• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سایہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ

گڈمسلم

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
1,407
ری ایکشن اسکور
4,912
پوائنٹ
292
رسول اللہ ﷺ کا سایہ مبارک

حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ​
رسول اللہ ﷺ کے سایہ کا ثبوت کئی احادیث صحیحہ میں ہے اور اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہے۔
طبقات ابن سعد (ج8 ص127،126 واللفظہ لہ) اور مسند احمد (ج6 ص261،131،132) میں امام مسلم کی شرط پر شمیسہ رحمہاللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
’’ فينما أنا يوماً في منصف النهار اذا أنا بظل رسول الله مقبلاً ‘‘
دوپہر کا وقت تھا کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کا سایہ آرہا ہے۔
شمیسہ کو امام ابن معین نے ثقہ کہا ہے ۔(تاریخ عثمان بن سعید الدارمی:418)
اور ان سے شعبہ نے بھی روایت کی ہے اور شعبہ (حتی الامکان) اپنے نزدیک عام طور پر صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے۔
’’کما ہوالاغلب‘‘ (تہذیب التہذیب ج1 ص5،4)
لہذا یہ سند صحیح ہے اسی طرح کی ایک طویل روایت سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے جس کا ایک حصہ کچھ یوں ہے:
’’فلما كان شهر ربيع الاول دخل عليها فرأت ظله......الخ‘‘ (مسند احمد ج6 ص338)
جب ربيع الاول كا مہینہ آیا تو آپ ﷺ ان کے پاس تشریف لائے انھوں نے آپﷺ کا سایہ دیکھا
اس کی سند صحیح ہے اور جو اسے ضعیف کہتا ہے وہ خطا پر ہے کیونکہ شمیسہ کا ثقہ ہونا ثابت ہوچکا ہے۔
صحیح ابن خزیمہ (ج2 ص51 ح892) میں بھی صحیح سند کے ساتھ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’حتي رأيت ظلي وظلكم‘‘ الخ
یہاں تک کہ میں نے اپنا اور تمہار سایہ دیکھا
اسے حاکم اور ذہبی دونوں نے صحیح کہاہ ے۔(المستدرک للحاکم ج4 ص456)
کسی صحیح یا حسن روایت سے یہ قطعاً ثابت نہیں کہ نبی کریم ﷺ کا سایہ نہیں تھا علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے خصائص کبریٰ میں جو روایت نقل کی ہے وہ اصول حدیث کی رو سے باطل ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
قرآن کریم سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ زمین وآسمان کی ہر مخلوق کا سایہ ہے، فرمانِ باری ہے:
﴿ وَلِلَّـهِ يَسْجُدُ مَن فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضِ طَوْعًا وَكَرْ‌هًا وَظِلَالُهُم بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ ۩ ١٥ ﴾ ۔۔۔ سورة الرعد؎
اور اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں جتنے آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی سے خواہ مجبوری سے اور ان کی پرچھائیاں ہر صبح و شام (15) ۔۔۔ ترجمہ احمد رضا خان بریلوی

﴿ أَوَلَمْ يَرَ‌وْا إِلَىٰ مَا خَلَقَ اللَّـهُ مِن شَيْءٍ يَتَفَيَّأُ ظِلَالُهُ عَنِ الْيَمِينِ وَالشَّمَائِلِ سُجَّدًا لِّلَّـهِ وَهُمْ دَاخِرُ‌ونَ ٤٨ ﴾ ۔۔۔ سورة النحل
اور کیا انہوں نے نہ دیکھا کہ جو چیز اللہ نے بنائی ہے اس کی پرچھائیاں دائیں اور بائیں جھکتی ہیں اللہ کو سجدہ کرتی اور وہ اس کے حضور ذلیل ہیں (48) ۔۔۔ ترجمہ احمد رضا خان بریلوی
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
سوال : تفصیل سے واضح کریں کہ سیّد الانبیاء محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک تھایا نہیں ؟
جواب : سیّد الانبیاء محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے برگزیدہ نبی اور انسان تھے ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلسلہ انسانیت سے پیدا کیا تھا اور انسان ہونے کے اعتبار سے یہ بات عیاں ہے کہ انسان کا سایہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے ایک مقام پر فر ما یا ہے کہ :
’’اور جتنی مخلو قا ت آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور نا خوشی سے اﷲ تعالیٰ کے آگے سجدہ کر تی ہیں اور اْن کے سائے بھی صْبح و شام سجدہ کرتے ہیں ۔‘‘(رعد :۱۵)
ایک اور مقام پر فرمایا :
’’کیا اْنہوں نے اﷲکی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اْس کے سائے دائیں اور بائیں سے لوٹتے ہیں ۔ یعنی اﷲ کے آگے ہو کر سر بسجود ہوتے ہیں۔‘‘(النحل : ۴۸)
اِن ہر دو آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ آسمان و زمین میں اﷲ نے جتنی مخلوق پیدا کی ہے اْن کا سایہ بھی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اﷲ کی مخلوق ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سا یہ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں جیسا کہ :
سیّدنا اَنس رضی اللہ عنہہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور بالکل نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک آگے بڑھایا مگر پھر جلد ہی پیچھے ہٹالیا ہم نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج آپؐنے خلافِ معمول نماز میں نئے عمل کا اضافہ کیا ہے ۔آپؐ نے فرمایا نہیں ۔بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی میں نے اِس میں بہترین پھیل دیکھے تو جی میں آیا کہ اِس میں سے کچھ اْچک لوں مگر فوراً حکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ میں پیچھے ہٹ گیا پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی۔
((حَتّٰی رَأَیْت ظِلِیّ وَظِلِیّ وَظِلَّلکْمْ)) اِس کی روشنی میںمیںنے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا ۔ دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ (مستدرک حاکم ۴ / ۴۵۶)
امام ذہبیؒ نے تلخیص مستددک میں فرمایا : ھزا حدیث صحیح یہ حدیث صحیح ہے ۔اِسی طرح مسند احمد ۶/۱۳۲‘۶/۳۳۸طبقات الکبریٰ ۸/۱۲۷‘مجمع الزوائد۴/۳۲۳ پر ایک حدیث میں مروی ہے کہ سیدّہ زینب رضی اللہ عنہا اورسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں‘ صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک اْونٹ تھا اور وہ بیمار ہو گیا جب کہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دو اونٹ تھے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زائد اونٹ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو تو اْنہوں نے کہا میں اْس یہودیہ کو کیوں دوں ؟ اِس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے ۔ تقریباً تین ماہ تک زینب رضی اللہ عنہا کے پاس نہ گئے حتیٰ کہ زینب رضی اللہ عنہا نے مایوس ہو کر اپنا سامان باندھ لیا۔
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
’’اچانک دیکھتی ہوں کہ دوپہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک آرہا ہے ۔‘‘
عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ سایہ مرئیہ فقط اْس جسم کا ہوتا جو ٹھوس اور نگر ہو نیز سورج کی شعاعوں کوروک ہی نہیں سکتا تو اِس کا سایہ بلاشبہ نظر نہیں آتا ۔ مثلاً صاف اور شفاف شیشہ اگر دھوپ میں لایا جائے تو اْس اک سایہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اِس میں شعاعوں کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ بخلاف اِس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر نہایت ٹھوس اور نگر تھا اْس کی ساخت شیشے کی طرح نہیں تھی کہ جس سے سب کچھ ہی گزر جائے۔
لا محالہ آپؐ کا سایہ تھا ۔ اگر جسم اطہر کا سایہ مبارک نہ تھا تو کیا جب آپؐ لباس پہنتے تو آپؐ کے مبلوسات کا بھی سایہ نہ تھا اگر وہ کپڑے اتنے لطیف تھے کہ اْن کا سایہ نہ تھا تو پھر اِن کے پہننے سے ستر وغیرہ کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی؟
منکرینِ سایہ یہ کہتے ہیں کہ آپؐ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپؐ کا سایہ اِس لیے نہیں تھا کہ اگر کسی کا اپؐ کے سایہ پر قد م آجا تا تو آپؐ کی توہین ہوتی اِس لیے اﷲ نے آپؐ کا سایہ پیدا ہی نہیں کیا ۔ جہاں تک پہلی بات کا ذکر ہے کہ آپؐ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ‘ سراسر غلط ہے۔ نوریوں کا سایہ صحیح حدیث سے ثابت ہے جب سیّد نا جابر رضی اللہ عنہہ کے والد عبداﷲ رضی اللہ عنہہ غزوئہ اْحد میں شہید ہوگئے تو اْن کے اہل و عیال اْن کے گرد جمع ہوکر رونے لگے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کہ جب تک تم انہیں یہاں سے اْٹھا نہیں لیتے اْس وقت سے فرشتے اِس پر اپنے پرّوں کا سایہ کیے رکھیں گے۔‘‘(بخاری کتاب الجنائز ۲ / ۱۵)
اور دوسری بات بھی خلافِ واقع ہے کیونکہ سایہ پاؤں کے نیچے آہی نہیں سکتا جب کبھی کوئی شخص سائے پر پاؤںرکھے گا تو سایہ اْس کے پاؤں کے اْوپر ہوجائے گا نہ کہ نیچے ۔ لہٰذا ان عقلی اور نقلی دلائل کہ خلاف یہ بے عقلی کی اور بے سند باتیں حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔
کتاب
الْعَقَائِدوَا لتَّا رِ یْخِ

 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
بعض لوگ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سایہ کا انکار کرتے ہیں ، ذیل میں سایہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق احادیث اورمخالفین کے شبہات کا ازالہ پیش خدمت ہے:


سایہ کے ثبوت میں چنداحادیث


پہلی حدیث :
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ(المتوفى 311)نے کہا:
بحر بن نصر بن سابق الخولاني نا ابن وهب حدثني معاوية بن صالح عن عيسى بن عاصم عن زر بن حبيش عن أنس بن مالك قال : صلينا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم صلاة الصبح قال : فبينما هو في الصلاة مد يده ثم أخرها فلما فرغ من الصلاة قلنا يا رسول الله صنعت في صلاتك هذه ما لم تصنع في صلاة قبلها قال إني رأيت الجنة قد عرضت علي ورأيت فيها قطوفها دانية حبها كالدباء فأردت أن أتناول منها فأوحى إليها أن استأخري فاستأخرت ثم عرضت علي النار بيني وبينكم حتى رأيت ظلي وظلكم فأومأت إليكم أن استأخروا فأوحى إلي أن أقرهم فإنك أسلمت وأسلموا وهاجرت وهاجروا وجاهدت وجاهدوا فلم أر لي عليكم فضلا إلا بالنبوة[صحيح ابن خزيمة 2/ 50 واسنادہ صحیح]۔


دوسری حدیث:
امام ابن سعد رحمه الله (المتوفى230)نے کہا:
حدثنا حماد بن سلمة حدثنا ثابت البناني عن شمسية عن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان في سفر فاعتل بعير لصفية وفي إبل زينب فضل فقال رسول الله إن بعيرا لصفية اعتل فلو أعطيتها بعيرا من إبلك فقالت أنا أعطي تلك اليهودية فتركها رسول الله ذا الحجة والمحرم شهرين أو ثلاثة لا يأتيها قالت حتى يئست منه وحولت سريري قال فبينما أنا يوما منصف النهار إذا أنا بظل رسول الله صلى الله عليه و سلم مقبلا[الطبقات الكبرى 8/ 127 واسنادہ صحیح وشمیسہ وثقہ ابن معین]۔

تیسری حدیث:
امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241)نے کہا:
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ : حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، قَالَ : حَدَّثَتْنِي شُمَيْسَةُ ، أَوْ سُمَيَّةُ ، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ : هُوَ فِي كِتَابِي سُمَيَّةُ ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ بِنِسَائِهِ ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ ، نَزَلَ رَجُلٌ ، فَسَاقَ بِهِنَّ ، فَأَسْرَعَ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : كَذَاكَ سَوْقُكَ بِالْقَوَارِيرِ ، يَعْنِي النِّسَاءَ ، . فَبَيْنَا هُمْ يَسِيرُونَ ، بَرَكَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ جَمَلُهَا ، وَكَانَتْ مِنْ أَحْسَنِهِنَّ ظَهْرًا ، فَبَكَتْ . وَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أُخْبِرَ بِذَلِكَ ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ دُمُوعَهَا بِيَدِهِ ، وَجَعَلَتْ تَزْدَادُ بُكَاءً وَهُوَ يَنْهَاهَا ، فَلَمَّا أَكْثَرَتْ ، زَبَرَهَا وَانْتَهَرَهَا وَأَمَرَ النَّاسَ بِالنُّزُولِ ، فَنَزَلُوا ، وَلَمْ يَكُنْ يُرِيدُ أَنْ يَنْزِلَ . قَالَتْ : فَنَزَلُوا ، وَكَانَ يَوْمِي ، فَلَمَّا نَزَلُوا ، ضُرِبَ خِبَاءُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَدَخَلَ فِيهِ ، قَالَتْ : فَلَمْ أَدْرِ عَلاَمَ أُهْجَمُ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ وَخَشِيتُ أَنْ يَكُونَ فِي نَفْسِهِ شَيْءٌ ، فَانْطَلَقْتُ إِلَى عَائِشَةَ ، فَقُلْتُ لَهَا : تَعْلَمِينَ أَنِّي لَمْ أَكُنْ أَبِيعُ يَوْمِي مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَيْءٍ أَبَدًا ، وَإِنِّي قَدْ وَهَبْتُ يَوْمِي لَكِ عَلَى أَنْ تُرْضِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِّي ، قَالَتْ : نَعَمْ ، قَالَ : فَأَخَذَتْ عَائِشَةُ خِمَارًا لَهَا قَدْ ثَرَدَتْهُ بِزَعْفَرَانٍ ، فَرَشَّتْهُ بِالْمَاءِ لِيُذَكِّيَ رِيحَهُ ، ثُمَّ لَبِسَتْ ثِيَابَهَا ، ثُمَّ انْطَلَقَتْ إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَرَفَعَتْ طَرَفَ الْخِبَاءِ ، فَقَالَ لَهَا : مَا لَكِ يَا عَائِشَةُ ؟ إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِيَوْمِكِ . قَالَتْ : ذَلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ، فَقَالَ مَعَ أَهْلِهِ ، فَلَمَّا كَانَ عِنْدَ الرَّوَاحِ ، قَالَ لِزَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ : يَا زَيْنَبُ ، أَفْقِرِي أُخْتَكِ صَفِيَّةَ جَمَلاً ، وَكَانَتْ مِنْ أَكْثَرِهِنَّ ظَهْرًا ، فَقَالَتْ : أَنَا أُفْقِرُ يَهُودِيَّتَكَ ، فَغَضِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْهَا ، فَهَجَرَهَا ، فَلَمْ يُكَلِّمْهَا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ وَأَيَّامَ مِنًى فِي سَفَرِهِ ، حَتَّى رَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ ، وَالْمُحَرَّمَ وَصَفَرَ ، فَلَمْ يَأْتِهَا ، وَلَمْ يَقْسِمْ لَهَا ، وَيَئِسَتْ مِنْهُ ، فَلَمَّا كَانَ شَهْرُ رَبِيعٍ الأَوَّلِ ، دَخَلَ عَلَيْهَا ، فَرَأَتْ ظِلَّهُ ، فَقَالَتْ : إِنَّ هَذَا لَظِلُّ رَجُلٍ ، وَمَا يَدْخُلُ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَمَنْ هَذَا ؟ فَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَلَمَّا رَأَتْهُ قَالَتْ : يَا رَسُولَ اللهِ ، مَا أَدْرِي مَا أَصْنَعُ حِينَ دَخَلْتَ عَلَيَّ ؟ قَالَتْ : وَكَانَتْ لَهَا جَارِيَةٌ ، وَكَانَتْ تَخْبَؤُهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَقَالَتْ : فُلاَنَةُ لَكَ ، فَمَشَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَرِيرِ زَيْنَبَ ، وَكَانَ قَدْ رُفِعَ ، فَوَضَعَهُ بِيَدِهِ ، ثُمَّ أَصَابَ أَهْلَهُ ، وَرَضِيَ عَنْهُمْ.[مسند أحمد:6/ 338 واسنادہ صحیح وشمیسہ وثقہ ابن معین]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
شبہات کا ازالہ


پہلاشبہ:
امام سیوطی (المتوفى: 911) نے کہا:
اخرج الحكيم الترمذي عن ذكوان ان رسول الله {صلى الله عليه وسلم} لم يكن يرى له ظل في شمس ولا قمر [الخصائص الكبرى 1/ 117]۔

امام سیوطی نے دوسرے مقام پر اس کی سند اس طرح نقل کی ہے:
وله طريق سادس مرسل أخرج الحكيم الترمذي من طريق عبد الرحمن بن قيس الزعفراني عن عبد الملك بن عبد الله بن الوليد عن ذكوان ان رسول الله {صلى الله عليه وسلم} لم يكن يرى له ظل في شمس ولا قمر ولا أثر قضاء حاجة[الخصائص الكبرى 1/ 121]۔

مذکورہ روایت باطل وموضوع من گھڑت ہے اس میں بہت ساری علتیں ہیں۔

اولا:
سندمیں موجود عبدالرحمن بن قیس زعفرانی کذاب اوروضاع ہے:
خود اس روایت کے نقل کرنے والے امام سیوطی رحمہ اللہ اپنی دوسری تالیف میں فرماتے ہیں:
وأخرج الحكيم الترمذي في نوادر الأصول من طريق عبد الرحمن بن قيس وهو وضاع كذاب عن عبد الملك بن عبد الله بن الرائد وهو مجهول عن ذكوان أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لم يكن يرى له ظل في شمس ولا قمر ولا أثر قضاء حاجة". مناهل الصفا في تخريج أحاديث الشفا (ص: 42)

امام أبو زرعة الرازي رحمه الله (المتوفى264)نے کہا:
عبد الرحمن بن قيس : كذاب[الضعفاء لابي زرعه الرازي: 2/ 500]۔

امام حاكم رحمه الله (المتوفى405)نے اسے متہم قرردیتے ہوئے کہا:
وَهَذَا عِنْدِي مَوْضُوع وَرَوَاهُ عَنهُ أَبُو مَسْعُود الْأَصْبَهَانِيّ وَهُوَ ثِقَة وَلَيْسَ الْحمل فِيهِ إِلَّا على عبد الرَّحْمَن بن قيس[المدخل إلى الصحيح للحاکم :ص: 156]۔

ان کے علاوہ اوربھی بہت سارے محدثین نے اس پر سخت جرح کی ہے ملاحظہ ہوں عام کتب رجال۔

ثانیا:
مذکورہ کذاب راوی کا استاذ عبد الملك بن عبد الله بن الولید مجہول ہے۔
اس کا کوئی وجود کتب رجال میں نہیں ملتا ۔
ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ذكره الحكيم الترمذي في نوادر الأصول عن عبد الرحمن بن قيس وهو مطعون عن عبد الملك بن عبد الله بن الوليد وهو مجهول عن ذكوان (من أنّه كان لا ظلّ لشخصه فِي شَمْسٍ وَلَا قَمَرٍ لِأَنَّهُ كَانَ نُورًا)[شرح الشفا : 1/ 754 ].

ثالثا:

ذکوان صحابی نہیں ہیں لہٰذا یہ روایت مرسل ہے اورمرسل جمہورمحدثین کے نزدیک مردود ہے۔

رابعا:

امام سیوطی نے حکیم ترمذی کی کتاب سے پوری سند نقل نہیں کی ہے لہٰذا بقیہ سند کی حالت بھی غیرمعروف ہے۔

خامسا:
حکیم ترمذی بذات خود نامعلوم التوثیق ہے کسی بھی محدث نے ان کی توثیق نہیں کی بلکہ بعض محدثین نے ان کے خلاف بہت سخت قسم کی باتیں نقل کی ہیں:
امام ابن العديم رحمه الله (المتوفى660)نے کہا:
لم يكن من أهل الحديث ولا رواية له ولا أعلم له تطرقة وصناعة وانما كان فيه الكلام على إشارات الصوفية والطرائق ودعوى الكشف عن الأمور الغامضة والحقائق حتى خرج في ذلك عن قاعدة الفقهاء واستحق الطعن عليه بذلك والازراء وطعن على أئمة الفقهاء والصوفية وأخرجوه بذلك عن السيرة المرضية [الملحة في الرد على أبي طلحة لابن الندیم بحوالہ :لسان الميزان لابن حجر: 5/ 309]۔

تاج الدين السبكي (المتوفى:771)نے أَبُو عبد الرَّحْمَن السلمى سے نقل کرتےہوئے کہا:
قَالَ أَبُو عبد الرَّحْمَن السلمى نفوه من ترمذ وأخرجوه مِنْهَا وشهدوا عَلَيْهِ بالْكفْر وَذَلِكَ بِسَبَب تصنيفه كتاب ختم الْولَايَة وَكتاب علل الشَّرِيعَة وَقَالُوا إِنَّه يَقُول إِن للأولياء خَاتمًا كَمَا أَن للأنبياء خَاتمًا وَإنَّهُ يفضل الْولَايَة على النُّبُوَّة[طبقات الشافعية الكبرى للسبكي 2/ 245]۔


اورتو اورہے بقول امام شعرانی ، خود حکیم ترمذی اپنے بارے میں فرماتےہیں:
ما صنفت حرفاً عن تدبير ولا لينسب إلي شيء من المؤلفات، ولكن كان إذا اشتد علي وقتي أتسلى به[الطبقات الكبرى للشعراني:1/ 78]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
دوسرا شبہ:

امام زرقاني (المتوفى1122 )نے کہا:
روى ابن المبارك وابن الجوزي، عن ابن عباس: لم يكن للنبي -صلى الله عليه وسلم- ظل، ولم يقم مع الشمس قط إلا غلب ضوؤه ضوء الشمس، ولم يقم مع سراج قط إلا غلب ضوء السراج[شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 5/ 525]۔

ابن الجوزی نے اس کی کوئی سند ذکر نہیں کی ہے ملاحظ ہوں ان کے کتاب کے الفاظ :
امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
عن ابن عباس قال: «لم يكن لرسول الله صلى الله عليه وسلم ظل، ولم يقم مع شمس قط إلا غلب ضوؤه ضوءَ الشمس، ولم يقم مع سراج قط إلا غلب ضوؤه على ضوء السِّراج.[الوفا بتعريف فضائل المصطفى لابن الجوزی: 1/ 295]۔

اورابن المبارک نے اسے کہاں اورکیسے ذکر کیا ہے اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا۔
لہٰذا یہ روایت بھی باطل ہی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
تیسرا شبہ :

أبو البركات عبد الله بن أحمد بن محمود حافظ الدين النسفي (المتوفى 710 ) بلاسند نقل کیا:
وقال عثمان إن الله ما أوقع ظله على الأرض لئلا يضع إنسان قدمه على ذلك الظل [ مدارك التنزيل وحقائق التأويل (2/ 492)]۔

ازالہ:
اولا:
یہ روایت بے سند ہے لہٰذا مردود وباطل ہے۔
ثانیا:
اس روایت میں ہے لئلا يضع إنسان قدمه على ذلك الظل ۔
عرض ہے کہ یہ ممکن ہی نہیں کی کسی کے سائے کے اوپرکوئی قدم رکھ سکے اس لئے کہ کسی بھی سائے پرکوئی چیز رکھی جائے تو سایہ وہاں سے غائب ہوکراس چیزکے اوپرآجاتا ، یعنی سایہ کو کچلنا ممکن ہی نہیں ، معلوم ہوا کہ مذکورہ روایت گھڑنے والا کوئی احمق تھا ۔
ثالثا:
سائے کو تو جانے دیجئے خود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو کفار و مشرکیں نے کتنی اذیتیں پہنچائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسم کو لہو لہان کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرگندگیاں ڈالی گئیں ، لگتاہے یہ منطق پیش کرنے والا شخص سیرت کے ان واقعات سے ناواقف تھا یا حد درجہ بلیدالفھم تھا۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
چوتھا شبہ:
امام زرقاني (المتوفى1122)نے نقل کیا:
وقال ابن سبع: كان -صلى الله عليه وسلم- نورًا، فكان إذا مشى في الشمس أو القمر لا يظهر له ظل"؛ لأن النور لا ظلَّ له[شرح الزرقاني على المواهب اللدنية بالمنح المحمدية 5/ 525]۔

اولا:
ابن السبع کون ہے ، عدالت وثقاہت کے اعتبار سے اس کا کیا درجہ یہی پتہ نہیں ، بعض لوگوں نے اس کی بعض تالیفات کا تذکرہ کیا ہے مگران کے قابل اعتماد ہونے کی کوئی بات کہیں نہیں ملتیں ۔؎
ثانیا:
ابن السبع کی مذکورہ بات ان کی اپنی بات ہے کوئی روایت نہیں ہے ، اوران کی یہ بات بےدلیل ہونے کی بناپرمردود ہے ممکن ہے ان کی دلیل حکیم ترمذی والی روایت رہی ہے جو موضوع و من گھڑت ہے کما مضی۔
ثالثا:
اگر ابن السبع کے اس کلام کی روایت مان لیں تو ابن السبع نے اس کی کوئی سند یا اس کا کوئی حوالہ پیش نہیں کیا ہے لہٰذا بے سند ہونے کی بناپر یہ بات مردود ہوگی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,805
پوائنٹ
773
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نور تھے اورنور کا سایہ نہیں ۔

ازالہ:

اولا:
یہ بنیاد ہی غلط ہے اللہ کے نبی نور تھے ہی نہیں بلکہ بشرہے ۔
ثانیا:
نوری مخلوق کا بھی سایہ ہوتا ہے ، صحیح بخاری کی حدیث ہے:
عن جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَمَّا قُتِلَ أَبِي جَعَلْتُ أَبْكِي، وَأَكْشِفُ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، فَجَعَلَ أَصْحَابُ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَوْنِي وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَنْهَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لاَ تَبْكِيهِ - أَوْ: مَا تَبْكِيهِ - مَا زَالَتِ المَلاَئِكَةُ تُظِلُّهُ بِأَجْنِحَتِهَا حَتَّى رُفِعَ "[صحيح البخاري 5/ 102 رقم 4080 ]۔
ثالثا:
اگربفرض محال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نور مان بھی لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک نور ہوگا نہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کپڑے پہن کرہی دن میں نکلتے تھے ، لہذا آپ کے جسم پرکپڑوں کا سایہ تو لازمی ہے ، معلوم نہیں اہل بدعت اس کا کیا جواب دیں گے ؟؟؟
 

Mahmood Alam

رکن
شمولیت
فروری 24، 2012
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
اللہ کے رسول ﷺ کا سایہ نہیں تھا یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔ اس سے ثابت یہی کرنا مقصود ہے کہ آپ صرف دیکھنے میں انسان دکھائی دیتے تھے مگر آپ کی خلقت مٹی سے نہیں تھی، تب ہی تو سایہ نہیں تھا؟ حالانکہ ان جاہلوں کو یہ تک پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات ہے اور خود نور ہے جس کے نور کی کوئی مثال نہیں ہے اس کا تو سایہ احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن بیوقوفوں نے نبی ﷺ کو سایہ سے محض اپنے ظن کی بنا پر بری کردیا۔ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کا سایہ اس لیے نہیں تھا کہ لوگوں کے پیروں میں نہ آئے۔ انہیں یہ تک پتہ نہیں کہ سایہ پیروں میں نہیں آتا بلکہ کوئی اگر سایہ پر آجائے تو سایہ اس پر آجاتا ہے۔
اللہ رب العالمین کا سایہ: سات آدمی جن پر اللہ تعالیٰ اپنا سایہ کریگا ایسے دن میں جبکہ اس کے سایہ کے سوا کسی چیز کا سایہ نہیں ہوگا۔ (بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، موطائ)
حدیث قدسی ہے: ترجمہ: میں (اللہ) سایہ کرونگا اس شخص پر ایسے دن میں جبکہ میرے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ ( مسلم )
تمام مخلوق کا سایہ: قرآن مجید میں ہے: ترجمہ: ”اور اللہ تعالیٰ نے جو مخلوق بھی پیدا کی ہے تو اس کے سائے بنادیئے۔“ (۱۸۶۱) (رضا خانی اللہ کے رسول ﷺ کو مخلوقات سے باہر ثابت کریں)
فرشتوں کا سایہ: ”ام المومنین عائشہ ؓ کہتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: فرشتے نور سے پیدا کیے گئے، جنات آگ سے اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے۔“(مسلم)
”فرشتے مومن کی میت پر اپنے پروں سے سایہ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس کا جنازہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ (بخاری) ہمیشہ فرشتے اس پر اپنا سایہ کرتے رہتے ہیں۔“ (مسند احمد)
جنت کا سایہ: جنت کے پھل اور سائے ہمیشگی والے ہوں گے۔ (۵۲۳۱) ہم جنتیوں کو گھنے سایہ میں داخل کریں گے۔ (۷۵۴)
سایہ رسول ﷺ: حدیث: ترجمہ: ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ایک سفر میں تھے۔ سیدة صفیہ ؓ کا سواری کا اونٹ بیمار ہوگیا اور سیدة زینبؓ کے پاس وافر سواری موجود تھی تو رسول اللہ ﷺ نے سیدة زینب کے پاس جا کر فرمایا کہ صفیہ ؓ کا سواری والا اونٹ بیمار ہوگیا ہے پس تو اپنے اونٹوں سے ایک اونٹ برائے سواری صفیہؓ کو دیدے۔ توسیدة زینب نے جواب دیا کہ میں اس یہودی عورت کو اپنا اونٹ دوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے سیدةزینبؓ کے پاس آمد و رفت چھوڑ دی ذی الحجہ اور محرم یہ دو مہینے یا تین مہینے آپ ان کے پاس نہیں آئے۔ سیدة زینب نے کہا کہ میں پوری طرح آپ سے ناامید ہوگئی اور اپنی چارپائی وہاں سے ہٹا کر رکھ دی۔ پھر سیدةزینبؓ فرماتی ہیں کہ اچانک میں ایک دن دوپہر کے وقت کھڑی اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سایہ مبارک میں پاتی ہوں کہ آپ میری طرف چلے آرہے ہیں۔ یہ واقعہ حجة الوداع کے سفر کا ہے۔ (مسند احمد ج۶۔ص۲۳۱)
نوٹ: اس حدیث کے کئی طرق ہیں، تمام میں سایہ¿ رسول ﷺ کا ذکر موجود ہے، یہاں صرف ایک طرق بیان کیا گیا ہے۔
 
Top