سید طہ عارف
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 18، 2016
- پیغامات
- 737
- ری ایکشن اسکور
- 141
- پوائنٹ
- 118
کیا خلفائے راشدین نے پردے کو ریاست کی سطح پر نافذ کیا تھا؟
تحریر: حافظ محمد زبیر حفظہ اللہ
----------------------------------------------------------------
دوست کا سوال ہے کہ کیا خلفائے راشدین نے پردے کو ریاست کی سطح پر نافذ کیا تھا تا کہ معلوم ہو سکے کہ اسلامی ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ عورتوں کو مخصوص لباس کا قانونا پابند بنا سکے؟ جواب: اوائل اسلام میں دو طرح کی عورتیں تھیں؛ ایک آزاد اور دوسری لونڈیاں۔ آزاد عورتیں وہ تھیں جنہیں معاشرے میں ایک خاص اسٹیٹس حاصل تھا جو لونڈیوں سے بہر صورت زیادہ تھا۔ یہی عورتیں بیویاں بنائی جاتی تھیں، مرد انہی کے قدر دان تھے، معاشرے میں ان کا ایک مقام، مرتبہ اور ٹہکا ہوا کرتا تھا اور ساتھ میں اگر خاندانی بھی ہوتیں تو ایک خاص قسم کا رعب اور دبدبہ بھی ہوتا تھا۔ دوسری قسم کی عورتیں لونڈیاں کہلاتی تھیں، جن کا اصلا مقصد خدمت تھا اور وہ یہ خدمت مردوں کی بھی کیا کرتی تھیں۔ ان کی حیثیت ایک پراڈکٹ کی سی تھی جسے بازاروں میں بیچا اور خریدا جاتا تھا۔
اوائل اسلام میں اس بات کا لحاظ کیا گیا کہ دونوں قسم کی عورتوں کے لباس میں فرق رہے تا کہ دونوں کی کیٹیگریز میں فرق باقی رہے۔ آزاد اور خاندانی عورت کے لیے یہ لازم تھا کہ وہ حجاب کرے جبکہ لونڈیاں اپنے ہاتھ، پاؤں، چہرہ اور سر بھی کھلا رکھتی تھیں۔ صحیح آثار اور تاریخی روایات میں مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس لونڈی کو مارتے تھے جو حجاب کرتی یا اپنا چہرہ چھپاتی یا سر ڈھک لیتی تھی تا کہ اس کی آزاد عورتوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ لباس ریاستی سطح پر نافذ کر رکھا تھا۔ اب اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ کیا بعد کے زمانوں میں بھی ایسا ہی حکم جاری ہو گا؟ تو اس بارے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ بعد کے زمانوں میں چونکہ فتنہ زیادہ بڑھ گیا ہے لہذا لونڈیوں کو بھی حجاب کا حکم جاری کیا جائے گا۔
انسان قرون اولی سے قرون وسطی، اور قرون وسطی سے دود جدید میں داخل تو ہو گیا لیکن عورتوں کی یہ تقسیم باقی رہی، بس اصطلاحات بدل گئیں کہ لونڈی کا تصور اور مقصد ماڈل اور فنکارہ کے نام سے پورا ہونے لگا۔ آج بھی کچھ عورتیں وہ ہیں جنہیں بیوی بنا کر گھر کو زینت بخشی جاتی ہے اور کچھ عورتیں مردوں کو خوش کرنے کے لیے گویا کہ وقف ہیں۔ پرانے زمانے میں لونڈی کے بھی خیر کچھ حقوق ہوتے تھے کہ مرد اس سے استفادہ کرتا تھا تو اس کے خرچے اور نان نفقے کی ذمہ داری بھی اٹھاتا تھا لیکن آج کل کی لونڈیوں کو تو وہ بھی حاصل نہیں ہیں۔ یہ مفت میں مردوں کو خوش کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ مردوں نے انہیں یہ سجھا دیا ہے کہ یہی اصلا آزادی ہے۔ اور اب تو ان ماڈرن لونڈیوں کی صورت حال یہ ہے کہ مردوں پر ایسے ڈل رہی ہوتی ہیں جیسے ان کی کوئی عزت نفس، وقار اور شخصیت ہے ہی نہیں۔ ذرا ابھی اسی وقت کوئی ٹاک شو لگا کر دیکھ لیں کہ جس میں کسی ماڈل کے ساتھ کسی مرد کو بٹھایا گیا ہو تو آپ دیکھیں گے کہ وہ ماڈل ایسے اس مرد پر گر رہی ہو گی جیسے اس نے مرد پہلی مرتبہ دیکھا ہو۔
تو ہماری رائے میں دور جدید میں خاندانی عورتوں اور ماڈرن لونڈیوں میں فرق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صحابہ کے اس فرق کو ملحوظ رکھا جائے اور صرف خاندانی اور شریف عورتوں کو ہی حجاب کے احکامات ریاستی سطح پر جاری کیے جائیں۔ اور جن عورتوں کا مقصد ہی مردوں کی خدمت اور ان کو خوش رکھنا ہے، انہیں حجاب کے حکم سے مستثنی قرار دے دیا جائے تا کہ جو عورت جس مقصد کے لیے ہے، وہ مقصد اچھی طرح سے پورا ہو سکے۔
تحریر: حافظ محمد زبیر حفظہ اللہ
----------------------------------------------------------------
دوست کا سوال ہے کہ کیا خلفائے راشدین نے پردے کو ریاست کی سطح پر نافذ کیا تھا تا کہ معلوم ہو سکے کہ اسلامی ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ عورتوں کو مخصوص لباس کا قانونا پابند بنا سکے؟ جواب: اوائل اسلام میں دو طرح کی عورتیں تھیں؛ ایک آزاد اور دوسری لونڈیاں۔ آزاد عورتیں وہ تھیں جنہیں معاشرے میں ایک خاص اسٹیٹس حاصل تھا جو لونڈیوں سے بہر صورت زیادہ تھا۔ یہی عورتیں بیویاں بنائی جاتی تھیں، مرد انہی کے قدر دان تھے، معاشرے میں ان کا ایک مقام، مرتبہ اور ٹہکا ہوا کرتا تھا اور ساتھ میں اگر خاندانی بھی ہوتیں تو ایک خاص قسم کا رعب اور دبدبہ بھی ہوتا تھا۔ دوسری قسم کی عورتیں لونڈیاں کہلاتی تھیں، جن کا اصلا مقصد خدمت تھا اور وہ یہ خدمت مردوں کی بھی کیا کرتی تھیں۔ ان کی حیثیت ایک پراڈکٹ کی سی تھی جسے بازاروں میں بیچا اور خریدا جاتا تھا۔
اوائل اسلام میں اس بات کا لحاظ کیا گیا کہ دونوں قسم کی عورتوں کے لباس میں فرق رہے تا کہ دونوں کی کیٹیگریز میں فرق باقی رہے۔ آزاد اور خاندانی عورت کے لیے یہ لازم تھا کہ وہ حجاب کرے جبکہ لونڈیاں اپنے ہاتھ، پاؤں، چہرہ اور سر بھی کھلا رکھتی تھیں۔ صحیح آثار اور تاریخی روایات میں مروی ہے کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس لونڈی کو مارتے تھے جو حجاب کرتی یا اپنا چہرہ چھپاتی یا سر ڈھک لیتی تھی تا کہ اس کی آزاد عورتوں کے ساتھ مشابہت نہ ہو۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آزاد عورتوں اور لونڈیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ لباس ریاستی سطح پر نافذ کر رکھا تھا۔ اب اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ کیا بعد کے زمانوں میں بھی ایسا ہی حکم جاری ہو گا؟ تو اس بارے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ بعد کے زمانوں میں چونکہ فتنہ زیادہ بڑھ گیا ہے لہذا لونڈیوں کو بھی حجاب کا حکم جاری کیا جائے گا۔
انسان قرون اولی سے قرون وسطی، اور قرون وسطی سے دود جدید میں داخل تو ہو گیا لیکن عورتوں کی یہ تقسیم باقی رہی، بس اصطلاحات بدل گئیں کہ لونڈی کا تصور اور مقصد ماڈل اور فنکارہ کے نام سے پورا ہونے لگا۔ آج بھی کچھ عورتیں وہ ہیں جنہیں بیوی بنا کر گھر کو زینت بخشی جاتی ہے اور کچھ عورتیں مردوں کو خوش کرنے کے لیے گویا کہ وقف ہیں۔ پرانے زمانے میں لونڈی کے بھی خیر کچھ حقوق ہوتے تھے کہ مرد اس سے استفادہ کرتا تھا تو اس کے خرچے اور نان نفقے کی ذمہ داری بھی اٹھاتا تھا لیکن آج کل کی لونڈیوں کو تو وہ بھی حاصل نہیں ہیں۔ یہ مفت میں مردوں کو خوش کرنے کا فریضہ سر انجام دیتی ہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ مردوں نے انہیں یہ سجھا دیا ہے کہ یہی اصلا آزادی ہے۔ اور اب تو ان ماڈرن لونڈیوں کی صورت حال یہ ہے کہ مردوں پر ایسے ڈل رہی ہوتی ہیں جیسے ان کی کوئی عزت نفس، وقار اور شخصیت ہے ہی نہیں۔ ذرا ابھی اسی وقت کوئی ٹاک شو لگا کر دیکھ لیں کہ جس میں کسی ماڈل کے ساتھ کسی مرد کو بٹھایا گیا ہو تو آپ دیکھیں گے کہ وہ ماڈل ایسے اس مرد پر گر رہی ہو گی جیسے اس نے مرد پہلی مرتبہ دیکھا ہو۔
تو ہماری رائے میں دور جدید میں خاندانی عورتوں اور ماڈرن لونڈیوں میں فرق کرنے کے لیے ضروری ہے کہ صحابہ کے اس فرق کو ملحوظ رکھا جائے اور صرف خاندانی اور شریف عورتوں کو ہی حجاب کے احکامات ریاستی سطح پر جاری کیے جائیں۔ اور جن عورتوں کا مقصد ہی مردوں کی خدمت اور ان کو خوش رکھنا ہے، انہیں حجاب کے حکم سے مستثنی قرار دے دیا جائے تا کہ جو عورت جس مقصد کے لیے ہے، وہ مقصد اچھی طرح سے پورا ہو سکے۔