب نوشی وغیرہ باتیں منسوب کرکے ان کو عوم میں خوب پھیلایا گیا۔
" فرجعوا فأظہروا عیبہ ونسبوا إلی شرب الخمر وغیر ذٰلک" (فتح الباری: ۸۸/۱۳، ح:۷۱۱۱، طبع دارالسلام)
جس کے نتیجے میں اہل مدینہ نے نہ صرف یہ کہ یزید کی بیعت سے الگ ہونے کا اعلان کردیا۔
" لما انتزٰی أہل المدینة مع عبداللہ بن الزبیر خلعوا یزید بن معاویة"(فتح الباری: ۸۸/۱۳، ح:۷۱۱۱، طبع دارالسلام)
بلکہ گورنر مدینہ عثمان بن محمد پر دھاوا بول دیا اور خاندان بنی امیہ کو محاصرے میں لے لیا۔ (تاریخ طبری، ۳۷۰/۴ ، طبع مطبعۃ الاستقامۃ)
لیکن اہل مدینہ کے اس طرز عمل کو اہل خیر و صلاح نے بالکل پسند نہیں کیا اور اس سے برملا اظہار بیزاری فرمایا جیسا کہ جلیل القدر صحابی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق صحیح بخاری میں آتا ہے کہ جب ان کو اہل مدینہ کے طرز عمل کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے اپنے اہل خانہ یعنی بال بچوں کو جمع کیا اور ان سے فرمایا:
" إنی سمعت النبی ﷺ یقول ینصب لکل غادر لواء یوم القیامة وإنا قد بایعنا ھٰذا الرجل علی بیع اللہ ورسولہ وإنی لا أعلم غدراً أعظم من أن یبایع رجل علی بیع اللہ ورسولہ ثم ینصب لہ القتال وإنی لا أعلم أحداً منکم خلعہ ولا تابع فی ھٰذا إلا کانت الفصیل بینی وبینہ" (صحیح البخاری، الفتن، باب إذا قال عند قوم شیئاً۔۔۔، ح:۷۱۱۱)
یعنی "میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر بدعہدی(غدر) کرنے والے کے لیے ایک جھنڈا (علامتی نشان) نصب کردیا جائے گا۔ ہم نے اس شخص (یزید) سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بیعت کی ہے، میری نظر میں اس سے زیادہ بدعہدی اور کوئی نہیں کہ ایک شخص کی اللہ اور اس کے رسول کے نام پر بیعت کی جائے پھر آدمی اسی کے خلاف اُٹھ کھڑا ہو۔ یاد رکھو تم میں سے کسی کے متعلق بھی اگر مجھے یہ معلوم ہوا کہ اس نے یزید کی بیعت توڑ دی ہے ۔ یا وہ بدعہدی کرنے والوں کے پیچھے لگ گیا ہے تو میرے اور اس کے درمیان کوئی تعلق نہ رہے گا۔"
اسی طرح حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یزیدکی بیعت توڑنے سے گریز کیا۔ (البدایہ والنہایہ، ۲۱۸/۸) بلکہ خاندان حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر اہل بیت نبوی کے کسی فرد نے بھی اس موقعے پر نہ بیعت توڑی نہ اس شورش میں کسی قسم کا حصہ لیا۔ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
" کان عبداللہ بن عمر الخطاب وجماعات أہل بیت النبوة ممن لم ینقض العہد ولا بایع أحداً بعد بیعته لیزید۔۔۔ لم یخرج أحد من آل أبی طالب ولا من بنی عبدالمطلب أیام الحرة" (البدایۃ والنہایۃ، ص: ۲۳۵/۷)
یعنی "عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور اہل بیت نبوی کے کسی گروہ نے نقض عہد نہیں کیا، نہ یزید کی بیعت کے بعد کسی اور کی بیعت کی۔ آل ابو طالب (حضرت علی رضی اللہ عنہ کا خاندان) اور اولاد عبدالمطلب میں سے کسی نے بھی ایام حرہ میں (یزید کے خلاف) خروج نہیں کیا۔"
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
محمد بن الحنفیہ کی طرف سے یزید کی صفائی

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی محمد بن الحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان لوگوں کے سامنے ، جن کے ہاتھ میں "شورش" کی قیادت تھی، یزید کی بیعت توڑ دینے اور اس کے خلاف کسی اقدام میں شرکت کرنے سے نہ صرف انکار کردیا بلکہ یزید پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا اور یزید کی صفائی پیش کی۔ اس موقعے پر انہوں نے جو تاریخی بیان دیا ، وہ حسب ذیل ہے۔
حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں:
"عبداللہ بن مطیع اور ان کے رفقائے کار حضرت علی رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے ، محمد بن الحنفیہ رحمۃ‌اللہ علیہ کے پاس گئے اور انہیں یزید کی بیعت توڑ دینے پر رضا مند کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے صاف انکار کردیا۔ اس پر ابن مطیع نے کہا: "یزید شراب نوشی، ترک نماز اور کتاب اللہ کے حکم سے تجاوز کرتا ہے" محمد بن الحنفیہ نے کہا "تم جن باتوں کا ذکر کرتے ہو میں نے ان میں سے کوئی چیز اس میں نہیں دیکھی۔ میں اس کے پاس گیا ہوں، میرا وہاں قیام بھی رہا، میں اس کو ہمیشہ نماز کا پابند، خیر کا متلاشی ، علم دین کا طالب اور سنت کا ہمیشہ پاسدار پایا "وہ کہنے لگے، وہ یہ سب کچھ محض تصنع اور آپ کے دکھلاوے کےلیے کرتا ہوگا۔ ابن الحنفیہ نے جواب میں کہا"مجھ سے اسے کون سا خوف یا لالچ تھا۔ جس کی بنا پر اس نے میرے سامنے ایسا کیا؟ تم جو اس کی شراب نوشی کا ذکر کرتے ہو، کیا تم میں سے کسی نے خود اسے ایساکرتے دیکھا ہے؟ اگر تمہارے سامنے اس نے ایسا کیا ہے توتم بھی اس کے ساتھ اس کام میں شریک رہے ہو، اور اگر ایسا نہیں ہے تو تم اس چیز کے متعلق کیا گواہی د ے سکتے ہو جس کا تمہیں علم ہی نہیں ، وہ کہنے لگے "یہ بات ہمارے نزدیک سچ ہے اگرچہ ہم میں سے کسی نے ایسا کرتے نہیں دیکھا" ابن الحنفیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا "اللہ تو اس بات کو تسلیم نہیں کرتا، وہ تو فرماتا ہے إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ "گواہی انہی لوگوں کی معتبر ہے جو اس بات کا ذاتی علم ہو" جاؤ! میں کسی بات میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتا" وہ کہنے لگے "شاید آپ کو یہ بات ناگوار گزرتی ہو کہ یہ معاملہ آپ کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں رہے۔اگر ایسا ہے تو قیادت ہم آپ کے سپرد کیے دیتے ہیں" برادر حسین رضی اللہ عنہ نے کہا "تم جس چیز پر قتال وجدال کررہے ہو، میں سرے سے اس کو جائز ہی نہیں سمجھتا، مجھے کسی کے پیچھے لگنے یا لوگوں کو اپنے پیچھے لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے؟" وہ کہنے لگے "آپ اس سے پہلے اپنے والد کے ساتھ مل کر جو جنگ کرچکے ہیں" انہوں نے فرمایا "تم پہلے میرے باپ جیسا آدمی اور انہوں نے جن سے جنگ کی ان جیسے افراد تو لا کر دکھاؤ۔ اس کے بعد میں بھی تمہارے ساتھ مل کر جنگ کرلوں گا" وہ کہنے لگے ، آپ اپنے صاحبزادگان ابو القاسم اور قاسم ہی کو ہمارے حوالے کردیں،ا نہوں نے فرمایا: میں ان کو اگر اس طرح کا حکم دوں تو میں خود نہ تمہارے ساتھ اس کام میں شریک ہوجاؤں؟ وہ کہنے لگے، اچھا آپ صرف ہمارے ساتھ چل کر لوگوں کو آمادہ ٔ قتل کردیں انہوں نے فرمایا "سبحان اللہ! جس کو میں خود ناپسند کرتا ہوں اور اس سے مجتنب ہوں۔ لوگوں کو اس کا حکم کیسے دوں؟ اگر میں ایسا کروں تو میں اللہ کے معاملے میں اس کے بندوں کا خیرخواہ نہیں، بدخواہ ہوں گا۔ "وہ کہنے لگے "ہم پھر آپ کو مجبور کریں گے " انہوں نے کہا "میں اس وقت بھی لوگوں سے یہی کہوں گا کہ اللہ سے ڈرو اور مخلوق کی رضا کی خاطر خالق کو ناراض کرو۔" (البدایۃ والنہایۃ ۲۳۶/۸)
مگر ان مساعی ٔ خیر و صلاح کے علی الرغم شورش نے انتہائی نازک صورت اختیار کرلی۔یزید کو خبر پہنچی تو شورش کو فرو کرنے کے لیے فوج بھیج دی اور اس کو ہدایت کی کہ شورش کرنے والوں کو تین دن کی مہلت دینا، اگر اس دوران میں وہ اپنا طرز عمل درست کرلیں تو ٹھیک ہے ورنہ پھر تمہیں کاروائی کی جازت ہے فوج نے اپنے خلیفہ کے حکم کے مطابق عمل کیا لیکن اہل مدینہ نے اس مہلت سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا بلکہ جنگ کرنے کےلیے مقابلے پر آگئے۔
اس مناسب مقام تفصیل سے واقعہ ٔ حرہ کی بنیادی حقیقت معلوم ہوسکتی ہے نیز یہ کہ اس "شورش" کو اہل خیر وصلاح نے کس نظر سے دیکھا تھا؟ تاہم ان ایام حرہ میں ، مبالغہ آمیز تفصیلات سے قطع نظر، جو غیر مستند ہی ہیں کیونکہ ان کا راوی ابو مخنف ہی ہے جو کذاب اور شیعہ ہے، یزید کی فوج نے حد سے تجاوز کرکے جو کاروائیاں کی ہیں۔ ان پر علماء نکیر ہی کرتے آئے ہیں، انہیں مستحسن کسی نے بھی نہیں کہا ہے۔
واقعۂ کربلا کی بھی جو حقیقت ہے اس پر ہم مختصراً روشنی ڈال آئے ہیں۔ اور امام غزالی وغیرہ کی تصریحات سے ہم اپنے سابقہ مضمون میں یہ وضاحت کرچکے ہیں کہ اس سلسلے میں یزیدکو مطعون کرنا درست نہیں کیونکہ نہ اس نے ایسا کیا نہ ایسا کرنے کا حکم دیا، نہ اس کو پسند کیا۔
اگر کسی درجے میں سانحۂ کربلا اور واقعۂ حرہ کا ذمہ دار یزید ہی کو ٹھہرا لیا جائے اور اس بنا پر اس کو "فاسق و فاجر اور قاتل و ظالم" بھی سمجھ لیا جائے تب بھی یہ تمام جرائم کبائر ہی شمار ہوں گے اور کبائر کے ارتکاب سے کوئی مسلمان نہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے نہ رحمت ومغفرت خداوندہی کے امکان سے محروم ۔ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کے تمام گناہ معاف کرسکتا ہے جیسا کہ اس نے کہا ہے کہ شرک کے علاوہ چاہوں گا تو دوسرے گناہ معاف کردوں گا۔
" إِنَّ اللّهَ لاَ يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَن يَشَاءُ [النساء : 48]{پھر یزید کی مغفرت کےلیے تو بالخصوص بشارت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم بھی موجود ہے اور آیت قرآنی اور حدیث نبوی کے علاوہ اہل سنت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کفر و شرک کے علاوہ ہر گناہ معاف کرسکتا ہے۔
" وما کان من السیئآت دون الشرک والکفر ولم یتب عنھا صاحبہا حتی مات مؤمناً فإنہ فی مشئة اللہ إن شآء عذبہ وإن شآء عفا عنہ ولم یعذبہ بالنار اصلاً"
یعنی "شرک وکفر کے علاوہ چاہے جو بھی گناہ آدمی سے سرزد ہوئے ہوں اور ان سے اس نے توبہ بھی نہ کی ہو ہاں مرتے دم تک مومن رہا (کافر نہ ہوا) تو اس کا معاملہ اللہ کی مرضی پر ہے چاہے وہ عذاب دے، چاہے وہ بالکل معاف کردے اور نار جہنم کی اس کو ہوا تک نہ لگنے دے۔
اول تو اس بات کا ہی کوئی شخص ثبوت پیش نہیں کرسکتا کہ یزید نے ان جرائم پر اپنی زندگی میں توبہ نہیں کی، اور بغیر توبہ کیے ہی مرگیا۔ بلکہ ۹۹ فیصد اسی بات کا امکان ہے کہ اس نے یقیناً توبہ کی ہوگی۔ آخر وہ مسلمان اور نماز روزے کا پابند تھا۔ اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ وہ بغیر توبہ ہی مرا تب بھی جب تک اس کے کفر و ارتداد کا ثبوت مہیا نہیں کردیا جاتا، اس کو امکان مغفرت سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ دیکھ لیجئے! اہل سنت کا عقیدہ یہی ہے کہ کفر و شرک کے علاوہ جو بھی گناہ ہو اور اس کا مرتکب چاہیے بغیر توبہ کیے ہی مرگیا ہو تب بھی اس کا معاملہ اللہ کی مشیت پر ہے چاہے عذاب دے چاہے بخش دے۔
مدیر موصوف اس کو "ظالم اور فاسق وفاجر" تسلیم کرا کےمعلوم نہیں کیا چاہتے ہیں؟ اور ان کے ذہن میں کیا ہے؟ اس کو انہوں نے کھولا نہیں۔ اگر اس سے مقصد ان کا یہ ہے کہ ایسے شخص کی مغفرت ممکن نہیں تو ہم موصوف سے دلائل شرعی کا مطالبہ کرتے ہیں اور اگر صرف اس کا ظلم تسلیم کرانا مطلوب ہے تو اسے تسلیم کرلینے سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا ہے۔ وہ کتنابھی گناہ گار ا ور "ظالم و فاسق" ہو وہ بہرحال مسلمان تھا اور عین ممکن ہے کہ مرنے سے پہلے وہ تائب بھی ہوگیا ہو۔ نہ بھی تائب ہوا تو امکان مغفرت بہرحال اس کے حق میں موجودہے۔
اور اگر مدیر موصوف کا مطلب اس سے یہ ہے کہ ایسے شخص کےلیےدعائے رحمت ومغفرت نہیں کرنی چاہیے تو یہ بات بھی صحیح نہیں، دعا تو ہوتی ہی گناہ گاروں کے لیے ہے اگر ہم کسی گناہ گار مسلمان کےلیے دعا نہ بھی کریں گے تب بھی ہماری عام دعاؤں میں وہ ضرور شامل ہوجائے گا۔ جب ہم کہیں گے:
" اللھم اغفر للمؤمنین والمؤمنات والمسلمین والمسلمات"
"اے اللہ تمام مومن و مسلمان مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔"
تو اس میں ہر مومن ازخود شامل ہوجاتا ہے۔ چاہے کیسا ہی گناہ گار ہو۔بہرحال واقعات کربلا و حرہ کو یزیدکا کارنامہ کوئی نہیں کہتا۔ البتہ اس کی مبالغہ آمیز تفصیلات سے ضرور انکار ہے جس کا زیادہ تر راوی ابو مخنف لوط بن یحییٰ ہے جو کذاب اور غالی شیعہ تھا (میزان) اور بھیانک روایتیں اسی کی ہیں اور جس حد تک یہ واقعات صحیح ہیں ان میں اگر فی الواقع یزید ملوث ہے تو اس کے "سیاہ کارنامے"شمار ہوں گے لیکن ان غلطیوں سے چاہے وہ کتنی بھی عظیم ہوں وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوتا ہے نہ مغفرت خداوندی کے امکان سے محروم۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال نمبر3:
اگر یزید کا قتل اہل بیت میں کوئی ہاتھ نہیں اور یہ سب کچھ ابن زیاد وابن سعد کی کارستانی ہے تو کیا یزید کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ بحکم " كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ" (صحیح بخاری، النکاح، باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا، حدیث:۵۲۰۰) اپنے گورنر سپہ سالا ر وغیرہ کا مؤاخذہ کرتا اور انہیں قتل اہل بیت کی سزا دیتا اور نہیں تو کیا قتل اہل بیت کے جرم میں وہ ابن زیاد بدنہاد کو معزول بھی نہیں کرسکتا تھا؟"
جواب نمبر 3:
یہ سوال بجا ہے، یزید کو فی الواقع حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قاتلوں سے مؤاخذہ کرنا اور انہیں ان کے عہدوں سے برطرف کردینا چاہیے تھا۔ لیکن جس طرح ہر حکمران کی کچھ سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیں جن کی بنا پر بعض دفعہ انہیں اپنے ماتحت حکام کی بعض ایسی کاروائیوں سے بھی چشم پوشی کرنی پڑ جاتی ہے جنہیں وہ صریحا ً غلط سمجھتے ہیں۔ اسی طرح ہوسکتا ہے کہ کچھ ایسی سیاسی مجبوری ہو جس کو یزید نے زیادہ اہمیت دے دی ہو گو اسے قتل حسین رضی اللہ عنہ کو زیادہ اہمیت دینی چاہیے تھی۔ اسے بھی آپ اس کی ایک اور بہت بڑی غلطی شمارکرسکتے ہیں اور بس۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھ لیجئے کہ ان کی خلافت کے مصالح نے انہیں نہ صرف قاتلین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے چشم پوشی پر مجبور کردیا بلکہ انہیں بڑے بڑے اہم عہدے بھی تفویض کرنے پڑے۔ حالانکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا سانحہ بھی کچھ کم المناک اور یہ جرم بھی کچھ عظیم جرم نہ تھا لیکن اس کے باوجود حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے خلاف کچھ نہ کرسکے۔ یزید نے تو قاتلین حسین رضی اللہ عنہ کو ان کے عہدوں سے صرف برطرف ہی نہیں کیا لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تو قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد قاتلوں کو بڑے بڑے عہدوں سے نوازا۔
یہ موازنہ اگرچہ ہمارے لیے سخت اذیت ناک ہے لیکن اس کا کیا علاج کہ "اہلسنت" جب عہد صحابہ کو بھی بالکل شیعی نقطۂ نظر سے دیکھنا شروع کردیں تو پھر اس کے بغیر چارہ بھی نہیں، اللہ تعالیٰ ہماری ان جسارتوں کو معاف فرمائے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال نمبر 4:
جب مسلم بن عقیل کی کوفے میں آمد کی خبر یزید کو پہنچ گئی اور اس نے ابن زیاد کو گورنر مقرر کردیا تو کیا "امام" حسین رضی اللہ عنہ کی آمد اور اس کے گورنر واہل کوفہ کے برتاؤ کی شہادت حسین رضی اللہ عنہ تک یزید کو کوئی اطلاع نہیں پہنچی تھی؟ حالانکہ اس نئی صورت حال کے متعلق یزید کی مسلسل دلچسپی و توجہ ایک فطرتی امر ہے اور اس سے صاف ظاہر ہے کہ قتل اہل بیت میں یزید کا فی الواقع ہاتھ ہے بلکہ یزید کا ابن زیاد کو گورنر مقرر کرنا اور اسے یہ کہنا کہ "کوفہ جاکر مسلم بن عقیل کی تلاش کرکے قتل تک سے دریغ نہ کرے" کیا یہ تما م حقائق یزید پلید کی اہل بیت اور قتل اہل بیت میں رضا مندی کا ثبوت نہیں؟
جواب نمبر4:
قیاس آرائی ، ظن و تخمین اور اٹکل پچو سے حقائق کا اثبات ممکن نہیں۔ جہاں تک مسلم بن عقیل کی کوفے میں آمد کی اطلاع اور ابن زیاد کے گورنر مقرر کرنے کا تعلق ہے تو اس کے متعلق عرض ہے کہ کتب تواریخ میں موجود ہے کہ اس بارے میں یزید کے بعض حامیوں نے یزید کو اطلاع بھجوائی تھی کہ کوفے میں اس طرح کے حالات رونما ہورہے ہیں اور یزید کو اس امر کی بھی انہوں نے اطلاع دی تھی کہ موجود گورنر کا طرز عمل نرم ہے۔ نیز وہ سختی کرنے پر آمادہ بھی نہیں جس سے شورش پر قابو پایا جاسکے۔ یہ اطلاع ملنے پر ہی یزید نے سابق گورنر کا تبادلہ کرکے ابن زیاد کو کوفہ وبصرہ کا گورنر مقرر کیا اور اسے سختی سے شورش کو دبانے کا اسی طرح حکم دیا جس طرح ہر فرمانروا کسی صوبے میں بدامنی و شورش کی اطلاع پا کر حکم دیا کرتا اور حکام کا عزل ونصب کرتا ہے۔ اگر آپ اسی طرح تاریخی روایات سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچادیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی کسی نے یزید کو اس طرح کی اطلاع بھجوائی تھی اور وہ اطلاع پا کر یزید نے ابن زیاد کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ سختی کرنے کا حکم دیا تب تو یزید کی اہل بیت دشمنی اور قتل "اہل بیت" میں "رضا مندی" کی بات قابل قبول ہوسکتی ہے۔ موجودہ صورت میں تو یہ ہوائی باتیں ہیں جن سے اہل دانش کے نزدیک یزید پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوتا اسی لیے تو امام غزالی جیسے ائمہ نے بھی اس بات کی صراحت کی ہے۔
" ما صح قتلہ للحسین رضی اللہ عنہ ولا أمرہ ولا رضاہ بذٰلک" (وفیات الأعیان : ۴۵۰/۲)
یعنی "یزید کے بارے میں یہ کہنا کہ اس نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا س کے قتل کا حکم دیا، یا ان کے قتل پر رضامند تھا۔ ان میں سے کوئی بات بھی صحیح نہیں۔"
اور احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:
" ولا یجوز أن یقال إنہ قتلہ أو أمر بہ مالم یثبت" (۱۳۱/۳)
"بغیر ثبوت کے یہ کہنا جائز ہی نہیں کہ یزید نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو قتل کیا یا قتل کرنے کا حکم دیا۔"
اگر ایک بشارت نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والتسلیم کا مصداق ہونے کے باوجود آپ یزید کا قافیہ "پلید" ہی سے ملانے پر مصر ہیں تو آپ کی مرضی۔ ہم کسی کی زبان و قلم پر پہرے نہیں بٹھا سکتے۔ تاہم اتنا ضرور عرض کریں گے کہ حدیث رسول کے مقابلے میں اس طرح کے ذہنی تحفظ کا مظاہرہ ایک مسلمان کے شایان شان نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ بعض اکابر علماء نے بھی یزید کے لیے یہ لفظ استعمال کیا ہے لیکن انہوں نے عدم تحقیق کی بنا پر روا روی میں ایسا کیا ہے اور اس معاملے کی گہرائی میں وہ نہیں گئے اور بعض دفعہ ایسا ہوجاتا ہے کہ بعض مسائل میں جس طرح عام رائے ہوتی ہے بڑے بڑے محقق بھی انہیں تسلیم کرلیتے ہیں۔ لیکن جب کوئی دیدہ ور اس کی تہ میں اتر کر نقاب کشائی کرتا ہے تو صورت معملہ بالکل مختلف نکلتی ہے اس لیے اس دور میں جب یزید کا کردار نقد ونظر کی کسوٹی پر پرکھا گیا اور اس پر عام بحث ہوئی تو بہت سےمخفی گوشے بے نقاب ہوگئے۔ اب اگر کوئی شخص یزید کو "پلید" لکھنے پر اصرار کرتا ہے تو اسے بعض پچھلے علماء کی طرح معذور سمجھنا مشکل ہے ہاں اگر آپ کے نہاں خانہ ٔ دماغ میں (ذاتی و سطحی باتوں کے علاوہ) اپنے "پلید" یا "ملعون" لکھنے معقول دلائل ہیں تو ان سے مطلع فرمائیں۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال نمبر5:
"یزید کے آلہ کار ابن زیاد، شمر، وغیرہم کس حد تک مجرم ہیں اور آپ کے نزدیک ان کا کیا حکم ہے؟"
جواب نمبر5:
یہ لوگ یزید کے آلہ کار نہیں، اہلکار تھے اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام جو ناخوشگوار صورت حال پیدا ہوگئی تھی اس سے اپنی صوابدید کے مطابق انہوں نے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کی۔یہ کوشش مذموم تھی یا مستحسن؟ اس میں رائے دہی خَرطُ القَتَاد والی بات ہے۔ ایک تو تاریخ کی متضاد روائتوں نے واقعات کو بہت الجھا دیا ہے ۔ دوسرے اس "سیاسی" نوعیت کے واقعے کو "مذہبی" رنگ دے دیا گیا ہے جس کی وجہ سے اس پر کھل کر گفتگو کرنا بھڑوں کے چھتے کو چھیڑنے کے مترادف ہوگیا ہے۔
ہم تاریخی تضاد کے انبار سے اگر حقیقت کی چہرہ کشائی کریں تو یہ راستہ طویل بھی ہوگا اور پھر بھی شائد آپ کے لیے ناقابل قبول۔ کیونکہ کہا جاسکتا ہےکہ یہ تاریخی روایات کا ایک پہلو ہے جب کہ روایات کا دوسرا پہلو اس کے برعکس ہے ۔ اس لیے ہم مختصراً صرف واقعے کی روشنی میں اتنا ہی عرض کریں گے کہ آپ جذبات اور مذہبیت سے الگ ہوکر معاملے کو واقعاتی سطح سے دیکھیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ اہل کوفہ کی دعوت پر بیعت خلافت لینے کے لیے تشریف لائے تھے وہ جنگ کرنے کے لیے نہیں آئے تھے، کیونکہ ۶۰۔۷۰، افراد کے ساتھ جو بیشتر اہل خانہ ہی تھے جنگ نہیں ہوا کرتی۔اہل کوفہ نے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا ساتھ چھوڑ دیا۔ لیکن کیا حاکم وقت کے اہل کار بھی اپنے اس حاکم سے بغاوت کرڈالتے جس پر تمام مسلمان متفق ہوچکے تھے۔ ایسا چونکہ ممکن نہیں تھا ۔تاہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے خیر سگالی کی گفتگو کی گئی جس کا خاطر خواہ اثر بھی ہونے لگا تھا اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نےتو اپنے موقف سے رجوع کرکے تین شرائط بھی پیش کردی تھیں جن میں ایک شرط یزید کے پاس بھیج دینے کی بھی تھی لیکن انہی کوفیوں کی شرارت کہہ لیجئے جنہوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خطوط لکھ کر بلوایا تھا یا ابن زیاد وغیرہ کی سختی کہ معاملہ سلجھتے سلجھتے الجھ گیا اور بات حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تک جاپہنچی۔
اب اس وقت ایسا کوئی پیمانہ نہیں جس سے ناپ کر یا تول کر ابن زیاد اور عمر بن سعد کی غلطی کا اندازہ کرکے کوئی حکم لگایا جاسکے اگر حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے حسن سلوک میں انہوں نے کوئی کوتاہی کی ہے تو وہ یقیناً مجرم ہیں۔ تاہم یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ عمل اور رد عمل کے بنیادی نکتے کو نظر انداز کرکے بات بالعموم خاندانی شرف وفضل کے اعتبار سے کی جاتی ہے جو اصولاً غلط اور تحقیقی نقطۂ نظر کے منافی ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال نمبر 6:
ایک طرف لفظ امام اسے انکار اور صرف حضرت حسین پر اصرار اور دوسری طرف ابن تیمیہ کو نہ صرف امام بلکہ "شیخ الاسلام ابن تیمیہ" تحریر کرنا ابن تیمیہ کی "امام" حسین رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں کون سی فوقیت اور دلیل شرعی پر مبنی ہے؟"
جواب نمبر6:
افسوس ہے کہ اس سلسلے میں مدیر موصوف نے ہماری گزارشات کو غور سے نہیں پڑھا، اگر وہ ایسا کرلیتے تو ان کے قلم سے اس سطحیت کا اظہار نہ ہوتا جو ان کے سوال سے عیاں ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ پہلے ہم اپنی وہ وضاحت نقل کردیں جس پر یہ سوال وارد کیا گیا ہے ہم نے لکھا تھا۔
" اسی طرح اہل سنت کی اکثریت حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلا سوچےسمجھے "اما م حسین علیہ السلام" بولتی ہے حالانکہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام" کا لفظ بولنا اور اسی طرح "رضی اللہ عنہ" کے بجائے "علیہ السلام" کہنا بھی شیعیت ہے۔ ہم تمام صحابہ ٔ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عزت و احترام کے لیے "حضرت" کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر ، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنہم وغیرہ۔ ہم کبھی "امام ابو بکر صدیق، امام عمر" نہیں بولتے۔ اسی طرح ہم صحابہ کرام کے اسمائے گرامی کے بعد "رضی اللہ عنہ" لکھتے اور بولتے ہیں۔ اور کبھی "ابو بکر صدیق علیہ السلام یا حضر ت عمر علیہ السلام" نہیں بولتے، لیکن حضرت حسین کے ساتھ "رضی اللہ عنہ" کے بجائے" علیہ السلام" بولتے ہیں۔ کبھی اس پر بھی غور کیا کہ ایسا کیوں ہے؟ دراصل یہ شیعیت کا وہ اثر ہے جو غیر شعوری طور پر ہمارے اندر داخل ہوگیا ہے اس لیے یاد رکھیے کہ چونکہ شیعوں کا ایک بنیادی مسئلہ "امامت" کا بھی ہے اور امام ان کے نزدیک انبیاء کی طرح من جانب اللہ نامزد اور معصوم ہوتا ہے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ان کے بارہ اماموں میں سے ایک امام ہیں، اس لیے ان کے لیے "امام" کا لفظ بولتے ہیں اور اسی طرح ان کے لیے "علیہ السلام" لکھتے اور بولتے ہیں۔ ہمارے نزدیک وہ ایک صحابی ٔ رسول ہیں "امام معصوم" نہیں، نہ ہم شیعوں کی امامت معصومہ کے قائل ہی ہیں۔ اس لیے ہمیں انہیں دیگر صحابہ ٔ کرام کی طرح "حضرت حسین رضی اللہ عنہ " لکھنا اور بولنا چاہیے۔ "امام حسین علیہ السلام" نہیں۔ کیونکہ یہ شیعوں کے معلوم عقائد اور مخصوص تکنیک کے غماز ہیں۔" (الاعتصام ۱۱ محرم الحرام ۱۳۹۵ھ)
اتنی صراحت و وضاحت کے بعد بھی مدیر موصوف کا عدم اطمینان ناقابل فہم ہے اگر وہ اس فرق کی کچھ توضیح کردیتے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام" نہ لکھنے سے تو ان کی توہین نہیں ہوتی لیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ "امام" نہ لکھنے سے ان کی توہین ہوجاتی ہے۔ تو ہم اپنے موقف پر نظر ثانی کرلیتے۔ یہ عجیب انداز ہے کہ ہمارے دلائل کا کوئی جواب بھی نہیں اور اسی طرح اپنے دلائل کا اظہار بھی نہیں لیکن پھر بھی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی توہین کا بچکانہ اعتراض۔ ع

تمہی کہو یہ انداز "تحقیق" کیا ہے؟​

باقی رہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ابن تیمیہ میں آپ کا عجیب قسم کا موازنہ! تو جواباً عرض ہے کہ حدیث و فقہ کے مسلمہ عالم وفقیہ کو امام لکھنا اگر آپ کے نزدیک حضرت حسین رضی اللہ عنہ پر فوقیت دینا ہے جس کے لیے آپ دلیل شرعی کا مطالبہ کررہے ہیں تو ہمارا سوال آپ سے یہ ہے کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےلیے تو "امام" نہیں لکھتے لیکن ائمہ اربعہ اور سینکڑوں علماء وفقہاء کو امام لکھتے ہیں تو کیا امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ لکھ کر انہیں ابو بکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے فوقیت دیتے ہیں؟
"ما ھو جوابکم فھو جوابنا"
پھر آپ امام ابو حنیفہ کو "امام اعظم" لکھتے ہیں۔ کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےلیے صرف "امام" اور امام ابو حنیفہ کے لیے"امام اعظم" کیا یہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی توہین نہیں؟
اور آگے بڑھئے! آپ تمام صحابہ کرام کے لیے حضرت کا لفظ استعمال کرتےہیں ۔ بلکہ نبی ٔ اکرم ﷺ کےلیے بھی بالعموم یہی لفظ "حضرت یا آنحضرتﷺ" ہی استعمال ہوتا ہےلیکن آپ مولانا احمد رضاخان بریلوی کو "اعلیٰ حضرت" لکھتے اور بولتے ہیں۔ کیا اس طرح صحابہ ٔ کرام کی اور خود ختمی مرتبت ﷺ کی توہین نہیں؟
آخر یہ سوال لکھنے سے قبل اس کی سطحیت پر کچھ تو غور کر لیا ہوتا۔ اس لیے محترم! اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ علماء وفقہاء کےلیے "امام" کے لفظ کا استعمال اس معنی میں ہوتا ہے کہ وہ حدیث و فقہ کے ماہر تھے، حضرت حسین رضی اللہ عنہ کےلیے بھی اسے اس معنی میں استعمال کیا جائے تو اس میں نہ صرف یہ کہ کوئی حرج نہیں بلکہ اس معنی میں وہ بعد کے ائمہ سے زیادہ اس لفظ کے مستحق ہیں۔ لیکن بات تو یہ ہورہی ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس معنی میں "امام " نہیں کہا جاتا اگر ایسا ہوتا ابو بکر و عمر و دیگر صحابہ ٔ کرام کو بھی امام لکھا اور بولا جاتا کہ وہ علوم قرآن و حدیث کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ رمز شناس تھے۔ جب کسی بڑے سےبڑے صحابی کے لیے امام کا لفظ نہیں بولا جاتا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ صرف حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس لفظ کا استعمال ان معنوں میں قطعاً نہیں جن میں اس کا استعمال عام ہے، بلکہ یہ شیعیت کے مخصوص عقائد کا غماز ہے ۔ اس لیے اہل سنت کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
امید ہے اب تو مدیر موصوف کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہوگی۔ اگر اب بھی اطمینان نہیں تو ہم اس کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔

یارب! وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور​
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
سوال نمبر 7:
آپ کی تحریر کے مطابق اگر یزید مومن ہونے کے باعث رحمۃ اللہ علیہ کا مصداق ہے تو کیا س منطق کے مطابق کسی مومن کہلانے والے زانی، شرابی، چور اور قاتل کو شخصی طور پر رحمۃ اللہ علیہ کہنا درست ہوگا؟"
جواب نمبر7:

رحمۃ اللہ علیہ کا استعمال


یہ سوال بھی سطحیت پر مبنی ہے موصوف نے ذرا بھی غور وفکر سے کام لیا ہوتا تو اس سطحیت کا مظاہرہ شاید نہ فرماتے۔ ہم موصوف سے سوال کرتے ہیں کہ کیا آج تک شخصی طور پر کسی زانی یا شرابی یا چور یا قاتل مسلمان کے لیے دعائے مغفرت ورحمت سے کسی عالم نے روکا ہے؟ اگر روکا ہے تو حوالہ دیں، اور اگر شرابی اور زانی کےلیے مغفرت و رحمت کی دعا کرنی جائز ہے تو رحمۃ اللہ علیہ یا رحمہ اللہ کا مطلب بھی تو مغفرت ورحمت کی دعا ہے، اس کا مفہوم کچھ اور تو نہیں؟
اسی طرح ہم موصوف سے پوچھتے ہیں کہ آج تک کسی عالم نے کسی زانی یا شرابی یا چور یا قاتل مسلمان کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کیا ہے؟ اگر کیا ہے تو حوالہ دیں بصورت دیگر ازخود ایسے مجرموں کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کہنا ثابت ہوگیا کیونکہ نماز جنازہ بھی تو مغفرت ورحمت کی دعا ہے۔ اگر ایک کبیرہ گناہ کے مرتکب کےلیے نماز جنازہ پڑھنی جائز ہے بلکہ ضرور پڑھی جاتی ہے تو پھر اسے رحمۃ اللہ علیہ یا رحمہ اللہ کہنے میں کیا حرج ہے؟ اگر یہ نکتہ اب بھی موصوف کےذہن میں نہیں آیا تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ کسی کےلیے مغفرت و رحمت کی دعا کرنے میں یا اس کی نماز جنازہ پڑھنے میں یا اس کےلیے رحمۃ اللہ علیہ کہنے میں کیا فرق ہے؟ ہمارے نزدیک تو تینوں کا مفہوم ایک ہی ہے۔ اگر موصوف کے نزدیک کچھ فرق ہے تو وضاحت فرمائیں کہ ان کے درمیان کیا فرق ہے؟ تاکہ ہمیں بھی معلوم ہوسکے کہ ایک مرتکب کبیرہ گناہ مسلمان کی نماز جنازہ تو پڑھنی جائز بلکہ ضروری ہے لیکن اس کے لیے رحمۃ اللہ علیہ کہنا جائز نہیں، اس لیے کہ ان کے درمیان یہ یہ فرق ہے۔ امید ہے موصوف ان سوالات کی وضاحت فرماکر ہماری شک یا غلط فہمی دور کردیں گے۔
 
Top