وعلیکم السلام
محترم ابن داود صاحب
اسی باب میں یہ حدیث بھی ہےجس کا مفہوم ہے کہ ایک امیر بننے کے بعد اگر کوئی دوسرا دعوی کرے تو اس کو قتل کردو۔
ہمارے ملک میں ایک حکومت قائم ہونے کے بعد اپوزیشن اسے مسلسل گراکر خود حکومت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔
اس طرح جو بھی یہ جدو جہد کرتا ہے وہ اس حدیث کے تحت واجب القتل کہلائے گا۔؟
میں نے عبدالمنان بھائی کو جموں و کشمیر کی مثال بھی دی تھی وہاں کا حاکم ہمیشہ مسلمان ہوتا ہے ۔ تو جو کشمیری اس کے خلاف خروج کر رہے ہیں تو کیاوہ فساد فی الارض کے زمرے میں آئیں گے؟ اسی طرح ایک اور مثال دی تھی کہ آسیہ کے کیس میں پورے ملک کے ہر طبقے کے علماء نے اس کی مخالفت کی ۔ جب کہ یہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ تھا اور اس کو حاکم وقت ڈیفنڈ کر رہا تھا۔تو کیا مخالفت کرنے والے سب غلط تھے۔؟ کیوں کہ حدیث کے مطابق تو حاکم کی کسی بھی بات پر اجتماعی احتجاج نہیں کرناہے۔
محترم ابن داود صاحب
اس کا حتمی تعین کا تو میں نہیں بتا سکتا۔ لیکن میرا موقف یہی ہے کہ یہ احادیث مسلمانوں کے موجودہ دور حکومت پر لاگو نہیں ہوسکتیں۔ویسے یہ مسلمانوں کا ایک امیر کب تک رہا تھا؟ اور کب سے مسلمان ان احادیث سے آزاد قرار پائے؟
اسی باب میں یہ حدیث بھی ہےجس کا مفہوم ہے کہ ایک امیر بننے کے بعد اگر کوئی دوسرا دعوی کرے تو اس کو قتل کردو۔
ہمارے ملک میں ایک حکومت قائم ہونے کے بعد اپوزیشن اسے مسلسل گراکر خود حکومت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہے۔
اس طرح جو بھی یہ جدو جہد کرتا ہے وہ اس حدیث کے تحت واجب القتل کہلائے گا۔؟
میں نے عبدالمنان بھائی کو جموں و کشمیر کی مثال بھی دی تھی وہاں کا حاکم ہمیشہ مسلمان ہوتا ہے ۔ تو جو کشمیری اس کے خلاف خروج کر رہے ہیں تو کیاوہ فساد فی الارض کے زمرے میں آئیں گے؟ اسی طرح ایک اور مثال دی تھی کہ آسیہ کے کیس میں پورے ملک کے ہر طبقے کے علماء نے اس کی مخالفت کی ۔ جب کہ یہ ملک کی سب سے بڑی عدالت کا فیصلہ تھا اور اس کو حاکم وقت ڈیفنڈ کر رہا تھا۔تو کیا مخالفت کرنے والے سب غلط تھے۔؟ کیوں کہ حدیث کے مطابق تو حاکم کی کسی بھی بات پر اجتماعی احتجاج نہیں کرناہے۔