کل کا مورخ
جاوید چوہدری منگل 11 اگست 2015
میرے ایک دوست کے ساتھ اسلام آباد میں خوفناک واردات ہوئی، ان کی بیٹی اپنی بچی کو اسکول سے ’’پک‘‘ کرنے گئی، یہ گاڑی پر واپس آئی، دو موٹر سائیکل سوار اس کا پیچھا کر رہے تھے، یہ جوں ہی گھر کے سامنے پہنچی، موٹر سائیکل سوار اترے، موٹر سائیکل سڑک پر چھوڑی اور گاڑی کو گھیر لیا، ایک نوجوان گاڑی کے بائیں جانب کھڑا ہوگیا، دوسرے نے ڈرائیونگ سیٹ والا دروازہ کھولا، خاتون کو پستول دکھایا اور اس کی کلائی سے چوڑیاں اتارنے لگا، خاتون نے اسے روکا، اپنی چوڑیاں خود اتاریں اور نوجوان کے حوالے کر دیں۔
وہ دونوں اطمینان سے موٹر سائیکل پر بیٹھے اور غائب ہو گئے، گھر میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہیں، یہ ساری واردات کیمروں میں ریکارڈ ہو گئی، کیمرے میں موٹر سائیکل بھی دکھائی دے رہی ہے، لوٹنے والے نوجوان بھی، ان کے چہرے بھی، گلی سے گزرتے ہوئے لوگ بھی اور لوٹنے والے جس طرف سے آئے اور جس طرف نکل گئے یہ سب بھی، پولیس کو رپورٹ کر دی گئی، سی سی ٹی وی فوٹیج بھی دے دی گئی لیکن ہفتہ گزرنے کے باوجود کوئی کارروائی نہیں ہوئی، یہ اسلام آباد کی صورتحال ہے، اس اسلام آباد کی جس کی آبادی بمشکل 12 لاکھ، رقبہ چند کلومیٹر ہے اور ان چند کلومیٹر میں 19 تھانے ہیں، یہ وفاقی دارالحکومت بھی ہے، پوری وفاقی حکومت، پوری پارلیمنٹ اور تین افواج کے ہیڈ کوارٹرز بھی اسلام آباد میں ہیں لیکن شہر کی حالت یہ ہے ۔
شہریوں کو ان کے گھروں کے گیٹ پر لوٹ لیا جاتا ہے، ڈاکو موٹر سائیکل پر آتے ہیں اور واردات کے بعد موٹر سائیکل پر فرار ہو جاتے ہیں، یہ وفاقی دارالحکومت اور ملک کا محفوظ ترین شہر ہے، آپ کراچی اور لاہور کا اندازہ خود لگا لیجیے، کراچی میں چند دن قبل ملک کے نامور صحافی اور اینکر پرسن جنید سلیم کے بھائی کو صرف موبائل فون کے لیے گولی مار دی گئی،یہ اسپتال میں جانبر نہ ہو سکے، مرحوم ان چند لوگوں میں شمار ہوتے تھے جو ظلم سہنے کے بجائے ظالم کے ساتھ مزاحمت کے قائل تھے چنانچہ انھوں نے مزاحمت کی، دو گولیاں کھائیں اور ڈاکو فون اور خون دونوں لے گئے۔
قصور کا انتہائی خوفناک اور ننگ انسانیت واقعہ بھی آپ کے سامنے ہے، ایک گینگ پچھلے تین چار برسوں سے بچوں کے ساتھ زیادتی کر رہا تھا، ان کی فلمیں بنا رہا تھا اور یہ فلمیں دکھا کر بچوں اور والدین کو بلیک میل کر رہا تھا، اس اسکینڈل نے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی گڈ گورننس کے تمام دعوے مٹی میں ملا دیے، یہ انتہائی افسوس ناک اسکینڈل ہے، یہ پوری دنیا میں پاکستان کی بے عزتی اور جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے لیکن ملک کے متحرک ترین وزیراعلیٰ ابھی تک تفتیش مکمل نہیں کرا پائے، لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور سیالکوٹ میں راہ زنی، ڈاکہ زنی اور چوری کی وارداتیں بھی عام ہیں۔
راولپنڈی میں 9 جنوری 2014ء کو ایکسپریس ٹی وی کے نان لینئر ایڈیٹر ہارون احمد کو موبائل فون کے لیے گولی مار دی گئی تھی، آپ المیہ ملاحظہ کریں، ڈاکوؤں نے وہ موبائل بعد ازاں تین سو روپے میں فروخت کیا تھا یعنی انسانی جان کی قیمت صرف تین سو روپے ہے اور اتوار کو مسلم لیگ ن کے ایم این اے اسد الرحمن کو بھی لوٹ لیا گیا، ڈاکو باقاعدہ سڑک روک کر گاڑیاں لوٹ رہے تھے، ایم این اے بھی لٹنے والوں میں پھنس گئے، انھوں نے جان بچانے کے لیے نہ صرف اپنا نام اور شناخت خفیہ رکھی بلکہ رقم اور موبائل بھی ڈاکوؤں کے حوالے کر دیا۔
یہ ملک کی صورتحال ہے، ڈاکو لوٹ رہے ہیں، شہریوں کو موبائل فون کے لیے گولیاں ماری جا رہی ہیں، ایم این اے لٹ رہے ہیں اور ایڈیشنل سیشن ججوں کو گھروں میں داخل ہو کر قتل کیا جا رہا ہے لیکن حکومت اپنی معاشی کامیابیوں کے ڈھول پیٹ رہی ہے، یہ بلوم برگ، فوربس اور اکانومسٹ کے حوالے دے دے کر اعلان کر رہی ہے، آپ دیکھیں، ہم نے کتنی ترقی کی، یہ درست ہے ملک کی معاشی حالت میں بہتری آ رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر 20 ارب ڈالر کی سطح کو چھو رہے ہیں، سرمایہ کاری بھی ہو رہی ہے، چین بھی کھربوں روپے کے منصوبے لگا رہا ہے، دہشت گردی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
لوڈ شیڈنگ کے خاتمے پر بھی کام ہو رہا ہے اور میٹرو بس سروسز بھی شروع ہو چکی ہیں لیکن ملک میں عام شہریوں کی صورتحال کیا ہے؟ کیا کسی نے سوچا؟ کیا کسی نے ان کے تحفظ کے لیے بھی کوئی پالیسی بنائی؟ اگر نہیں تو وہ حکومت کب آئے گی جو عام آدمی کے لیے سوچے گی، جو عام شہری کے لیے پالیسی بنائے گی؟ یہ وہ سوال ہیں جو ملک کا ہر شخص ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے۔
حکومت زیادہ نہیں تو یہ چند ایسی پالیسیاں ضرور بنا سکتی ہے جس سے شہریوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہو جائے، مثلاً حکومت گھروں میں سی سی ٹی وی کیمرے لازمی قرار دے دے، یہ کیمرے تمام گھروں، تمام گلیوں اور تمام سڑکوں کو ’’کور‘‘ کریں اور یہ آخر میں سینٹرل کنٹرول سسٹم میں مل جائیں، پولیس ان کیمروں کے ذریعے آسانی سے ملزموں تک پہنچ جائے گی، یہ کیمرے اپنی مدد آپ کے تحت لگائے جائیں، حکومت صرف سنٹرل کنٹرول سسٹم بنائے اور یہ سسٹم روز ان کیمروں کے ذریعے پورے شہر کا جائزہ لے، شہروں کے مرکزی علاقوں میں اس اینگل سے کیمرے لگائے جائیں جس سے تمام گاڑیوں کی نمبر پلیٹس پڑھی جا سکیں، ملک میں اس وقت جتنے کیمرے ہیں، ان سے صرف گاڑیاں اور لوگ دیکھے جا سکتے ہیں۔
آپ چہرے اور نمبر دونوں کی شناخت نہیں کر سکتے، حکومت اگر چوکوں اور چوراہوں پر ’’لو اینگل‘‘ کے کیمرے لگا دے گی تو بڑی آسانی سے گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو ’’ٹریک‘‘ کیا جا سکے گا، حکومت اگر اسی طرح زیورات اور موبائل فون کی خریدو فروخت کو سخت کر دے تو بھی وارداتوں میں کمی آ جائے گی، ملک کا کوئی سونار اس وقت تک کوئی زیور یا سونا نہ خریدے جب تک بیچنے والا سونے یا زیور کی خریداری کی رسید نہ دکھائے، خریداروں اور بیچنے والوں کے شناختی کارڈ اور خفیہ کیمروں کے ذریعے تصاویر کا ریکارڈ بھی رکھا جائے اور وہ سونار جو ان قوانین کی خلاف ورزی کرے۔
حکومت اس کے لیے کڑی سزا طے کرے، ملک کی تین بڑی ہاؤسنگ سوسائٹیوں نے اپنے مکینوں کی انشورنس کرا رکھی ہیں، حکومت بھی ہاؤس انشورنس کو لازمی قرار دے دے، گاڑیوں، گھروں، دکانوں، زیورات، لیپ ٹاپ اور پچاس ہزار روپے سے زیادہ قیمتی اشیاء کی انشورنس بھی لازمی قرار دے دی جائے، موبائل کی انشورنس کی ذمے داری موبائل فون کمپنیوں پر ڈالی جائے، یہ کمپنیاں سم جاری کرتے وقت انشورنس کی سہولت دیں اور انشورنس کی رقم صارف کے بل سے کاٹ لیں، اس انتظام کے بعد کوئی صارف ڈاکوؤں سے مزاحمت نہیں کرے گا اور یوں لوگوں کی جانیں بچ جائیں گی۔
زیورات اور قیمتی اشیاء کی انشورنس سے شہریوں کا مورال بھی ڈاؤن نہیں ہو گا اور انشورنس کمپنیاں بھی ایسے سسٹم متعارف کرانے پر مجبور ہو جائیں گی جن کے ذریعے چوریاں اور ڈاکے روکے جا سکیں گے، ملک کی آبادی زیادہ ہے اور پولیس فورس کم، حکومت پولیس کو صرف جرائم کے سدباب پر لگائے اور لاء اینڈ آرڈر کی ذمے داری فوج کو سونپ دے، اس سے پولیس پر دباؤ کم ہو جائے گا اور یہ جرائم کے خلاف یک سو ہو سکے گی، حکومت تفتیش کے لیے عارضی طور پر ریٹائرڈ پولیس افسروں کو بھی دوبارہ بھرتی کر سکتی ہے، ان لوگوں کو فی کیس کے لحاظ سے ’’پے منٹ‘‘ کی جائے، ملک میں یورپ اور امریکا کی طرح ’’پرائیویٹ انویسٹی گیشن کمپنیاں‘‘ بھی بنائی جا سکتی ہیں، یہ کمپنیاں تفتیش کریں، ملزموں اور مجرموں تک پہنچیں اور پھر کیس پولیس کے حوالے کر دیں۔
یہ حکومت کے کام ہیں لیکن ہم عوام کو بھی چند حقائق سمجھنا ہوں گے، یہ بیس کروڑ لوگوں کا ایسا ملک ہے جس کی دو تہائی آبادی بے کار اور بیمار ہے، بیس کروڑ لوگوں کے ملک میں صرف دس لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں گویا 19 کروڑ 90 لاکھ لوگوں کا بوجھ دس لاکھ لوگوں نے اٹھا رکھا ہے، ملک سے تیل، سونا اور یورینیم نہیں نکل رہی کہ ریاست 19 کروڑ لوگوں کو گھر بٹھا کر روٹی، پانی، سڑک، اسپتال، اسکول اور تحفظ فراہم کر دے، ہماری کل ایکسپورٹس قریباً30 ارب ڈالر اور امپورٹس 45 ارب ڈالر ہیں، گویا ہم کچھ پیدا کر رہے ہیں، کچھ بنا رہے ہیں اور نہ ہی لوگ ٹیکس دے رہے ہیں چنانچہ پھر ریاست کیسے چلے گی؟ ریاست کو ظاہر ہے تعلیم، اسپتال، پولیس، عدالت، سڑک اور صاف پانی کے لیے سرمایہ چاہیے۔
یہ سرمایہ کہاں سے آئے گا؟ دنیا کے تمام جدید ممالک میں لوگ ٹیکس کی شکل میں ریاست کے ساتھ کمیٹی ڈالتے ہیں، یہ اپنی آمدنی کا تیس، چالیس اور پچاس فیصد حصہ ریاست کو دے دیتے ہیں، ریاست یہ رقم لے کر انھیں اسپتال، اسکول، پولیس، انصاف، صاف پانی اور سڑکیں دیتی ہے، یہ لوگ مکان اور گاڑیاں کھلی چھوڑ کر سو جاتے ہیں، یہ پہاڑوں کی چوٹیوں، جنگلوں اور صحراؤں میں بھی خود کو محفوظ سمجھتے ہیں جب کہ ان کے مقابلے میں ہم یہ ’’کمیٹی‘‘ نہیں ڈالتے، ہم میں سے صرف دس لاکھ لوگ زبردستی یا بزدلی کی وجہ سے ٹیکس دیتے ہیں چنانچہ پھر ہمیں تعلیم، صحت، صاف پانی، پولیس، انصاف اور سیکیورٹی خریدنی پڑتی ہے اور اس خریدوفروخت کے دوران ہم میں سے اکثر لوگ اپنا پورا اثاثہ کھو بیٹھتے ہیں اور باقی اثاثے کے ساتھ ساتھ اپنی جان سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔
ہم لوگ اگر کسی دن میز پر بیٹھیں، کاغذ اور قلم لیں اور حساب لگانا شروع کریں، ہم نے سال میں بچوں کی تعلیم پر کتنا سرمایہ خرچ کیا، ہم نے ڈاکٹروں اور کیمسٹوں کو کتنے پیسے دیے، ہم روز کن گندی اور ٹوٹی پھوٹی سڑکوں اور گلیوں سے گزر کر گھر آتے ہیں، ہم ہر سال کتنے پیسوں کا منرل واٹر پی جاتے ہیں، ہمارا سیوریج سسٹم سال میں کتنی بار بند ہوتا ہے، ہم پولیس کو بلانے، ایف آئی آر کٹوانے اور جعلی درخواستوں سے بچنے کے لیے سال میں کتنے روپے برباد کرتے ہیں، ہمارے مقدمے کتنے سالوں سے عدالتوں میں زیر التواء ہیں، ہم اب تک وکیلوں اور عدالتی اہلکاروں کو کتنی فیس دے چکے ہیں۔
ہمارے گھروں اور دفتروں میں کتنی بار چوریاں ہوئیں اور ہم گھروں کو محفوظ رکھنے کے لیے چوکیداروں، گارڈز اور سیکیورٹی ایجنسیوں کو ہر سال کتنی رقم دیتے ہیں تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے، یہ رقم ہمارے ٹیکس سے تین گنا ہو گی، اب سوال یہ ہے، ہم ٹیکس دے کر اپنے آپ کو ان تمام چھوٹے خرچوں سے آزاد کیوں نہیں کرا لیتے، ہم اپنے آپ کو خوف اور اندیشوں کی شکار اس بیمار زندگی سے کیوں نہیں نکال لیتے؟ آپ جان لیں، آپ اگر کمیٹی نہیں ڈالیں گے تو آپ کو ہر وہ سہولت خریدنی پڑے گی جس کی ذمے داری جدید دنیا میں ریاستیں اٹھاتی ہیں چنانچہ پاکستان میں حکومتوں کو بھی اپنی ذمے داریاں نبھانی ہوں گی اور ہم سب کو بھی ہوش مندی سے کام لینا ہو گا ورنہ کل کا مورخ ہمیں ہماری حکومتوں، ہمارے سیاستدانوں اور ہمارے بیوروکریٹس سے زیادہ سفاک اور زیادہ بڑا مجرم لکھے گا۔