جزاک اللہ خیرا محمود عالم بھائیاللہ کے رسول ﷺ کا سایہ نہیں تھا یہ اتنا بڑا جھوٹ ہے کہ جس کی کوئی مثال نہیں۔ اس سے ثابت یہی کرنا مقصود ہے کہ آپ صرف دیکھنے میں انسان دکھائی دیتے تھے مگر آپ کی خلقت مٹی سے نہیں تھی، تب ہی تو سایہ نہیں تھا؟ حالانکہ ان جاہلوں کو یہ تک پتہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ جو خالق کائنات ہے اور خود نور ہے جس کے نور کی کوئی مثال نہیں ہے اس کا تو سایہ احادیث سے ثابت ہے۔ لیکن بیوقوفوں نے نبی ﷺ کو سایہ سے محض اپنے ظن کی بنا پر بری کردیا۔ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کا سایہ اس لیے نہیں تھا کہ لوگوں کے پیروں میں نہ آئے۔ انہیں یہ تک پتہ نہیں کہ سایہ پیروں میں نہیں آتا بلکہ کوئی اگر سایہ پر آجائے تو سایہ اس پر آجاتا ہے۔
اللہ رب العالمین کا سایہ: سات آدمی جن پر اللہ تعالیٰ اپنا سایہ کریگا ایسے دن میں جبکہ اس کے سایہ کے سوا کسی چیز کا سایہ نہیں ہوگا۔ (بخاری، مسلم، ترمذی، نسائی، موطائ)
حدیث قدسی ہے: ترجمہ: میں (اللہ) سایہ کرونگا اس شخص پر ایسے دن میں جبکہ میرے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا۔ ( مسلم )
تمام مخلوق کا سایہ: قرآن مجید میں ہے: ترجمہ: ”اور اللہ تعالیٰ نے جو مخلوق بھی پیدا کی ہے تو اس کے سائے بنادیئے۔“ (۱۸۶۱) (رضا خانی اللہ کے رسول ﷺ کو مخلوقات سے باہر ثابت کریں)
فرشتوں کا سایہ: ”ام المومنین عائشہ ؓ کہتی ہیں رسول اللہﷺ نے فرمایا: فرشتے نور سے پیدا کیے گئے، جنات آگ سے اور آدم مٹی سے پیدا کیے گئے۔“(مسلم)
”فرشتے مومن کی میت پر اپنے پروں سے سایہ کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ اس کا جنازہ اٹھا لیا جاتا ہے۔ (بخاری) ہمیشہ فرشتے اس پر اپنا سایہ کرتے رہتے ہیں۔“ (مسند احمد)
جنت کا سایہ: جنت کے پھل اور سائے ہمیشگی والے ہوں گے۔ (۵۲۳۱) ہم جنتیوں کو گھنے سایہ میں داخل کریں گے۔ (۷۵۴)
سایہ رسول ﷺ: حدیث: ترجمہ: ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ایک سفر میں تھے۔ سیدة صفیہ ؓ کا سواری کا اونٹ بیمار ہوگیا اور سیدة زینبؓ کے پاس وافر سواری موجود تھی تو رسول اللہ ﷺ نے سیدة زینب کے پاس جا کر فرمایا کہ صفیہ ؓ کا سواری والا اونٹ بیمار ہوگیا ہے پس تو اپنے اونٹوں سے ایک اونٹ برائے سواری صفیہؓ کو دیدے۔ توسیدة زینب نے جواب دیا کہ میں اس یہودی عورت کو اپنا اونٹ دوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے سیدةزینبؓ کے پاس آمد و رفت چھوڑ دی ذی الحجہ اور محرم یہ دو مہینے یا تین مہینے آپ ان کے پاس نہیں آئے۔ سیدة زینب نے کہا کہ میں پوری طرح آپ سے ناامید ہوگئی اور اپنی چارپائی وہاں سے ہٹا کر رکھ دی۔ پھر سیدةزینبؓ فرماتی ہیں کہ اچانک میں ایک دن دوپہر کے وقت کھڑی اپنے آپ کو رسول اللہ ﷺ کے سایہ مبارک میں پاتی ہوں کہ آپ میری طرف چلے آرہے ہیں۔ یہ واقعہ حجة الوداع کے سفر کا ہے۔ (مسند احمد ج۶۔ص۲۳۱)
نوٹ: اس حدیث کے کئی طرق ہیں، تمام میں سایہ¿ رسول ﷺ کا ذکر موجود ہے، یہاں صرف ایک طرق بیان کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے ایک مقام پر فر ما یا ہے کہ :’’اور جتنی مخلو قا ت آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور نا خوشی سے اﷲ تعالیٰ کے آگے سجدہ کر تی ہیں اور اْن کے سائے بھی صْبح و شام سجدہ کرتے ہیں ۔‘‘(رعد :۱۵)
ایک اور مقام پر فرمایا :
اِن ہر دو آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ آسمان و زمین میں اﷲ نے جتنی مخلوق پیدا کی ہے اْن کا سایہ بھی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اﷲ کی مخلوق ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سا یہ تھا ۔’’کیا اْنہوں نے اﷲکی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اْس کے سائے دائیں اور بائیں سے لوٹتے ہیں ۔ یعنی اﷲ کے آگے ہو کر سر بسجود ہوتے ہیں۔‘‘(النحل : ۴۸)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں جیسا کہ :
سیّدنا اَنس رضی اللہ عنہہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور بالکل نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک آگے بڑھایا مگر پھر جلد ہی پیچھے ہٹالیا ہم نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے خلافِ معمول نماز میں نئے عمل کا اضافہ کیا ہے ۔آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں ۔بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی میں نے اِس میں بہترین پھیل دیکھے تو جی میں آیا کہ اِس میں سے کچھ اْچک لوں مگر فوراً حکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ میں پیچھے ہٹ گیا پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی۔
((حَتّٰی رَأَیْت ظِلِیّ وَظِلِیّ وَظِلَّلکْمْ))
اِس کی روشنی میں میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا ۔ دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔
(مستدرک حاکم ۴ / ۴۵۶)
امام ذہبی نے لتخیص مستدرک میں فرمایا : ھزا حدیث صحیح یہ حدیث صحیح ہے ۔
عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ سایہ مرئیہ فقط اْس جسم کا ہوتا جو ٹھوس اور نگر ہو نیز سورج کی شعاعوں کوروک ہی نہیں سکتا تو اِس کا سایہ بلاشبہ نظر نہیں آتا ۔ مثلاً صاف اور شفاف شیشہ اگر دھوپ میں لایا جائے تو اْس اک سایہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اِس میں شعاعوں کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ بخلاف اِس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر نہایت ٹھوس اور نگر تھا اْس کی ساخت شیشے کی طرح نہیں تھی کہ جس سے سب کچھ ہی گزر جائے۔اسی طرح مسند احمد ۶/۱۳۲‘۶/۳۳۸طبقات الکبریٰ ۸/۱۲۷‘مجمع الزوائد۴/۳۲۳ پر ایک حدیث میں مروی ہے کہ سیدّہ زینب رضی اللہ عنہا اورسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں‘ صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک اْونٹ تھا اور وہ بیمار ہو گیا جب کہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دو اونٹ تھے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زائد اونٹ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو تو اْنہوں نے کہا میں اْس یہودیہ کو کیوں دوں ؟ اِس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے ۔ تقریباً تین ماہ تک زینب رضی اللہ عنہا کے پاس نہ گئے حتیٰ کہ زینب رضی اللہ عنہا نے مایوس ہو کر اپنا سامان باندھ لیا۔
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
’’اچانک دیکھتی ہوں کہ دوپہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک آرہا ہے ۔‘‘
اسلام علیکمmohammad Alam bhai ,,,,,ye baat samajh me nahi ayi apki aya ye hadish me hai ya quran me hai ,,,,,,,,,تمام مخلوق کا سایہ: قرآن مجید میں ہے: ترجمہ: ”اور اللہ تعالیٰ نے جو مخلوق بھی پیدا کی ہے تو اس کے سائے بنادیئے۔“ (۱۸۶۱) (رضا خانی اللہ کے رسول ﷺ کو مخلوقات سے باہر ثابت کریں)