• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زمان و مکان میں سفر

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مگر ٹھہریے..
کیا وقت میں سفر حقیقت ہے یا خیال ہے؟!
کیا کبھی ایسا وقت آئے گا جب انسان وقت میں ماضی اور مستقبل کا سفر کر سکے گا جیسا کہ ویلز کی مشہور کہانی میں آیا ہے..
یعنی کیا یہ عملی طور پر ممکن ہوسکے گا؟!
چونکہ سوال قائم تھا چنانچہ سائنسدانوں کی کوششیں بھی جاری تھیں..
وہ بھی کم سے کم تین برِ اعظموں میں..
کوششوں سے مشکلات پر قابو پانے کے لیے بہت سارے ریاضیاتی حل نمودار ہوئے، یعنی ورم ہولز کے ذریعے وقت کے سفر کو ممکن بنانے کے لیے..
سب سے مشہور حل سائنسدانوں کا بیان کردہ ایک خاص مادہ ہے جسے اگر ورم ہولز کی دیواروں پر مل دیا جائے تو اس کے تمام تر خطرناک اثرات ختم ہوجائیں گے..
نظریے اور تمام ریاضیاتی اور طبیعاتی کلیوں کے تحت ورم ہولز کی دیواروں پر یہ مادہ لگانے کے بعد ان سے گزرنا ممکن ہوجائے گا..
اس صورت میں ان کے اندر منفی توانائی ختم ہوجائے گی اور ان میں سے گزرنے کے لیے روشنی یا اس سے زیادہ کی رفتار کی ضرورت باقی نہیں رہے گی..
اس طرح تمام مسائل ختم ہوجائیں گے سوائے ایک مسئلے کے..
وہ یہ کہ اس مادے کا قطعی کوئی وجود نہیں..
نا ماضی، نا حال اور نا ہی مسقبلِ قریب میں..
مختصراً یہ کہ یہ مادہ صرف ایک علمی مفروضہ ہے جو پورے کرہ ارض پر کہیں وجود نہیں رکھتا اور نا ہی ایسی کوئی ٹیکنالوجی ہے جو یہ مادہ یا اس کا کوئی متبادل ہی تیار کر سکے..
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
لیکن اس سے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ تمام حیران کن نظریات جنہوں نے زمین اور علم کی تاریخ کا رخ موڑا اسی طرح شروع ہوئے تھے..
نا ممکن سی لگنے والی باتیں..
چنانچہ نئے حل کی تلاش کے لیے سائنسدانوں نے اپنی فائلیں دوبارہ سے چیک کیں کہ شاید کہیں کوئی پرانا خیال ہی وقت میں سفر کو ممکن بنا سکے..
اور پھر یہاں ایک حیرت انگیز دریافت ان کی منتظر تھی..
جس کے بارے میں انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا..
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اسی کی دہائی کی شروع میں سائنسدانوں کا پہلا خواب ایک ایسے مرحلے تک رسائی تھی جسے وہ رابطے یعنی کمیونیکیشن اور کائنات میں منتقلی کی انتہاء قرار دے سکیں، اسے انہوں نے “فوری منتقلی” کا نام دیا..
فوری منتقلی کی اصطلاح کا مطلب ہے ایک جگہ سے دوسری ایسی جگہ تک منتقلی جو پہلی جگہ سے بہت زیادہ فاصلہ رکھتی ہو وہ بھی “ابھی اور اسی وقت” کی بنیاد پر..
یہ منتقلی بالکل ایسی ہے جیسی کہ ہم نے “ستاروں کے سفر” میں دیکھی تھی.. وہ مشہور سلسلہ جس کی بنیاد پر سائنس فکشن فلموں کا ایک کامیاب سلسلہ اسی نام سے شروع ہوا جس کی ہر قسط میں ہم کم سے کم ایک شخص کو ایک شیشے کے جار میں داخل ہوکر ایک چندھیا دینے والی شعاع کے ذریعے کسی دور دراز مقام پر ویسے ہی کسی جار میں منتقل ہوتا دیکھتے تھے..
ایک بہترین خیال جو زمان ومکان کو کم سے کم حد تک مختصر کر سکتا ہے، اسی طرح کے دیگر خیالات کی طرح یہ خیال بھی سائنسدانوں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کرنے میں کامیاب رہا جو ہر معاملے کو کسی نہ کسی اعتبار اور زاویے سے ممکن ہوتا ہوا دیکھتے ہیں..
اور جب عام لوگوں نے اس خیال سے صرف حیران ہونے پر اکتفا کیا اس وقت سائنسدان اس خیال کو کسی نہ کسی طرح ممکن بنانے کے لیے کم سے کم ایک علمی راستہ تلاش کرنے میں سرگرداں تھے..
کیا آپ حیران ہوں گے اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ وہ اس میں ایک حد تک کامیاب رہے..
جی ہاں.. وہ لیبارٹری میں اس “فوری منتقلی” کو ممکن بنانے میں کامیاب رہے مگر یہ تجربہ وسیع بنیادوں پر شائع نہیں کیا گیا، مگر سوال یہ ہے کہ کیوں؟!
اگر وہ ایک ایسی دریافت کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے جو ایک علمی معجزہ ثابت ہوسکتی تھی تو پھر انہوں نے اسے شائع کیوں نہیں کیا؟
جواب میں ہمیشہ کی طرح بہت ساری اہم باتوں کو مدِ نظر رکھنا ہوگا..
جس فوری منتقلی میں سائنسدان کامیاب ہوئے تھے وہ فاصلہ صرف نوے سینٹی میٹر تک کا تھا، ہوا سے خالی اور شدید برقی مقناطیسی لہروں میں گھری شیشے کی ایک ٹیوب سے ایسی ہی ایک دوسری ٹیوب تک جو آپس میں شیشے کے دبیز خلیوں سے جڑے ہوئے تھے..
اور پھر اس پیچیدہ اور خاص ماحول میں یہ “فوری منتقلی” مرکب یا معقول حجم کی حامل کسی چیز کے ساتھ کبھی کامیاب نہیں ہوئی..
وہ صرف پانچ امریکی سینٹ کے ایک نئے سکے کو ایک ٹیوب سے دوسری ٹیوب تک منتقل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے..
اور پھر یہ کوئی فوری منتقلی ہرگز نہیں تھی، ما سوائے اگر ہم سکے کے ایک ٹیوب سے غائب ہونے اور دوسری ٹیوب میں ظاہر ہونے میں گزرے ایک گھنٹہ اور چھ منٹ کے وقت کو فوری منتقلی قرار دیں!!
چنانچہ ان تمام وجوہات کی بنا پر اسی کی دہائی کے شروع کے سائنسدانوں نے “فوری منتقلی” کے اپنے تجربات کو مکمل طور پر نا کام قرار دیا..
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
لیکن نوے کی دہائی کے آخر کے سائنسدانوں نے معاملے کو بالکل ایک الگ زاویے سے دیکھا..
ان کا خیال تھا کہ جو کچھ ہوا تھا وہ عام معنوں میں فوری منتقلی نہیں تھی بلکہ زمان ومکان میں منتقلی تھی..
اس نئی سوچ کے ساتھ انہوں نے تجربے کا دوبارہ آغاز کیا، معاملے کو درست طور پر سمجھنے کے لیے انہوں نے سکے کا درجہ حرارت بڑھا کر اسے جدید تر آلات سے انتہائی باریکی سے ناپا اور ہوا سے خالی ماحول میں حرارت کے کم ہونے کی رفتار کا حساب لگایا اور تجربہ شروع کردیا..
شروع میں ایسا لگا جیسے کچھ نہ بدلا ہو..
پانچ امریکی سینٹ کا سکہ پہلی ٹیوب سے غائب ہوگیا اور ٹھیک ایک گھنٹہ اور چھ منٹ کے بعد دوسری ٹیوب میں نمودار ہوگیا..
لیکن سائنسدانوں نے اس دفعہ سکہ کو اٹھاکر اس کا درجہ حرارت اسی گہرائی اور نئے آلات سے دوبارہ ناپا..
اور پھر خوشی سے چیخ اٹھے..
حساب کتاب کے تحت سکے کے درجہ حرارت میں جو کمی واقع ہوئی تھی وہ صرف چار سیکنڈ کی تھی..
اس کا مطلب تھا کہ ان کا نیا مفروضہ بالکل درست تھا..
وہ پانچ امریکی سینٹ کا سکہ صرف اکیلے مکان میں ہی نہیں بلکہ زمان میں بھی منتقل ہوا تھا..
یا نئی اصطلاح کے مطابق زمان ومکان میں ایک ساتھ..
اگرچہ عملاً جو وقت سائنسدانوں نے سکے کا ایک ٹیوب سے غائب ہوکر دوسری میں ظاہر ہونے کا نوٹ کیا تھا وہ ایک گھنٹہ چھ منٹ تھا تاہم سکے کے لیے یہ منتقلی صرف چار سیکنڈ کی تھی..
یعنی سکے کے مطابق اسے اس منتقلی میں صرف چار سیکنڈ لگے تھے..
وقت میں سفر کے نظریے کی ایک زبردست جیت..
لیکن اسے قابلِ عمل بنانے اور اس کے قواعد وضوابط وضع کرنے میں ابھی ایک طویل عرصہ درکار ہے..
سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ ہوا سے خالی شیشے کے یہ ٹیوب ابھی تک کسی مرکب جسم کو منتقل کرنے میں ناکام رہے ہیں چاہے وہ کتنا ہی چھوٹا کیوں نہ ہو..
سائنسدانوں نے بڑی کوشش کی..
سینکڑوں بار تجربات کو دہرایا..
مگر ہر بار نتیجہ مایوس کن ہوتا، وہ مرکب جسم یا چیز جو منتقل ہوتی اس کے اجزاء بڑی بے ترتیبی سے آپس میں ملے ہوئے ہوتے اور ہر بار اس کی شکل مختلف ہوتی..
اس طرح تو بالکل نہیں جیسے ہم کسی چیز کو پگھلا کر اسے دوبارہ جمنے کے لیے چھوڑ دیں..
بلکہ یہ ایک عجیب طرح کا امتزاج ہوتا جس کا قدرتی حالات میں ہونا ممکن نہیں، اس کے اجزاء آپس میں پگھل کر آخر میں ایک ایسی شکل بناتے جسے بیان کرنا ممکن نہیں..
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
اس طرح وقت میں سفر ابھی تک ایسی دہری اور متضاد صفت کا حامل ہے جس نے سب کو پریشان کر رکھا ہے..
یہ بیک وقت ممکن بھی ہے اور نا ممکن بھی..
ممکن اس طرح کہ یہ کبھی کبھی ہوجاتا ہے..
اور نا ممکن اس طرح کہ کسی بھی زمانے میں اس کے راز سے پردہ اٹھانے اور اس کے وقوع ہونے کے قاعدوں کو سمجھنے کا کوئی ذریعہ نہیں..
بلکہ اس سے استفادہ کرنے کا ایک بھی ذریعہ نہیں ہے..
معاملہ سائنسدانوں کو انتہائی مایوسی میں مبتلا کرنے لگا تھا، مگر جدید دور میں ایک اور دماغ کی آمد نے ایک بار پھر تمام بنیادیں ہلا کر رکھ دیں..
یہ “سٹیون ہاکنگ” تھا، وہ معجزاتی طبیعات دان قدرت نے جس کی ساری طاقت اس کے دماغ میں بھر کر جسم سے چھین لی تھی، ایک مرض کے باعث اس کا سار جسم سکڑ کر رہ گیا اور وہ ہلنے سے بھی عاجز ہوگیا، اس کے با وجود وہ برطانوی جامعہ کمیبرج میں ریاضی کا پروفیسر ہے، اور اس منصب پر فائز ہے جس پر کبھی تین صدیاں پہلے کششِ ثقل کے ابتدائی قوانین وضع کرنے والا سائنسدان “اسحق نیوٹن” فائز رہا تھا..
تعجب کی بات یہ ہے کہ ہاکنگ نے بچپن سے ہی اپنا ہدف متعین کر لیا تھا، چودہ سال کی عمر میں اس نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ایک طبیعات دان بنے گا..
اور یہی ہوا..
ہاکنگ نے انکشاف کیا کہ سیاہ شگاف اپنی عظیم تر کشش کے با وجود حرارت کی ایک قسم خارج کرتے ہیں..
اپنی مسلسل دریافتوں سے جنہیں پہلے مسترد اور بعد میں حیرت کے ساتھ قبول کر لیا جاتا ہاکنگ نے کائناتی زمان ومکان میں سفر کے امکانات پر سائنسدانوں کو ایک بار پھر سوچنے پر مجبور کردیا، تاکہ کائنات کے ان ستاروں اور کہکشاؤں تک پہنچا جاسکے جہاں موجودہ ٹیکنالوجی کے ذریعے جانے کا تصور ہی محال ہے..
جہاں تک ریاضیاتی مساواتوں کی بات ہے تو وقت میں سفر اب بھی ممکن ہے، ساتھ ہی کائنات کے کسی حصے میں وقت کے الٹی سمت میں چلنے کے امکانات بھی موجود ہیں، یا ان ابعاد میں سے کسی بعد میں جنہیں آئن سٹائن اور دیگر سائنسدانوں نے دریافت کیا..
اب بھی ایسے خلائی عناصر کی تلاش جاری ہے جو وقت کے برعکس چلتے ہوں، لیبارٹریوں میں ایسے تجربات کیے جارہے ہیں جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ پیچیدہ تر خاص حالات میں ایسا ہونا ممکن ہے..
سائنسدان مسلسل کوششوں میں لگے ہوئے ہیں..
تاہم ان الفاظ کو جامۂ تحریر میں لانے تک سوال اب بھی اپنی جگہ برقرار ہے..
کیا کبھی ٹائم مشین کا قصہ حقیقت کا روپ لے سکتا ہے؟!
کیا کبھی انسان زمان ومکان میں سفر کر کے ماضی یا مستقبلِ بعید کا سفر کر سکے گا؟!
کون جانتا ہے؟!
شاید!

------​
 
Top