• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعہ أحرف … تنقیحات و توضیحات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
امام ابوالفضل الرازی رحمہ اللہ
امام ابوالفضل الرازی رحمہ اللہ احرف سبعہ کی تفسیرمیں درج ذیل وجوہ سبعہ سے کرتے ہیں:
(١) اَسماء میں مفرد، تثنیہ، جمع ، تذکیر و تانیث اور مبالغہ وغیرہ کا اختلاف۔
(٢) افعال میں ماضی، مضارع، امر، تانیث و تذکیر، مخاطب و متکلم ، اسناد الی الفاعل اور مفعول کا اختلاف۔
(٣) وجوہ اعراب کا اختلاف۔ (٤) نقص و زیادت کااختلاف۔
(٥) تقدیم و تاخیر کا اختلاف۔ (٦) ایک کلمہ کی جگہ دوسرا کلمہ یا ایک حرف کو دوسرے سے بدل دینا۔
(٧) اختلاف اللغات مثلاًفتح امالہ، تفخیم و ترقیق،تحقیق و تسہیل اور ادغام واظہار وغیرہ۔
جن اَئمہ متقدمین نے سبعہ اَحرف کی تشریح سبعہ وجوہ سے فرمائی ہے ان جمیع اَقوال میں سے اَشمل اور اَحسن قول امام ابوالفضل رازی رحمہ اللہ ہی کا ہے باقی اَئمہ بعض انتہائی بنیادی باتوں سے صرف نظر کرگئے ہیں۔متاخرین میں سے اس قول کی تائید کرنے والوں میں عبدالعظیم الزرقانی صاحب مناھل العرفان ہیں ۔ انہوں نے ہرطرح سے اس قول کی توثیق کی۔ اس کے علاوہ محمد علی الصابونی رحمہ اللہ نے التبیان میں اور مولاناتقی عثمانی نے علوم القرآن میں اس قول پرتفصیل سے تائیدی بحث کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مذکورہ مؤقف کا جائزہ
مذکورہ قول کے قائلین یقیناً اُمت کے بہترین لوگ ہیں جن کی جلالت علمی، ورع و تقویٰ اور خلوص نیت کے بارے میں ادنیٰ سا شک بھی نفاق اور علمی خیانت شمار ہوگا لیکن کسی علمی مسئلہ میں آراء کااختلاف یہ فکری صحت مندی کی علامت ہے اور اہل علم کی آراء کو مروجہ علمی و عقلی معیارات پرپرکھنا اورکسی مؤقف پر مدلل تنقید کرنا کسی طرح بھی گستاخی یا ان کی شان کے منافی نہیں ہے۔
اس سے پہلے کہ ہم مذکورہ اَقوال کا تنقیدی جائزہ پیش کریں وہ آراء بھی پیش کرنامناسب سمجھتے ہیں جو اس کی تائید میں بعض علماء سے منقول ہیں۔
شیخ عبدالعظیم الزرقانی رحمہ اللہ نے ان وجوہ کو قدرے تفصیل سے ذکر کیا ہے اور محمدعلی الصابونی رحمہ اللہ نے ان کا خلاصہ ذکر کردیا ہے جس کا ترجمہ پیش خدمت ہے:
فرماتے ہیں کہ: أقرب إلی الصواب قول وہی ہے جیسے ابوالفضل رازی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے اور الزرقانی رحمہ اللہ نے جس پر اعتماد کیاہے اور دلائل سے ان کی تائید کی ہے۔ وہ دلائل درج ذیل ہیں:
(١) اس مذہب کی تائید سبعہ اَحرف کے سلسلہ میں وارد شدہ احادیث سے ہوتی ہے۔
(٢) اس رائے میں ایک کامل استقراء پر اعتماد کیا گیا ہے اور وہ استقراء ایسا ہے جو جمیع اختلاف قراء ات کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔
(٣) اس رائے سے کوئی نقصان لازم نہیں آتا ہے، جو دیگر اقوال کے اختیار کرنے سے لازم آتا ہے۔ (التبیان: ۲۱۷)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
٭ مولاناتقی عثمانی ﷾ رقم طراز ہیں:
’’سبعہ َاحرف کی تشریح میں جتنے اقوال حدیث تفسیر اور علوم قرآن کی کتابوں میں بیان ہوئے ہیں۔ہمارے نزدیک ان سب میں سے یہ قول (کہ سات حروف سے مراد اختلاف قراء ات کی سات نوعتیں ہیں) سب سے زیادہ راجح، قابل اعتماد اور اطمینان بخش ہے اور اس کی مندرجہ ذیل وجوہ، جنہیں مولانانے وجوہ امام طحاوی رحمہ اللہ کے مؤقف کے تناظر میں ذکر کیا ہے، ہم اس تناظر سے ہٹ کر صر ف وجوہ ترجیح ذکر کرتے ہیں:
(١) مذکورہ قول کے مطابق حروف قراء ات کو دو الگ الگ چیزیں قرار دینا نہیں پڑتا جبکہ دیگر اقوال ماننے سے یہ الجھن پیدا ہوتی ہے۔
(٢) اس قول کو اختیار کرنے سے سبعہ اَحرف کو منسوخ نہیں ماننا پڑتا بلکہ تمام کے تمام اَحرف باقی و ثابت رہتے ہیں۔
(٣) اس قول کے مطابق سات حروف کے معنی بلا تکلف صحیح ہوجاتے ہیں، جبکہ دوسرے اَقوال میں یا حروف کے معنی میں تاویل کرنا پڑتی ہے یا سات کے عدد میں۔
(٤) سبعہ اَحرف کے باب میں جتنے علماء کے اَقوال ہماری نظر سے گزرے ہیں ان میں سب سے زیادہ جلیل القدر اورعہدِ رسالت کے قریب تر ہستی امام مالک رحمہ اللہ کی ہے اور وہ علامہ نیشاپوری رحمہ اللہ کے بیان کے مطابق اسی قول کے قائل ہیں۔
(٥) علامہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ اور محقق ابن الجزری رحمہ اللہ دونوں علم قراء ات کے مسلم امام ہیں اور دونوں اسی قول کے قائل ہیں اور مؤخر الذکر کا یہ قول گزر چکا ہے کہ انہوں نے تیس سال سے زائد اس حدیث پر غور کرنے کے بعد اس قول کو اختیار کیا ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مذکورہ قول کا تنقیدی جائزہ
اس قول پر ایک تفصیلی نقد ڈاکٹر عبدالعزیز قاری نے فرمایا ہے۔ ہم ذیل میں اپنے اشکالات کے ساتھ ساتھ ڈاکٹرعبدالعزیز قاری کے اعتراضات بھی نقل کریں گے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
پہلا اعتراض
ڈاکٹر عبدالعزیز قاری نے پہلا اعتراض یہ کیا ہے کہ وجوہ کے قائلین کا تعیینِ وجوہ میں اختلاف ہے، یہ نہیں ہوناچاہئے بلکہ تطابق اور توافق ضروری ہے ۔ ڈاکٹر قاری کا یہ اعتراض خواہش کی حد تک تو درست ہے کہ وجوہ میں موافقت ہونی چاہیے، لیکن عملاًایسا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ، کہ سارے اہل علم کسی مسئلہ کو ایک ہی نظر سے دیکھیں یاجمیع علماء کااستقراء ، وسعت مطالعہ اور طرزفکر ایک جیسا ہی ہوناچاہئے تاکہ یکساں نتا ئج برامد ہوں۔ البتہ اس ضمن میں جو کمی ہے اس کو ہم آئندہ ذکر کرتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
دوسرا اعتراض
سبعہ احرف کے نزول کی اَہم ترین حکمت یہ تھی کہ ایسے اَفراد کو رخصت مہیاکی جائے جو پڑھنے لکھنے سے نابلد تھے جبکہ مذکورہ وجوہ کا تعلق طرز اَداء کے بجائے زیادہ تر طرز کتابت سے ہے ۔مزید یہ کہ ان اَنواع مختلفہ کا اِحاطہ وہ شخص کرسکتا ہے جس کی قراء اتِ قرآنیہ، علم رسم ،علم ضبط اور لغت پرگہری نظر ہو، نیزکسی کی وسعت مطالعہ ہی ان وجوہ کو جامعیت کالبادہ پہناسکتی ہے ۔ لہٰذا یہ صرف خاص علماء ہی کرسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے علماء کا وہ طبقہ جو قراء ات کے بھی ماہرین ہیں مذکورہ مؤقف کاحامل ہے اور وہ علماء جن کا میدان قراء ات کے بجائے فقہ و حدیث ہے عموماً وہ دوسرے مؤقف پر ہیں، بنابریں جب ان وجوہ کا اِدراک علماء کے لیے ہی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تو وہ عرب کے گنوار اور اُمی لوگ کیسے جان سکتے تھے، ان کے لیے تویہ بجائے سہولت و آسانی کے مزید مشقت میں اضافہ کاباعث ہے کہ پہلے یہ سمجھیں کہ رخصت دی کس شے کی گئی اور بعد میں اس رخصت سے فائدہ اٹھائیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
تیسرا اعتراض
اس قول پر وارد ہونے والے اعتراضات میں سے تیسرا یہ ہے کہ ابن قتیبہ رحمہ اللہ اور جزری رحمہ اللہ نے سات اَنواع تغیر کو ذکر کرتے ہوئے اختلاف لہجات کو تو ذکر بھی نہیں کیا باوجود اس کے کہ وجوہ اختلاف کے ضمن میں یہ وجہ بڑی اَہم اور کثرت سے استعمال ہونے والی ہے۔
اس تجزیہ سے ہمارامقصد ہرگز یہ نہیں کہ ہم ان اَنواع تغیر کااِنکار کرنے پر مصر ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ان اصحاب علم میں سے ہر ایک کی عبارت دوسرے سے حد درجہ مختلف اور متغایر ہے۔حالانکہ یہ سب علماء بڑی بحث وتمحیص، قرآن کے متعدد بار مطالعہ اور حد درجہ محنت ومشقت کے بعد اس مقام پر پہنچے کہ ان اَنواع اختلاف کو اَخذ کرسکیں اور بعدمیں ان کی تعیین کرسکیں۔ باوجود اس کے کہ اس مسئلہ میں تینوں کی رائے مختلف ہے جس کی وجہ یہی ہوسکتی ہے کہ ہر ایک نے دوران مطالعہ کسی خاص جہت کوملحوظ رکھا اور دوسرے کے سامنے کوئی دوسرا پہلو موجود رہا ان تینوں میں سے عبارت میں باریک بینی اور زیادہ مشق و مہارت امام رازی رحمہ اللہ کاخاصہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ہمارا اختلاف ان سے دراصل دو نوعیت کا ہے:
پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اَنواع تغایر کو بتکلف سات تک محدود کیاہے تاکہ حدیث میں مذکور تعداد کی موافقت ہوجائے۔
دوسری بات یہ ہے کہ انہوں نے جن اَنواع کو سبعہ اَحرف کی تفسیر بنایاہے اوربڑی مشقت سے حدیث کے مفہوم کی وضاحت کی کوشش کی ہے ان سے ہماری رائے مختلف ہے۔ ان آراء کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ اَنواع جن کو تینوں اہل علم نے ذکر کیاہے ان میں دو تو ایسی ہیں جن پر ان کا اتفاق رائے ہے۔ اور ان کی عبارتیں ان کی وضاحت میں یکساں ہیں:
(١) تقدیم و تاخیر (٢) زیادتی و نقص
اس کے بعد ابن قتیبہ اور جزری رحمہم اللہ کے اَقوال کے مابین پانچ اَنواع ایسی پائی جاتی ہیں جن پر ان میں کافی حد تک اتفاق ہے،بلکہ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ جزری رحمہ اللہ نے انہیں ابن قتیبہ رحمہ اللہ سے ہی نقل کردیا ہے اور ان میں اپنی طرف سے کوئی اِضافہ نہیں کیا۔
لیکن اس کے برعکس جب ہم امام رازی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ اَنواع تغیر کی طرف نظر کرتے ہیں تو وہ جزری رحمہ اللہ اور ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی آراء سے قدرے مختلف ہیں، کیونکہ رازی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ اَنواع کے ضمن میں ان دونوں کی بیشتر اَنواع بھی آجاتی ہیں اور اس کے علاوہ مزیدبھی۔مثال کے طور پر رازی رحمہ اللہ نے اپنے قول میں اَنواع تغیر سے تیسری اور چھٹی نوع اس کو قرار دیا ہے :
’’ اعراب کی وجوہ میں اختلاف …اور (۶) حروف کاقلب یا بعض حروف کا بعض دوسرے حروف سے اِبدال، اسی طرح کلمات کی کلمات سے تبدیلی۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اس میں اُنہوں نے ان تمام قسم کی تبدیلیوں کو علی وجہ العموم دو قسموں کے تحت ذکر کردیا ہے، لیکن یہی دو اَقسام باقی دو اَئمہ کے اَقوال میں پانچ اَقسام میں منقسم ہیں،اگرچہ انہوں نے پانچ اقسام بناتے ہوئے ان اختلافات کی تقسیم میں صورۃخطی،اختلاف معنی اورکتابت میں اختلاف یا عدم اختلاف کو مدنظر رکھا ہے، لیکن بہرحال مراد دونوں کی قریباً ایک ہی ہے۔اس کی ایک اورمثال یوں بھی ہے کہ امام رازی رحمہ اللہ نے پہلی اور دوسری نوع کے تحت اوزان اسماء میں پیش آنے والے اختلافات اور تصریف افعال میں ہونے والے اختلافات کو ذکر کیا ہے جبکہ معمولی سے غوروفکر کے بعد باقی دو حضرات کی ذکر کردہ پہلی پانچ اَنواع کے ضمن میں یہ دونوں انواع بھی آسکتی ہیں۔فرق صرف اسی قدر ہے کہ جن زاویوں اور جہات سے امام رازی رحمہ اللہ نے اختلافات کی حد بندی کی ہے جزری رحمہ اللہ اور ابن قتیبہ رحمہ اللہ کی تقسیم ان زاویوں سے ہٹ کر کچھ اور چیزوں کومدنظر رکھتے ہوئے کی گئی ہے۔
ان سب باتوں کے باوجود ایک نوع ایسی بھی ہے جوصرف امام رازی رحمہ اللہ نے ذکر کی ہے اور باقی دو اس کی طرف متوجہ نہیں ہوپائے اور وہ نوع ہے ’اختلاف لہجات‘ کی اور جیسا کہ ہم بتاچکے ہیں کہ یہی نوع اس بحث میں اَہم تر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ان تینوں اَقوال کاہم نتیجہ برآمد کرناچاہیں تو مختصراً تمام اَنواع کو کم اَز کم دس اَنواع تغیر میں تقسیم کرسکتے ہیں کہ وہ تمام صورتیں جو کلمات میں اختلاف کے ضمن میں آتی ہیں اور ان اَقوال سے ثابت ہوتی ہیں، کل دس بن سکتی ہیں۔ لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ آئندہ کوئی اور صاحب علم مزید بحث و اِستقراء کے بعد اس تعداد میں اضافہ نہیں کرے گا۔
چنانچہ اس معارضہ سے یہ اَمر ثابت شدہ ہے کہ ان تینوں بزرگ اصحاب علم کی اَنواع تغایر و اختلاف کی تعیین اور ان کو کھینچ تان کر سات حروف کے ضمن میں لانا بے جا تکلف اور مشقت کے سوا کچھ نہیں۔حتیٰ کہ جب ہم ان کی جدوجہد اور کوشش کے بعد حاصل شدہ اَنواع کے نتیجے پر پہنچتے ہیں،جس کو انہوں نے حدیث کی مراد تصور کیاہے تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سبعہ اَحرف فی ذاتہا کچھ اور ہیں اوراس میں انواع اختلاف ایک بالکل مختلف چیز، اور اس مقام پر پہنچ کر یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ یہ تمام وہ صورتیں ہیں جو کلمات کے مابین تغیر اور اختلاف کے ضمن میں آتی ہیں نہ کہ حروفِ سبعہ کے مابین اختلاف ضمن میں ۔اور ایسا بھی ممکن ہے کہ اس تمام بحث کا خلاصہ ان تین نکات میں نکال لیا جائے۔ کہ اختلاف کی تین ہی صورتیں ہیں:
 
Top