• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زباں بگڑی سو بگڑی، خبر لیجئے دہن بگڑا

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
دوسرے مسالک کے “غیر اخلاقی اور قابل شرم” مواد کو پیش کرنے کا نامناسب طریقہ:
  1. دھاگوں کے عنوانات میں وہی “قابل شرم غیر اخلاقی” الفاظ لکھنا۔کیونکہ محدث فورم کے دھاگے اور اس کے عنوانات آپ کے اور اس فورم کے منتظمین کے ذوق کے عکاس ہوتے ہیں، انہیں اس طرح “آلودہ” نہ کریں۔
  2. دھاگہ کے متن میں اپنے قلم سے "قابل شرم غیر اخلاقی" الفاظ بار بار لکھ کو خوش ہونا کہ یہ ہے فلاں مسلک والوں کی “اوقات”۔ حالانکہ اس طرح آپ اپنی “اوقات” دکھلا رہے ہوتے ہیں کہ کتب میں مدفون “گندگی” کو اچھال اچھال کر خوش ہورہے ہوتے ہیں اور ایک دینی فورم کا “ماحول” بھی گندا کر رہے ہوتے ہیں۔
  3. ایسے دھاگے شروع کرنے والوں سے میری درخواست ہے کہ وہ عنوانات اور متن لکھتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں۔ اگر اسکین شدہ صفحات پیش کر رہے ہوں تو مطلوبہ متن پر تبصرہ ضرور کریں لیکن متن میں موجود نامناسب الفاظ کو اپنے قلم سے لکھنے سےگریز کریں کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ قارئین تک آپ کا پیغام ویسے بھی اسکین شدہ صفحہ کے ذریعہ پہنچ رہا ہے۔ اگر اسکین نہ لگا رہے ہوں تب بھی ایسی ”رپورٹنگ” کرتے ہوئے شائستہ انداز اختیار کریں تاکہ پتہ چل سکے کہ آپ خود ایک شائستہ انسان ہیں۔ منتظمین بھی تھوڑی سی محنت کرکے پوسٹرز کی ایسی “خامی یا کمی” کا ازالہ کرسکتے ہیں۔
  4. ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں ایک مرتبہ ایک ایسے جلسہ عام میں مخالفین کو بہن کی گالی دے ڈالی جو براہ راست ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہورہی تھی۔ تمام اخبارات نے بھٹو کی اس گندی حرکت کی “خبر” شائع کی۔ لیکن کسی اخبار (حتیٰ کہ اپوزیشن کے اخبارات) نے بھی بھٹو کی زبان سے ادا ہونے والی “گالی” کو لفظ بہ لفظ نہیں لکھا کہ بھٹو نے گالی دیتے ہوئےکہا “۔۔۔” سب نے یہی لکھا کہ “بھٹو نے جلسہ عام میں بہن کی گالی دی” یا "بھٹو نے جلسہ عام میں گالی دی"۔ کیونکہ جو گندے الفاظ بھٹو کی زبان سے نکلے، وہی گندگی اخبارات اپنے صفحات کے ذریعہ گھر گھر پہنچانا نہیں چاہتے تھے۔
  5. مختلف مسالک کی فقہی کتب میں اگر فحش الفاظ اور متن موجود ہیں (اور یقیناً موجود ہیں) اور انہیں عوام الناس تک پہنچانا مقصود بھی ہے (جہاں ضروری ہو) تو یہ فریضہ انہیں ادا کرنا چاہئے جنہیں زبان و بیان پر عبور حاصل ہو۔ جنہیں “فحش مواد اور گندگی” کو پیش کرنے کا سلیقہ آتا ہو۔ اور جو گندگیوں کا “رنگین پوسٹر” بنا کر مزید گندگی پھیلانے کے عمل سے بچنا جانتے ہوں۔
  6. مجھے بخوبی معلوم ہے کہ یہ “سارا ہنر” کسی بھی اوپن فورم میں ہر ممبر کو “سکھلایا” نہیں جاسکتا اور نہ سارے ارکان سے ایسی “توقع” رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن فورم کے “با اختیار منتظمین” کی تو ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے دھاگوں کے عنوانات اور متن پر نظر رکھیں، جو کسی طور بھی ایک دینی فورم کے شایان شان نہیں۔
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,396
پوائنٹ
891
دوسرے مسالک کے “غیر اخلاقی اور قابل شرم” مواد کو پیش کرنے کا نامناسب طریقہ:
جزاکم اللہ خیرا یوسف ثانی بھائی۔
کسی نے اس موضوع پر کچھ لکھا تو سہی۔
بہت عمدہ تجاویز ہیں۔ اور بالکل قابل عمل بھی۔

سب اراکین کی تربیت ممکن نہ بھی ہو تو کم سے کم انتظامیہ اور خصوصاً نظامت سے متعلق افراد کی تربیت تو کی ہی جا سکتی ہے۔ سب سے پہلے میں ہی ایسے دھاگوں کے عناوین وغیرہ بدلنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آپ سے بھی التماس ہے کہ ذاتی پیغام یا ناظمین سیکشن کے ذریعے زبان و بیان کے حوالے سے رہنمائی کر سکیں تو ضرور کیجئے گا۔
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
دوسرے مسالک کے “غیر اخلاقی اور قابل شرم” مواد کو پیش کرنے کا نامناسب طریقہ:
  1. دھاگوں کے عنوانات میں وہی “قابل شرم غیر اخلاقی” الفاظ لکھنا۔کیونکہ محدث فورم کے دھاگے اور اس کے عنوانات آپ کے اور اس فورم کے منتظمین کے ذوق کے عکاس ہوتے ہیں، انہیں اس طرح “آلودہ” نہ کریں۔
  2. دھاگہ کے متن میں اپنے قلم سے "قابل شرم غیر اخلاقی" الفاظ بار بار لکھ کو خوش ہونا کہ یہ ہے فلاں مسلک والوں کی “اوقات”۔ حالانکہ اس طرح آپ اپنی “اوقات” دکھلا رہے ہوتے ہیں کہ کتب میں مدفون “گندگی” کو اچھال اچھال کر خوش ہورہے ہوتے ہیں اور ایک دینی فورم کا “ماحول” بھی گندا کر رہے ہوتے ہیں۔
  3. ایسے دھاگے شروع کرنے والوں سے میری درخواست ہے کہ وہ عنوانات اور متن لکھتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں۔ اگر اسکین شدہ صفحات پیش کر رہے ہوں تو مطلوبہ متن پر تبصرہ ضرور کریں لیکن متن میں موجود نامناسب الفاظ کو اپنے قلم سے لکھنے سےگریز کریں کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ قارئین تک آپ کا پیغام ویسے بھی اسکین شدہ صفحہ کے ذریعہ پہنچ رہا ہے۔ اگر اسکین نہ لگا رہے ہوں تب بھی ایسی ”رپورٹنگ” کرتے ہوئے شائستہ انداز اختیار کریں تاکہ پتہ چل سکے کہ آپ خود ایک شائستہ انسان ہیں۔ منتظمین بھی تھوڑی سی محنت کرکے پوسٹرز کی ایسی “خامی یا کمی” کا ازالہ کرسکتے ہیں۔
  4. ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں ایک مرتبہ ایک ایسے جلسہ عام میں مخالفین کو بہن کی گالی دے ڈالی جو براہ راست ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہورہی تھی۔ تمام اخبارات نے بھٹو کی اس گندی حرکت کی “خبر” شائع کی۔ لیکن کسی اخبار (حتیٰ کہ اپوزیشن کے اخبارات) نے بھی بھٹو کی زبان سے ادا ہونے والی “گالی” کو لفظ بہ لفظ نہیں لکھا کہ بھٹو نے گالی دیتے ہوئےکہا “۔۔۔” سب نے یہی لکھا کہ “بھٹو نے جلسہ عام میں بہن کی گالی دی” یا "بھٹو نے جلسہ عام میں گالی دی"۔ کیونکہ جو گندے الفاظ بھٹو کی زبان سے نکلے، وہی گندگی اخبارات اپنے صفحات کے ذریعہ گھر گھر پہنچانا نہیں چاہتے تھے۔
  5. مختلف مسالک کی فقہی کتب میں اگر فحش الفاظ اور متن موجود ہیں (اور یقیناً موجود ہیں) اور انہیں عوام الناس تک پہنچانا مقصود بھی ہے (جہاں ضروری ہو) تو یہ فریضہ انہیں ادا کرنا چاہئے جنہیں زبان و بیان پر عبور حاصل ہو۔ جنہیں “فحش مواد اور گندگی” کو پیش کرنے کا سلیقہ آتا ہو۔ اور جو گندگیوں کا “رنگین پوسٹر” بنا کر مزید گندگی پھیلانے کے عمل سے بچنا جانتے ہوں۔
  6. مجھے بخوبی معلوم ہے کہ یہ “سارا ہنر” کسی بھی اوپن فورم میں ہر ممبر کو “سکھلایا” نہیں جاسکتا اور نہ سارے ارکان سے ایسی “توقع” رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن فورم کے “با اختیار منتظمین” کی تو ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے دھاگوں کے عنوانات اور متن پر نظر رکھیں، جو کسی طور بھی ایک دینی فورم کے شایان شان نہیں۔
کسی حد تک آپ ٹھیک کہتے ہیں یوسف بھائی،
تھریڈ کا ٹائٹل ،اور متن اس میں واقعی ہی شائستگی ہونی چاہیئے،اس لیے اراکین نامناسب الفاظ سے گریز کریں اور تبلیغ میں شائستگی ،نرمی،اور اخلاقیات کو ملحوظ رکھیں۔
لیکن اس ضمن میں ایک بات بہت اہم ہےکہ اکثر سکین شدہ صفحات میں بیان کی گئی بات "غیر اخلاقی یا ناشائستہ نہیں ہوتی مگر
فورم کے وہ اراکین جو اختلاف کرنے لگتے ہیں وہ بحث میں نہ صرف موضوع کو اخلاقیات سے باہر نکال دیتے ہیں بلکہ اپنا مؤقف درست ثابت کرنے کے لیے "ایسا مواد" پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں جو کو فورم کے ماحول کے لیے زیب نہیں دیتا۔
لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ مسالک کی فقہی کتب کے جھوٹ اور ان کی تحقیق نیز صحیح احادیث سے حق واضح کرنا ،یہ آسان کام نہیں۔
اس کوشش اور محنت پر فورم کے وہ اراکین یقینا داد دئیے جانے کے مستحق ہیں۔اللہ تعالی ان کی محنت قبول فرمائے۔آمین
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
سُوۡرَةُ الاٴنعَام﴿١٠٧﴾ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّـهِ فَيَسُبُّوا اللَّـهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِمْ مَرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿١٠٨﴾

یہ لوگ اللہ کے سوا جن کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو، کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ شرک سے آگے بڑھ کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں ۔ ہم نے تو اسی طرح ہر گروہ کے لیے اس کے عمل کو خوشنما بنا دیا ہے، پھر انہیں اپنے رب ہی کی طرف پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت وہ انہیں بتا دے گا کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں ۔

کافی دنوں سے اس دینی فورم پر یہ دیکھا جارہا ہے کہ معزز اراکین باطل عقائد ،مسالک اور ان سے وابستہ شخصیات کے خلاف لکھتے ہوئے، ان پر تنقید کرتے ہوئے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ انہیں کھلے عام گالیاں دیتے ہیں اور غیر مہذب الفاظ سے انہیں یاد کرتے ہیں۔ کیا یہی انداز بیان کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔ اب ایسے دھاگوں کی اتنی بہتات ہوگئی ہے کہ انہیں کھولتے اور دیکھتے ہوئے بھی کراہیت سی محسوس ہوتی ہے۔ اور منتظمین فورم ایسے دھاگوں کو نہ تو ایڈٹ کرتے ہیں نہ حذف کرتے ہیں اور نہ کوئی اور کاروائی۔ یا تو منتظمین فورم کو ایسی زبان پر کوئی اعتراض نہیں ہے (جس کا امکان بہرحال کم کم ہے) یا پھر انہیں فرصت ہی نہیں ہے اس طرف توجہ دینے کی۔

میری منتظمین فورم سے دردمندانہ گذارش ہے کہ اوپن فورم میں اس قسم کی غیر مہذبانہ زبان پر فوری گرفت کا انتظام کیا جائے اور ایسے الفاظ تحریر کرنے والوں کو ایسا کرنے سے روکا جائے اور فورم پر موجود ایسے تمام الفظ و جملوں کو حذف یا ایڈٹ کیا جائے۔



کیا سچ کڑوا ہوتا ہے





۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
دوسرے مسالک کے “غیر اخلاقی اور قابل شرم” مواد کو پیش کرنے کا نامناسب طریقہ:
  1. دھاگوں کے عنوانات میں وہی “قابل شرم غیر اخلاقی” الفاظ لکھنا۔کیونکہ محدث فورم کے دھاگے اور اس کے عنوانات آپ کے اور اس فورم کے منتظمین کے ذوق کے عکاس ہوتے ہیں، انہیں اس طرح “آلودہ” نہ کریں۔
  2. دھاگہ کے متن میں اپنے قلم سے "قابل شرم غیر اخلاقی" الفاظ بار بار لکھ کو خوش ہونا کہ یہ ہے فلاں مسلک والوں کی “اوقات”۔ حالانکہ اس طرح آپ اپنی “اوقات” دکھلا رہے ہوتے ہیں کہ کتب میں مدفون “گندگی” کو اچھال اچھال کر خوش ہورہے ہوتے ہیں اور ایک دینی فورم کا “ماحول” بھی گندا کر رہے ہوتے ہیں۔
  3. ایسے دھاگے شروع کرنے والوں سے میری درخواست ہے کہ وہ عنوانات اور متن لکھتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں۔ اگر اسکین شدہ صفحات پیش کر رہے ہوں تو مطلوبہ متن پر تبصرہ ضرور کریں لیکن متن میں موجود نامناسب الفاظ کو اپنے قلم سے لکھنے سےگریز کریں کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ قارئین تک آپ کا پیغام ویسے بھی اسکین شدہ صفحہ کے ذریعہ پہنچ رہا ہے۔ اگر اسکین نہ لگا رہے ہوں تب بھی ایسی ”رپورٹنگ” کرتے ہوئے شائستہ انداز اختیار کریں تاکہ پتہ چل سکے کہ آپ خود ایک شائستہ انسان ہیں۔ منتظمین بھی تھوڑی سی محنت کرکے پوسٹرز کی ایسی “خامی یا کمی” کا ازالہ کرسکتے ہیں۔
  4. ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں ایک مرتبہ ایک ایسے جلسہ عام میں مخالفین کو بہن کی گالی دے ڈالی جو براہ راست ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہورہی تھی۔ تمام اخبارات نے بھٹو کی اس گندی حرکت کی “خبر” شائع کی۔ لیکن کسی اخبار (حتیٰ کہ اپوزیشن کے اخبارات) نے بھی بھٹو کی زبان سے ادا ہونے والی “گالی” کو لفظ بہ لفظ نہیں لکھا کہ بھٹو نے گالی دیتے ہوئےکہا “۔۔۔” سب نے یہی لکھا کہ “بھٹو نے جلسہ عام میں بہن کی گالی دی” یا "بھٹو نے جلسہ عام میں گالی دی"۔ کیونکہ جو گندے الفاظ بھٹو کی زبان سے نکلے، وہی گندگی اخبارات اپنے صفحات کے ذریعہ گھر گھر پہنچانا نہیں چاہتے تھے۔
  5. مختلف مسالک کی فقہی کتب میں اگر فحش الفاظ اور متن موجود ہیں (اور یقیناً موجود ہیں) اور انہیں عوام الناس تک پہنچانا مقصود بھی ہے (جہاں ضروری ہو) تو یہ فریضہ انہیں ادا کرنا چاہئے جنہیں زبان و بیان پر عبور حاصل ہو۔ جنہیں “فحش مواد اور گندگی” کو پیش کرنے کا سلیقہ آتا ہو۔ اور جو گندگیوں کا “رنگین پوسٹر” بنا کر مزید گندگی پھیلانے کے عمل سے بچنا جانتے ہوں۔
  6. مجھے بخوبی معلوم ہے کہ یہ “سارا ہنر” کسی بھی اوپن فورم میں ہر ممبر کو “سکھلایا” نہیں جاسکتا اور نہ سارے ارکان سے ایسی “توقع” رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن فورم کے “با اختیار منتظمین” کی تو ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے دھاگوں کے عنوانات اور متن پر نظر رکھیں، جو کسی طور بھی ایک دینی فورم کے شایان شان نہیں۔

میرے بھایئو اور بہنوں . میری وجہ سے اگر کسی کو کوئی پریشانی اٹھانی پڑی تو میں معذرت چاہتا ہوں

آج سچ سچ کہنا چاہوں گا

میرا یہاں آنے کا مقصد کوئی لڑائی کرنا نہیں تھا
بلکہ قرآن اور صحیح احادیث پیش کرنا تھا .
اور
جو آج کل باطل فرقے پیدا ہوے ہیں
ان کے بارے میں عوام کو بتانا تھا
میں نے اپنا کام کر دیا ہے .
سمجھنے والے سمجھ چکے ہیں اور ناراض ہونے والے ناراض ھو چکے ہیں
لکن میرے لیے کوئی اہمیت نہیں کون ناراض ہوتا ہے اور کون راضی . اہمیت ہے تو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم کے حکم کی

یہاں کچھ لوگوں اصل تکلیف یہ ہے کہ میں اختلافی پوسٹ کرتا ہوں -

کیا نماز کے بارے میں صحیح احادیث لگانا اختلافی پوسٹ ہے

کیا اللہ کے بارے میں صحیح احادیث لگا کر بتانا کہ اللہ اپنے عرش پر ہے اختلافی پوسٹ ہے

کیا مدت رضاعت دو سال ہے قرآن سے بتانا اختلافی پوسٹ ہے

نماز وتر کا طریقہ بتانا اختلافی پوسٹ ہے

کیا تقلید کے بارے میں لوگوں کو بتانا کہ یہ صحیح نہیں ہے اختلافی پوسٹ ہے

کیا دیوبند بریلویوں اور اہلحدیثوں نے کتابوں سے جو احادیث اپنے اپنے اماموں کو بچانے کی خاطر نکال دی ہیں اس کے بارے میں بتانا اختلافی پوسٹ ہے

کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ علم غائب صرف اللہ کے پاس ہے اختلافی پوسٹ ہے

کیا لوگوں کو بتانا کہ حضور صلی اللہ وسلم نے اللہ کو نہیں دیکھا کیا یہ اختلافی پوسٹ ہے

کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں . جو کرتا ہے اس کو ثواب ملے گا اور جو نہیں کرتا اس کو کوئی گناہ نہیں

کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں اختلافی پوسٹ ہے

کیا لوگوں کو بتانا کہ حلالہ حرام ہے اختلافی پوسٹ ہے

کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ دیہاتوں اور بستیوں اور شہروں میں جمعہ کی نماز جائز ہے اختلافی پوسٹ ہے

کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ ننگے سر نماز پڑھنا بھی ثابت ہے اختلافی پوسٹ ہے

کیا لوگوں کو بتانا کہ قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھا کردعا مانگنا جائز ہے اختلافی پوسٹ ہے

کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ حضور صلی اللہ وسلم کا سایہ مبارک تھا اختلافی پوسٹ ہے

کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ حضور صلی اللہ وسلم نور نہیں بلکہ بشر تھے اختلافی پوسٹ ہے

میرے بھایئو اگر یہ ا ختلافی پوسٹس ہیں تو پھر اسلام میں ان چیزوں کی کیا ضرورت ہے

یوسف ثانی صاحب نے پتا نہیں کیا سوچ کر کہ دیا کہ معزز اراکین باطل عقائد ،مسالک اور ان سے وابستہ شخصیات کے خلاف لکھتے ہوئے، ان پر تنقید کرتے ہوئے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ انہیں کھلے عام گالیاں دیتے ہیں اور غیر مہذب الفاظ سے انہیں یاد کرتے ہیں۔ کیا یہی انداز بیان کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔

لیکن شاہد یوسف ثانی صاحب کو میرا خیال ہے کہ پسند نہیں آیا کہ فقہ شریف کی گندگی اور غلاظت کو کیوں سب لوگوں کے سامنے ظاہر کیا گیا - لکن وہ یہ جانتے کہ سچائی کو نہیں چھپایا جا سکتا ہے

یوسف بھائی یہ بتا دیں کہ اگر یہ پوسٹس اختلافی ہیں
تو وہ پوسٹس کون سی ہیں جو اختلافی نہیں

عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔

((لاتمنعوا نساء کم المساجد اذا استأذنتکم الیھا))

''اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے مت روکو جب و ہ تم سے اجازت مانگیں تو بلال بن عبداﷲ رحمہ اﷲ نے کہا ۔(واﷲ لنمنعھن) ''اﷲ کی قسم ہم تو ان کو روکیں گے'' سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ

عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے انہیں بہت برا بھلا کہا اتنا کہ میں نے انہیں کبھی ایسا کہتے نہیں سنا تھا اور پھر کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو کہہ رہا ہے کہ ہم روکیں گے؟''

بخاری ومسلم میں ہے کہ عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں مار رہا تھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کنکریاں مارنے سے منع کیا ہے یا اسے ناپسند کیاہے اس لیے کہ اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے نہ دشمن کو مارا جاسکتا ہے ۔سوائے اس کے کہ کسی کی آنکھ پھوڑی جائے یا دانت توڑ دیا جائے اس کے بعد دوبارہ اس شخص کو کنکریاں مارتے دیکھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں بتا رہا ہوں کہ وہ کنکریاں مارنے سے منع کرتے تھے یا ناپسند کرتے تھے اور تم پھر بھی کنکریاں مارہے ہو ۔میں تم سے اتنی مدت تک بات نہیں کروں گا۔

بخاری میں زبیر بن عربی رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہتے ہیں :ایک شخص نے ابن عمررضی اﷲ عنہ سے سوال کیا حجر اسود کو چھونے کا ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہا میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ اس کو ہاتھ لگاتے تھے اوربوسہ دیتے تھے اس شخص نے کہا اگر بھیڑ ہو اور مجھے موقع نہ مل سکے تو ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہا یہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے ابن حجر رحمہ اﷲ 'فتح الباری 'میں کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کو یہ جو کہا کہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو تو یہ اس لیے کہا کہ آپ رضی اﷲ عنہ کو اس شخص کی باتوں سے حدیث سے اعراض کا پتہ چل رہاتھا اس لیے ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس بات کو ناپسند کیا اور اس شخص کو حکم دیا کہ جب حدیث سن لو تو اسے اپناؤ اور اپنی رائے کو چھوڑ دیا کرو ۔ابن عباس رضی اﷲعنہ نے ایک مرتبہ حدیث سنائی تو لوگوں نے ابوبکررضی اﷲ عنہ اورعمر رضی اﷲ عنہ کا قول اس حدیث کے خلاف پیش کردیا ۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کہاکیا بات ہے کہ تم باز نہیں آتے جب تک کہ اﷲ تم پر عذاب نہ نازل کردے؟میں تمہیں رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم ہمیں ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کی بات بتا رہے ہو؟

علامہ سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ جب ابن عباس رضی اﷲعنہ ابوبکروعمررضی اﷲ عنہما جیسے اشخاص کے قول کے بارے میں یہ فرمارہے ہیں تو پھر اس شخص کوکیا کہا جائے گا جو اپنے امام کے قول کی وجہ سے یا اپنے مذہب کی بناپر حدیث کو چھوڑ رہا ہو امام کے قول کو حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے پرکھنے کے لئے معیار بنارہا ہو جو حدیث امام کے قول کے موافق ہو اسے لے رہا ہو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ رہا ہو ؟ایسے شخص کے بارے میں ہم اﷲ کا یہ قول ہی پیش کرسکتے ہیں۔

اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ

(التوبۃ:۳۱)

''ان لوگوں نے اپنے علماءاور درویشوں کو رب بنالیا ہے اﷲ کو چھوڑ کر''۔

(تیسیرالعزیزالحمید:۵ ۴۴،۵۴۵)

ابوالسائب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ ہم ایک مرتبہ وکیع رحمہ اﷲ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مخاطب کرکے کہا (جو اہل الرائے میں سے تھا)کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے شعار کیا ہے(چھری یا کسی نوکدار چیز سے اونٹ یا قربانی کے جانور کو زخمی کرکے نشان لگانا کہ یہ بیت اﷲکے لئے وقف ہے) اور ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ مثلہ ہے ؟(مثلہ کہتے ہیں جنگ میں دشمن کے کسی آدمی کے ہاتھ پاؤں، کان، ناک کاٹنا اس سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کیا ہے) اس شخص نے جواب میں کہا کہ ابراہیم نخعی رحمہ ا ﷲ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں شعار مُثلہ ہے ۔ابوالسائب رحمہ اﷲ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ وکیع رحمہ اﷲ کو سخت غصہ آیا اور اس شخص سے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان سنا رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ نے کہا ہے ؟تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں اس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک تم اپنے اس قول سے رجوع نہ کرلو۔

(جامع الترمذی :۳/۲۵۰،والفقیہ والمتفقہ۱/۱۴۹)

آج کے دور میں بہت سے لوگ ہیں جو قید کیے جانے کے قابل ہیں ۔اس لیے کہ جب انہیں حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سنائی جاتی ہے توکہتے ہیں کہ فلاں عالم نے اس طرح کہا ہے ،فلاں نے یہ فتوی دیا ہے۔یعنی ان کے نزدیک افراد ہی شریعت کے ماخذہیں ) جو لوگ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے پر افراد واشخاص کے اقوال پیش کرتے ہیں ان کو قید کردینا چاہئے جب تک کہ وہ اپنی روش سے توبہ نہ کرلیں ۔

ابویعلی رحمہ اﷲ نے( طبقات الحنابلہ :۱/۲۵۱) میں فضل بن زیاد رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ سے نقل کرتے ہیں کہ ابن ابی ذئب رحمہ اﷲ کو خبر ملی کہ امام مالک رحمہ اﷲ''البیعان بالخیار''والی حدیث نہیں لیتے ،تو ابن ابی ذئب رحمہ اﷲنے کہا کہ ان سے توبہ کروائی جائے اگر توبہ نہیں کرتے تو ان کی گردن کاٹ دی جائے (امام مالک رحمہ اﷲ نے حدیث رد نہیں کی تھی بلکہ ا س کی تاویل کرکے دوسرا مطلب لیتے تھے) سلف صالحین رحمہم اﷲ حدیث کی مخالفت کرنے والوں کی اس طرح مذمت کرتے تھے چاہے یہ مخالفت قیاس کی بناپر ہوتی یا استحسان واستصواب کے نام پر یا کسی عالم کے قول وفتوی کی وجہ سے ہوتی سلف رحمہم اللہ ایسے لوگوں سے ترک تعلق کرتے تھے جب تک کہ ایسے لوگ اپنے عمل سے رجوع نہ کرلیں ،حدیث کومکمل طور پر تسلیم کرکے اس کی پیروی نہ شروع کردیتے وہ اس شخص کو بھی ناپسند کرتے تھے جو اس بنا پر حدیث کو لیتے ہیں جب وہ قیاس کے موافق ہو یا کسی امام یا عالم کے قول وفتوی کے موافق ہووہ تو اﷲ کے اس فرمان پر عمل پیرا تھے

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ

(احزاب:۳۶)

''جب اﷲ اور اس کارسول (صلی اﷲ علیہ وسلم)کسی امر کا حکم دیں تو پھر کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کو اپنے معاملہ کا کوئی اختیارنہیں رہتا''۔

دوسری جگہ اﷲ کا ارشاد ہے ۔

فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا

(النساء:۶۵)

''تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے ۔جب تک تجھے (اے محمد صلی اﷲعلیہ وسلم) اپنے تنازعات میں فیصل نہ مان لیں اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلے سے اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اسے مکمل طور پر تسلیم کرلیں''۔

مگر ہم اب ایسے دور میں جی رہے ہیں جب کسی سے کہاجاتا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے تو وہ کہتا ہے کس نے کہا ہے ؟یعنی یہ جاننا ہی نہیں چاہتا کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول ہے خود کو بے خبر رکھ کر حدیث کی مخالفت یا اس پر عمل نہ کرنے کا بہانہ تلاش کرتا ہے حالانکہ ایسے لوگ اگر اپنے آپ سے مخلص ہوں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا اس طرح انجان بن کر حدیث پر عمل نہ کرنا باطل کی طرف جاتا ہے ۔ اعلام الموقعین میں کسی عالم کا قول مذکور ہے جس نے کہا تھا کہ ہم حدیثِ رسول پر اس وقت تک عمل نہیں کریں گے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس حدیث پر ہم سے پہلے کسی نے عمل کیا ہے اگر کسی کے پاس حدیث پہنچ گئی مگر اسے معلوم نہ تھا کہ اس پر کسی نے عمل کیا ہے (یا نہیں ) تو اس کے لئے حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔

(اعلام الموقعین :۴/۲۵۴،۲۴۴)

دو باتیں اگر کوئی شخص پہچان لے تو اس نے پورے دین کو پہچان لیا ۔ پورا دین اس کے پاس محفوظ ہوگیا ۔ ایک یہ کہ عبادت کس کی کرنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ، کسی حجر و شجر کی نہیں ، قبے اور مزار کی نہیں اور نہ ہی کسی نبی ، ولی اور فرشتے کی ۔ دوسرا یہ کہ کس طرح کرنی ہے ؟ جیسے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔ پس جو شخص ان دو باتوں کو پہچان لے اس نے سارے دین کو پہچان لیا اور یہ پورے دین کی اساس و بنیاد ہے ۔
اس لئے ہمیں اپنا عقیدہ ، عمل ، منہج ، معیشت و معاشرت ، سیاست سمیت دیگر تمام امور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق بنانا ہوں گے تب اللہ رب العالمین انہیں شرف قبولیت سے نوازیں گے ۔ بصورت دیگر تمام اعمال ، عبادتیں اور ریاضتیں برباد ہو جائیں گی اور کسی عمل کا فائدہ نہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔

ھل اتاک حدیث الغاشیۃ وجوہ یومئذ خاشعۃ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ

( الغاشیۃ : 1-4 )

قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل و رسوا ہونگے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ عمل نہیں کرتے تھے ، محبت اور کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ عمل کرتے تھے اور بہت زیادہ کرتے تھے عمل کرتے کرتے تھک جایا کرتے تھے لیکن یہ دھکتی ہوئی جہنم کی آگ کا لقمہ بن جائیں گے ۔ بے تحاشا عمل کرنے والے محنتیں اور ریاضتیں کرنے والے ، صبح و شام سفر کرنے والے جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے ۔ کیوں ! اس لئے کہ ان کا عمل اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کے مطابق نہ تھا ۔ قرآن و حدیث کے مطابق نہ تھا ۔ اگر عمل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو اور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کو بلا جھجک اور بلا چوں و چراں تسلیم کر لیا جائے تو یہی کامیابی ہے اور یہی ایمان ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدے ، عمل اور منہج کو کتاب و سنت کے مطابق بنا دے ۔ تا کہ ہم قرآن و حدیث کو ہی اپنا مرکز اطاعت ٹھہرا لیں ۔

( آمین )

وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین ۔

میں آخر میں فقہ حنفی شریف والوں سے صرف یہ پوچھوں گا کہ

آپ سے گزارش ہے کہ درج سوالوں کے دوٹوک جواب میں آپ اپنا موقف بیان کیجئے!

انتہائی آسان الفاظ میں یہ کہ کیا آپ کے نزدیک مدتِ رضاعت کے متعلّق امام ابو حنیفہ﷫ کا اڑھائی سال والا موقف راجح ہے یا جمہور کا قرآن وحدیث کے آج موجود صحیح وصریح دلائل کی بناء پر دو سال والا؟؟؟!!!

كيا آپ کے نزدیک نمازِ استسقاء کے متعلّق امام ابو حنیفہ﷫ کا فتوائے بدعت راجح ہے یا آج موجود صحیح وصریح نصوص کی بناء پر جمہور کا فتویٰ کہ وہ سنت ہے؟؟!!

کیا آپ کے نزدیک امام ابو حنیفہ﷫ کا فتویٰ کہ مرتد خاتوں کی سزا قتل نہیں ہے راجح ہے یا جمہور کا آج موجود صحیح وصریح احادیث مبارکہ کی بناء پر فتویٰ کہ اس کی سزا بھی مرد مرتد کی طرح قتل ہے؟؟!!
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
یوسف ثانی صاحب سے یہ بھی گزارش ہے کہ
دوسرے مسالک کے "غیر اخلاقی اور قابل شرم" مواد کو پیش کرنے کا مناسب طریقہ بھی بتا دیں اور خود وہ والے طریقے پر عمل کر کے بھی دکھائیں
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں ایک مرتبہ ایک ایسے جلسہ عام میں مخالفین کو بہن کی گالی دے ڈالی جو براہ راست ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہورہی تھی۔ تمام اخبارات نے بھٹو کی اس گندی حرکت کی “خبر” شائع کی۔ لیکن کسی اخبار (حتیٰ کہ اپوزیشن کے اخبارات) نے بھی بھٹو کی زبان سے ادا ہونے والی “گالی” کو لفظ بہ لفظ نہیں لکھا کہ بھٹو نے گالی دیتے ہوئےکہا “۔۔۔” سب نے یہی لکھا کہ “بھٹو نے جلسہ عام میں بہن کی گالی دی” یا "بھٹو نے جلسہ عام میں گالی دی"۔ کیونکہ جو گندے الفاظ بھٹو کی زبان سے نکلے، وہی گندگی اخبارات اپنے صفحات کے ذریعہ گھر گھر پہنچانا نہیں چاہتے تھے۔

فورم اسلامی اور مثال ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی
کاش مثال قرآن یا صحیح احادیث سے ہوتی
کوئی بات نہیں خیر پھر سہی
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
  1. مختلف مسالک کی فقہی کتب میں اگر فحش الفاظ اور متن موجود ہیں (اور یقیناً موجود ہیں) اور انہیں عوام الناس تک پہنچانا مقصود بھی ہے (جہاں ضروری ہو) تو یہ فریضہ انہیں ادا کرنا چاہئے جنہیں زبان و بیان پر عبور حاصل ہو۔ جنہیں “فحش مواد اور گندگی” کو پیش کرنے کا سلیقہ آتا ہو۔ اور جو گندگیوں کا “رنگین پوسٹر” بنا کر مزید گندگی پھیلانے کے عمل سے بچنا جانتے ہوں۔
شکر ہے کہ آپ نے مانا تو سہی کہ​
مختلف مسالک کی فقہی کتب میں اگر فحش الفاظ اور متن موجود ہیں (اور یقیناً موجود ہیں)​
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,480
پوائنٹ
964
پیارے بھائی !
دین کے لیے اخلاص کے ساتھ کی گئی اللہ تعالی آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے اور ان میں مزید ترقی عطا کرے ۔
پہلی گزارش :
بھائی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ دین کی تبلیغ میں اور احقاق حق اور ابطال باطل میں لوگ آپ کا ساتھ نہیں دیتے یا آپ کے طریقے کوپسند نہیں کرتے تو آپ ذرا یہ تصور کریں کہ انبیاء و رسل کو کتنی تکلیفیں آئیں اور اس کے بعد سلف صالحین نے کتنی پریشانیاں اٹھائیں ۔ کیا ہر کوئی ان کی آواز پر لبیک کہنے والا تھا ہر شخص ان کی تائید کرتا تھا ۔ کیا انہوں نے اس صورت حال سے دل برداشتہ ہو کر دین کی تبلیغ چھوڑ دی تھی ؟
دوسری گزارش :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا اللہم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ اس دور میں سکھائی تھی جو ہمارے اس دور سے لاکھوں درجے بہتر تھا اور ان لوگوں کی سکھائی تھی جن کے ذہن ہم سے کسی درجہ پاک صاف اور رسا تھے ۔ لہذا ہم اس دور میں اس دعا کے اور بھی زیادہ محتاج ہیں ۔ اللہ سے سیدھی راہ کا سوال کرتے رہنا چاہیے ۔
جس بات کو آپ حق سمجھتے ہیں اور آپ کو یہ بھی علم ہے کہ قابل اعتماد علماء ( سب کا ہونا ضروری نہیں ) کا بھی یہی موقف ہے تو پھر قرآن وسنت کے دلائل کی بنیاد پر اس بات کو ضرور پھیلائیں چاہے کسی کو پسند ہے یا نہیں ۔
تیسری گزارش :
حق بات کی تبلیغ میں آپ کسی قسم کی کوئی مداہنت نہ کریں اور نہ ہی کرنی چاہیے لیکن حق پھیلانے کا طریقہ اور باطل کے رد کا طریقہ کیسا ہونا چاہیے اس پر خوب غور و فکر کرکے کوئی قدم اٹھانا چاہیے کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی حق بات ہمارے ابلاغ کے غلط طریقہ کار کی وجہ سے رد کردی جائے ۔ یا کوئی آپ کسی کی کوئی غلط بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کو پیش کرنے میں کوئی غیر مناسب رویہ شامل ہونے کی وجہ سے آپ کے رویہ کے رد عمل میں اس کو حق سمجھنا شروع کردے یا کم از کم اس کو غلط ماننے کے لیے تیار نہ ہو ۔
چوتھی گزارش :
عام طور پر یہ ہوتا ہے ہم جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس کے دلائل پیش کرنے میں یا جس بات کو غلط سمجھتے ہیں اس کے خلاف دلائل پیش کرنے یا تبصرہ کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں تو اس طرح صواب کی راہ ہم سے گم ہوجاتی ہے ۔
مثال کے طور نماز کا کوئی ایک مسئلہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ کی سنت ہے لیکن علماء کے نزدیک اگر کسی نے وہ نہ کیا (تو اس کی نماز میں کمی آجائے گی ) لیکن نماز بہر صورت ہو جائے گی ۔
اس طرح کی صورت حال میں کیا یہ کافی نہیں کہ ہم کہیں کہ فلاں شخص کی نماز سنت کے مطابق نہیں ہوئی ؟ (یہ بھی اگر دیکھا جائے تو کوئی کم سزا نہیں ) لیکن ہم کوشش کرکے جیسے تیسے یہ حکم لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جناب اس کی نماز ہی نہیں ہوئی ۔ بس پھر دیکھا دیکھی دونوں گروپ انتہاؤں تک پہنچ جاتے ہیں ایک کہتا ہے اگر یہ کام نہ کریں تونمازنہیں ہوتی دوسرا کہتا ہے کہ اگر یہ کرلیں تو نماز نہیں ہوتی ۔ اور دونوں میں سے حق پر کوئی بھی نہیں ۔
اختلافی مسائل میں وسعت ظرفی سے کام لینا چاہیے خاص کر اس وقت جب دونوں طرف علماء ہوں ۔ بعض لوگ وسعت ظرفی یہ سمجھ لیتے ہیں جو مرضی کر لو ٹھیک ہے ۔ لیکن میرے نزدیک یہ موقف درست نہیں بلکہ وسعت ظرفی سے مراد یہ ہے کہ اپنے موقف کے دلائل دیکھنے کے ساتھ ساتھ انصاف کے ساتھ فریق مخالف کے دلائل کو بھی دیکھیں اور اختلافی مسئلے میں آپ جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس پر خود پابند رہیں اس کو نہ چھوڑیں لیکن جو آپ کا مخالف ہے اس پر تبصرہ کرنے میں ذرا نرمی رکھیں آپ نے حق پہنچا دیا آپ کی ذمہ داری پوری ہوگئی لیست علیہم بمصیطر ۔
سنت نبوی یہ ہے کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ جن کو تبلیغ کر لی ہے یا کرنی ہے ان کی ہدایت کے لیے صدق دل سے دعا کی جائے ۔
پانچویں گزارش :
تنقید سننے کا صرف حوصلہ ہی نہیں بلکہ خواہش رکھیں اور وہ بھی خاص کر اس وقت جب آپ سے زیادہ علم و تجریہ والے لوگ موجود ہوں ۔ کیونکہ یہ تو اللہ کی آپ کے لیے نعمت ہے کہ آپ کو اپنی اصلاح اور تطور کا موقعہ ملتا ہے ۔ آپ تصور کریں کہ اگر ہر کوئی آپ کی ہاں میں ہاں ملائے اور شروع دن سے آپ کو کامل انسان کہے تو بظاہر اچھا تو شاید لگے گا لیکن ترقی اور بلندی کے راستے مسدود ہوجائیں گے ۔ کیونکہ نہ آپ کو آپ کی غلطی کا احساس ہوگا اور نہ آپ کو ٹھیک کرنے کا خیال آئے گا ۔ ایک سعودی عالم دین ہیں ان پر بہت سارے لوگ تنقید کرتے تھے توانہوں نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی اور کتاب کا عنوان تھا کہ : ’’میں اپنے سے عداوت رکھنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ‘‘
بلکہ آخر میں جا کر کہا کہ یہی ناقدین در حقیقت میرے دوست ہیں جو میرے حقیقی شکریے کے مستحق ہیں ۔
ہاں بعض لوگ بے جا تنقید کرنے کے عادی ہوتے ہیں ایسے لوگوں کےساتھ احسن طریقے سے پیش آنا چاہیے اور ان کی بات کو سن لینا چاہیے ۔
میں سمجھتا ہوں ایسے مریضوں کے ساتھ یہ بہت بڑی نیکی ہوتی ہے البتہ ان کی اچھے انداز میں اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔
مسجد نبوی میں اردو میں دروس ہوتے ہیں جن میں اہل شرک و بدعت کے تمام فرقوں پر خوب مدلل اور حکیمانہ انداز میں گفتگو ہوتی ہے ۔ اور پھر اگرچہ سوال جواب کی کھلی اجازت ہوتی ہے لیکن پھر کچھ لوگ بیچارے اپنا غبار خاطر نکالنے میں ناکام رہتےہیں اس وجہ سے بہت پریشان نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ ہم بعض ساتھی ان کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور ان سے کہتے کہ بھائی آپ ہمیں اپنا موقف بتاؤ ہم کوشش کریں گے کہ آپ کی بات شیخ صاحب تک پہنچا دی جائے ۔ تو کئی لوگ ایسے ہیں جو پھٹ پڑتے ہیں لیکن جب چند لمحے ان کی بات کو بلا روک ٹوک سن لیا جائے تو کافی ہلکے ہلکے محسوس ہونے لگتے ہیں ۔

معذرت کے ساتھ کہ باتیں ذرا لمبی ہوگئیں یہ کسی ایک فرد کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ اس طرح کی چیزیں تو ہم سب کے لیے اپنی ہی زبان سے خود کو نصیحت ہوتی ہے جس کا ذریعہ ہم خود ہی باری باری بنتے رہتے ہیں ۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
فورم اسلامی اور مثال ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی
کاش مثال قرآن یا صحیح احادیث سے ہوتی
کوئی بات نہیں خیر پھر سہی
یہاں مثال “بھٹو” کی نہیں بلکہ بھٹو کی دی گئی گالی کو “رپورٹ کرنے کے طریقہ” کے بارے میں ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگر آپ یہ جلسہ سن کر گھر آتے تو اپنی ماں، بہنوں، بھائیوں اور والد بزرگوار کو کیسے بتلاتے کہ بھٹو نے جلسہ میں کیا “حرکت” کی ہے۔ شاید آپ اپنی زبان مبارک سے وہی “گالی” باری باری سب کے سامنے دہرا کر بتلاتے کہ بھٹو نے “یہ” کہا ہے، بھٹو نے “یہ” کہا ہے۔ اور اگر خدا نخواستہ تب آپ کسی اخبار کے ایڈیٹر ہوتے تو شہ سرخی میں وہ گالی بھی لکھ دیتے کہ بھٹو نے جلسہ عام میں “یہ” کہا۔
 
Top