- شمولیت
- نومبر 08، 2011
- پیغامات
- 3,416
- ری ایکشن اسکور
- 2,733
- پوائنٹ
- 556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
قرآن و حدیث کی ان تصریحات کے مطابق حضرات صحابہ، تابعین، محدثین، فقہائے مجتہدین اور تمام علماء اہل سنت والجماعت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت اور اس کی تشریعی حیثیت پر بصیرت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں، اہل اسلام کے کسی گروہ، یا فرد نے جب کبھی بھی حدیث پاک کی اس شرعی حیثیت پر ردوقدح کی ہے تو اسے یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔
غرضیکہ علماء حق کا یہی جادئہ متوارثہ ہے۔ اپنے تمام اساتذہ کو بھی اسی موقف پر پایا، اور اب تک اس موضوع پر جن کتابوں کے مطالعہ کی توفیق ملی وہ تقریبا ایک درجن سے زائد ہیں ان میں صرف فرقہ قرآنیہ کے بعض مصنّفین کی دو ایک کتابوں کے علاوہ سب میں قابل قبول قوی دلائل کے ساتھ حجیت حدیث کے مذہب منصور کا اثبات اور تائید و توثیق کی گئی ہے۔ بایں ہمہ ایک ہم عصر مشہور فاضل نے جو اپنی وسیع علمی خدمات کی بناء پر اوساط علمیہ میں اعتبار واستحسان کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اپنی ایک تحریر میں اس بارے میں میرے علم کے مطابق سب سے الگ ایک جدید نقطئہ نظر پیش کیا ہے جو انھیں کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”حدیث اور سنت میں فرق (ہے) اور حجت سنت ہے حدیث نہیں“ زیر نظر تحریر میں اسی نقطئہ نظر کا اپنے علم و فہم کے مطابق جائزہ لیاگیا ہے۔
واللّٰہ ہو الملہم الصواب والسداد، وعلیہ التکلان والاعتماد.
ان شاء اللہ فرصت ملنے پر اس یہ بات بھی امین صفدر اکاڑوی کی تحریر یا کلام سے پیش کرتا ہوں،
یہ اس وضاحت کا سر پیر نہیں آپ کی عقیدت کا حسن ہے، سر پیر تو اس وقت ہو کہ آپ یہ دکھلاتے:اگر معتدل نظر سے دیکھا جائے تو اس وضاحت کا واقعی سر پیر ہے۔ میں نے اگرچہ خود یہ کہا ہے کہ مسلکی معاملات میں یہ عبارات کو غیر مقام پر فٹ کرنے سے لے کر جرح و تعدیل میں بے اعتدالی تک کر جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود میں اس وضاحت کو قبول کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کچھ بھی کہہ لیں لیکن امین اوکاڑویؒ عقل رکھتے تھے اور ایک عاقل شخص ایسی فاش بے وقوفیاں نہیں کیا کرتا، خاص طور پر کتابت میں کیوں کہ بولنے میں تو بسا اوقات بات منہ سے نکل جاتی ہے لیکن کتاب پر ایک سے زائد بار نظر پڑتی ہے۔ یہ تو ایک عام ذہن والا شخص بھی سمجھتا ہے کہ ایسی صریح غلط بات اگر میں لکھوں گا تو مخالف فورا پکڑلے گا اور خصوصا تب تو لازمی پکڑ لے گا جب مخالف کی اس کتاب (مسلم) پر اکثر نظر رہتی ہو اور وہ اسے پڑھتا پڑھاتا بھی رہتا ہو۔ تو امین اوکاڑویؒ جیسے بندے سے اس بے وقوفی کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔ اس لیے ان کی یہ وضاحت مان لینی چاہیے کہ اس عجیب غلطی کے پیچھے کچھ نہ کچھ ہونا ضروری ہے۔
پھر میں نے ان کی تجلیات ایک بار خود پڑھی ہے اور کئی مقامات پر حوالہ جات اصل کتب سے بھی دیکھے ہیں۔ تو اس قسم کی حرکتیں میں نے اس میں نہیں دیکھیں۔ حالاں کہ اگر کسی شخص کی یہ عادت ہو تو اتنی بڑی سات جلدوں کی کتاب میں وہ بار بار دہراتا ہے۔ اس سے بھی یہ پتا چلتا ہے کہ اس گڑبڑ کی کوئی وجہ تھی۔
اور یہ کام تو امین صفدر اکاڑوی صاحب کی بہت جگہ نظر آتا ہے۔اول : ان کتب میں اس عبارت کے آگے پیچھے دیکھ کر بتلا دیجئے کہ واقعی یہ نام نہاد اہل قرآن کی جانب سے کئے گئے اعتراض ہيں؟
(الف) قرآن ہی کی طرح احادیث بھی منجانب اللہ نبی علیہ الصلوٰة والسلام کو دی گئی ہیں، (ب) قرآن کی طرح احادیث بھی احکام میں حجت ہیں، (ج) اور قرآن ہی کی طرح ان کی اتباع اور ان پر عمل لازم ہے۔یہ جس نعرہ کا آپ نے کہا ہے مجھے اس کے بارے میں یاد نہیں نہ ہی دیوبند والی تحریر میں اس کی جانب کوئی اشارہ کیا گیا ہے۔ البتہ میں نے اوکاڑویؒ کی ایک تحریر پڑھی تھی جس کا خلاصہ یہ تھا ایک ہی جملہ کو مختلف انداز سے ادا کیا جاتا ہے تو اس کا معنی الگ ہوجاتا ہے (اس کی انہوں نے مثالیں بھی دی تھیں)۔ حدیث میں اس بات کی وضاحت نہیں ہوتی کہ فلاں جملہ کس قسم کے ماحول میں اور کس انداز میں ارشاد ہوا ہے۔ اس لیے سنت یعنی عمل رسول ﷺ یا عمل صحابہ اور تابعین و سلف کو دیکھا جائے گا کہ اس سے حدیث کے کس معنی کی تشریح ہوتی ہے۔
اگر آپ کی مراد یہ بات ہے تو یہ عقل میں آنے والی بات ہے۔ لیکن مجھے اس بات سے کچھ اختلاف اور کچھ اتفاق ہے۔
قرآن و حدیث کی ان تصریحات کے مطابق حضرات صحابہ، تابعین، محدثین، فقہائے مجتہدین اور تمام علماء اہل سنت والجماعت حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حجیت اور اس کی تشریعی حیثیت پر بصیرت کے ساتھ یقین رکھتے ہیں، اہل اسلام کے کسی گروہ، یا فرد نے جب کبھی بھی حدیث پاک کی اس شرعی حیثیت پر ردوقدح کی ہے تو اسے یکسر مسترد کردیا گیا ہے۔
غرضیکہ علماء حق کا یہی جادئہ متوارثہ ہے۔ اپنے تمام اساتذہ کو بھی اسی موقف پر پایا، اور اب تک اس موضوع پر جن کتابوں کے مطالعہ کی توفیق ملی وہ تقریبا ایک درجن سے زائد ہیں ان میں صرف فرقہ قرآنیہ کے بعض مصنّفین کی دو ایک کتابوں کے علاوہ سب میں قابل قبول قوی دلائل کے ساتھ حجیت حدیث کے مذہب منصور کا اثبات اور تائید و توثیق کی گئی ہے۔ بایں ہمہ ایک ہم عصر مشہور فاضل نے جو اپنی وسیع علمی خدمات کی بناء پر اوساط علمیہ میں اعتبار واستحسان کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اپنی ایک تحریر میں اس بارے میں میرے علم کے مطابق سب سے الگ ایک جدید نقطئہ نظر پیش کیا ہے جو انھیں کے الفاظ میں یہ ہے کہ ”حدیث اور سنت میں فرق (ہے) اور حجت سنت ہے حدیث نہیں“ زیر نظر تحریر میں اسی نقطئہ نظر کا اپنے علم و فہم کے مطابق جائزہ لیاگیا ہے۔
واللّٰہ ہو الملہم الصواب والسداد، وعلیہ التکلان والاعتماد.
ان شاء اللہ فرصت ملنے پر اس یہ بات بھی امین صفدر اکاڑوی کی تحریر یا کلام سے پیش کرتا ہوں،