- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
اسلام نے معاشرے کی پاکیزگی اور’’ تزکیہ نفس ‘‘ کیلئے جامع ھدایات اور
انتہائی مفید احکامات عطا کئے :
قرآن حکیم میں فحاشی کی ممانعت ،حرمت کو عقیدہ و ایمان کے ساتھ بیان کیا ،انتہائی مفید احکامات عطا کئے :
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْاِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاَنْ تُشْرِكُوْا بِاللّٰهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهٖ سُلْطٰنًا وَّاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (الاعراف 33
آپ ان سے کہیے کہ ''میرے پروردگار نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ یہ ہیں'': بےحیائی کے کام خواہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ ہوں اور گناہ کے کام اور ناحق زیادتی اور یہ کہ تم اللہ کے شریک بناؤ جس کے لیے اس نے کوئی سند نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ کے ذمے ایسی باتیں لگا دو جن کا تمہیں علم نہیں''
مطلب واضح ہے کہ نور توحید سے قلب کو منور کرنا ہے ،تو کردار کی ظاہری و باطنی پاکیزگی لازم ہے ،فحاشی و بے حیائی کی اعلانیہ و پوشیدہ
ہر صورت سے اجتناب کرنا پڑے گا ،تبھی توحید اور ایمان کی لذت نصیب ہوگی ؛
اسی لئے تو جناب لوط نے اپنی قوم کو دعوت ایمان کے وقت جس برائی کے ترک کا درس دیا وہ فحاشی ہی تھی ؛؛
وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ اَحَدٍ مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ (الاعراف 80)
اور لوط نے جب اپنی قوم سے کہا : ''تم بےحیائی کا وہ کام کرتے ہو جو تم سے پہلے اہل عالم میں سے کسی نے بھی نہیں کیا تھا‘‘
یعنی تمہاری تو فطرت ہی مسخ ہوچکی ہے کہ نفسانی اشتہا کو مٹانے کیلئے
سب سے انوکھا طریقہ اختیا کرلیا ؛
علامہ عبد الرحمن کیلانی ؒ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
قوم لوط میں دوسری اخلاقی برائیوں کے علاوہ سب سے بڑی برائی یہ تھی کہ یہ لوگ عورتوں کی بجائے مردوں ہی سے ان کی دبر میں جنسی شہوت پوری کرتے تھے۔ اس فحاشی کی موجد بھی یہی قوم تھی اور اس فحاشی میں اس قوم نے شہرت دوام حاصل کی۔ حتیٰ کہ ایسی فحاشی کا نام بھی قوم لوط کی نسبت سے لواطت پڑ گیا یعنی فحاشی کی وہ قسم جس کے خلاف سیدنا لوط (علیہ السلام) نے جہاد کیا تھا۔ ممکن ہے کہ شیطان نے ان لوگوں کو اولاد کی تربیت اور اس کی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے یہ راہ سجھائی ہو جیسا کہ بہت سے ادوار میں یہی بات قتل اولاد کی بھی محرک بنی رہی ہے۔
عمل قوم لوط اور تہذیب مغرب :۔ سیدنا لوط (علیہ السلام) کی قوم کے بعد دوسرے بدکردار لوگ بھی اس فحش مرض میں مبتلا رہے ہیں لیکن یہ فخر یونان کو حاصل ہے کہ اس کے فلاسفروں نے اس گھناؤنے جرم کو ایک اخلاقی خوبی کے مرتبہ تک پہنچا دیا اور رہی سہی کسر جدید مغربی تہذیب نے پوری کر دی ہے جس نے علی الاعلان ہم جنسی ( Sex ۔ Homo ) کے حق میں پروپیگنڈا کیا یعنی اگر مرد، مرد سے اور عورت، عورت سے لپٹ کر اپنی جنسی خواہش پوری کرلیں تو اس میں کوئی قباحت نہیں اور ملکی قانون کو ہرگز اس میں مزاحم نہ ہونا چاہیے۔ حتیٰ کہ کئی ممالک کی مجالس قانون ساز نے اس فعل کو جائز قرار دے دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام نے صرف فحاشی و برائی کو ہی حرام قرار نہیں دیا ،بلکہ اس کی ترویج کے ذرائع و اسباب کو بھی سختی سے روکا ؛
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ۙ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ ۭ وَاللّٰهُ يَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ (النور۔19 )
جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بےحیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔
تیسیر القرآن میں علامہ عبد الرحمن کیلانی لکھتے ہیں :
[الْفَاحِشَةُ] فاحشہ سے مراد ہر وہ کام جو انسان کی شہوانی خواہش میں تحریک پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہو ۔ فحاشی کی اشاعت کی بہت سی صورتیں ہیں ۔ پہلی اور سب سے اہم صورت وہی ہے جس کا اس صورت میں ذکر ہے۔ یعنی یہ کہ اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت کو الزام لگا دے تو دوسرے لوگ بلاتحقیق اس بات کو آگے دوسرے سے بیان کرنا شروع کردیں ۔ دوسری صورت یہ ہے زنا (جسے قرآن نے فاحشہ مبینہ کہا ہے) کے علاوہ شہوت رانی کی دوسری صورتیں اختیار کی جائیں ۔
مثلاً مردوں کی مردوں سے خواہش پوری کرنا یا لواطت جس کی وجہ سے قوم لوط پر پتھروں کا عذاب نازل ہوا تھا اور ہماری شریعت میں لوطی کی سزا قتل ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ مرد حیوانات سے یہ غرض پوری کریں ۔
اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ ''اگر تم دیکھو کہ کوئی شخص حیوان پر جا پڑا ہے تو اس کو بھی اور اس حیوان کو بھی مار ڈالو'' (ترمذی۔ ابو اب الحدود۔ باب من وقع علی البھیمہ)
چوتھی صورت یہ ہے کہ عورتیں عورتوں سے ہمبستری کریں ۔ شریعت نے عورتوں کے لئے بھی ستر کے حدود مقرر کر دیئے ہیں ۔ یعنی کوئی عورت کسی عورت کے سامنے بی ناف سے لے کر گھنٹوں تک کا حصہ کسی صورت میں نہیں کھول سکتی اور ہمارے ہاں جو یہ رواج ہے کہ عورتیں ایک دوسرے کے سامنے ننگے بدن ایکسا قد نپا لیتی ہیں یہ باکل خلاف شرع ہے اور عورتوں کا ننگے بدن ایک دوسرے سے چمٹنا اور بھی بری بات ہے۔ اس بات سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سختی سے منع کیا اور فرمایا ''کوئی عورت کسی دوسری عورت کے ساتھ نہ چمٹے'' (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتبا شرا المراۃ المراۃ
اس حدیث کے الفاظ سے پپٹی لگانا بھی مراد لیا جاسکتا ہے (یعنی عورت کا عورت کے ساتھ لگ کر جنسی خواہش پوری کرنا) کیونکہ عربی زبان میں مجامعت کے لئے مباشرت کا لفظ بھی عام استعمال ہوتا ہے۔
پانچویں صورت یہ ہے کہ عورتیں بعض حیوانات سے اپنی جنسی خواہش پوری کریں جیسا کہ بنگلوں میں رہنے والی بعض مہذب خواتین اپنے پالتو کتوں سے بدفعلی کرواتی ہیں اس کا حکم بھی تیسری صورت پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔
چھٹی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے دوستوں سے اپنی بیوی سے ہمبستری کی باتیں دلچسپی لے لے کر بیان کرے یا کوئی عورت اپنی سہیلیوں سے ایسے ہی تذکرے کرے۔ یا کوئی عورت ننگے بدن دوسری ننگی عورت سے چمٹے پھر اس بات کا تذکرہ اپنے خاوند سے کرے اور اس عورت کے مقامات ستر سے اسے آگہ کرے تاکہ اس کے شہوانی جذبات بیدارہوں اور اس کا خاوند اس کی طرف مائل ہو ۔ ایسی تمام باتوں سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب لاتباشر المراۃ المراۃ)
پھر آج کل فحاشی کی اشاعت کی اور بھی بہت سی صورتیں ایجاد ہوچکی ہیں ۔ مثلاً ٹھیٹر، سینماگھر، کلب ہاؤس، اور ہوٹلوں کے پرائیوٹ کمرے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر شہوت انگیز پروگرام اور زہد شکن گانے۔ فحاشی پھیلانے والا لٹریچر، ناول افسانے اور ڈرانے وعیرہ اور جنسی ادب۔ اخبارات اور اشتہارات وغیرہ میں عورتوں کی عریاں تصاویر۔ ناچ گانے کی محفلیں ۔ غرض فحاشی کی اشاعت کا دائرہ آج کل بہت وسیع ہوچکا ہے اور اس موجودہ دور میں فحاشی کے اس سیلاب کی ذمہ دار یا تو خود حکومت ہے یا پھر سرمایہ دار لوگ جو سینما، ٹھیٹر اور کلب گھر وغیرہ بناتے ہیں یا اپنا میک اپ کا سامان بیچنے کی خاطر انہوں نے عورتوں کی عریاں تصاویر شائع کرنے کا محبوب مشغلہ اپنا رکھا ہے یا بعض اداروں اور مکانوں میں عورتوں کو سیل مین کے طور پر ملازم رکھا جاتا ہے تاکہ مردوں کے لئے وہ باعث کشش ہوں اور ان کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو ۔ ان سب باتوں کے لئے وہی وعید ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اور اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ فحاشی کی ان تمام اقسام کو قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دے۔ تاکہ کم ازکم دنیا کے عذاب سے تو لوگ بچ سکیں ۔ ورنہ انھیں دنیا میں عذاب چکھنا ہوگا اور آخرت کا عذاب تو بہرحال یقینی ہے۔
[٢٣] یعنی یہ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان فحاشی کے کاموں کا دائرہ اثر کتنا وسیع اور ان کی زد کہاں کہاں تک پہنچتی ہے۔ کس طرح چند لوگوں کی فحاشی سے یا فحاشی کی افواہیں پھیلانے سے پوری قوم کا اخلاق تباہ و برباد ہوتا ہے بدکار لوگوں کو بدکاری کے نئے نئے مراکز کیسے مہیا ہوتے ہیں ۔ نیز نئی نسل کے ذہنوں میں جب ابتداًء فحاشی بھر دی جائے تو پوری قوم کس طرح اللہ اور روز آخرت سے غافل ہو کر اللہ کی نافرمان بن جاتی ہے۔ یہ باتیں تم نہیں جان سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ لَا يُحِبُّ اللّٰهُ الْجَــهْرَ بِالسُّوْۗءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ ۭ وَكَانَ اللّٰهُ سَمِيْعًا عَلِـــيْمًا ۔۔المائدہ ١٤۸
اللہ کو بالکل پسند نہیں ہے کہ کسی بری بات کو بلند آواز سے کہا جائے ‘ سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہے اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘
اس آیت کا عام مفہوم تو یہی ہے کہ کسی کی برائی کا چرچہ ،اور اشتہار کسی کیلئے جائز نہیں ،سوائے مظلوم کے؛
اس ممانعت کی ایک وجہ تو یہ سمجھ آتی ہے کہ جب کسی برائی تشہیر کی جائے ،تو معاشرے میں اس برائی کو ’’ ہلکا ‘‘ تصور کیا جانے لگتا ہے ؛
اور برائی کا سن کر بھی کبھی برائی کی تحریک پیدا ہوتی ہے ،
اس لیئے سوائے متاثرہ فریق کے کسی کیلئے کسی کی برائی کی تشہیر روا نہیں ۔۔۔
لیکن اگر حالات مخصوص نوعیت کے ہوں ،اور متاثرہ فریق ایک فرد نہیں
بلکہ معاشرہ ہو ،
تو اس کے خلاف اجتماعی آواز بلند کرنا زندہ قوموں کیلئے
ضروری ہو جاتا ہے۔۔۔اس کی مثالیں دائیں ، بائیں دیکھنے سے مل جائیں گی؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہاں ہم علامہ ابتسام الہی صاحب کے ایک کالم کے کچھ پیرے مستعار لیتے ہیں :
وہ لکھتے ہیں :
اس موقع پر جہاں پوری قوم کو یکجا ہو کر وحشی درندوں اور عصمت کے بیوپاریوں کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے‘ وہاں اس قسم کے واقعات کے مستقل تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات بھی ہونے چاہئیں۔ بعض بے ضمیر اس گھٹیا کاروبار سے کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں۔ اس واقعہ کی غیر جانبدار تحقیقات کرانا اور مجرموں کے اصل مقاصد کو بے نقاب کرنا حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کے اسباب کو سمجھنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حالیہ سالوں میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں بہت زیادہ اضافے کی متعدد وجوہ ہیں۔
ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ بڑے پیمانے پر فحش مواد کا پھیلاؤ: حالیہ سالوں میں معاشرے میں بڑے پیمانے پر فحش مواد کا پھیلاؤ ہوا ہے اور یہ مواد سی ڈیز، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورکس کے ذریعے پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ جب نوجوان اس قسم کے مواد کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں‘ تو ان میں جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ نوجوانوں کے لیے صحت مند تفریحی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ اپنی توانائیوں کو میدانی کھیلوں میں استعمال کرنے کی بجائے میڈیا کے غلط استعمال پر صرف کر رہے ہیں‘ جس سے وہ بڑی تیزی کے ساتھ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہے ہیں۔ بے قابو خواہشات کااظہار زنا بالجبر اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ برائی کا مرتکب شخص اس کے دوبارہ ارتکاب میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ بے باک ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ ہلاکت کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔
2۔ بری صحبت: اچھے افراد کے مشاغل مثبت جبکہ برے افراد کے منفی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بری صحبت انسان کی تباہی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ برے افراد کی صحبت میں بیٹھنے والے بہت سے افراد منشیات، جوئے اور بدکرداری کے عادی ہو جاتے ہیں۔ برے دوست‘ انسان کی برے کاموں میں معاونت اور حوصلہ افزائی کرکے اس کے ضمیر کی آواز کو دبانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ کم عمری میں چونکہ شعور ناپختہ ہوتا ہے اس لیے صحیح دوستوں کے چناؤ میں مشکل پیش آتی ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوںکی صحبت پر نظر رکھیں اور اگر ان کے تعلقات کسی منفی کردار والے بچے یا نوجوان سے ہو جائیں‘ تو ان کا فی الفور احتساب کر کے ان کو بھٹکنے سے بچائیں۔
3۔ والدین اور بچوں کے درمیان فاصلہ: والدین کو اپنے بچوں کو خود سے زیادہ فاصلے پر نہیں رکھنا چاہیے۔ ان کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا خود بھی حصہ بننا چاہیے۔ ان کے روزمرہ معمولات کے بارے میں معلومات رکھنی چاہئیں۔ جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ برتاؤ رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کے بدلتے ہوئے رجحانات سے بروقت آگاہ ہو جاتے ہیں اور کسی بھی منفی تبدیلی پر بروقت قابو پا سکتے ہیں۔ والد کی اپنے بچے اور والدہ کی اپنی بچی سے دوستی ان کی شخصیت کی نشوونما اور پختگی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ دور حاضر میں معیشت کی گاڑی کو چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ضروریات زندگی کو پورا کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔ ان حالات میں کئی گھروں کے معاملات کو درست رکھنے کے لیے شوہر اور بیوی کو بیک وقت محنت کرنا پڑتی ہے۔ معاشی ذمہ داریوں کی وجہ سے کئی مرتبہ والدین اپنے بچوں کے مشاغل سے غافل ہو جاتے ہیں اور اسی دوران اولاد بھٹک جاتی ہے۔ والدین کو اپنا معیار زندگی بلند کرنے پر نسبتاً کم اور اولاد کی تربیت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اگر اولاد کی تربیت درست ہوگئی تو معیار زندگی پر کیے گئے سمجھوتے کا وقت کے ساتھ ساتھ خودبخود ازالہ ہو جائے گا۔ دور حاضر کے بہت سے والدین اور ان کی اولادوں کے درمیان ''جنریشن گیپ‘‘ پایا جاتا ہے۔ بعض ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے والدین جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے بے بہرہ ہیں۔ وہ کمپیوٹر پر مشغول بچوں کو تعلیمی معاملات میں مصروف سمجھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں جبکہ حقیقت میں اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔ والدین کو بچوں کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے اور ان کے کمپیوٹر اور موبائل فون کے استعمال کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ ان کو بے راہ روی سے بچایا جا سکے۔
4۔ دینی تعلیمات سے دوری: ہمارا معاشرہ بتدریج دینی تعلیمات سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ قرآن مجید میں ظاہری اور پوشیدہ گناہوں اور برائیوں کی بھرپورطریقے سے مذمت کی گئی ہے۔ بدکرداری اور منکرات کو اُخروی تباہی کے ساتھ ساتھ دنیا کی تباہی اور بربادی کا بڑا سبب قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ ہمارے سماج میں قرآن مجید کو سمجھنے کا شوق اور جستجو نہیں ہے‘ اس لیے برائی کے کاموں کے نقصانات کے بار ے میں بھی شعور اور آگاہی کی سطح انتہائی پست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں سورہ بنی اسرائیل میں زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے، وہیں پر اللہ تعالیٰ نے جنسی بے راہ روی کا شکار قوم سدوم کا ذکر بھی قرآن مجید میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ اس قوم کے لوگ جنسی طور پر عورتوں کی بجائے مردوں کی طرف مائل تھے۔ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی حضرت لوط ؑ ان کو صحیح راستے پر آنے کی دعوت دیتے رہے‘ لیکن ان ظالموں نے حضرت لوط ؑ کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ حضرت لوط ؑ اصلاح کی شرط پر قوم کے لوگوں کے ساتھ اپنی بیٹیاں بیاہنے پر بھی آمادہ ہو گئے‘ لیکن ان بدبختوں نے اپنے رسول کی دعوت کو قبول نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو بلندی پر اُٹھا کر پستی کی طرف پٹخ دیا اور اس قوم کے ہر بدکار شخص کو نشانہ باندھ باندھ کر پتھروں سے کچل ڈالا۔ قوم لوطؑ کا واقعہ آنے والی قوموں کے لیے باعث عبرت ہے۔
اس درس عبرت کو حاصل کرنے کے لیے قرآن و سنت سے وابستگی انتہائی ضروری ہے۔ یہ المیہ ہے کہ عصری تعلیم و ترقی کا جذبہ رکھنے والی قوم اس نسخہ کیمیا سے غافل ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوںکی فلاح و نجات کے لیے نازل فرمایا۔
5۔ نکاح میں غیرضروری تاخیر: اسلام میں ہر عاقل و بالغ شخص کو جلد از جلد نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ دور حاضر میں کچھ لوگ جہیز کی مجبوری اور کچھ لوگ لاپروائی کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنی اولاد کے نکاح میں تاخیر کرتے ہیں۔ اولاد اور والدین کے درمیان فطری طور پر حجاب ہوتا ہے جس کی وجہ سے اولاد کھل کر اپنی خواہشات کا اپنے والدین سے اظہار نہیں کر پاتی۔ اگر اشارو ں کنایوں میں کسی وقت اظہار کیا بھی جائے تو والدین اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے معاشر ے میں ناجائز تعلقات اور جنسی بے راہروی کے دروازے کھلتے ہیں۔ بداخلاقی کی روک تھا م کے لیے والدین کو اپنی اولاد کی بلوغت کے بعد جلد از جلد ان کے نکاح کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ان کو صاف ستھری زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
6۔ جرم و سزا کا کمزور نظام: جرم و سزا کے کمزور نظا م کی وجہ سے بھی معاشرے میں جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایک مجرم کو کھلے عام پھرتا دیکھ کر دوسرے مجرم حوصلہ پکڑتے ہیں۔ حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں کے باوجود عام طور پر جنسی جرائم میں ملوث افراد قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ اگر معاشرے میں جنسی جرائم میں ملوث افراد کو شرعی تقاضوں کے مطابق کڑی سزائیں دی جائیں تو بیمار ذہنیت کے بہت سے لوگ اس قسم کے جرائم کے ارتکاب سے باز آسکتے ہیں۔
ان تما م تجاویز پر عمل کو یقینی بنانے میں حکومت کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ طبقے، اساتذہ اور طلبہ نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹی اورکالجزکے فیکلٹی ممبران، مدارس کے اساتذہ، مساجد کے خطیبوں اور دینی اور دنیاوی طالب علموں کو معاشرے کی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں جنسی جرائم کے خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے۔
Last edited: