• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان المبارک اور ترویح کے رکعات

شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
مسئلہ اس وقت ہوتا ہے، جب کوئی 8 رکعت سے زیادہ جیسے 20 رکعت تراویح کی نسبت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ سلم کے عمل سے کرتا ہے!
بیس 20 رکعات تراویح کی نسبت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی۔ اسی پر خلیفہ راشد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام صحابہ کرام کو جمع کیا۔
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
لیکن اگر کوئی کوئی رکعت کی تعداد بڑھا کر قیام کا وقت طویل کرتا ہے، تو اس کی گنجائش ہے! کہ تراویح نوافل ہیں، اور نفل کی تعداد متعین نہیں!
اگر کوئی حنفی تراویح میں قیام طویل نہیں کرتا تو ان کے پیچھے تراویح پڑھنے والے غیرمقلدین بیس کیوں نہیں پڑھتے (تاکہ لمبے قیام کا بدل زیادہ رکعات سے ہوجائے جیسا کہ غیر مقلدین کہتے ہیں) آٹھ پڑھ کر کیوں بھاگتے ہیں؟
اس سے ایک تو فرقہ واریت کو ہوا ملتی ہے اور دوسرے بدنظمی بھی ہوتی ہے۔
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
السلام علیکم
محترم داؤد بھائی

اس ساری گفتگو کے بعد میں یہ سمجھا ہوں کہ اہل حدیث کے بقول تروایح 8 رکعات ہیں جو دراصل تہجد ہیں ۔ جو اس سے زیادہ پڑھتا ہے وہ نفل میں اضافہ کرتا ہے جو جائز ہے۔

سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ اختیاری ہیں۔ کرلیں تو ثواب نہ کرنے پرکوئی گناہ نہیں اور آخرت میں اس کے بارے میں کوئی سوال نہ ہوگا۔؟

جو اس کو تہجد کی نماز کے علاوہ ایک الگ نماز سمجھ کر پڑھے اور اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرے تو کیا یہ بھی جائز ہوگا۔کیا یہ بدعت نہیں ہوگا؟
جو تواتر کے ساتھ رمضان میں تروایح نہیں پڑھتا یا بالکل نہیں پڑھتا تو کیا وہ گناہ گار ہوگا۔؟
(اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی کہ کیا اہل حدیث حضرات تراویح کے بعد اخیر رات میں تہجدکی نماز دوبارہ بھی پڑھتے ہیں؟)
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
جی! تراویح سنت مؤکدہ تو ہے، لیکن سنت مؤکہ نہ پڑھنے والے کو گناہ گار کہنا، یہ حنفیوں کا مسئلہ ہے، ہم اس سے بری ہیں!
سنت مؤکدہ اسے کہتے ہیں جس کی تاکید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید سے انحراف غیرمقلدین کے ہاں جائزہوسکتا ہے مگر اہل سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو حرزِجاں بناتے اور اس سے اعراض کو گناہ یقین رکھتے ہیں۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
روات کی بحث کی ضرورت نہیں کہ میں نے صحیح کی قید لگائی ہی نہیں بلکہ خود ہی لکھا کہ کیسی بھی سند والی ہو۔ صرف آپ کی معصومیت کو آشکار کرنے کے لئے؛
عيسى بن جارية
يعقوب القمى
جرح ثابت تو کرو ان پر پہلے اور لفاظیوں سے آپکی دال نہیں گلنے والی

اور روات پر بہس کس منہ سے کروگے اصلیت تو سامنے آچکی ہے :)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بیس 20 رکعات تراویح کی نسبت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی۔ اسی پر خلیفہ راشد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام صحابہ کرام کو جمع کیا۔
یتیم فی الحدیث فقہ کی تقلید کرنے والوں کو یہی نہیں معلوم کہ عبد اللہ بن عباس سے ہی اس قول کی نسبت ثابت نہیں!
اور خلیفہ راشد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا صحابہ و تابعین کو 11 رکعت بمع وتر پر جمع کرنا ثابت ہے!
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
السلام علیکم
@ابن داودبھائی
کچھ گذارشات اس ناچیز نے بھی کی تھیں۔ ان کے بارے میں بھی اپنی قیمتی رائے سے نوازیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میری رائے !
محترم نسیم صاحب ! مثبت انداز سے بات کر رہے ہیں ، ان کے ساتھ بحث کو آگے بڑھانا چاہیے ۔
اس سے ہٹ کر اس پوری بحث میں دو نکتے بار بار زیر بحث آرہے ہیں :
1۔ ایک فریق کا بار بار ضعیف احادیث پیش کرنا ، دوسرے کا بار بار اس کی تردید کرنا ۔ گویا ضعیف حدیث سے استدلال کرنا ہی محل نزاع ہے ۔
2۔ دوسرا یہ پوائنٹ اٹھایا گیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ صحابہ و تابعین یا بعد کے ادوار میں تراویح کا معمول کیا رہا ہے ؟ اور پھر اگر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے اگر مختلف ہے ، تواس کی کیا توجیہ ہوگی ؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اس ساری گفتگو کے بعد میں یہ سمجھا ہوں کہ اہل حدیث کے بقول تروایح 8 رکعات ہیں جو دراصل تہجد ہیں ۔ جو اس سے زیادہ پڑھتا ہے وہ نفل میں اضافہ کرتا ہے جو جائز ہے۔
جی درست! لیکن یوں کہنا بہتر ہوگا کہ رکعات نفل زیادہ کرتا ہے، فی نفسہ یہ کسی نفل کا اضافہ نہیں! بلکہ وہی نفل نماز ہے!
سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ اختیاری ہیں۔ کرلیں تو ثواب نہ کرنے پرکوئی گناہ نہیں اور آخرت میں اس کے بارے میں کوئی سوال نہ ہوگا۔؟
جی درست! مگر ایک بات کا خیال رہے ؛ جو پہلے بھی آپ کو ہی کہی تھی کہ:
نہیں گنہگار نہیں ہوں گے!
بس اس کا خیال رکھیئے گا کہ کہیں اس حدیث کے مصداق نہ ہو جائیں؛
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ الطَّوِيلُ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ جَاءَ ثَلَاثَةُ رَهْطٍ إِلَى بُيُوتِ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَ عَنْ عِبَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا أُخْبِرُوا كَأَنَّهُمْ تَقَالُّوهَا فَقَالُوا وَأَيْنَ نَحْنُ مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ وَمَا تَأَخَّرَ قَالَ أَحَدُهُمْ أَمَّا أَنَا فَإِنِّي أُصَلِّي اللَّيْلَ أَبَدًا وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَصُومُ الدَّهْرَ وَلَا أُفْطِرُ وَقَالَ آخَرُ أَنَا أَعْتَزِلُ النِّسَاءَ فَلَا أَتَزَوَّجُ أَبَدًا فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْهِمْ فَقَالَ أَنْتُمْ الَّذِينَ قُلْتُمْ كَذَا وَكَذَا أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَخْشَاكُمْ لِلَّهِ وَأَتْقَاكُمْ لَهُ لَكِنِّي أَصُومُ وَأُفْطِرُ وَأُصَلِّي وَأَرْقُدُ وَأَتَزَوَّجُ النِّسَاءَ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ سُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي.
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا ، کہا ہم کو محمد بن جعفر نے خبر دی ، کہا ہم کو حمید بن ابی حمید طویل نے خبر دی ، انہوں نے حضرت انس بن مالک سے سنا ، انہوں نے بیان کیا کہ تین حضرات ( علی بن ابی طالب ، عبد اللہ بن عمرو بن العاص اور عثمان بن مظعون رضی ا للہ عنہم ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے گھروں کی طرف آپ کی عبادت کے متعلق پوچھنے آئے ، جب انہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بتایا گیاتو جیسے انہوں نے اسے کم سمجھا اور کہا کہ ہمارا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیامقابلہ ! آپ کی تو تمام اگلی پچھلی لغزشیں معاف کردی گئی ہیں ۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ آج سے میں ہمیشہ رات پھر نماز پڑھا کروںگا ۔ دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے سے رہوںگا اور کبھی ناغہ نہیں ہونے دوںگا ۔ تیسرے نے کہا کہ میں عورتوں سے جدائی اختیار کر لوں گا اور کبھی نکاح نہیں کروںگا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان سے پوچھا کیا تم نے ہی یہ باتیں کہی ہیں ؟ سن لو ! اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ رب العالمین سے میں تم سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوں ۔ میں تم میں سب سے زیادہ پرہیز گا ر ہوں لیکن میں اگر روزے رکھتا ہوں تو افطار بھی کرتا ہوں ۔ نماز پڑھتا ہوں ( رات میں ) اور سوتا بھی ہوں اور میںعورتوں سے نکاح کر تا ہوں ۔ میرے طریقے سے جس نے بے رغبتی کی وہ مجھ میں سے نہیں ہے ۔
صحيح البخاري»» كِتَابُ النِّكَاحِ»» بَابُ التَّرْغِيبِ فِي النِّكَاحِ
جو اس کو تہجد کی نماز کے علاوہ ایک الگ نماز سمجھ کر پڑھے اور اس کی نسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کرے تو کیا یہ بھی جائز ہوگا۔کیا یہ بدعت نہیں ہوگا؟
معاملہ ذرا پیچیدہ ہے!
صرف نام دینے بدعت کا حکم نہیں لگے گا!
جیسے تراویح جو کہ تہجد و قیام اللیل ہے ، اسے ایک نام دیا گیا، اس امر میں مسئلہ نہیں!
اگر کوئی شروع رات میں تراویح کے بعد آخر رات میں نوافل کو تہجد کا نام دے تو یہ غلط نہیں! بلکہ درست ہے، کہ وہ ہے تہجد ہی!
لیکن تراویح کو تہجد سے خارج قرار دینا باطل ہے!
لیکن دونوں اوقات میں نوافل کا ادا کرنا درست ہے! یہ نوافل بدعت نہیں کہلائیں گے!
جو تواتر کے ساتھ رمضان میں تروایح نہیں پڑھتا یا بالکل نہیں پڑھتا تو کیا وہ گناہ گار ہوگا۔؟
جی! جیسا اوپر بیان کیا! اور قیام رمضان پر تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اور بھی بشارتیں اور فضائل ہیں!
لیکن بہر حال یہ نوافل ہی ہیں!
(اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی کہ کیا اہل حدیث حضرات تراویح کے بعد اخیر رات میں تہجدکی نماز دوبارہ بھی پڑھتے ہیں؟)
جی! یہ اسی طرح ہے جیسے کہ وتر کو آخری نماز بنانے کے متعلق احادیث ہیں!
کوئی اول شب میں تراویح کے بعد آخر رات میں دوبارہ نوافل ادا کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اور اسےوتر آخر میں ادا کرنے چائیں!
 
شمولیت
اپریل 15، 2017
پیغامات
194
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
23
فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
صحيح البخاری: کتاب الایمان: بَاب تَطَوُّعُ قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ الْإِيمَانِ:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
ارشاد باری تعالیٰ
{وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَكِنْ لَا يَعْلَمُونَ} [البقرة: 13]

فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم
صحیح بخاری: كِتَاب السُّنَّةِ: بَابٌ فِي لُزُومِ السُّنَّةِ:
’’
فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذ‘‘

صحيح البخاري: كِتَابُ صَلاَةِ التَّرَاوِيحِ: بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ:

فَقَالَ عُمَرُ: «إِنِّي أَرَى لَوْ جَمَعْتُ هَؤُلاَءِ عَلَى قَارِئٍ وَاحِدٍ، لَكَانَ أَمْثَلَ» ثُمَّ عَزَمَ، فَجَمَعَهُمْ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ

لأحاديث المختارة = المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما (3 / 367):
1161 - أخبرنَا أَبُو عبد الله مَحْمُود بن أَحْمد بن عبد الرَّحْمَن الثَّقَفِيُّ بِأَصْبَهَانَ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي الرَّجَاءِ الصَّيْرَفِي أخْبرهُم قِرَاءَة عَلَيْهِ أَنا عبد الْوَاحِد بن أَحْمد الْبَقَّال أَنا عبيد الله بْنُ يَعْقُوبَ بْنِ إِسْحَاقَ أَنا جَدِّي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ جَمِيلٍ أَنا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ أَنا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى نَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ أَنَّ عُمَرَ أَمَرَ أُبَيًّا أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ إِنَّ النَّاسَ يَصُومُونَ النَّهَار وَلَا يحسنون أَن (يقرؤا) فَلَوْ قَرَأْتَ الْقُرْآنَ عَلَيْهِمْ بِاللَّيْلِ فَقَالَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ هَذَا (شَيْءٌ) لَمْ يَكُنْ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتُ وَلَكِنَّهُ أَحْسَنُ فَصَلَّى بِهِمْ عِشْرِينَ رَكْعَة (إِسْنَاده حسن)

مسند ابن الجعد (1 / 413):
2825 - حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، أنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كَانُوا يَقُومُونَ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِينَ رَكْعَةً، وَإِنْ كَانُوا لَيَقْرَءُونَ بِالْمِئِينَ مِنَ الْقُرْآنِ»

مصنف عبد الرزاق الصنعاني (4 / 261):
عَبْدُ الرَّزَّاقِ،
عَنِ الْأَسْلَمِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: «كُنَّا نَنْصَرِفُ مِنَ الْقِيَامِ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ، وَقَدْ دَنَا فُرُوعُ الْفَجْرِ، وَكَانَ الْقِيَامُ عَلَى عَهْدِ عُمَرَ ثَلَاثَةً وَعِشْرِينَ رَكْعَةً»
 
Top