• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زباں بگڑی سو بگڑی، خبر لیجئے دہن بگڑا

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
شکر ہے کہ آپ نے مانا تو سہی کہ​
مختلف مسالک کی فقہی کتب میں اگر فحش الفاظ اور متن موجود ہیں (اور یقیناً موجود ہیں)​
میں نے کب اور کہاں اس “حقیقت” سے انکار کیا ہے؟ یا تو آپ “میری تحریروں” سے واقف نہیں ہیں یا پھر “دیگر احباب” کے ساتھ مجھے زبردستی نتھی کرنا چاہتے ہیں۔

آپ کے دیگر جوابات اس قابل نہیں ہیں کہ میں اُن کا جواب دے سکوں۔ میں نے ایک گزارش کی تھی کہ ایک دینی اوپن فورم میں جہاں مائیں اور بہنیں بھی دین سیکھنے سکھلانے آتی ہوں، وہاں انہیں گالیاں اور فحش جملے بار بار پڑھنے کو ملیں، یہ ایک نامناسب بات ہے۔ لیکن اگر آپ کو ایسا کرنا “مناسب” لگتا ہے تو آپ جانیں اور منتظمین فورم۔
مانو نہ مانو جان جہاں، اختیار ہے​
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں​
 

حافظ عمران الہی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 09، 2013
پیغامات
2,100
ری ایکشن اسکور
1,460
پوائنٹ
344
ideal_man بھائی آپ نے صحیح کہا
یہاں مجھے کچھ ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ قوانین کا اطلاق صرف مخالفین پر ہے ایک مخصوص مسلک کے افراد کے لئیے کوئی قانون نہیں ، جس کی وجہ سے میری اس فورم سے دلچسپی آج کل انتہائی کم ہو گئی ہے
میں آج کل کسی اور علمی فورم کی تلاش میں ہوں جہاں کم از کم گفتگو کا اسلامی ماحول ہو
ایسے فورم کے بارے ہمیں ضرور بایے گا تا کہ ہم بھی اس استفادہ کریں
 

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
پیارے بھائی !
دین کے لیے اخلاص کے ساتھ کی گئی اللہ تعالی آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے اور ان میں مزید ترقی عطا کرے ۔
پہلی گزارش :
بھائی اگر آپ سمجھتے ہیں کہ دین کی تبلیغ میں اور احقاق حق اور ابطال باطل میں لوگ آپ کا ساتھ نہیں دیتے یا آپ کے طریقے کوپسند نہیں کرتے تو آپ ذرا یہ تصور کریں کہ انبیاء و رسل کو کتنی تکلیفیں آئیں اور اس کے بعد سلف صالحین نے کتنی پریشانیاں اٹھائیں ۔ کیا ہر کوئی ان کی آواز پر لبیک کہنے والا تھا ہر شخص ان کی تائید کرتا تھا ۔ کیا انہوں نے اس صورت حال سے دل برداشتہ ہو کر دین کی تبلیغ چھوڑ دی تھی ؟
دوسری گزارش :
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دعا اللہم ارنا الحق حقا و ارزقنا اتباعہ اس دور میں سکھائی تھی جو ہمارے اس دور سے لاکھوں درجے بہتر تھا اور ان لوگوں کی سکھائی تھی جن کے ذہن ہم سے کسی درجہ پاک صاف اور رسا تھے ۔ لہذا ہم اس دور میں اس دعا کے اور بھی زیادہ محتاج ہیں ۔ اللہ سے سیدھی راہ کا سوال کرتے رہنا چاہیے ۔
جس بات کو آپ حق سمجھتے ہیں اور آپ کو یہ بھی علم ہے کہ قابل اعتماد علماء ( سب کا ہونا ضروری نہیں ) کا بھی یہی موقف ہے تو پھر قرآن وسنت کے دلائل کی بنیاد پر اس بات کو ضرور پھیلائیں چاہے کسی کو پسند ہے یا نہیں ۔
تیسری گزارش :
حق بات کی تبلیغ میں آپ کسی قسم کی کوئی مداہنت نہ کریں اور نہ ہی کرنی چاہیے لیکن حق پھیلانے کا طریقہ اور باطل کے رد کا طریقہ کیسا ہونا چاہیے اس پر خوب غور و فکر کرکے کوئی قدم اٹھانا چاہیے کیونکہ عین ممکن ہے کہ کوئی حق بات ہمارے ابلاغ کے غلط طریقہ کار کی وجہ سے رد کردی جائے ۔ یا کوئی آپ کسی کی کوئی غلط بات کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کو پیش کرنے میں کوئی غیر مناسب رویہ شامل ہونے کی وجہ سے آپ کے رویہ کے رد عمل میں اس کو حق سمجھنا شروع کردے یا کم از کم اس کو غلط ماننے کے لیے تیار نہ ہو ۔
چوتھی گزارش :
عام طور پر یہ ہوتا ہے ہم جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس کے دلائل پیش کرنے میں یا جس بات کو غلط سمجھتے ہیں اس کے خلاف دلائل پیش کرنے یا تبصرہ کرنے میں مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں تو اس طرح صواب کی راہ ہم سے گم ہوجاتی ہے ۔
مثال کے طور نماز کا کوئی ایک مسئلہ ہے جو نبی کریم صلی اللہ کی سنت ہے لیکن علماء کے نزدیک اگر کسی نے وہ نہ کیا (تو اس کی نماز میں کمی آجائے گی ) لیکن نماز بہر صورت ہو جائے گی ۔
اس طرح کی صورت حال میں کیا یہ کافی نہیں کہ ہم کہیں کہ فلاں شخص کی نماز سنت کے مطابق نہیں ہوئی ؟ (یہ بھی اگر دیکھا جائے تو کوئی کم سزا نہیں ) لیکن ہم کوشش کرکے جیسے تیسے یہ حکم لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ جناب اس کی نماز ہی نہیں ہوئی ۔ بس پھر دیکھا دیکھی دونوں گروپ انتہاؤں تک پہنچ جاتے ہیں ایک کہتا ہے اگر یہ کام نہ کریں تونمازنہیں ہوتی دوسرا کہتا ہے کہ اگر یہ کرلیں تو نماز نہیں ہوتی ۔ اور دونوں میں سے حق پر کوئی بھی نہیں ۔
اختلافی مسائل میں وسعت ظرفی سے کام لینا چاہیے خاص کر اس وقت جب دونوں طرف علماء ہوں ۔ بعض لوگ وسعت ظرفی یہ سمجھ لیتے ہیں جو مرضی کر لو ٹھیک ہے ۔ لیکن میرے نزدیک یہ موقف درست نہیں بلکہ وسعت ظرفی سے مراد یہ ہے کہ اپنے موقف کے دلائل دیکھنے کے ساتھ ساتھ انصاف کے ساتھ فریق مخالف کے دلائل کو بھی دیکھیں اور اختلافی مسئلے میں آپ جس بات کو حق سمجھتے ہیں اس پر خود پابند رہیں اس کو نہ چھوڑیں لیکن جو آپ کا مخالف ہے اس پر تبصرہ کرنے میں ذرا نرمی رکھیں آپ نے حق پہنچا دیا آپ کی ذمہ داری پوری ہوگئی لیست علیہم بمصیطر ۔
سنت نبوی یہ ہے کہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ جن کو تبلیغ کر لی ہے یا کرنی ہے ان کی ہدایت کے لیے صدق دل سے دعا کی جائے ۔
پانچویں گزارش :
تنقید سننے کا صرف حوصلہ ہی نہیں بلکہ خواہش رکھیں اور وہ بھی خاص کر اس وقت جب آپ سے زیادہ علم و تجریہ والے لوگ موجود ہوں ۔ کیونکہ یہ تو اللہ کی آپ کے لیے نعمت ہے کہ آپ کو اپنی اصلاح اور تطور کا موقعہ ملتا ہے ۔ آپ تصور کریں کہ اگر ہر کوئی آپ کی ہاں میں ہاں ملائے اور شروع دن سے آپ کو کامل انسان کہے تو بظاہر اچھا تو شاید لگے گا لیکن ترقی اور بلندی کے راستے مسدود ہوجائیں گے ۔ کیونکہ نہ آپ کو آپ کی غلطی کا احساس ہوگا اور نہ آپ کو ٹھیک کرنے کا خیال آئے گا ۔ ایک سعودی عالم دین ہیں ان پر بہت سارے لوگ تنقید کرتے تھے توانہوں نے اس موضوع پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی اور کتاب کا عنوان تھا کہ : ’’میں اپنے سے عداوت رکھنے والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں ‘‘
بلکہ آخر میں جا کر کہا کہ یہی ناقدین در حقیقت میرے دوست ہیں جو میرے حقیقی شکریے کے مستحق ہیں ۔
ہاں بعض لوگ بے جا تنقید کرنے کے عادی ہوتے ہیں ایسے لوگوں کےساتھ احسن طریقے سے پیش آنا چاہیے اور ان کی بات کو سن لینا چاہیے ۔
میں سمجھتا ہوں ایسے مریضوں کے ساتھ یہ بہت بڑی نیکی ہوتی ہے البتہ ان کی اچھے انداز میں اصلاح کی کوشش کرتے رہنا چاہیے ۔
مسجد نبوی میں اردو میں دروس ہوتے ہیں جن میں اہل شرک و بدعت کے تمام فرقوں پر خوب مدلل اور حکیمانہ انداز میں گفتگو ہوتی ہے ۔ اور پھر اگرچہ سوال جواب کی کھلی اجازت ہوتی ہے لیکن پھر کچھ لوگ بیچارے اپنا غبار خاطر نکالنے میں ناکام رہتےہیں اس وجہ سے بہت پریشان نظر آتے ہیں ۔ چنانچہ ہم بعض ساتھی ان کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور ان سے کہتے کہ بھائی آپ ہمیں اپنا موقف بتاؤ ہم کوشش کریں گے کہ آپ کی بات شیخ صاحب تک پہنچا دی جائے ۔ تو کئی لوگ ایسے ہیں جو پھٹ پڑتے ہیں لیکن جب چند لمحے ان کی بات کو بلا روک ٹوک سن لیا جائے تو کافی ہلکے ہلکے محسوس ہونے لگتے ہیں ۔

معذرت کے ساتھ کہ باتیں ذرا لمبی ہوگئیں یہ کسی ایک فرد کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ اس طرح کی چیزیں تو ہم سب کے لیے اپنی ہی زبان سے خود کو نصیحت ہوتی ہے جس کا ذریعہ ہم خود ہی باری باری بنتے رہتے ہیں ۔
متفق
بہت زبردست بھائی۔۔۔۔۔بہترین اسلوب کے ساتھ سمجھایا آپ نے،
اللہ ہم سب کو ہدایت کے راستے پر رکھے،آمین
 
Top