• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعہ أحرف … تنقیحات و توضیحات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قول ثالث
سبعہ اَحرف بمعنی سبع لغات مختلفۃ الألفاظ متفقۃ المعاني أي المترادفات
سبعہ اَحرف سے مراد سبعہ لغات ہیں، اس طرح کہ ان کے الفاظ مختلف اور معانی متحد ہوں ۔ جیسے أقبل، تعال، ہلم ،عجل، اسر، وانظر، آخر اور أمھل وغیرہ یا جس طرح لفظ ’أف‘ میں بعض لغات ہیں۔
اس قول کے قائلین میں بہت جلیل القدر علماء شامل ہیں، جن میں امام ابن جریر طبری رحمہ اللہ، امام طحاوی رحمہ اللہ، سفیان بن عینیۃ رحمہ اللہ، ابن عبدالبررحمہ اللہ، حافظ ابن کثیررحمہ اللہ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ،عبداللہ بن وہب رحمہ اللہ، امام قرطبی رحمہ اللہ اورمناع القطان شامل ہیں
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن جریر الطبری رحمہ اللہ
امام ابن جریرطبری رحمہ اللہ اَحرف سبعہ کے بارے میں وارد مختلف تشریحات ذکر کرنے اور ان پر ردّ کرنے کے بعد راجح قول یوں بیان کرتے ہیں:
’’بل ا لأحرف السبعۃ التي أنزل اﷲ بھا القرآن ھن لغات سبع في حرف واحد وکلمۃ واحدۃ باختلاف الألفاظ واتفاق المعاني کقول القائل ھلم، وأقبل وتعال وإليّ قصدي ونحوي وقربي ونحو ذلک مما تختلف فیہ الألفاظ بضروب من المنطق وتتفق المعاني۔‘‘(تفسیر طبری: ۱؍۴۷،۴۸)
’’ اَحرف سبعہ جن پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم نازل فرمایا ہے وہ ایک لفظ اور ایک ہی کلمہ میں سات لغات ہیں، جن کے الفاظ تو مختلف ہیں لیکن معنی متفق ہیں جیسے کوئی کہے ھلم، تعال، أقبل، إلی، قصدي، نحوي اور قربی وغیرہ کہ جو اختلاف الفاظ کے باوجود متفق المعانی ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
حافظ ابن عبدالبررحمہ اللہ
’’إنما معنی السبعۃ الأحرف سبعۃ أوجہ من المعاني المتفقۃ المقاربۃ بألفاظ مختلفۃ نحو: أقبل وھلم وتعال، وعلی ھذا الکثیر من أھل العلم۔‘‘ (التمہید لابن عبدالبررحمہ اللہ: ۸ ؍۲۸۱)
’’سبعہ احرف سے مراد متفق المعانی اور مختلف الالفاظ کلمات کی لغات وجوہ ہیں جیسے أقبل، تعال، ھلم اور یہی کثیراھل علم کا قول ہے۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام قرطبی رحمہ اللہ
امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں فرماتے ہیں:
’’وھو الذي علیہ أکثر أھل العلم کسفیان بن عینیۃ وعبداﷲ بن وھب والطبري والطحاوي وغیرہم، أن المراد سبعۃ أوجہ من المعاني المتقاربۃ بألفاظ مختلفۃ، نحو أقبل وھلم وتعال۔‘‘ (تفسیر قرطبی: ۱ ؍۴۲)
’’وہ رائے کہ جس پر اکثر اہل علم سفیان بن عینیہ، عبداللہ بن وہب،طبری اور طحاوی وغیرہم ہیں، وہ یہ ہے کہ احرف سبعہ سے قریب المعنی اور مختلف الالفاظ وجوہ سبعہ مراد ہیں۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
امام ابن کثیررحمہ اللہ
امام ابن کثیررحمہ اللہ نے امام قرطبی رحمہ اللہ کے الفاظ میں ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف کو بیان کرکے بھر پور اَنداز میں اس کی تائیدکی ہے۔ (ج۱:؍۶۱)
ابن جریررحمہ اللہ اور ان کے ہم خیال حضرات کا مؤقف ہے کہ سبعہ اَحرف سے ایک ہی کلمہ میں مختلف لغات عرب کا اختلاف مراد ہے۔ جسے ہم مترادفات سے تعبیرکرتے ہیں، یعنی ایک ہی کلمہ میں اس کی جگہ مختلف الفاظ استعمال کرنے کی اجازت تھی جیسے ھلم، تعال اور اقبل وغیرہ ۔نیز یہ سبعہ اَحرف میں سے چھ حروف کے حذف ، نسخ یا توقف کے قائل ہیں۔
ہمیں اب یہ دیکھنا ہے کہ آیا دلائل ان کے اَقوال کی تائید بھی کرتے ہیں یانہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
ابن جریررحمہ اللہ اپنے مؤقف کی تائید میں درج ذیل نصوص ذکر کرتے ہیں۔
(١) ’’عن عبدالرحمن بن أبي بکرۃ ÷ عن أبیہ قال: قال رسول اﷲ !: ’’قَالَ جِبْرِیْلُ: اِقْرَأْ القُرْآنَ عَلـی حَرْفٍ۔ قَالَ مِیْکَائِیْلُ عَلَیْہِ السَّلَامُ: اِسْتَزِدْہُ، فَقَالَ: عَلـی حَرْفَیْنِ، حَتّٰی بَلَغَ سِتَّۃً أَوْ سَبْعَۃً۔ فَقَالَ: کُلُّھَا شَافٍ کَافٍ مَا لَمْ تَخْتِمْ آیَۃَ عَذَابٍ بِآیَۃِ رَحْمَۃٍ أَوْ آیَۃَ رَحْمَۃٍ بِآیَۃِ عَذَابٍ‘‘۔ کقولک ہلم وتعال۔‘‘ (تفسیر طبری: ۱ ؍۴۴)
’’سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرۃ رضی اللہ عنہ اپنے والد گرامی سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمﷺنے فرمایا: میرے پاس جبرئیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا:قرآن کریم کو ایک حرف پر پڑھیں تو سیدنا میکائیل علیہ السلام نے کہا مزید طلب کیجئے تو سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے کہا دو حرفوں پر پڑھیں۔یہاں تک چھ یاسات حروف تک پڑھنے کی اجازت دی۔ پھر آپﷺنے فرمایا: ان میں سے ہر ایک شافی و کافی ہے جب تک رحمت کی آیت کو عذاب پر اورعذاب کی آیت کو رحمت پرختم نہ کریں جیسے تیراکہناھلم، تعال۔‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٢) ’’عن الأعمش قال: قرأ أنس ھذہ الایۃ: ’’ إِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ أَشَدُّ وَطْأً وَأَصْوَبُ قِیْلاً ‘‘فقال قوم: یا أبا حمزۃ! إنما ھي ’’وأقوم‘‘ فقال: أقوم وأصوب وأھیا واحد۔‘‘ (تفسیر طبری: ۱ ؍۴۵)
’’اعمش رحمہ اللہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: ’’ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ’’إِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ ھِیَ أَشَدُّ وَطْاً ‘‘ میں أقوم کے بجائے أصوب پڑھا تو لوگوں نے کہا کہ اے ابوحمزہ یہاں أقوم ہے تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا أقوم، أصوب اور أھیا یہ ایک ہی ہے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے قول سے مذکورہ بالا حدیث اَبی بکرۃ کا مفہوم بھی متعین ہوگیا یعنی ھلم، تعال وغیرہ یہ اس بات کی مثال نہیں ہے کہ قراء ات کا اختلاف کوئی تضاد کا اختلاف نہیں ہے۔بلکہ یہ اس بات کی تصریح ہے کہ قرآن کریم میں سبعہ اَحرف سے مراد مترادفات کااختلاف ہے۔ یقینا ایسا اختلاف موجود بھی تھا اور عرضۂ اَخیرہ میں جو قرآن مجید کا بہت سا حصہ منسوخ ہوا ہے، وہ یہی تھا۔ ان مترادفات کی کثرت کس قدر تھی اس پر ایک نظر ڈالنے کے لیے مشہور مستشرق آرتھر جیفری کی مقدمتان اور کتاب المصاحف کے تناظر میں تیار کی گئی سورۃ الفاتحہ میں موجود مترادفات کی ایک فہرست پیش کرتے ہیں جس سے مترادفات کی کثرت کا اَندازہ ہوگا۔ یاد رہے کہ جیفری کی پیش کردہ روایت کی تصدیق تصویب قطعاً مقصود نہیں بلکہ صرف تمثیل منشاء تحریر ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کااس طرح پڑھناروایت کیاگیاہے۔
مالک کی بجائے ملیک، اھدنا کی بجائے ثبتنا اور دلنا۔
٭ حضرت علی بن ابن طالب رضی اللہ عنہ سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہے۔
مالک کی بجائے ملک یوم یا مالک، اھدنا کی بجائے ثبتنا اورلا کے بجائے غیر۔
٭ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے اس طرح روایت کرنا منقول ہے۔
صراط کی بجائے سراط
٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اس طرح تلاوت کرنا منقول ہے۔
٭ مالک کی بجائے ملک، الذین کی بجائے من اور ولا الضالین کی بجائے غیر الضالین۔
٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مالک کی بجائے ملک۔
اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مالک کی بجائے ملیک اور عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ سے صراط الذین أنعمت کے بجائے صراط من أنعمت مروی ہے۔
یحییٰ بن وثاب تابعی نَستعین کی بجائے نِستعین یعنی نون پر زبر کی بجائے زیر پڑھتے تھے۔ ابو سوار العنوی إیاک نعبد وإیاک کی جگہ ھیاک نعبد وھیاک پڑھتے تھے ابوعمرو الصراط کی بجائے الصراط پڑھتے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
جیفری نے تذکرۃ الائمہ مؤلفہ باقر مجلسی (مطبوعہ تہران:۱۸) کے حوالہ سے سورۃ الفاتحہ کا درج ذیل متن ذکر کیا ہے۔
’’نحمد اﷲ رب العالمین٭ الرحمن الرحیم٭ ملاک یوم الدین٭ ھیاک نعبد وویاک نستعین٭ ترشد سبیل المستقیم٭ سبیل الذین أنعمت علیھم سوی المغضوب علیھم والضالین٭‘‘
اس کے علاوہ خلیل بن احمد کی نسبت سے بھی سورۃ الفاتحہ کا ایک متن منقول ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
بسم اﷲالرحمن الرحیم​
’’الحمد ﷲ سید العالمین٭ الرزاق الرحیم٭ملاک یوم الدین٭ إنا لک نعبد وإنا لک نستعینo أرشدنا سبیل المستقیم٭ سبیل الذین مننت علیہم، سوی المغضوب علیہم ولا الضالین٭‘‘
اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے سورۃ ألم نشرح کی آیات: ’’ألم نشرح لک صدرک، وحللنا عنک وزرک‘‘ کو یوں تلاوت کیا تو آپ کے اس طرح پڑھنے پراعتراض کیا گیا تو انہوں نے فرمایا حللنا، حططنا اور وضعنا ایک ہی مفہوم کو اَداکرنے کے مختلف الفاظ ہیں۔
ایک روایت حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مقدمتان میں مروی ہے کہ وہ ایک فارسی نژاد مسلمان کو آیت’’ إِنَّ شَجَرَۃَ الزَّقُّوْمِ٭ طَعَامُ الْأَثِیْمِ‘‘(الدخان :۴۳) پڑھا رہے تھے۔ وہ ’’طعام الأثیم‘‘ کے بجائے ’’طعام الیتیم‘‘ پڑھ رہا تھا۔آپﷺنے فرمایا: اسے ’’الطعام الظالم‘‘ پڑھا دو جو اس نے بآسانی پڑھ لیا۔
ان جملہ اَمثلہ کے بارے میں ہماراکامل ایمان اور قطعی یقین و اطمینان ہے کہ ان میں سے سوائے وہ اَمثلہ جو قراء ات متواترہ میں موجود ہیں، کوئی بھی شے قرآن میں داخل نہیں ہے۔ البتہ ان کے ذکر سے سوائے اس کے کچھ بھی مطلوب نہیں کہ قرآن مجید میں مترادفات کا اختلاف بہت کثرت سے تھا اور ابن جریررحمہ اللہ اور دیگر اہل علم، جو ان کے نقطہ نظر سے اتفاق کئے ہوئے ہیں، بہرحال دلائل و براہین کی دنیا میں اجنبی نہیں ہیں بلکہ مروّجہ موازین اور مقاییس پربلاکسی تردد کے پورے اترتے ہیں۔ اور بعض لوگوں کا یہ قول کہ صرف ابن جریررحمہ اللہ کی شخصیت اور دیگر صاحبان فکر و دانش کے اقوال سے عدم آگہی کی وجہ سے لوگ ان کے نقطہ نظر کے گرویدہ ہیں یہ ایک معقول تحقیقی نہیں بلکہ سطحی رائے ہے۔کیونکہ جب آپ ان کی جلیل القدر شخصیت سے متاثر نہیں ہوئے تو سلف میں سے ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، ابن کثیررحمہ اللہ اور قرطبی رحمہ اللہ جیسی ہستیاں بغیرکسی معقول بنیاد کے کیسے قائل ہوسکتے ہیں۔
 
Top