السلام علیکم ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
تراویح کی نماز سنت مصطفی ﷺ سے ثابت ہے ، اور اس رکعات کی تعداد (آٹھ رکعت ) بھی احادیث سے ثابت ہے ،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ قیام الیل یعنی رات کے قیام کا اہتمام فرماتے تھے۔
آپ ﷺ
عشاء کی نماز کے بعد صبح کی نماز تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ:
عَنْ عَائِشَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: «كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِيمَا بَيْنَ أَنْ يَفْرُغَ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ - وَهِيَ الَّتِي يَدْعُو النَّاسُ الْعَتَمَةَ - إِلَى الْفَجْرِ، إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُسَلِّمُ بَيْنَ كُلِّ رَكْعَتَيْنِ، وَيُوتِرُ بِوَاحِدَةٍ،” إلخ
رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد صبح تک گیارہ رکعات پڑھتے تھے اور اسی نماز کو لوگ عتمہ بھی کہتے تھے، آپ ہر دو رکعات پر سلام پھیرتے تھے اور ایک وتر پڑھتے تھے۔ الخ (صحیح مسلم:۲۵۴/۱ ح ۷۳۶)
یہی وہ نماز ہے جسے بعد میں رمضان کے دنوں میں " تراویح " یا قیام رمضان " کا نام دیا گیا ،
اسی کے متعلق صحابی کے سوال پر ام المومنین سیدہ عائشہ نے وضاحت فرمائی تھی کہ :
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، كَيْفَ كَانَتْ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ: «مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا، فَلاَ تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلاَثًا»
ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ ﷺ کی رمضا ن میں (رات کی) نماز (تراویح) کیسی ہوتی تھی؟
تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:رمضان ہو یا غیر رمضان رسول اللہ ﷺ گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، الخ۔
(صحیح بخاری:۲۲۹/۱ ح۲۰۱۳، عمدۃ القاری:۱۲۸/۱۱، کتاب الصوم،کتاب التراویح باب فضل من قام رمضان)
اور ایک سال رمضان میں یہ ہوا کہ :
عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اتَّخَذَ حُجْرَةً فِي الْمَسْجِدِ مِنْ حَصِيرٍ فَصَلَّى فِيهَا لَيَالِيَ حَتَّى اجْتَمَعَ عَلَيْهِ نَاسٌ ثُمَّ فَقَدُوا صَوْتَهُ لَيْلَةً وَظَنُّوا أَنَّهُ قَدْ نَامَ فَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَتَنَحْنَحُ لِيَخْرُجَ إِلَيْهِمْ. فَقَالَ: مَا زَالَ بِكُمُ الَّذِي رَأَيْتُ مِنْ صَنِيعِكُمْ حَتَّى خَشِيتُ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْكُمْ وَلَوْ كُتِبَ عَلَيْكُمْ مَا قُمْتُمْ بِهِ. فَصَلُّوا أَيُّهَا النَّاسُ فِي بُيُوتِكُمْ فَإِنَّ أَفْضَلَ صَلَاةِ الْمَرْء فِي بَيته إِلَّا الصَّلَاة الْمَكْتُوبَة) (مُتَّفق عَلَيْهِ)
زید ابن ثابت (رض) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (رمضان میں) مسجد میں بورئیے کا ایک حجرہ بنایا اور کئی راتیں اس میں (تراویح کے علاوہ نفل) نماز پڑھی (جب لوگ جمع ہوجاتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرے سے باہر تشریف لاتے اور فرائض و تراویح جماعت کے ساتھ پڑھتے) یہاں تک کہ (ایک روز بہت زیادہ) لوگ جمع ہوگئے (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) چونکہ فرض نماز پڑھ کر حجرے میں تشریف لے جا چکے تھے اور جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معمول تھا کچھ دیر کے بعد باہر تشریف نہ لائے اس لئے لوگوں نے آپ کی کوئی آہٹ محسوس نہیں کی چناچہ وہ یہ سمجھے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سو گئے اور لوگوں نے کھنکارنا شروع کیا تاکہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز تراویح کے لئے) باہر تشریف لے آئیں (جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) گذشتہ راتوں میں تشریف لاتے تھے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے (حجرہ سے باہر نکل کر یا اندر ہی سے) فرمایا کہ " تمہارا کام میں مسلسل دیکھ رہا ہوں (یعنی جماعت سے تراویح پڑھنے کا شوق ) پھر فرمایا لیکن مجھے یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ ہوجائے (یعنی اگر میں ہمیشہ نماز تراویح جماعت سے پڑھتا تو یہ نماز تم پر فرض ہوجاتی) اور اگر یہ نماز فرض ہوجاتی تو تم اس کی ادائیگی سے قاصر رہتے، لہٰذا اے لوگو ! تم اپنے گھروں میں نماز پڑھا کرو کیونکہ انسان کی بہترین نماز وہی ہے جسے اس نے اپنے گھر میں پڑھا ہو سوائے فرض نماز کے (کہ اسے مسجد میں ہی پڑھنا افضل ہے۔ " (صحیح البخاری و صحیح مسلم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نماز نبی اکرم ﷺ خود بھی پڑھتے تھے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے ،
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: (كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْغَبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ فَيَقُولُ: «مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ. فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والمر عَلَى ذَلِكَ ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عمر على ذَلِك» . رَوَاهُ مُسلم
ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیام رمضان (یعنی نماز تراویح) کی ترغیب دیا کرتے تھے لیکن تاکید کے ساتھ صحابہ کو کوئی حکم نہیں دیا کرتے تھے چناچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ " جو آدمی صحیح اعتقاد کے ساتھ حصول ثواب کے لئے (یعنی ریاء و نمائش کے جذبہ کے ساتھ نہیں بلکہ محض اللہ جل شانہ کی رضاء و خوشنودی کے لئے رمضان میں قیام کرتا ہے اس کے لئے پہلے گناہ صغیرہ بخش دئیے جاتے ہیں "
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی اور قیام رمضان کا معاملہ اسی طرح رہا (یعنی نماز تراویح کے لئے جماعت مقرر نہیں تھی بلکہ جو چاہتا حصول ثواب کے لئے پڑھ لیتا تھا) پھر حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت میں بھی یہی صورت رہی اور حضرت عمر کے زمانہ خلافت کے ابتدائی ایام میں بھی یہی معمول رہا ( اور حضرت عمر نے نماز تراویح کے لئے جماعت کا حکم دیا اور اس کا التزام کیا۔ " (صحیح مسلم )
لیکن ایک رمضان میں آپ نے تہجد ، قیام اللیل ، تراویح کی یہ نماز تین دن باجماعت ادا فرمائی۔ آپ کے ساتھ صحابہ نے بھی نہات ذوق و شوق کے ساتھ تین دن یہ نماز پڑھی۔ چوتھے دن بھی صحابہ قیام الیل کے لیے آپ کے منتظر رہے۔ لیکن آپ حجرے سے باہر تشریف نہیں لائے اور اس کی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی کہ مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں رمضان المبارک میں یہ قیام الیل تم پر فرض نہ کر دیا جائے۔ اس لیے اس کے بعد یہ قیام الیل بطور نفلی نماز کے انفرادی طور پر ہوتا رہا۔
عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ فَلَمْ يَقُمْ بِنَا شَيْئًا مِنَ الشَّهْرِ حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ فَلَمَّا كَانَتِ السَّادِسَةُ لَمْ يَقُمْ بِنَا فَلَمَّا كَانَتِ الْخَامِسَةُ قَامَ بِنَا حَتَّى ذهب شطر اللَّيْل فَقلت: يارسول الله لَو نفلتنا قيام هَذِه اللَّيْلَة. قَالَ فَقَالَ: «إِنَّ الرَّجُلَ إِذَا صَلَّى مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى ينْصَرف حسب لَهُ قيام اللَّيْلَة» . قَالَ: فَلَمَّا كَانَت الرَّابِعَة لم يقم فَلَمَّا كَانَتِ الثَّالِثَةُ جَمَعَ أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ وَالنَّاسَ فَقَامَ بِنَا حَتَّى خَشِينَا أَنْ يَفُوتَنَا الْفَلَاحُ. قَالَ قُلْتُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: السَّحُورُ. ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّةَ الشَّهْرِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَرَوَى ابْنُ مَاجَهْ نَحْوَهُ إِلَّا أَنَّ التِّرْمِذِيَّ لَمْ يَذْكُرْ: ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا بَقِيَّة الشَّهْر
ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے (رمضان میں) رحمت دو عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ہمراہ روزے رکھے، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے مہینے کے اکثر ایام میں ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا (یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے رمضان کی راتوں میں ہمارے ساتھ فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز نہیں پڑھی) یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں (یعنی تئیسویں آئی) تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ تہائی رات تک قیام (یعنی ہمیں نماز تراویح پڑھائی) جب پانچ راتیں باقی رہ گئیں (یعنی پچیسویں شب آئی) تو آپ نے ہمارے ساتھ آدھی رات تک قیام کیا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کاش آج کی رات قیام اور زیادہ کرتے (یعنی اگر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آدھی رات سے بھی زیادہ تک ہمیں نماز پڑھاتے رہتے تو بہتر ہوتا) آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " جب کوئی آدمی (فرض) نماز امام کے ساتھ پڑھتا ہے تو اس سے فارغ ہو کر واپس جاتا ہے تو اس کے لئے پوری رات کی عبادت کا ثواب لکھا جاتا ہے (یعنی عشاء اور فجر کی نماز جماعت سے پڑھنے کی وجہ سے اسے پوری رات کی عبادت کا ثواب ملتا ہے نیز یہ کہ نوافل کا اسی وقت تک پڑھتے رہنا مناسب اور بہتر ہے جب تک دل لگے) جب چار راتیں باقی رہ گئیں (یعنی چھبیسویں شب آئی) تو ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا یہاں تک کہ تہائی رات باقی رہ گئی) ہم اسی انتظار میں لگے رہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائیں اور ہمیں نماز پڑھائیں) جب تین راتیں باقی رہ گئیں (یعنی ستائیسویں شب آئی) تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے گھر والوں، اپنی عورتوں اور سب لوگوں کو جمع کیا اور ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تمام رات نماز پڑھتے رہے) یہاں تک کہ ہمیں یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں فلاح فوت نہ ہوجائے " راوی فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا " فلاح کیا ہے " ؟ حضرت ابوذر نے فرمایا کہ (فلاح سے مراد) سحر کا کھانا (ہے) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ مہینہ کے باقی دنوں میں (یعنی اٹھائیسویں اور انتیسویں شب میں) قیام نہیں کیا " سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی) ابن ماجہ نے بھی اس طرح کی روایت نقل کی ہے ،
نیز ترمذی نے اپنی روایت میں ثم لم یقم بنا بقیۃ الشھر ( یعنی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمارے ساتھ مہینے کے باقی دنوں میں قیام نہیں کیا، کے الفاظ ذکر نہیں کئے۔ "
تشریح اس حدیث میں معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رمضان کے پہلے دو عشروں میں تراویح کی نماز صحابہ کو نہیں پڑھائی اس کا سبب وہی ہے جو پہلی حدیث میں گذر چکا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا " مجھے اندیشہ ہے کہ یہ نماز فرض نہ ہوجائے "
حدیث کے الفاظ حتی بقی سبع الخ) یعنی یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں) کے بارے میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حساب باعتبار یقین کی ہے یعنی انتیس دن کا مہینہ یقینی ہو اسی پر حساب لگایا ہے جیسا کہ ترجمہ کے دوران قوسین میں اس کی وضاحت کر کے اس طرف اشارہ کردیا گیا ہے۔ " سحر کھانے " کو " فلاح " اس لئے کہا ہے کہ اس کے ذریعے روزہ رکھنے کی قوت و طاقت حاصل ہوتی ہے جو درحقیقت فلاح کا سبب ہے۔ آخری راتوں میں قیام کا تفاوت فضیلت کے اعتبار سے تھا یعنی جن راتوں کی فضیلت کم تھی ان راتوں میں قیام کم کیا اور جن راتوں کی فضیلت زیادہ تھی ان میں فضیلت کی اسی زیادتی کے مطابق قیام بھی زیادہ کیا یہاں تک کہ ستائیسویں شب میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمام رات قیام کیا۔ کیونکہ اکثر علماء کے قول کے مطابق " لیلۃ القدر " ستائیسویں ہی شب ہے یہی وجہ کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس رات کو اپنے گھر والوں، عورتوں کو جمع کیا اور سب کے ساتھ پوری رات عبادت الٰہی میں مشغول رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور صحابہ کرام نبی کریم ﷺ کے دور مبارک میں گھروں میں خواتین کو باجماعت تراویح بھی پڑھاتے تھے
یہ حدیث دیکھئے :
وعن جابر بن عبد الله قال: «جاء أبي بن كعب إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال: يا رسول الله إنه كان مني الليلة شيء - يعني في رمضان - قال: " وما ذاك يا أبي؟ " قال: نسوة في داري قلن إنا لا نقرأ القرآن فنصلي بصلاتك قال: فصليت بهن ثماني ركعات وأوترت فكان سنة الرضا ولم يقل شيئا».
رواه أبو يعلى والطبراني بنحوه في الأوسط وإسناده حسن.
جناب جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ نبی کریم ﷺ کے پاس رمضان کے دنوں میں تشریف لائے:اور عرض کی کہ گذشتہ شب مجھ سے ایک کام ہوا ، آپ ﷺ نے پوچھا : وہ کیا ؟
انہوں نے کہا :ہمارے گھر کی عورتوں نے مجھے کہا کہ ہمیں قرآن (اتنا )حفظ نہیں ، تو آپ کے ساتھ (باجماعت ) نماز پڑھیں گی ، تو میں نے انہیں آٹھ رکعت اور پھر وتر پڑھائے، تو آپ نے خاموشی سے اپنی رضا و پسند کا اظہار فرمایا ، کچھ (رد) بھی نہیں فرمایا "
اسے ابو یعلی نے روایت کیا اور اسے طرح طبرانی نے اوسط میں روایت کیا اور اس کی سند حسن ہے ۔ (مجمع الزوائد :۷۴/۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزید تفصیل کیلئے آپ یہ کتاب پڑھیں
پیارے رسول ﷺ کی پیاری تراویح