جناب اپ نے جو حدیث پیش کر اس کو ضعیف کہا ہے میں نے تو ان میں سے ایک حدیث بھی نہیں پیش کی ہے میں نے جو احادیث پیش کی ہیں وہ یہ ہیں۔
أتاني جبريل عليه الصلاة والسلام، فأخبرني أن أمتي ستقتل ابني هذا (يعني
الحسين) ، فقلت: هذا؟ فقال: نعم، وأتاني بتربة من تربته حمراء ".
سلسلہ احادیث صحیحہ رقم 821
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں یہ بتایا کہ جبریل علیہ السلام نے ان کو خبر دی کہ اپ کے اس بیٹے کو شہید کردیا جائے گا۔
لقد دخل علي البيت ملك لم يدخل علي قبلها، فقال لي: إن ابنك هذا: حسين
مقتول وإن شئت أريتك من تربتة الأرض التي يقتل بها "(رقم 822)
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
ان میں شھادت کی خبر ہے کہ دریا فرات کے کنارے شہید ہوں گے۔
اپ نے جس روایت کو ضعیف کہا ہے وہ تو اس میں ہے ہی نہیں پھر اپ کیسے فرما رہے ہیں
اب ذرا اپ کی پیش کردہ روایت پر بھی بات کرتے ہیں
اپ نےاس کے جس راوی پر کلام کیا ہے اس کے بارے میں محدثین کی آراء پیش کرتا ہوں۔
النسائي في "التمييز": ليس به بأس
وقال أحمد:ثقة ثقة.
وقال أبو داود: ثقة.
وقال أبو زرعة وأبو حاتم: ثقة لا بأس به
حافظ ابن حجر نے اس کو صدوق ربما اخط لکھا ہے۔
اور صدوق کی روایت کم از کم حسن ہوتی ہے
اپ نے جو جرح پیش کی ہے وہ اپنی جگہ مسلمہ ہے مگر جمہور نے اس کی توثیق کی ہے اس لئے اگر امام بخاری وغیرہ کی جرح مان بھی لی جائے تو یہ روایت حسن ہوتی ہے اس لیے شیخ شعیب نے اس کی روایت کو قوی اسناد کہا ہے وہ بھی مسلم کی شرط پر اور اسی طرح شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی اس کو صحیح کہا ہے تو جمہور کی توثیق اور محدثین کی توثیق کے بعد یہ روایت کم از کم حسن ضرور ہے اس لئے اپ کی یہ تخریج جمہور محدثین کے اصول پر خارج کی جاتی ہے۔
اور اخری بات
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
اس حدیث کو احمد شاکر رحمہ اللہ نے بھی رقم 648 مسند احمد کی تخریج میں صحیح کہا ہے۔
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
حسین رضی اللہ عنہ کو دریائے فرات کے کنارے شہید کر دیا جائے گا۔
اللہ سب کو ہدایت دے
[FONT="][/FONT]
اس کا ثبوت فراہم کیجئے کے
یہ جمہور کی توثیق اور محدثین کی توثیق کے بعد یہ روایت کم از کم حسن ضرور ہے اس لئے اپ کی یہ تخریج جمہور محدثین کے اصول پر خارج کی جاتی ہے۔ ورنہ ہوا میں تیر چلانے کا کوئی فائدہ نہیں ؟؟-
ویسے بھی تاریخ حقائق کے مطابق یہ روایت صحیح نہیں ہے -
قام من عندي جبريل قبل، فحدثني أن الحسين يقتل بشط الفرات
حسین رضی اللہ عنہ کو دریائے فرات کے کنارے شہید کر دیا جائے گا۔ (جو کہ کہ کربلا کے نزدیک ہے)
جب کہ تاریخی حساب سے حضرت حسین رضی الله عنہ کے اس مبینہ سفر کا آغاز مکہ مکرّمہ سے کوفہ کی جانب ہوا تھا اور کربلا مکہ سے کوفہ کے راستے میں نہیں اتا بلکہ کوفہ سے دمشق کے راستے میں اتا ہے. اس کی تصدیق گوگل میپ سے بھی کی جا سکتی ہے.
واقعہ کربلا پر پہلی تحریر بھی
ابو مخنف (لوط بن یحییٰ) کی ہے جو
"مقتل الحسین" کے نام سے مشھور و معروف ہے- ابو مخنف ایک شیعہ مصنف تھا اور عبد الله بن سبا کے نظریات کا پیروکار تھا-اس کا دادا سالم بن بن یحییٰ جنگ صفین میں حضرت علی رضی الله عنہ کی فوج میں شامل تھا اور امیر معاویہ رضی الله عنہ کے فوجیوں نے اسے قتل کردیا تھا- اس لئے ابو مخنف بنو امیہ خاندان کا جانی دشمن تھا -اس نے کل ٢٣ کتابیں (صحیفوں کی شکل میں) تحریر کیں جو سب کے سب بنو امیہ خاندان کو بدنام کرنے کے لئے لکھی گئیں تھیں- ابو مخنف کی مشھور زمانہ کتاب "مقتل الحسین" (170)١٧٠ ہجری کی ہے یعنی
ممکنہ واقعہ کربلا کے تقریباً ١١٠ سال بعد کی ہے اور اس کتاب کو مشھور مورخ حامد موانی نے بھی واقعہ کربلا پر سب سے پہلی کتاب مانا ہے. لوط بن یحییٰ کے اس افسانے کو شہرت اس وقت ملی جب مورخ علامہ ابن جریر طبری نے اس افسانے کو اپنی تاریخ طبری کا حصہ بنایا . مزید یہ کہ واقعہ کربلا سے مطلق بیشتر روایات ام سلمہ سے اتی ہیں جو خود ٥٩ ہجری سے پہلے فوت ہو گئی تھیں یعنی واقعہ کربلا ہونے سے ٢ سال پہلے. بعد کے محدثین نے ابو مخنف کی انہی جھوٹی روایات کو جیسے تیسے آگے بیان کردیا گیا- موطاء امام مالک جو احادیث پر لکھی گئی پہلی سب سے مستند کتاب تسلیم کی جاتی ہے اس میں واقعہ کربلا سے متعلق کوئی صحیح روایت موجود نہیں - امام زید ابن علی جو کے حضرت امام حسین رضی الله عنہ کے پوتے ہیں ان کی کتاب
مسند امام زید ابن علی میں بھی اس واقعہ کربلا سے مطلق کوئی روایت نہیں ہے . جب کہ اس کتاب میں جنگ نهروان (جو کہ حضرت علی اور خوارج کے درمیان ہوئی) اس پر بحث کی گئی ہے- مزید یہ کہ ایک شیعہ مورخ ملّاباقر مجلسی نے اپنی کتاب
"جلاالعیون" میں یہ تسلیم کیا ہے کہ حضرت حسین رضی الله عنہ کے اصلی قاتل
"اہل کوفہ تھے" یزید بن معاویہ نہیں
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کربلا
(جس کا اصل نام کربغا تھا) ایک گھڑا ہوا افسانہ ہے جس کی اصل حقیقت کا الله رب العزت کو ہی پتا ہے- اس سے واقعہ سے متعلق تمام روایات بعد کے ادوار میں گھڑی گئیں تا کہ اہل بیعت کی جھوٹی بناوٹی محبّت کی آڑ میں خاندان بنو امیہ کو بدنام کیا جا سکے-
الله ہمیں اپنی سیدھی راہ کی طرف گامزن کرے (آمین)-