جرح مفسر اسے کہیں گے جس میں جارح کسی کے ضعف کا سبب بتائے۔
اہم بات
جارح بذاتِ خود جرح کی اہلیت رکھتا ہو اور اس کی جرح کو حتمی یقین نہ رکھا جائے۔ کیونکہ اس بات کا بھی وقی امکان ہے کہ جارح کو غلطی لگی ہو یا یہ بھی امکان ہے کہ جارح متعصب ہو۔
المیہ
ابتدا میں کسی نے جرح کی اور بعد والوں نے آنکھیں بند کر کے اسے نقل کر دیا اور مرحوم البانی صاحب (اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے) نے تو ایسی حدیثوں کو ہی الگ کر دیا!!!!!!
حقیقت
محدثین کرام بعض احادیث کو ذکر کرکے لکھتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے مگر اہل علم کے ہاں عمل اس پر ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ضعیف راوی کے لئے لازم نہیں آتا کہ وہ ہر ہر حدیث میں ٹھوکر ہی کھا رہا ہو۔
حدیث کا اصل متن ہے۔ جس روایت میں ضعیف راوی ہو اس کے متن پر غور کرنا چاہیئے (للہ خوض نہیں کرنا)۔
واللہ اعلم بالصواب
یہ قاعدے ہم نے آپ سے سیکھنے نہیں ہیں ، آپ کو عرض کیا ہے کہ متروک الحدیث ، لیس بثقۃ وغیرہ جس راوی کے متعلق کہا جائے ، اس کی روایت ضعیف ہوتی ہے ۔ جنہوں نے کہا ہے ، وہ قابل اعتبار اور اہلیت رکھنے والے ہی ہیں ۔
بلاوجہ بات کو بڑھاتے جانا ، درست نہیں ۔
سب سے پہلی بات یہ کہ اس کو بطور دلیل نہیں
جب آپ خود بھی اس کو دلیل کے طور پر پیش کرنے کے قابل نہیں سمجھتے ، اس کے باوجود اس پر بات سے بات نکالتے جانے کا مطلب ہے کہ صرف بحث برائے بحث کا شوق پورا کر رہے ہیں ۔
ایک صاف اور سیدھی بات کو الجھانے کی کوشش اچھی بات نہیں۔ بیس (20) تراویح ایک ایسا عمل ہے جو تسلسل اور تواتر کے ساتھ اب تک چلا آرہا ہے جسے ایک خلیفہ راشد نے اس شکل و صورت میں رواج دیا۔ اس پر کسی دیگر ثبوت کی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں البتہ کسی کے پاس ثبوت ہو کہ یہ فلاں وقت میں شروع ہوئی نہ کہ خلفاء کے زمانہ سے تو وہ پیش کرے کیوں خواہ مخواہ لوکوں کو پریشان کر رکھا ہے۔
میری نظر میں آپ کا یہ پوائنٹ درست ہے ، بات کو اسی سمت بڑھانا چاہیے کہ تراویح کے حوالے سے امت مسلمہ کا اب تک کیا عمل رہا ہے ۔ لیکن بات آگے تبھی بڑھے گی ، جب کج بحثی ترک کی جائے گی ، ورنہ تو کسی بھی نکتے پر پوسٹ در پوسٹ کرکے فورم کے سو صفحات بھی بنائے جاسکتے ہیں ، جیسا کہ پہلے کئی ایک موضوعات میں ہوا ہے ۔