السلام علیکم و رحمة اللہ وبرکاتہ! !!!!!
ایک بھائی نے سوال کیا ہیں کہ روزے میں بھوکے پیاسے کیوں رہتے ہیں اسکا کیا مقصد ہیں.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی !
روزہ کا مقصد خود اللہ تعالی نے قرآن مجید میں بتایا ہے :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَي الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ ١٨٣ۙ
اے ایمان والو ! تم پر روزے فرض کردیئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے (اور اس کا مقصد یہ ہے) کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو ، ( یعنی تم پرہیزگار بن جاؤ )
مطلب واضح ہے کہ اس سے نفس سرکش کی اصلاح ہو اور شریعت کے جو احکام بھاری معلوم ہوتے ہیں ان کی ادائیگی سہل ہوجائے۔ روزہ میں صرف کھانے پینے کی اشیاء کو ترک کرنے کی مشق نہیں کرائی گئی بلکہ لڑائی جھگڑے اور بری باتوں سے بچنے کی بھی تاکید کی گئی ہے۔ چناچہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ : روزہ (برائی کے لیے) ڈھال ہے۔ لہذا جس کا روزہ ہو وہ نہ بےحیائی کی بات کرے اور نہ شور شرابا کرے اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جہالت کی کوئی بات نہ کرے اور اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ (بخاری، کتاب الصوم، باب فضل الصوم) نیز آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ جس شخص نے روزہ میں غلط گوئی یا غلط کاری نہ چھوڑی تو اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھڑانے کی کوئی ضرورت نہیں (بخاری، کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور والعمل بہ فی الصوم)
اور یہی باتیں انسان میں تقویٰ پیدا کرتی ہیں۔
اور روزے کے اسی مقصد کو نبی کریم ﷺ نے ایک حدیث میں یوں بیان فرمایا :
عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَنِ اسْتَطَاعَ البَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ» صحیح البخاری )
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی صاحب طاقت ہو تو اسے نکاح کر لینا چاہئے کیونکہ نظر کو نیچی رکھنے اور شرمگاہ کو بدفعلی سے محفوظ رکھنے کا یہ ذریعہ ہے اور کسی میں نکاح کرنے کی طاقت نہ ہو تو اسے روزے رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ اس کی شہوت کو ختم کر دیتا ہے۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے روزے کا اصل مقصد، شریعت کی بنیاد تقویٰ یعنی خدا خوفی اور پرہیز گاری ہے اور تقویٰ جذبات و خواہشات پر قابو پانے سے پیدا ہوتا ہے اور جذبات و خواہشات پر قابو پانے کی تربیت روزہ کے ذریعہ ہوتی ہے۔
انسان صرف مادی وجود نہیں رکھتا بلکہ روحانی وجود بھی رکھتا ہے اور اس کی روحانی توانائی و ارتقاء کے لیے روزہ بہترین تدبیر ہے۔ روزہ سے انسان پر خواہشات و شہوات کا غلبہ کمزور ہوجاتا ہے۔ اس میں ضبط نفس کی صفت پیدا ہوتی ہے اور ان کی قوت ارادی مضبوط ہوجاتی ہے۔ انسان کی اصل طاقت اس کا دل اور نفس ہے روزہ نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور انسان کو خدا کا فرمانبردار بنا کر، جہاد زندگانی کے لیے تیار کرتا ہے۔ اسلام میں روزہ محض بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ حدود الٰہی کی پاسداری اور اطاعت و فرماں برداری کا احساس پیدا کرنے کا سامان ہے۔