• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رشوت مین لی گئ رقم کا کس طرح ازالہ کرین؟

khalil

رکن
شمولیت
اپریل 18، 2016
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کتہ ۔۔۔محترم علماء کرام سے قران و حدیث کی رو سے یہ پوچھنا ہے کہ میرے ایک اہل حدیث دوست نے اج سے 10 سال پہلے اپنی ایک ڈیوٹی کے دوران 10000 رقم رشوت لی تھی وہ بھی زبردستی دی گئ تھی تاکہ طلباء کو نمبر زیادہ دیے جائیں لیکن اب میرا دوست اس رشوت کی رقم کا ازالہ کرنا چاہتاہے اب وہ سکول تو موجود ہوگا لیکن جن طلباء سے رقم سکول انتظامیہ نے جمع کی تھی اسکو تلاش کرنا مشکل ہے اب میرا دوست یہ پوچھنا چاہتا ہے میں اس رشوت کی رقم کس طرح تقسیم کروں کہ اللہ میرے اس گناہ کو معاف کر دے ؟ کیا یہ رقم اہل حدیث کی مسجدکی تعمیر میں استعمال کی جا سکتی ہے؟ کیا اس رقم کو کسی عالم کو دیا جا سکتاہے؟ یا ہمارے ہاں دیوبندیوں کیااکثریت ہے ان میں یہ رقم تقسیم کر دی جائے ۔۔ یا کوئی اور صورت ؟مہربانی کرکے جواب جلد از جلد دے کرمشکور فرمائیں ۔۔جزاءک اللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کتہ ۔۔۔محترم علماء کرام سے قران و حدیث کی رو سے یہ پوچھنا ہے کہ میرے ایک اہل حدیث دوست نے اج سے 10 سال پہلے اپنی ایک ڈیوٹی کے دوران 10000 رقم رشوت لی تھی وہ بھی زبردستی دی گئ تھی تاکہ طلباء کو نمبر زیادہ دیے جائیں لیکن اب میرا دوست اس رشوت کی رقم کا ازالہ کرنا چاہتاہے اب وہ سکول تو موجود ہوگا لیکن جن طلباء سے رقم سکول انتظامیہ نے جمع کی تھی اسکو تلاش کرنا مشکل ہے اب میرا دوست یہ پوچھنا چاہتا ہے میں اس رشوت کی رقم کس طرح تقسیم کروں کہ اللہ میرے اس گناہ کو معاف کر دے ؟ کیا یہ رقم اہل حدیث کی مسجدکی تعمیر میں استعمال کی جا سکتی ہے؟ کیا اس رقم کو کسی عالم کو دیا جا سکتاہے؟ یا ہمارے ہاں دیوبندیوں کیااکثریت ہے ان میں یہ رقم تقسیم کر دی جائے ۔۔ یا کوئی اور صورت ؟مہربانی کرکے جواب جلد از جلد دے کرمشکور فرمائیں ۔۔جزاءک اللہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
ایسے مال کے متعلق اہل علم کا کہنا ہے :

قال ابن القيم رحمه الله : " إذا عاوض غيره معاوضة محرمة وقبض العوض ، كالزانية والمغني وبائع الخمر وشاهد الزور ونحوهم ثم تاب والعوض بيده . فقالت طائفة : يرده إلى مالكه ؛ إذ هو عين ماله ولم يقبضه بإذن الشارع ولا حصل لربه في مقابلته نفع مباح .
وقالت طائفة : بل توبته بالتصدق به ولا يدفعه إلى من أخذه منه ، وهو اختيار شيخ الإسلام ابن تيمية وهو أصوب القولين ... ". انتهى من "مدارج السالكين" (1/389)

وقد بسط ابن القيم الكلام على هذه المسألة في "زاد المعاد" (5/778) وقرر أن طريق التخلص من هذا المال وتمام التوبة إنما يكون : " بالتصدق به ، فإن كان محتاجا إليه فله أن يأخذ قدر حاجته ، ويتصدق بالباقي " انتهى .

ترجمہ :
علامہ شمس الدین ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر كسى دوسرے نے اسے حرام معاوضہ ديا اور اس نے وہ معاوضہ لے بھى ليا ہو، مثلا زانيہ، اور گانے بجانے والا، اور شراب فروخت كرنے والا اور جھوٹى گواہى دينے والا، اور اس طرح كے دوسرے افراد پھر وہ توبہ كر لے اور وہ معاوضہ اس كے پاس ہو تو ايك گروہ كا قول ہے كہ:
وہ اس معاوضہ اور مال كو اس كے مالك كو واپس كردے؛ كيونكہ وہ اس كا بعنيہ مال ہے، اور اس نے وہ مال شارع كے حكم سے نہيں ليا، اور نہ ہى مال كے مالك كو اس مال كے عوض كوئى مباح اور جائز نفع حاصل ہوا ہے.

اور علماء کا ايك گروہ كہتا ہے كہ:
بلكہ اسے صدق دل كے ساتھ توبہ كر لينى چاہيے، اور ليا جانے والا مال واپس نہ كرے، شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے يہى قول اختيار كيا ہے، اور دونوں قولوں ميں زيادہ صحيح بھى يہى ہے " ... انتہى.
ديكھيں: مدارج السالكين ( 1 / 389 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ نے " زاد المعاد " ميں اس مسئلہ كو شرح وبسط كے ساتھ بيان كرتے ہوئے يہ فيصلہ كيا ہے كہ:
" اس مال سے چھٹكارا اور خلاصى كرنا اور توبہ كى تكميل اسطرح ہو گى كہ: وہ مال صدقہ كر ديا جائے، اور اگر وہ اس كا متاج اور ضرورتمند ہو تو وہ بقدر حاجت اس مال سے ليكر باقى مال صدقہ كر دے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 5 / 778 )
اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں :
وقال شيخ الإسلام : " فإن تابت هذه البغي وهذا الخَمَّار ، وكانوا فقراء جاز أن يصرف إليهم من هذا المال قدر حاجتهم ، فإن كان يقدر يتجر أو يعمل صنعة كالنسج والغزل ، أعطي ما يكون له رأس مال " انتهى من "مجموع الفتاوى" (29/308)
________________
ترجمہ :
اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر يہ زانيہ اور باغيہ عورت اور يہ شراب فروخت كرنے والا شخص توبہ كر لے، اور وہ فقير اور مسكين ہوں تو ان كى ضرورت كے مطابق اس مال كو انہيں دينا جائز ہے، تو اگر وہ شخص تجارت كرنے، يا كوئى بنائى اور سوت كاتنے كى مہارت ركھے تو اس اس كے ليے راس المال ديا جائيگا " انتہى
ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 29 / 308 ).
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
سعودی عرب کی فتاویٰ کیلئے مستند علماء پر مشتمل کمیٹی کا فتویٰ

الفتوى رقم (19134)
س: 1-
رجل مسلم جمع أموالا كثيرة أو قليلة من طريق محرم؛ كبيع الخمر والخنزير والميتة، أو من تجارة المخدرات وغير ذلكم الحرام، وأراد أن يتوب إلى الله تعالى، فهل يلزمه التخلص من كل أمواله الحرام، أم يجوز له أن يبقي جزءا منها ليستخدمه في تجارة الحلال؟
2 -
لو توقف عن التجارة في المحرمات، لكنه أبى أن يتخلص من ذلك المال الحرام، ثم أقام بذلك المال متجرا يبيع فيه الأمور الحلال كالأواني والملابس.. إلخ. فهل يجوز بيعه والشراء منه؟
3 -
هل يجوز العمل عنده في ذلك المتجر وتكون الأجرة حلالا؟ مع ملاحظة أنه إذا تمت مقاطعته والتعامل معه قد يحمله ذلك إلى العودة إلى تجارة المواد المحرمة شرعا.
4 -
هل يجوز أكل طعامه وإجابة دعوته أو قبول هداياه مع غلبة الظن أنها اشتريت من ماله الحرام؟ ومن قبل شيئا من هذا المال فهل يجب عليه التخلص منه أم عفا الله عما سلف؟
5 -
لو أراد أن يتبرع بذلك المال الحرام، أو بجزء منه فما هي مصارف ذلك المال، وهل يجوز أن تنفق في شراء كتب العلم وتوزيعها على المحتاجين من المسلمين؟ وهل يجوز إنفاق تلك الأموال على نشر الدعوة الإسلامية أو شراء أو إجارة مكان ليكون مركزا للدعوة إلى الله وتعليم أبناء المسلمين القرآن والعلم وكذلك شراء ما قد يحتاجه ذلك المكان من أدوات لصالح الدعوة؟
6 -
هل يجوز الاقتراض من ذلك المال لصالح الدعوة أو للصالح الشخصي أم لا يجوز هذا ولا هذا؟
ـــــــــــــــــــ
جواب: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «إن الله تعالى طيب لا يقبل إلا طيبا، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين قال تعالى:
وقال تعالى: ثم ذكر: الرجل يطيل السفر أشعث أغبر، يمد يديه إلى السماء: يا رب، يا رب، ومطعمه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك (2) » خرجه مسلم في صحيحه. لذلك فإنه يحرم على المسلم تعاطي المكاسب المحرمة، ومن وقع في شيء من ذلك وجبت عليه التوبة وترك الكسب الحرام، وأبواب الرزق الحلال -ولله الحمد- كثيرة ميسرة، وقد قال الله سبحانه: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} (3) {وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ} (4) ومن تاب وعنده أموال اكتسبها بطرق محرمة؛ كالربا والميسر، وبيع المواد المحرمة؛ كالخمر والخنزير، فإنه يجب عليه أن يتخلص من تلك الأموال، بوضعها في مشاريع عامة، كإصلاح الطرق ودورات المياه، أو يفرقها على المحتاجين ولا يبقي عنده منها شيئا، ولا ينتفع منها بشيء؛ لأنها مال حرام، لا خير فيها، ومقتضى التوبة منها أن يتخلص منها ويبعدها عنه، ويعدل
إلى غيرها من المكاسب. وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
عبد الله بن غديان ... بكر أبو زيد ... صالح الفوزان ... عبد العزيز آل الشيخ ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
__________
(1) صحيح مسلم الزكاة (1015) ، سنن الترمذي تفسير القرآن (2989) ، مسند أحمد بن حنبل (2/328) ، سنن الدارمي الرقاق (2717) .
(1) سورة المؤمنون الآية 51 (1) {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا}
(2) سورة البقرة الآية 172 (1) {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ}
(3) سورة الطلاق الآية 2
(4) سورة الطلاق الآية 3

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
غیر شرعی طریقہ سے حاصل کردہ اموال سے متعلق مختلف سوالات > مسلمان پر حرام کمائی کا استعمال کرنا حرام ہے
فتوى نمبر:19134
سوال : - ایک مسلمان آدمی نے حرام طریقے سے کثرت کے ساتھـ مال کمایا، جیسے شراب خنزیر اور مردار کا بیچنا، یا نشہ آور اشیاء وغیرہ کی تجارت کرنا، اور اس کا ارادہ ہے کہ وہ الله تعالى کی بارگاہ میں توبہ کرے، تو کیا اسے اپنے تمام حرام مال سے خلاصی حاصل کرنا ضروری ہے، یا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس میں سے کچھـ حصہ باقی رکھے تاکہ وہ اسے جائز تجارت میں استعمال کرے؟
2
- اگر وہ حرام چیزوں کی تجارت سے باز رہے، لیکن وہ اس حرام مال کو چھوڑنے سے انکار کر دے، پھر وہ اس مال سے ايک دوکان کھولے جس ميں برتنوں اور لباس وغیرہ جيسے حلال اشياء کی بيع کرے، تو کیا اس سے خريدنا اور فروخت کرنا جائز ہے؟
3 - کیا اس کے پاس اس تجارت میں کام کرنا جائز ہے اور اس کی اجرت حلال ہوگی، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اگر اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے اور اس سے تعامل ختم کردیا جائے تو ممکن ہے کہ وہ شرعاً حرام چیزوں کی طرف لوٹ جائے گا۔
4 - کیا اس کا کھانا کھانا اور اس کی دعوت کو قبول کرنا یا اس کے تحفوں کو قبول کرنا جائز ہے اس غالب گمان کے ساتھـ کہ یہ اس کے حرام مال سے خریدے گئے ہیں؟ اور جو اس مال سے کسی چیز کو قبول کرے کیا اس کے لئے اس سے خلاصی حاصل کرنا واجب ہے یا اللہ تعالی ماضی کے گناہ معاف فرما دے گا؟
5 - اگر وہ اپنے اس مال کو صدقہ کرنا چاہے، یا اس میں سے تھوڑا مال دینا چاہے تو اس مال کے مصارف کیا ہیں، اور کیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اسے علمی کتابوں میں صرف کر دے اور اسے مسلمان محتاج لوگوں میں تقسیم کرے، کیا اسے اس مال کا اسلامی دعوت و تبلیغ کی نشر و اشاعت پر خرچ کرنا جائز ہے یا کسی جگہ کا خریدنا یا کرائے پر لینا تاکہ وہ دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں کے بچوں کے لئے قرآن کریم اور علم کی تعلیم کا مرکز بناۓ؛ اور اسی طرح اس مال سے اس جگہ کے لئے دعوت و تبلیغ میں کام آنے والی چیزوں کا خریدنا؟
6 - کیا دعوت و تبلیغ کے کاموں یا اپنے شخصی امور کے لئے اس مال سے قرضے کے طور پر لینا جائز ہے یا ان میں سے کچھـ جائز نہیں ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ٭
جواب:
نبي اكرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک چیز ہی قبول کرتا ہے اور اللہ تعالی نے مؤمنین کو اسی کا حکم ديا ہے جس کا اس نے رسولوں کو حکم فرمایا ہے: ارشاد باری تعالی ہے:" يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا " ﺍﮮ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮﻭ ! ﺣﻼﻝ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻛﮭﺎؤ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻚ ﻋﻤﻞ ﻛﺮﻭ ،
( جلد کا نمبر 14، صفحہ 62)
اور اللہ تعالی فرماتا ہے:" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ " ﺍﮮﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺟﻮ ﭘﺎﻛﯿﺰﮦ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﻛﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻛﮭﺎؤ پھر آپ نے فرمایا: ایک شخص طویل سفر کرتا ہے، پرا گندہ بال اور غبار آلود ہو جاتا ہے، اور اپنے ہاتھوں کودعا کے لئے آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے: اے ميرے رب! اے ميرے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پہننا حرام اور حرام مال سے اس کی پرورش ہوئی ہے، تو اس کی دعا کيوں کر قبول ہو؟ اسے امام مسلم نے اپني صحيح میں روایت کیا ہے۔
اس بنا پر مسلمان پر حرام کمائی کا استعمال کرنا حرام ہے، اور جو اس میں سے تھوڑا بھی استعمال کيا ہو، اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے توبہ کرے، اور اس حرام کمائی کو ترک کر دے، اور الحمد للہ رزق حلال کے دروازے بہت زيادہ اور ميسر ہیں، اور بيشک الله سبحانه و تعالى نے فرمايا:" وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ " ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍللہ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺍللہ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﭼﮭﭩﲀﺭﮮ ﻛﯽ ﺷﲁ ﻧﲀﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔(2)ﺍﻭﺭﺍﺳﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺯﯼ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﰷ ﺍﺳﮯ ﮔﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ
( جلد کا نمبر 14، صفحہ 63)
اور جو توبہ کرے اور اس کے پاس حرام طریقے سے کمایا ہوا مال ہو، جیسے سود اور جوا، اور حرام اشیاء کا بیچنا، جیسے شراب اور خنزیر، تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس مال سے چھٹکارا حاصل کرے، مفادِ عامہ میں اسے صرف کر دے، جیسے راستوں کا درست کرانا اور پانی کے نلوں کی اصلاح کرانا، یا اسے محتاج لوگوں پر خرچ کر دے اور اپنے پاس اس میں سے کچھـ نہ رکھے، اور نہ اس کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے، اس لئے کہ یہ حرام مال ہے، اس میں کوئی بھلائی نہیں، اور اس سے توبہ کا تقاضا ہے کہ وہ اس سے خلاصی حاصل کرے اور اس سے دوری اختیار کرے، اور اس کے علاوہ دوسری کمائی کی طرف رجوع کرے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر ممبر نائب صدر صدر
عبد اللہ بن غدیان بکر ابو زید صالح فوزان عبد العزیزآل شيخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
مجموع فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ ( جلد نمبر 14، صفحہ 61)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور حرام مال سے کیا گیا صدقہ اجر کا ذریعہ نہیں بن سکتا ، قرآن مجید میں ارشاد رب تعالی ہے ؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
﴿002:267﴾
‏مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور وہ چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو اور جان رکھو کہ خدا بےپرو (اور) قابل ستائش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم: "إن اللَّهَ قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَخْلَاقَكُمْ، كَمَا قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَرْزَاقَكُمْ، وَإِنَّ اللَّهَ يُعْطِي الدُّنْيَا مَنْ يُحِبُّ وَمَنْ لَا يُحِبُّ، وَلَا يُعْطِي الدِّينَ إِلَّا لِمَنْ أحبَّ، فَمَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ الدِّينَ فَقَدْ أَحَبَّهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يُسْلِمُ عَبْدٌّ حَتَّى يُسلِمَ قلبُه وَلِسَانُهُ، وَلَا يُؤْمِنُ حَتَّى يَأْمَنَ جارُه بَوَائِقَهُ". قَالُوا: وَمَا بَوَائِقُهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟. قَالَ: "غَشَمُه وَظُلْمُهُ، وَلَا يَكْسِبُ (1) عَبْدٌ مَالًا مِنْ حَرَامٍ فينفقَ مِنْهُ فيباركَ لَهُ فِيهِ، وَلَا يتصدقُ بِهِ فَيُقْبَلَ (2) مِنْهُ، وَلَا يَتْرُكُهُ خَلْفَ ظَهْرِهِ إِلَّا كَانَ زَادَهُ إِلَى النَّارِ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ، وَلَكِنْ يَمْحُو السَّيِّئَ بِالْحَسَنِ، إِنَّ الْخَبِيثَ لَا يَمْحُو الْخَبِيثَ" (تفسیر ابن کثیر) .

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالٰی نے جس طرح تمہاری روزیاں تم میں تقسیم کی ہیں تمہارے اخلاق بھی تم میں بانٹ دئیے ہیں، دنیا تو اللہ تعالٰی اپنے دوستوں کو بھی دیتا ہے دشمنوں کو بھی، ہاں دین صرف دوستوں کو ہی عطا فرماتا ہے اور جسے دین مل جائے وہ اللہ کا محبوب ہے۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دِل اس کی زبان مسلمان نہ ہو جائے، کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےخوف نہ ہو جائیں، لوگوں کے سوال پر آپ نے فرمایا ایذاء سے مراد دھوکہ بازی اور ظلم و ستم ہے، جو شخص حرام وجہ سے مال حاصل کرے اس میں اللہ برکت نہیں دیتا نہ اس کے صدقہ خیرات کو قبول فرماتا ہے اور جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ سب اس کیلئے آگ میں جانے کا توشہ اور سبب بنتا ہے، اللہ تعالٰی برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو اچھائی سے دفع کرتا ہے "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ​
 

khalil

رکن
شمولیت
اپریل 18، 2016
پیغامات
34
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
57
سعودی عرب کی فتاویٰ کیلئے مستند علماء پر مشتمل کمیٹی کا فتویٰ

الفتوى رقم (19134)
س: 1-
رجل مسلم جمع أموالا كثيرة أو قليلة من طريق محرم؛ كبيع الخمر والخنزير والميتة، أو من تجارة المخدرات وغير ذلكم الحرام، وأراد أن يتوب إلى الله تعالى، فهل يلزمه التخلص من كل أمواله الحرام، أم يجوز له أن يبقي جزءا منها ليستخدمه في تجارة الحلال؟
2 -
لو توقف عن التجارة في المحرمات، لكنه أبى أن يتخلص من ذلك المال الحرام، ثم أقام بذلك المال متجرا يبيع فيه الأمور الحلال كالأواني والملابس.. إلخ. فهل يجوز بيعه والشراء منه؟
3 -
هل يجوز العمل عنده في ذلك المتجر وتكون الأجرة حلالا؟ مع ملاحظة أنه إذا تمت مقاطعته والتعامل معه قد يحمله ذلك إلى العودة إلى تجارة المواد المحرمة شرعا.
4 -
هل يجوز أكل طعامه وإجابة دعوته أو قبول هداياه مع غلبة الظن أنها اشتريت من ماله الحرام؟ ومن قبل شيئا من هذا المال فهل يجب عليه التخلص منه أم عفا الله عما سلف؟
5 -
لو أراد أن يتبرع بذلك المال الحرام، أو بجزء منه فما هي مصارف ذلك المال، وهل يجوز أن تنفق في شراء كتب العلم وتوزيعها على المحتاجين من المسلمين؟ وهل يجوز إنفاق تلك الأموال على نشر الدعوة الإسلامية أو شراء أو إجارة مكان ليكون مركزا للدعوة إلى الله وتعليم أبناء المسلمين القرآن والعلم وكذلك شراء ما قد يحتاجه ذلك المكان من أدوات لصالح الدعوة؟
6 -
هل يجوز الاقتراض من ذلك المال لصالح الدعوة أو للصالح الشخصي أم لا يجوز هذا ولا هذا؟
ـــــــــــــــــــ
جواب: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «إن الله تعالى طيب لا يقبل إلا طيبا، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين قال تعالى:
وقال تعالى: ثم ذكر: الرجل يطيل السفر أشعث أغبر، يمد يديه إلى السماء: يا رب، يا رب، ومطعمه حرام، وملبسه حرام، وغذي بالحرام، فأنى يستجاب لذلك (2) » خرجه مسلم في صحيحه. لذلك فإنه يحرم على المسلم تعاطي المكاسب المحرمة، ومن وقع في شيء من ذلك وجبت عليه التوبة وترك الكسب الحرام، وأبواب الرزق الحلال -ولله الحمد- كثيرة ميسرة، وقد قال الله سبحانه: {وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا} (3) {وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ} (4) ومن تاب وعنده أموال اكتسبها بطرق محرمة؛ كالربا والميسر، وبيع المواد المحرمة؛ كالخمر والخنزير، فإنه يجب عليه أن يتخلص من تلك الأموال، بوضعها في مشاريع عامة، كإصلاح الطرق ودورات المياه، أو يفرقها على المحتاجين ولا يبقي عنده منها شيئا، ولا ينتفع منها بشيء؛ لأنها مال حرام، لا خير فيها، ومقتضى التوبة منها أن يتخلص منها ويبعدها عنه، ويعدل
إلى غيرها من المكاسب. وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو ... عضو ... عضو ... نائب الرئيس ... الرئيس
عبد الله بن غديان ... بكر أبو زيد ... صالح الفوزان ... عبد العزيز آل الشيخ ... عبد العزيز بن عبد الله بن باز
__________
(1) صحيح مسلم الزكاة (1015) ، سنن الترمذي تفسير القرآن (2989) ، مسند أحمد بن حنبل (2/328) ، سنن الدارمي الرقاق (2717) .
(1) سورة المؤمنون الآية 51 (1) {يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا}
(2) سورة البقرة الآية 172 (1) {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ}
(3) سورة الطلاق الآية 2
(4) سورة الطلاق الآية 3

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ترجمہ :
غیر شرعی طریقہ سے حاصل کردہ اموال سے متعلق مختلف سوالات > مسلمان پر حرام کمائی کا استعمال کرنا حرام ہے
فتوى نمبر:19134
سوال : - ایک مسلمان آدمی نے حرام طریقے سے کثرت کے ساتھـ مال کمایا، جیسے شراب خنزیر اور مردار کا بیچنا، یا نشہ آور اشیاء وغیرہ کی تجارت کرنا، اور اس کا ارادہ ہے کہ وہ الله تعالى کی بارگاہ میں توبہ کرے، تو کیا اسے اپنے تمام حرام مال سے خلاصی حاصل کرنا ضروری ہے، یا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اس میں سے کچھـ حصہ باقی رکھے تاکہ وہ اسے جائز تجارت میں استعمال کرے؟
2
- اگر وہ حرام چیزوں کی تجارت سے باز رہے، لیکن وہ اس حرام مال کو چھوڑنے سے انکار کر دے، پھر وہ اس مال سے ايک دوکان کھولے جس ميں برتنوں اور لباس وغیرہ جيسے حلال اشياء کی بيع کرے، تو کیا اس سے خريدنا اور فروخت کرنا جائز ہے؟
3 - کیا اس کے پاس اس تجارت میں کام کرنا جائز ہے اور اس کی اجرت حلال ہوگی، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ اگر اس کا بائیکاٹ کر دیا جائے اور اس سے تعامل ختم کردیا جائے تو ممکن ہے کہ وہ شرعاً حرام چیزوں کی طرف لوٹ جائے گا۔
4 - کیا اس کا کھانا کھانا اور اس کی دعوت کو قبول کرنا یا اس کے تحفوں کو قبول کرنا جائز ہے اس غالب گمان کے ساتھـ کہ یہ اس کے حرام مال سے خریدے گئے ہیں؟ اور جو اس مال سے کسی چیز کو قبول کرے کیا اس کے لئے اس سے خلاصی حاصل کرنا واجب ہے یا اللہ تعالی ماضی کے گناہ معاف فرما دے گا؟
5 - اگر وہ اپنے اس مال کو صدقہ کرنا چاہے، یا اس میں سے تھوڑا مال دینا چاہے تو اس مال کے مصارف کیا ہیں، اور کیا اس کے لئے جائز ہے کہ وہ اسے علمی کتابوں میں صرف کر دے اور اسے مسلمان محتاج لوگوں میں تقسیم کرے، کیا اسے اس مال کا اسلامی دعوت و تبلیغ کی نشر و اشاعت پر خرچ کرنا جائز ہے یا کسی جگہ کا خریدنا یا کرائے پر لینا تاکہ وہ دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں کے بچوں کے لئے قرآن کریم اور علم کی تعلیم کا مرکز بناۓ؛ اور اسی طرح اس مال سے اس جگہ کے لئے دعوت و تبلیغ میں کام آنے والی چیزوں کا خریدنا؟
6 - کیا دعوت و تبلیغ کے کاموں یا اپنے شخصی امور کے لئے اس مال سے قرضے کے طور پر لینا جائز ہے یا ان میں سے کچھـ جائز نہیں ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ٭
جواب:
نبي اكرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: یقیناً اللہ تعالی پاک ہے اور صرف پاک چیز ہی قبول کرتا ہے اور اللہ تعالی نے مؤمنین کو اسی کا حکم ديا ہے جس کا اس نے رسولوں کو حکم فرمایا ہے: ارشاد باری تعالی ہے:" يَا أَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَاعْمَلُوا صَالِحًا " ﺍﮮ ﭘﯿﻐﻤﺒﺮﻭ ! ﺣﻼﻝ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﻛﮭﺎؤ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻚ ﻋﻤﻞ ﻛﺮﻭ ،
( جلد کا نمبر 14، صفحہ 62)
اور اللہ تعالی فرماتا ہے:" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ " ﺍﮮﺍﯾﻤﺎﻥ ﻭﺍﻟﻮ ! ﺟﻮ ﭘﺎﻛﯿﺰﮦ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﻛﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻛﮭﺎؤ پھر آپ نے فرمایا: ایک شخص طویل سفر کرتا ہے، پرا گندہ بال اور غبار آلود ہو جاتا ہے، اور اپنے ہاتھوں کودعا کے لئے آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے: اے ميرے رب! اے ميرے رب! حالانکہ اس کا کھانا حرام، اس کا پہننا حرام اور حرام مال سے اس کی پرورش ہوئی ہے، تو اس کی دعا کيوں کر قبول ہو؟ اسے امام مسلم نے اپني صحيح میں روایت کیا ہے۔
اس بنا پر مسلمان پر حرام کمائی کا استعمال کرنا حرام ہے، اور جو اس میں سے تھوڑا بھی استعمال کيا ہو، اس پر واجب ہے کہ وہ اس سے توبہ کرے، اور اس حرام کمائی کو ترک کر دے، اور الحمد للہ رزق حلال کے دروازے بہت زيادہ اور ميسر ہیں، اور بيشک الله سبحانه و تعالى نے فرمايا:" وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا (2) وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لاَ يَحْتَسِبُ " ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﺍللہ ﺳﮯ ﮈﺭﺗﺎ ﮨﮯ ﺍللہ ﺍﺱ ﻛﮯ ﻟﯿﮯ ﭼﮭﭩﲀﺭﮮ ﻛﯽ ﺷﲁ ﻧﲀﻝ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ۔(2)ﺍﻭﺭﺍﺳﮯ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺳﮯ ﺭﻭﺯﯼ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ ﺟﺲ ﰷ ﺍﺳﮯ ﮔﻤﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﮨﻮ
( جلد کا نمبر 14، صفحہ 63)
اور جو توبہ کرے اور اس کے پاس حرام طریقے سے کمایا ہوا مال ہو، جیسے سود اور جوا، اور حرام اشیاء کا بیچنا، جیسے شراب اور خنزیر، تو اس پر واجب ہے کہ وہ اس مال سے چھٹکارا حاصل کرے، مفادِ عامہ میں اسے صرف کر دے، جیسے راستوں کا درست کرانا اور پانی کے نلوں کی اصلاح کرانا، یا اسے محتاج لوگوں پر خرچ کر دے اور اپنے پاس اس میں سے کچھـ نہ رکھے، اور نہ اس کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے، اس لئے کہ یہ حرام مال ہے، اس میں کوئی بھلائی نہیں، اور اس سے توبہ کا تقاضا ہے کہ وہ اس سے خلاصی حاصل کرے اور اس سے دوری اختیار کرے، اور اس کے علاوہ دوسری کمائی کی طرف رجوع کرے۔
وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔
علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
ممبر ممبر ممبر نائب صدر صدر
عبد اللہ بن غدیان بکر ابو زید صالح فوزان عبد العزیزآل شيخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز
مجموع فتاویٰ اللجنۃ الدائمہ ( جلد نمبر 14، صفحہ 61)
ـــــــــــــــــــــــــــــــــ
اور حرام مال سے کیا گیا صدقہ اجر کا ذریعہ نہیں بن سکتا ، قرآن مجید میں ارشاد رب تعالی ہے ؛
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ ۖ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِآخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ ۚ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ
﴿002:267﴾
‏مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور وہ چیزیں ہم تمہارے لئے زمین سے نکالتے ہیں ان میں سے (راہ خدا میں) خرچ کرو اور بری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ (اگر وہ چیزیں تمہیں دی جائیں تو) بجز اس کے کہ (لیتے وقت آنکھیں بند کرلو ان کو کبھی نہ لو اور جان رکھو کہ خدا بےپرو (اور) قابل ستائش ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلم: "إن اللَّهَ قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَخْلَاقَكُمْ، كَمَا قَسَمَ بَيْنَكُمْ أَرْزَاقَكُمْ، وَإِنَّ اللَّهَ يُعْطِي الدُّنْيَا مَنْ يُحِبُّ وَمَنْ لَا يُحِبُّ، وَلَا يُعْطِي الدِّينَ إِلَّا لِمَنْ أحبَّ، فَمَنْ أَعْطَاهُ اللَّهُ الدِّينَ فَقَدْ أَحَبَّهُ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يُسْلِمُ عَبْدٌّ حَتَّى يُسلِمَ قلبُه وَلِسَانُهُ، وَلَا يُؤْمِنُ حَتَّى يَأْمَنَ جارُه بَوَائِقَهُ". قَالُوا: وَمَا بَوَائِقُهُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟. قَالَ: "غَشَمُه وَظُلْمُهُ، وَلَا يَكْسِبُ (1) عَبْدٌ مَالًا مِنْ حَرَامٍ فينفقَ مِنْهُ فيباركَ لَهُ فِيهِ، وَلَا يتصدقُ بِهِ فَيُقْبَلَ (2) مِنْهُ، وَلَا يَتْرُكُهُ خَلْفَ ظَهْرِهِ إِلَّا كَانَ زَادَهُ إِلَى النَّارِ، إِنَّ اللَّهَ لَا يَمْحُو السَّيِّئَ بِالسَّيِّئِ، وَلَكِنْ يَمْحُو السَّيِّئَ بِالْحَسَنِ، إِنَّ الْخَبِيثَ لَا يَمْحُو الْخَبِيثَ" (تفسیر ابن کثیر) .

مسند احمد میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ تعالٰی نے جس طرح تمہاری روزیاں تم میں تقسیم کی ہیں تمہارے اخلاق بھی تم میں بانٹ دئیے ہیں، دنیا تو اللہ تعالٰی اپنے دوستوں کو بھی دیتا ہے دشمنوں کو بھی، ہاں دین صرف دوستوں کو ہی عطا فرماتا ہے اور جسے دین مل جائے وہ اللہ کا محبوب ہے۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کوئی بندہ مسلمان نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا دِل اس کی زبان مسلمان نہ ہو جائے، کوئی بندہ مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کے پڑوسی اس کی ایذاؤں سے بےخوف نہ ہو جائیں، لوگوں کے سوال پر آپ نے فرمایا ایذاء سے مراد دھوکہ بازی اور ظلم و ستم ہے، جو شخص حرام وجہ سے مال حاصل کرے اس میں اللہ برکت نہیں دیتا نہ اس کے صدقہ خیرات کو قبول فرماتا ہے اور جو چھوڑ کر جاتا ہے وہ سب اس کیلئے آگ میں جانے کا توشہ اور سبب بنتا ہے، اللہ تعالٰی برائی کو برائی سے نہیں مٹاتا بلکہ برائی کو اچھائی سے دفع کرتا ہے "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اللہ شیخ اسحاق سلفی رحمتہ اللہ علیہ کی مغفرت کرے اور اسکے درجات بلند فرمائے امین ۔۔ شیخ صاحب ہی وہ پہلے عالم تھے جو سوال کا جواب جلد دے دیا کرتے تھے زیادہ انظار نہی کرنا پڑتا تھا اللہ تعالی اسے اسکا بہترین بدلہ عنایت فرمائے امین
 
Top