دوسرے مسالک کے “غیر اخلاقی اور قابل شرم” مواد کو پیش کرنے کا نامناسب طریقہ:
- دھاگوں کے عنوانات میں وہی “قابل شرم غیر اخلاقی” الفاظ لکھنا۔کیونکہ محدث فورم کے دھاگے اور اس کے عنوانات آپ کے اور اس فورم کے منتظمین کے ذوق کے عکاس ہوتے ہیں، انہیں اس طرح “آلودہ” نہ کریں۔
- دھاگہ کے متن میں اپنے قلم سے "قابل شرم غیر اخلاقی" الفاظ بار بار لکھ کو خوش ہونا کہ یہ ہے فلاں مسلک والوں کی “اوقات”۔ حالانکہ اس طرح آپ اپنی “اوقات” دکھلا رہے ہوتے ہیں کہ کتب میں مدفون “گندگی” کو اچھال اچھال کر خوش ہورہے ہوتے ہیں اور ایک دینی فورم کا “ماحول” بھی گندا کر رہے ہوتے ہیں۔
- ایسے دھاگے شروع کرنے والوں سے میری درخواست ہے کہ وہ عنوانات اور متن لکھتے وقت ان باتوں کا خیال رکھیں۔ اگر اسکین شدہ صفحات پیش کر رہے ہوں تو مطلوبہ متن پر تبصرہ ضرور کریں لیکن متن میں موجود نامناسب الفاظ کو اپنے قلم سے لکھنے سےگریز کریں کہ اس کی ضرورت نہیں ہے۔ قارئین تک آپ کا پیغام ویسے بھی اسکین شدہ صفحہ کے ذریعہ پہنچ رہا ہے۔ اگر اسکین نہ لگا رہے ہوں تب بھی ایسی ”رپورٹنگ” کرتے ہوئے شائستہ انداز اختیار کریں تاکہ پتہ چل سکے کہ آپ خود ایک شائستہ انسان ہیں۔ منتظمین بھی تھوڑی سی محنت کرکے پوسٹرز کی ایسی “خامی یا کمی” کا ازالہ کرسکتے ہیں۔
- ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں ایک مرتبہ ایک ایسے جلسہ عام میں مخالفین کو بہن کی گالی دے ڈالی جو براہ راست ریڈیو اور ٹی وی سے نشر ہورہی تھی۔ تمام اخبارات نے بھٹو کی اس گندی حرکت کی “خبر” شائع کی۔ لیکن کسی اخبار (حتیٰ کہ اپوزیشن کے اخبارات) نے بھی بھٹو کی زبان سے ادا ہونے والی “گالی” کو لفظ بہ لفظ نہیں لکھا کہ بھٹو نے گالی دیتے ہوئےکہا “۔۔۔” سب نے یہی لکھا کہ “بھٹو نے جلسہ عام میں بہن کی گالی دی” یا "بھٹو نے جلسہ عام میں گالی دی"۔ کیونکہ جو گندے الفاظ بھٹو کی زبان سے نکلے، وہی گندگی اخبارات اپنے صفحات کے ذریعہ گھر گھر پہنچانا نہیں چاہتے تھے۔
- مختلف مسالک کی فقہی کتب میں اگر فحش الفاظ اور متن موجود ہیں (اور یقیناً موجود ہیں) اور انہیں عوام الناس تک پہنچانا مقصود بھی ہے (جہاں ضروری ہو) تو یہ فریضہ انہیں ادا کرنا چاہئے جنہیں زبان و بیان پر عبور حاصل ہو۔ جنہیں “فحش مواد اور گندگی” کو پیش کرنے کا سلیقہ آتا ہو۔ اور جو گندگیوں کا “رنگین پوسٹر” بنا کر مزید گندگی پھیلانے کے عمل سے بچنا جانتے ہوں۔
- مجھے بخوبی معلوم ہے کہ یہ “سارا ہنر” کسی بھی اوپن فورم میں ہر ممبر کو “سکھلایا” نہیں جاسکتا اور نہ سارے ارکان سے ایسی “توقع” رکھی جاسکتی ہے۔ لیکن فورم کے “با اختیار منتظمین” کی تو ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے دھاگوں کے عنوانات اور متن پر نظر رکھیں، جو کسی طور بھی ایک دینی فورم کے شایان شان نہیں۔
میرے بھایئو اور بہنوں . میری وجہ سے اگر کسی کو کوئی پریشانی اٹھانی پڑی تو میں معذرت چاہتا ہوں
آج سچ سچ کہنا چاہوں گا
میرا یہاں آنے کا مقصد کوئی لڑائی کرنا نہیں تھا
بلکہ قرآن اور صحیح احادیث پیش کرنا تھا .
اور
جو آج کل باطل فرقے پیدا ہوے ہیں
ان کے بارے میں عوام کو بتانا تھا
میں نے اپنا کام کر دیا ہے .
سمجھنے والے سمجھ چکے ہیں اور ناراض ہونے والے ناراض ھو چکے ہیں
لکن میرے لیے کوئی اہمیت نہیں کون ناراض ہوتا ہے اور کون راضی . اہمیت ہے تو صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ وسلم کے حکم کی
یہاں کچھ لوگوں اصل تکلیف یہ ہے کہ میں اختلافی پوسٹ کرتا ہوں -
کیا نماز کے بارے میں صحیح احادیث لگانا اختلافی پوسٹ ہے
کیا اللہ کے بارے میں صحیح احادیث لگا کر بتانا کہ اللہ اپنے عرش پر ہے اختلافی پوسٹ ہے
کیا مدت رضاعت دو سال ہے قرآن سے بتانا اختلافی پوسٹ ہے
نماز وتر کا طریقہ بتانا اختلافی پوسٹ ہے
کیا تقلید کے بارے میں لوگوں کو بتانا کہ یہ صحیح نہیں ہے اختلافی پوسٹ ہے
کیا دیوبند بریلویوں اور اہلحدیثوں نے کتابوں سے جو احادیث اپنے اپنے اماموں کو بچانے کی خاطر نکال دی ہیں اس کے بارے میں بتانا اختلافی پوسٹ ہے
کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ علم غائب صرف اللہ کے پاس ہے اختلافی پوسٹ ہے
کیا لوگوں کو بتانا کہ حضور صلی اللہ وسلم نے اللہ کو نہیں دیکھا کیا یہ اختلافی پوسٹ ہے
کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ سجدہ تلاوت واجب نہیں . جو کرتا ہے اس کو ثواب ملے گا اور جو نہیں کرتا اس کو کوئی گناہ نہیں
کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں اختلافی پوسٹ ہے
کیا لوگوں کو بتانا کہ حلالہ حرام ہے اختلافی پوسٹ ہے
کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ دیہاتوں اور بستیوں اور شہروں میں جمعہ کی نماز جائز ہے اختلافی پوسٹ ہے
کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ ننگے سر نماز پڑھنا بھی ثابت ہے اختلافی پوسٹ ہے
کیا لوگوں کو بتانا کہ قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھا کردعا مانگنا جائز ہے اختلافی پوسٹ ہے
کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ حضور صلی اللہ وسلم کا سایہ مبارک تھا اختلافی پوسٹ ہے
کیا لوگوں کو یہ بتانا کہ حضور صلی اللہ وسلم نور نہیں بلکہ بشر تھے اختلافی پوسٹ ہے
میرے بھایئو اگر یہ ا ختلافی پوسٹس ہیں تو پھر اسلام میں ان چیزوں کی کیا ضرورت ہے
یوسف ثانی صاحب نے پتا نہیں کیا سوچ کر کہ دیا کہ معزز اراکین باطل عقائد ،مسالک اور ان سے وابستہ شخصیات کے خلاف لکھتے ہوئے، ان پر تنقید کرتے ہوئے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں۔ انہیں کھلے عام گالیاں دیتے ہیں اور غیر مہذب الفاظ سے انہیں یاد کرتے ہیں۔ کیا یہی انداز بیان کی اسلام تعلیم دیتا ہے۔
لیکن شاہد یوسف ثانی صاحب کو میرا خیال ہے کہ پسند نہیں آیا کہ فقہ شریف کی گندگی اور غلاظت کو کیوں سب لوگوں کے سامنے ظاہر کیا گیا - لکن وہ یہ جانتے کہ سچائی کو نہیں چھپایا جا سکتا ہے
یوسف بھائی یہ بتا دیں کہ اگر یہ پوسٹس اختلافی ہیں
تو وہ پوسٹس کون سی ہیں جو اختلافی نہیں
عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
((لاتمنعوا نساء کم المساجد اذا استأذنتکم الیھا))
''
اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے مت روکو جب و ہ تم سے اجازت مانگیں تو بلال بن عبداﷲ رحمہ اﷲ نے کہا ۔(واﷲ لنمنعھن) ''اﷲ کی قسم ہم تو ان کو روکیں گے'' سالم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ
عبداﷲ بن عمررضی اﷲ عنہ ان کی طرف متوجہ ہوئے انہیں بہت برا بھلا کہا اتنا کہ میں نے انہیں کبھی ایسا کہتے نہیں سنا تھا اور پھر کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو کہہ رہا ہے کہ ہم روکیں گے؟''
بخاری ومسلم میں ہے کہ عبداﷲ بن مغفل رضی اﷲ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ کنکریاں مار رہا تھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے کنکریاں مارنے سے منع کیا ہے یا اسے ناپسند کیاہے اس لیے کہ اس سے نہ تو شکار کیا جاسکتا ہے نہ دشمن کو مارا جاسکتا ہے ۔سوائے اس کے کہ کسی کی آنکھ پھوڑی جائے یا دانت توڑ دیا جائے اس کے بعد دوبارہ اس شخص کو کنکریاں مارتے دیکھا تو عبداﷲ رضی اﷲعنہ نے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے بارے میں بتا رہا ہوں کہ وہ کنکریاں مارنے سے منع کرتے تھے یا ناپسند کرتے تھے اور تم پھر بھی کنکریاں مارہے ہو ۔میں تم سے اتنی مدت تک بات نہیں کروں گا۔
بخاری میں زبیر بن عربی رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہتے ہیں :ایک شخص نے ابن عمررضی اﷲ عنہ سے سوال کیا حجر اسود کو چھونے کا ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہا میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ اس کو ہاتھ لگاتے تھے اوربوسہ دیتے تھے اس شخص نے کہا اگر بھیڑ ہو اور مجھے موقع نہ مل سکے تو ابن عمررضی اﷲ عنہ نے کہا یہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو میں نے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے ابن حجر رحمہ اﷲ 'فتح الباری 'میں کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس کو یہ جو کہا کہ اگر مگر یمن میں ہی رکھو تو یہ اس لیے کہا کہ آپ رضی اﷲ عنہ کو اس شخص کی باتوں سے حدیث سے اعراض کا پتہ چل رہاتھا اس لیے ابن عمر رضی اﷲ عنہ نے اس بات کو ناپسند کیا اور اس شخص کو حکم دیا کہ جب حدیث سن لو تو اسے اپناؤ اور اپنی رائے کو چھوڑ دیا کرو ۔ابن عباس رضی اﷲعنہ نے ایک مرتبہ حدیث سنائی تو لوگوں نے ابوبکررضی اﷲ عنہ اورعمر رضی اﷲ عنہ کا قول اس حدیث کے خلاف پیش کردیا ۔ ابن عباس رضی اﷲ عنہ نے کہاکیا بات ہے کہ تم باز نہیں آتے جب تک کہ اﷲ تم پر عذاب نہ نازل کردے؟میں تمہیں رسول صلی اﷲعلیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تم ہمیں ابوبکر وعمر رضی اﷲ عنہما کی بات بتا رہے ہو؟
علامہ سلیمان بن عبداﷲ بن محمد بن عبدالوہاب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ جب ابن عباس رضی اﷲعنہ ابوبکروعمررضی اﷲ عنہما جیسے اشخاص کے قول کے بارے میں یہ فرمارہے ہیں تو پھر اس شخص کوکیا کہا جائے گا جو اپنے امام کے قول کی وجہ سے یا اپنے مذہب کی بناپر حدیث کو چھوڑ رہا ہو امام کے قول کو حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے پرکھنے کے لئے معیار بنارہا ہو جو حدیث امام کے قول کے موافق ہو اسے لے رہا ہو اور جو مخالف ہو اسے چھوڑ رہا ہو ؟ایسے شخص کے بارے میں ہم اﷲ کا یہ قول ہی پیش کرسکتے ہیں۔
اِتَّخَذُوْآ اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ
(التوبۃ:۳۱)
''ان لوگوں نے اپنے علماءاور درویشوں کو رب بنالیا ہے اﷲ کو چھوڑ کر''۔
(تیسیرالعزیزالحمید:۵ ۴۴،۵۴۵)
ابوالسائب رحمہ اﷲ فرماتے ہیں:کہ ہم ایک مرتبہ وکیع رحمہ اﷲ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ انہوں نے ایک آدمی کو مخاطب کرکے کہا (جو اہل الرائے میں سے تھا)کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے شعار کیا ہے(چھری یا کسی نوکدار چیز سے اونٹ یا قربانی کے جانور کو زخمی کرکے نشان لگانا کہ یہ بیت اﷲکے لئے وقف ہے)
اور ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ مثلہ ہے ؟(مثلہ کہتے ہیں جنگ میں دشمن کے کسی آدمی کے ہاتھ پاؤں، کان، ناک کاٹنا اس سے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع کیا ہے) اس شخص نے جواب میں کہا کہ ابراہیم نخعی رحمہ ا ﷲ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں شعار مُثلہ ہے ۔ابوالسائب رحمہ اﷲ کہتے ہیں میں نے دیکھا کہ وکیع رحمہ اﷲ کو سخت غصہ آیا اور اس شخص سے کہا کہ میں تمہیں رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا فرمان سنا رہا ہوں اور تم کہتے ہو کہ ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ نے کہا ہے ؟تم اس بات کے مستحق ہو کہ تمہیں اس وقت تک قید میں رکھا جائے جب تک تم اپنے اس قول سے رجوع نہ کرلو۔
(جامع الترمذی :۳/۲۵۰،والفقیہ والمتفقہ۱/۱۴۹)
آج کے دور میں بہت سے لوگ ہیں جو قید کیے جانے کے قابل ہیں ۔اس لیے کہ جب انہیں حدیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم سنائی جاتی ہے توکہتے ہیں کہ فلاں عالم نے اس طرح کہا ہے ،فلاں نے یہ فتوی دیا ہے۔یعنی ان کے نزدیک افراد ہی شریعت کے ماخذہیں ) جو لوگ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے پر افراد واشخاص کے اقوال پیش کرتے ہیں ان کو قید کردینا چاہئے جب تک کہ وہ اپنی روش سے توبہ نہ کرلیں ۔
ابویعلی رحمہ اﷲ نے( طبقات الحنابلہ :۱/۲۵۱) میں فضل بن زیاد رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے وہ امام احمد بن حنبل رحمہ اﷲ سے نقل کرتے ہیں کہ ابن ابی ذئب رحمہ اﷲ کو خبر ملی کہ امام مالک رحمہ اﷲ''البیعان بالخیار''والی حدیث نہیں لیتے ،تو ابن ابی ذئب رحمہ اﷲنے کہا کہ ان سے توبہ کروائی جائے اگر توبہ نہیں کرتے تو ان کی گردن کاٹ دی جائے (امام مالک رحمہ اﷲ نے حدیث رد نہیں کی تھی بلکہ ا س کی تاویل کرکے دوسرا مطلب لیتے تھے) سلف صالحین رحمہم اﷲ حدیث کی مخالفت کرنے والوں کی اس طرح مذمت کرتے تھے چاہے یہ مخالفت قیاس کی بناپر ہوتی یا استحسان واستصواب کے نام پر یا کسی عالم کے قول وفتوی کی وجہ سے ہوتی سلف رحمہم اللہ ایسے لوگوں سے ترک تعلق کرتے تھے جب تک کہ ایسے لوگ اپنے عمل سے رجوع نہ کرلیں ،حدیث کومکمل طور پر تسلیم کرکے اس کی پیروی نہ شروع کردیتے وہ اس شخص کو بھی ناپسند کرتے تھے جو اس بنا پر حدیث کو لیتے ہیں جب وہ قیاس کے موافق ہو یا کسی امام یا عالم کے قول وفتوی کے موافق ہووہ تو اﷲ کے اس فرمان پر عمل پیرا تھے
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ
(احزاب:۳۶)
''جب اﷲ اور اس کارسول (صلی اﷲ علیہ وسلم)کسی امر کا حکم دیں تو پھر کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کو اپنے معاملہ کا کوئی اختیارنہیں رہتا''۔
دوسری جگہ اﷲ کا ارشاد ہے ۔
فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لا يَجِدُوا فِي أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
(النساء:۶۵)
''تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتے ۔جب تک تجھے (اے محمد صلی اﷲعلیہ وسلم) اپنے تنازعات میں فیصل نہ مان لیں اور پھر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے فیصلے سے اپنے دلوں میں تنگی محسوس نہ کریں اسے مکمل طور پر تسلیم کرلیں''۔
مگر ہم اب ایسے دور میں جی رہے ہیں جب کسی سے کہاجاتا ہے کہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا ہے تو وہ کہتا ہے کس نے کہا ہے ؟یعنی یہ جاننا ہی نہیں چاہتا کہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کا قول ہے خود کو بے خبر رکھ کر حدیث کی مخالفت یا اس پر عمل نہ کرنے کا بہانہ تلاش کرتا ہے حالانکہ ایسے لوگ اگر اپنے آپ سے مخلص ہوں تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کا اس طرح انجان بن کر حدیث پر عمل نہ کرنا باطل کی طرف جاتا ہے ۔ اعلام الموقعین میں کسی عالم کا قول مذکور ہے جس نے کہا تھا کہ ہم حدیثِ رسول پر اس وقت تک عمل نہیں کریں گے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہوجائے کہ اس حدیث پر ہم سے پہلے کسی نے عمل کیا ہے اگر کسی کے پاس حدیث پہنچ گئی مگر اسے معلوم نہ تھا کہ اس پر کسی نے عمل کیا ہے (یا نہیں ) تو اس کے لئے حدیث پر عمل کرنا جائز نہیں ہے۔
(اعلام الموقعین :۴/۲۵۴،۲۴۴)
دو باتیں اگر کوئی شخص پہچان لے تو اس نے پورے دین کو پہچان لیا ۔ پورا دین اس کے پاس محفوظ ہوگیا ۔ ایک یہ کہ عبادت کس کی کرنی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے صرف اللہ تعالیٰ کی ، کسی حجر و شجر کی نہیں ، قبے اور مزار کی نہیں اور نہ ہی کسی نبی ، ولی اور فرشتے کی ۔ دوسرا یہ کہ کس طرح کرنی ہے ؟ جیسے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔ پس جو شخص ان دو باتوں کو پہچان لے اس نے سارے دین کو پہچان لیا اور یہ پورے دین کی اساس و بنیاد ہے ۔
اس لئے ہمیں اپنا عقیدہ ، عمل ، منہج ، معیشت و معاشرت ، سیاست سمیت دیگر تمام امور اللہ کے رسول کے طریقے کے مطابق بنانا ہوں گے تب اللہ رب العالمین انہیں شرف قبولیت سے نوازیں گے ۔ بصورت دیگر تمام اعمال ، عبادتیں اور ریاضتیں برباد ہو جائیں گی اور کسی عمل کا فائدہ نہ ہو گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
ھل اتاک حدیث الغاشیۃ وجوہ یومئذ خاشعۃ عاملۃ ناصبۃ تصلیٰ ناراً حامیۃ
( الغاشیۃ : 1-4 )
قیامت کے دن بہت سے چہرے ذلیل و رسوا ہونگے ۔ اس لئے نہیں کہ وہ عمل نہیں کرتے تھے ، محبت اور کوشش نہیں کرتے تھے بلکہ عمل کرتے تھے اور بہت زیادہ کرتے تھے عمل کرتے کرتے تھک جایا کرتے تھے لیکن یہ دھکتی ہوئی جہنم کی آگ کا لقمہ بن جائیں گے ۔ بے تحاشا عمل کرنے والے محنتیں اور ریاضتیں کرنے والے ، صبح و شام سفر کرنے والے جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے ۔ کیوں ! اس لئے کہ ان کا عمل اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کے مطابق نہ تھا ۔ قرآن و حدیث کے مطابق نہ تھا ۔ اگر عمل سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو اور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کو بلا جھجک اور بلا چوں و چراں تسلیم کر لیا جائے تو یہی کامیابی ہے اور یہی ایمان ہے ۔ دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمارے عقیدے ، عمل اور منہج کو کتاب و سنت کے مطابق بنا دے ۔ تا کہ ہم قرآن و حدیث کو ہی اپنا مرکز اطاعت ٹھہرا لیں ۔
( آمین )
وصلی اللہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وعلیٰ اٰلہ وصحبہ اجمعین ۔
میں آخر میں فقہ حنفی شریف والوں سے صرف یہ پوچھوں گا کہ
آپ سے گزارش ہے کہ درج سوالوں کے دوٹوک جواب میں آپ اپنا موقف بیان کیجئے!
انتہائی آسان الفاظ میں یہ کہ کیا آپ کے نزدیک مدتِ رضاعت کے متعلّق امام ابو حنیفہ کا اڑھائی سال والا موقف راجح ہے یا جمہور کا قرآن وحدیث کے آج موجود صحیح وصریح دلائل کی بناء پر دو سال والا؟؟؟!!!
كيا آپ کے نزدیک نمازِ استسقاء کے متعلّق امام ابو حنیفہ کا فتوائے بدعت راجح ہے یا آج موجود صحیح وصریح نصوص کی بناء پر جمہور کا فتویٰ کہ وہ سنت ہے؟؟!!
کیا آپ کے نزدیک امام ابو حنیفہ کا فتویٰ کہ مرتد خاتوں کی سزا قتل نہیں ہے راجح ہے یا جمہور کا آج موجود صحیح وصریح احادیث مبارکہ کی بناء پر فتویٰ کہ اس کی سزا بھی مرد مرتد کی طرح قتل ہے؟؟!!