• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زبیر علی زئی اور امین صفدر اوکاڑوی

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
اشماریہ صاحب "ترقی" مبارک ہو.....
وہ آپ لوگوں میں جو سات- آٹھ درجے ہوتے ہیں تقلید کے، ان میں کہاں تک پہنچ گئے آپ؟
کیوں آپ کو میری دعوت کرنی ہے؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ایک رسالہ میں اس کا الزام پرنٹنگ پریس کے سر ڈال دیا اس کا حوالہ یا اسکین چاہیے۔
یہ عبد اللہ صفدر اکاڑوی، نے ایک بار پیش کیا تھا، یہ جامعہ بنوریہ میں ہوتے ہیں، مجھے اس گفتگو کا رکارڈ مل گیا تو ان شاء اللہ جلد مل جائے گا! وگرنہ میں دوبارہ ان سے رابطہ کرتا ہوں!
 

ابو عبدالله

مشہور رکن
شمولیت
نومبر 28، 2011
پیغامات
723
ری ایکشن اسکور
448
پوائنٹ
135
کیوں آپ کو میری دعوت کرنی ہے؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حضرت کسی بھی وقت اندرون سندھ تشریف لے آئیں، آپ کے شایانِ شان دعوت بھی کردیں گے۔ ان شاء اللہ
اگر کہیں تو کراچی آکر آپ کی دعوت کردیں، اگلے دو-چار دن تک شاید کراچی کا پروگرام بن جائے۔

لیکن سوال کا جواب تو دے دیں۔۔۔۔۔ ابتسامہ
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
حضرت کسی بھی وقت اندرون سندھ تشریف لے آئیں، آپ کے شایانِ شان دعوت بھی کردیں گے۔ ان شاء اللہ
اگر کہیں تو کراچی آکر آپ کی دعوت کردیں، اگلے دو-چار دن تک شاید کراچی کا پروگرام بن جائے۔

لیکن سوال کا جواب تو دے دیں۔۔۔۔۔ ابتسامہ
نہیں بھائی جان بارک اللہ۔
البتہ جب کراچی کا پروگرام بنے تو مجھے ضرور بتائیے گا۔ میری طرف سے طعام کی دعوت ہے۔

باقی جو آپ نے سوال پوچھا ہے اس کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ سیدھی بات ہے کہ میں جامد مقلد نہیں ہوں۔ جہاں ضرورت پڑتی ہے وہاں تحقیق کرتا ہوں اور اللہ پاک کا کرم ہے کہ کچھ نہ کچھ اصول حدیث، حدیث، فقہ اور اصول فقہ پر نظر بھی ہے اس وجہ سے تحقیق کر لیتا ہوں۔ البتہ ایک تو میں ابھی باقاعدہ طالب علم ہوں۔ میرا سیکھنے کا زمانہ ہے اور مجھے زیادہ تجربہ حاصل نہیں ہے۔ دوسرا میں نے ابھی تک کوئی ایسا علمی کام نہیں کیا جسے باقاعدہ شائع کیا جائے اور جسے باقاعدہ تحقیقی مقالہ کا نام دیا جائے (ایک دو مسائل پر تحقیق ضرور کی ہے لیکن باقاعدہ مقالے یا مضمون نہیں لکھے)۔
پھر مزید یہ کہ یہ القاب ہوتے ہیں جو انسان خود اختیار نہیں کرتا بلکہ دوسرے لوگ اس کے کام کا طرز اور اس کی فکر کی پہنچ دیکھ کر اسے دیتے ہیں۔
ویسے بھی اب ان القاب کے دینے اور ان پر غور و فکر کرنے کا رواج نہیں رہا ہے۔ نہ حدیث میں اور نہ فقہ میں۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مجموعہ رسائل صفحہ 350 حصہ سوم – امین صفدر اکاڑوی – نعمان اکیڈمی، گوجرانوالہ
اس کا اعکس آپ نے اوپر تھریڈ میں ملاحظہ فرمایا،
دوسرا اسے اس کتاب میں بھی شائع کیا گیا: بلکہ یہی اصل کتاب ہے ۔
ملاحظہ فرائیں: صفحہ 37 - 38 غیر مقلدین کی غیر مستند نماز – امیں صفدر اکاڑوی
یہی بات تجلیات صفدر میں بھی موجود ہے؛
ملاحظہ فرمائیں: 487 – 488 جلد 05 تجلیات صفدر – امین صفدر اکاڑوی – مکتبہ امدادیہ، ملتان
اب یہ ایک معمہ ہے کہ اسی مکتبہ امدایہ کی اسی اشاعت میں جو مکتبہ امدادیہ ، ملتان سے چھپا ہے، ایک جلد قبل یعنی چوتھی جلد میں درج ہے:

گستاخ رسول:
احقر نے دس سال پہلے اہل رسالہ شائع کیا تھا جس میں 260 باتیں نماز کے بارے میں ان غیر مقلدین سے پوچھی تھیں۔ اس لا نام ہی غیر مقلدین کی غیر مستند نماز ہے۔ آج تک غیر مقلدوں پر اس کے جواب میں سکوت مرگ طاری ہے۔ اس رسالے نے غیر مقلدین کے اس جھوٹ کا پول کھول دیا کہ غیر مقلدین کی نماز کے مکمل احکام اور ترتیب صرف قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ البتہ مجموعہ رسائل میں کچھ کاتب کی غلطیاں تھیں۔ ناشر نے یہ ضروری اعلان لگا دیا کہ اگر رسائل میں کوئی غلطی ہو وہ غلطی مرتب کی ہی کوتاہی سمجھیں نہ کہ حضرت مولانا محمد امین اکاڑوی کی (مجموعہ رسائل جلد سوم ص 4) اس رسالہ میں کچھ اعتراضات اہل حدیث کے بڑے بھائیوں اہل قرآن کی طرف سے نقل کئے گئے تھے جن کا جواب نام نہاد اہل حدیث پر فرض تھا۔ مثلاً ص 197 پر ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گدھا سامنے سے گزرے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے (مسلم ص 197، ج 1) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی جبکہ سب کے سامنے گدھی چر رہی تھی (مسلم ص 196، ج 1 ) ابو داؤد، نسائی) بلکہ آپ نے گدھے پر نماز ادا فرمائی۔ یہ قول و فعل کا تضاد کیوں ہے (اس کا جواب اب تک غیر مقلدین نہیں دے سکے) ص 198 پر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کتا سامنے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ( مسلم ص 197 ج1) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے رہے اور کتیا سامنے کھیلتی رہی اور گدھی بھی چرتی رہی۔ اہل قرآن اہل حدیث سے یہ پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ سامنے چرنے والا گدھا نہیں گدھی ہے اور کھیلنے والا کتا نہیں کتیا ہے۔ یہ امتیاز شرمگاہ پر نظر پڑنے سے ہوتا ہے یا اس کے بغیر؟ اگر چرمگاہ پر نظر پڑنے سے ہی یہ امتیاز ہوتا ہے تو اس نظر پڑنے سے نماز لوٹائی نہیں گئی۔ کیا آپ کے نزدیک شرمگاہ پر نظر پڑنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے یا نہیں؟ اہل قرآن نام نہاد اہل حدیث سے یہ سوال پوچھتے ہیں۔ وہ آج تک جواب نہیں دے سکے کہ یہ امتیاز کہ وہ گدھا نہیں تھا گدھی تھی اور کتا نہیں تھا کتیا تھی کیسے ہوا تھا۔ جن کی نظر دونوں کی شرمگاہوں پر پڑی ان کی نماز کا کیا حکم ہے؟ کاتب نے درمیان سے کچھ عبارت گلطی سے چھوڑ دی۔ اب اپنی نماز ثابت تو نہیں کرسکے نہ اہل قرآن کے اعتراضات کا جواب دے سکے، مجے گستاخ رسول کہنے لگے۔ حالانکہ کئی سالوں سے میں نے ناشرین سے کہہ دیا تھا کہ صفحہ نمبر 198 کی آخری آدھی سطر حذف کر دیں۔ کیونکہ اس کو بہانہ بنا کر وہ کتاب کا جواب دینے سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ لیکن ناشر نے توجہ نہ دی۔ اب یہ رسائل دوسرے ناشر کو دیئے جا ررہے ہیں۔ وہ اغلاط کی تصحیح کے بعد شائع کرے گا۔
ملاحظہ فرمائیں: 487 – 488 جلد 05 تجلیات صفدر – امین صفدر اکاڑوی – مکتبہ امدادیہ، ملتان

اول : ان کتب میں اس عبارت کے آگے پیچھے دیکھ کر بتلا دیجئے کہ واقعی یہ نام نہاد اہل قرآن کی جانب سے کئے گئے اعتراض ہيں؟
دوم: کہ ان نام نہاد اہل قرآن کی خوب وکالات کی ہے امین صفدر اکاڑوی صاحب نے۔ اور حقیقت یہی ہے، کہ امین صفدر اکاڑوی نے ان نام نہاد اہل قرآن یعنی منکرین حدیث کو ہی تقویت پہنچانے والے کام کئے ہیں!
سوم: ہم نے جس بات کو اٹکل پچّو قرار دیا تھا، اسے کاتب اور نام نہاد اہل قرآن یعنی منکرین حدیث کے سر ڈال کر امین صفدر اکاروی صاحب نے خود اس کا اٹکل پچّو ہونا تسلیم کرلیا ہے، لیکن اس بارے میں حجت بازی ہے کہ یہ ان کی اٹکل کا کارنامہ تھا!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
تقلید کے یہ درجات در اصل انسان کی صلاحیت کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ اور یہ صرف ہم (یعنی احناف) میں نہیں ہوتے بلکہ دیگر علماء نے بھی ان کا تذکرہ کیا ہے جیسے علامہ ذہبیؒ نے ایک جگہ الگ سے اجتہاد مقید کا ذکر کیا ہے جس کا حوالہ ہو سکتا ہے آگے چل کر اس تھریڈ میں جس میں میری اور ابن داود بھائی کی بات ہورہی ہے آ جائے۔
ایک شخص کے پاس ایسی کامل صلاحیت ہو کہ وہ قرآن و حدیث سے براہ راست استنباط کرسکے اور وہ اس کے لیے اپنے بنائے ہوئے اصولوں پر چلے تو اسے مجتہد مطلق کہتے ہیں۔ لیکن ظاہر ہے ہر شخص اتنی صلاحیت نہیں رکھتا۔ پھر جو شخص کسی مجتہد مطلق کے اصولوں سے متاثر ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ یہ اصول بالکل ٹھیک ہیں اور وہ ان پر چلتے ہوئے قرآن و حدیث سے براہ راست مسائل اخذ کرے اور مجتہد مطلق سے اختلاف بھی کرے تو اسے مجتہد فی المذہب (ابن عابدینؒ کی رائے میں) یا مجتہد منتسب (شاہ ولی اللہؒ اور غالبا نوویؒ کی رائے میں) کہتے ہیں۔ اس طرح جس میں اس سے کم صلاحیت ہو اس کے لیے الگ نام ہے اور اس سے کم والے کے لیے الگ۔
حتی کہ آخر میں جا کر ایک درجہ ایسے لوگوں کا آتا ہے جن کا کام بس کتابوں سے دیکھ کر فتوی بتانا ہوتا ہے۔ وہ دراصل ان کا اپنا فتوی تو ہوتا ہی نہیں ہے بلکہ وہ کسی مجتہد کا یا کسی عالم کا فتوی نقل کر رہے ہوتے ہیں تو انہیں مقلدین محض میں شامل کیا جاتا ہے۔
یہ اسی طرح ہے جیسے امام مالک بھی محدث ہیں، امام ابن ابی شیبہ بھی اور خطیب بغدادی بھی۔ لیکن ان کے درجات الگ الگ ہیں ان کی صلاحیتوں کی وجہ سے۔ تو یہ ہر فن میں ہوتا ہے۔
سائنس میں آپ دیکھ لیں۔ گلیلو گلیلی بھی گزرا ہے، تھامس الوا ایڈیسن بھی اور آئن اسٹائن بھی۔ لیکن گلیلی نے صرف دوربین ایجاد کی، ایڈیسن نے اٹھتر ایجادات کیں اور آئن اسٹائن نے ایٹم بم کا عجیب و غریب اور پیچیدہ فارمولا دیا۔ تو یہ صلاحیتوں کا فرق ہر جگہ ہوتا ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
مجموعہ رسائل صفحہ 350 حصہ سوم – امین صفدر اکاڑوی – نعمان اکیڈمی، گوجرانوالہ
اس کا اعکس آپ نے اوپر تھریڈ میں ملاحظہ فرمایا،
دوسرا اسے اس کتاب میں بھی شائع کیا گیا: بلکہ یہی اصل کتاب ہے ۔
ملاحظہ فرائیں: صفحہ 37 - 38 غیر مقلدین کی غیر مستند نماز – امیں صفدر اکاڑوی
یہی بات تجلیات صفدر میں بھی موجود ہے؛
ملاحظہ فرمائیں: 487 – 488 جلد 05 تجلیات صفدر – امین صفدر اکاڑوی – مکتبہ امدادیہ، ملتان
اب یہ ایک معمہ ہے کہ اسی مکتبہ امدایہ کی اسی اشاعت میں جو مکتبہ امدادیہ ، ملتان سے چھپا ہے، ایک جلد قبل یعنی چوتھی جلد میں درج ہے:

گستاخ رسول:
احقر نے دس سال پہلے اہل رسالہ شائع کیا تھا جس میں 260 باتیں نماز کے بارے میں ان غیر مقلدین سے پوچھی تھیں۔ اس لا نام ہی غیر مقلدین کی غیر مستند نماز ہے۔ آج تک غیر مقلدوں پر اس کے جواب میں سکوت مرگ طاری ہے۔ اس رسالے نے غیر مقلدین کے اس جھوٹ کا پول کھول دیا کہ غیر مقلدین کی نماز کے مکمل احکام اور ترتیب صرف قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ البتہ مجموعہ رسائل میں کچھ کاتب کی غلطیاں تھیں۔ ناشر نے یہ ضروری اعلان لگا دیا کہ اگر رسائل میں کوئی غلطی ہو وہ غلطی مرتب کی ہی کوتاہی سمجھیں نہ کہ حضرت مولانا محمد امین اکاڑوی کی (مجموعہ رسائل جلد سوم ص 4) اس رسالہ میں کچھ اعتراضات اہل حدیث کے بڑے بھائیوں اہل قرآن کی طرف سے نقل کئے گئے تھے جن کا جواب نام نہاد اہل حدیث پر فرض تھا۔ مثلاً ص 197 پر ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ گدھا سامنے سے گزرے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے (مسلم ص 197، ج 1) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز بڑھائی جبکہ سب کے سامنے گدھی چر رہی تھی (مسلم ص 196، ج 1 ) ابو داؤد، نسائی) بلکہ آپ نے گدھے پر نماز ادا فرمائی۔ یہ قول و فعل کا تضاد کیوں ہے (اس کا جواب اب تک غیر مقلدین نہیں دے سکے) ص 198 پر ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کتا سامنے سے گزر جائے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے ( مسلم ص 197 ج1) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے رہے اور کتیا سامنے کھیلتی رہی اور گدھی بھی چرتی رہی۔ اہل قرآن اہل حدیث سے یہ پوچھتے ہیں کہ یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ سامنے چرنے والا گدھا نہیں گدھی ہے اور کھیلنے والا کتا نہیں کتیا ہے۔ یہ امتیاز شرمگاہ پر نظر پڑنے سے ہوتا ہے یا اس کے بغیر؟ اگر چرمگاہ پر نظر پڑنے سے ہی یہ امتیاز ہوتا ہے تو اس نظر پڑنے سے نماز لوٹائی نہیں گئی۔ کیا آپ کے نزدیک شرمگاہ پر نظر پڑنے سے نماز ٹوٹ جاتی ہے یا نہیں؟ اہل قرآن نام نہاد اہل حدیث سے یہ سوال پوچھتے ہیں۔ وہ آج تک جواب نہیں دے سکے کہ یہ امتیاز کہ وہ گدھا نہیں تھا گدھی تھی اور کتا نہیں تھا کتیا تھی کیسے ہوا تھا۔ جن کی نظر دونوں کی شرمگاہوں پر پڑی ان کی نماز کا کیا حکم ہے؟ کاتب نے درمیان سے کچھ عبارت گلطی سے چھوڑ دی۔ اب اپنی نماز ثابت تو نہیں کرسکے نہ اہل قرآن کے اعتراضات کا جواب دے سکے، مجے گستاخ رسول کہنے لگے۔ حالانکہ کئی سالوں سے میں نے ناشرین سے کہہ دیا تھا کہ صفحہ نمبر 198 کی آخری آدھی سطر حذف کر دیں۔ کیونکہ اس کو بہانہ بنا کر وہ کتاب کا جواب دینے سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں۔ لیکن ناشر نے توجہ نہ دی۔ اب یہ رسائل دوسرے ناشر کو دیئے جا ررہے ہیں۔ وہ اغلاط کی تصحیح کے بعد شائع کرے گا۔
ملاحظہ فرمائیں: 487 – 488 جلد 05 تجلیات صفدر – امین صفدر اکاڑوی – مکتبہ امدادیہ، ملتان

اول : ان کتب میں اس عبارت کے آگے پیچھے دیکھ کر بتلا دیجئے کہ واقعی یہ نام نہاد اہل قرآن کی جانب سے کئے گئے اعتراض ہيں؟
دوم: کہ ان نام نہاد اہل قرآن کی خوب وکالات کی ہے امین صفدر اکاڑوی صاحب نے۔ اور حقیقت یہی ہے، کہ امین صفدر اکاڑوی نے ان نام نہاد اہل قرآن یعنی منکرین حدیث کو ہی تقویت پہنچانے والے کام کئے ہیں!
سوم: ہم نے جس بات کو اٹکل پچّو قرار دیا تھا، اسے کاتب اور نام نہاد اہل قرآن یعنی منکرین حدیث کے سر ڈال کر امین صفدر اکاروی صاحب نے خود اس کا اٹکل پچّو ہونا تسلیم کرلیا ہے، لیکن اس بارے میں حجت بازی ہے کہ یہ ان کی اٹکل کا کارنامہ تھا!
اب ذرا ایک بات بتائیے کہ اگر قائل خود اپنے قول کی وضاحت کردے کہ اس قول کا یہ مطلب تھا اور فلاں غلطی فلاں وجہ سے ہوئی ہے تو کیا اس کی بات قبول نہیں ہونی چاہیے؟
قائل میں مقلد و غیر مقلد کی تفریق کیے بغیر یہ بتائیے گا۔
(کیوں کہ اس طرح تو کافی حوالہ جات ہیں جہاں شیخ زبیر علی زئیؒ نے ایک حدیث کو ایک جگہ کچھ کہا اور دوسری جگہ کچھ بغیر کسی وجہ کے بتائے۔ اسی طرح البانیؒ کے بھی اسی طرح کافی اقوال ہیں۔ میں نے قائل کے اپنے قول کے بدلنے کو رجوع سمجھا ہے کہ پہلے فلاں موقف تھا اور بعد میں موقف تبدیل ہو گیا ہوگا کسی دلیل کی وجہ سے۔ لیکن اگر ہم قائل کے اپنے قول کو نہ مانیں دوسرے قول کے بارے میں تو وہ سارے تضادات بن جائیں گے۔)
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وضاحت کا سر پیر ہو بالکل قبول کیا جانا چاہئے،
اور رجوع بالکل قبول کیا جانا چاہئے!
لیکن کبھی یہ معاملہ بھی ہوتا ہے کہ عذر گناہ بد تر از گناہ بھی ہوتا ہے!
اور یہ کام کہ احادیث کو ناقابل عمل قرار دینے کا تو امین اکاڑوی صاحب نے ہمیشہ کیا ہے!
آپ نے غالباً امین صفدر اکاڑوی صاحب تحریر و تقریر کو بغور نہیں دیکھا !
یہ جو صاحب نے ایک نعرہ لگایا تھا کہ سنت الگ چیز ہے اور حدیث الگ چیز، سنت حجت ہے اور حدیث حجت نہیں! خیر اس پر دار العلوم دیوبند کے ماہنامہ میں ایک تحریر چھپی تھی،
حجیت حدیث وسنت از: حبیب الرحمن اعظمی - ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 8 ، جلد: 94 شعبان - رمضان 1431 ھ مطابق اگست 2010 ء
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
وضاحت کا سر پیر ہو بالکل قبول کیا جانا چاہئے،
اور رجوع بالکل قبول کیا جانا چاہئے!
لیکن کبھی یہ معاملہ بھی ہوتا ہے کہ عذر گناہ بد تر از گناہ بھی ہوتا ہے!
اور یہ کام کہ احادیث کو ناقابل عمل قرار دینے کا تو امین اکاڑوی صاحب نے ہمیشہ کیا ہے!
آپ نے غالباً امین صفدر اکاڑوی صاحب تحریر و تقریر کو بغور نہیں دیکھا !
یہ جو صاحب نے ایک نعرہ لگایا تھا کہ سنت الگ چیز ہے اور حدیث الگ چیز، سنت حجت ہے اور حدیث حجت نہیں! خیر اس پر دار العلوم دیوبند کے ماہنامہ میں ایک تحریر چھپی تھی،
حجیت حدیث وسنت از: حبیب الرحمن اعظمی - ماہنامہ دارالعلوم ، شماره 8 ، جلد: 94 شعبان - رمضان 1431 ھ مطابق اگست 2010 ء
اگر معتدل نظر سے دیکھا جائے تو اس وضاحت کا واقعی سر پیر ہے۔ میں نے اگرچہ خود یہ کہا ہے کہ مسلکی معاملات میں یہ عبارات کو غیر مقام پر فٹ کرنے سے لے کر جرح و تعدیل میں بے اعتدالی تک کر جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود میں اس وضاحت کو قبول کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کچھ بھی کہہ لیں لیکن امین اوکاڑویؒ عقل رکھتے تھے اور ایک عاقل شخص ایسی فاش بے وقوفیاں نہیں کیا کرتا، خاص طور پر کتابت میں کیوں کہ بولنے میں تو بسا اوقات بات منہ سے نکل جاتی ہے لیکن کتاب پر ایک سے زائد بار نظر پڑتی ہے۔ یہ تو ایک عام ذہن والا شخص بھی سمجھتا ہے کہ ایسی صریح غلط بات اگر میں لکھوں گا تو مخالف فورا پکڑلے گا اور خصوصا تب تو لازمی پکڑ لے گا جب مخالف کی اس کتاب (مسلم) پر اکثر نظر رہتی ہو اور وہ اسے پڑھتا پڑھاتا بھی رہتا ہو۔ تو امین اوکاڑویؒ جیسے بندے سے اس بے وقوفی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اس لیے ان کی یہ وضاحت مان لینی چاہیے کہ اس عجیب غلطی کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہونا ضروری ہے۔
پھر میں نے ان کی تجلیات ایک بار خود پڑھی ہے اور کئی مقامات پر حوالہ جات اصل کتب سے بھی دیکھے ہیں۔ تو اس قسم کی حرکتیں میں نے اس میں نہیں دیکھیں۔ حالاں کہ اگر کسی شخص کی یہ عادت ہو تو اتنی بڑی سات جلدوں کی کتاب میں وہ بار بار دہراتا ہے۔ اس سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ اس گڑبڑ کی کوئی وجہ تھی۔

یہ جس نعرہ کا آپ نے کہا ہے مجھے اس کے بارے میں یاد نہیں نہ ہی دیوبند والی تحریر میں اس کی جانب کوئی اشارہ کیا گیا ہے۔ البتہ میں نے اوکاڑویؒ کی ایک تحریر پڑھی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا ایک ہی جملہ کو مختلف انداز سے ادا کیا جاتا ہے تو اس کا معنی الگ ہوجاتا ہے (اس کی انہوں نے مثالیں بھی دی تھیں)۔ حدیث میں اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ فلاں جملہ کس قسم کے ماحول میں اور کس انداز میں ارشاد ہوا ہے۔ اس لیے سنت یعنی عمل رسول ﷺ یا عمل صحابہ اور تابعین و سلف کو دیکھا جائے گا کہ اس سے حدیث کے کس معنی کی تشریح ہوتی ہے۔
اگر آپ کی مراد یہ بات ہے تو یہ عقل میں آنے والی بات ہے۔ لیکن مجھے اس بات سے کچھ اختلاف اور کچھ اتفاق ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
البتہ جو آپ نے ناقابل عمل قرار دینے کا کہا ہے تو میں اس میں ذرا اضافہ کرتا ہوں کہ بعض صحیح احادیث کو بھی امین صفدر اوکاڑویؒ ضعیف قرار دے جاتے ہیں مسلکی اختلاف کے وقت۔ اور ایسی خطرناک اور شاندار جرح ہوتی ہے کہ انسان کے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھ دیتی ہے۔ اب آپ دیکھیں ایک حدیث امام مالک روایت کریں اس میں کچھ مذکور ہو، پھر انہی سے حمیدی روایت کریں تو اس میں کچھ اضافہ ہو جائے (زیادتی ثقہ کا ذکر نہیں کر رہا) پھر ان سے بخاری روایت کریں تو اور اضافہ ہو جائے۔ اور ایک بندہ یہ تضادات سامنے رکھے تو انسان بے اختیار بخاری کی اس حدیث کو ضعیف قرار دیدے گا جس کی انتہاء اس کی ابتداء اور اساتذہ سے مختلف ہو۔
تو اس طرح مخالفین کی احادیث کو ضعیف اور اپنی کمزور ترین احادیث کو بھی بغیر ضعف کے اوکاڑویؒ بیان کر دیتے ہیں۔
 
Top