• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعہ أحرف … تنقیحات و توضیحات

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
(١) جس میں لفظ مختلف ہوجائیں اور معنی ایک رہے، اس صورت کو لغت میں ’الترادف‘سے موسوم کیاجاتاہے، مثلاً ’ھلم‘ کی جگہ ’تعال‘ اور ’أقبل‘
(٢) جس میں معنی اور لفظ دونوں مختلف ہوجائیں،لیکن یہ اختلاف تضاد کی نوعیت کا نہ ہو، تنوع کی قبیل سے ہو۔ جس طرح قٰلَ اور قُلْ،بٰعِدْ اور بٰعَدَ ، مٰلِکِ اور مَلِکِ، أَوْصَی اور وَصّٰی
(٣) لہجات میں اختلاف، یعنی کسی لفظ کی اَدا میں تبدیلی اصل لفظ اورمعنی کی بقا کے ساتھ۔ مثال کے طور پر کسی کو جھکا کر یاسیدھا پڑھنا، مد اور قصر، ادغام اور عدم ادغام اسی طرح نرمی سے یا جھٹکادے کر پڑھنا۔
یہاں اختلاف کی ایک قسم اوربھی ہوسکتی ہے کہ بعض اَوقات کسی کلام میں تبدیلی لفظ اور معنی کے اختلاف کے ساتھ ساتھ تناقض اور تضاد کی قبیل سے ہوتی ہے۔ سو یہ صورت قرآن کریم میں نہیں پائی جاتی، کیونکہ ان کی موجودگی قرآن میں خلل اور اضطراب و شک کو لازم کرتی ہے حالانکہ قرآن اس سے یکسر منزہ ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’قرآن میں باطل نہ آگے سے داخل ہوسکتا ہے اورنہ ہی پیچھے سے اور یہ اللہ رب العزت حکمت والے کی نازل کردہ (کتاب) (فصلت:۴۲) ہے۔‘‘ ایک اور مقام پریہ الفاظ ہیں:
’’اگر یہ قرآن اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف (النساء:۸۲) سے ہوتا تو لوگ اس میں جابجا اختلافات اور تناقض پاتے۔‘‘(انظر النشر:۱؍۴۹)
ان دونوں آیات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن میں خلل اور تناقض وتضاد کی سرے سے گنجائش ہی نہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
چوتھا اعتراض
مذکورہ بالا قول پر ایک اہم اعتراض یہ بھی ہے کہ کیا خود نبی مکرمﷺ کی ذات سے ایسے قول کا صدور ممکن ہے جو صرف اور صر ف ایک منطقی اور ریاضیاتی اصول پر متعین کیاگیا ہے۔ آپﷺ کا ذاتی پس منظر اور نبوی طریق دعوت اس اسلوب کاانکاری نظر آتا ہے، کیونکہ شریعت کی عمومی تعلیمات بالکل بدیہی اور انتہائی فطری اُسلوب پر مبنی ہیں نہ کہ استقرائی اور منطقی اسلوب پر۔ لہٰذا مذکورہ وجوہ سے آپﷺ کا نہ تو تفسیر کرناثابت ہے اورنہ ہی آپ سے اس طرح کے اَنداز تشریح و دعوت کا اِمکان ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
پانچواں اعتراض
صحابہ کے مابین جب مختلف وجوہ قراء ات پڑھنے میں اختلاف ہوا تو آپﷺکے صرف یہ فرمانے پرکہ ھکذا أنزلت اور أنزل القرآن علی سبعۃ أحرف پر صحابہ خاموش ہوگئے اور ان کو سارے معاملے کاعلم ہوگیا۔ صحابہ کا فوراً بغیر کسی مناقشہ کے اس کو تسلیم کرلینا اس بات کی دلیل ہے کہ سبعہ اَحرف کا مصداق ان کے مابین کوئی زیادہ غیر معروف شے نہ تھا، اسی وجہ سے آپ کے چند کلمات ان کے لیے تشفی کا باعث بن گئے۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ آپﷺکی اس سے مراد وجوہ ہیں جو ایک غیر معروف شے ہے، جس پر ہمارا کندذہن کئی اشکالات لیے سراپا احتجاج بن جاتا ہے، تو سیدنا عمررحمہ اللہ جیسے عبقری اور ذہین و فطین عناصر کس طرح مطمئن ہوسکتے تھے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
چھٹا اعتراض
سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی حدیث ، جس میں ہے کہ آپﷺنے فرمایا:
’’ اے اُبی مجھے یہ کہا گیا کہ میں اُمت کو قرآن ایک حرف پر پڑھاؤں، میں نے عرض کی کہ میری اُمت پرآسانی کیجئے تو پھر دو حروف ہوگئے ،پھر تین، پھر چار حتیٰ کہ سات تک پہنچ گئے۔‘‘
اس حدیث پر غور کیاجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پہلے حرف پر بھی قرآن بطور قرآن مکمل تھا۔جب دو کی اجازت دی گئی تب بھی قرآن اَحکام کے لیے اور تلاوت کے لیے کامل تھا اور اس کی تلاوت ممکن تھی ورنہ اگر ایسا ممکن ہی نہیں تھا کہ بغیر سبعہ اَحرف قرآن کی تلاوت نہیں ہوسکتی تو اللہ رب العزّت کا جبریل علیہ السلام کو بھیجنا یہ ایک نعوذ باﷲ فعل عبث تھا اور اللہ کے رسولﷺبجائے آسانی کے تکمیل قرآن کی التجا فرما رہے تھے ۔
اس حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے اگر آپ سبعہ وجوہ والے قول کا جائزہ لیں تو اس کی عدم اَہمیت کا اَندازہ ہوگا مثلاً ان کے ہاں جو قول سب سے راجح ہے اس کے مطابق حرف اوّل کو ہی لیجئے۔ امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے اَسماء میں تذکیر تانیث، اَفراد تثنیہ و جمع وغیرہ مراد ہیں، توکیا اس پر تلاوت ممکن ہے؟ اگر سیدنا جبرئیل علیہ السلام کے لائے ہوئے حرف اَوّل پر تلاوت ممکن تھی تو امام رازی رحمہ اللہ کے بتائے ہوئے حرف اوّل پر تلاوت کیوں ممکن نہیں۔ ہماری نظر میں امام رازی رحمہ اللہ کے بتائے ہوئے ایک حرف پر تو کیاسات حروف کوبھی ملا لیں تو قرآن کی تلاوت کرنا ممکن نہیں۔ اور اس کی مزید تائید سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول سے ہوجاتی ہے کہ ’’کنا نقرأ علی الحرف الأوّل‘‘ (فتح الباری:۱۱؍۳۳) کہ’’ہم حرف اول پر تلاوت کریں گے۔‘‘ اس کا مطلب بالکل صحیح ہے کہ سبعہ اَحرف میں سے ہر ہر حرف پرتلاوت ممکن تھی جبکہ مذکورہ قول میں ساتوں پر بھی ممکن نہیں ۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
ساتواں اعتراض
اس پر ایک مزید اعتراض یہ ہے کہ سبعہ اَحرف کے نزول کامقصد فقط یہ ہے کہ اُمت مرحومہ کے وہ اَفراد جو اپنے آبائی لہجے اور لغت کو ترک کرکے کسی دوسری لغت یالہجہ پر نہیں پڑھ سکتے ان کے لیے آسانی پیدا کی جائے ،اور انہیں اس بات کی اِجازت دی جائے کہ وہ اپنے لہجے اور لغت کے موافق قرآن کو پڑھ سکیں، جبکہ اگر مذکورہ قول کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں کسی مشقت کو رفع کرنا اور مزیدکسی آسانی کو پیداکرنا سرے سے ناقابل لحاظ ہے اور جو آسانی اس قول کے ذریعے اُمت کو دی گئی ہے اس میں سرے سے کسی مشکل کا پہلو موجود ہی نہیں کہ جس میں آسانی کی خواہش کی جائے۔ مثلاً امام رازی رحمہ اللہ کی راجح اور اَشمل تشریح کے مطابق سبعہ اَحرف کی پہلی وجہ اَسماء میں مذکر مؤنث، مفرد جمع کا اختلاف ہے جس کی مثال دیگر اَئمہ نے بھی دی ہے مثلاً کلمات کو جمع کے بجائے مفرد یعنی أَمَانٰتِہِمْ کو أَمَانَتِھِمْ پڑھنا اگر اس پر غور کریں تو یہی کلمات قرآن کریم میں بعض مقامات پر صرف مفرد اور بعض پر صرف جمع استعمال ہوئے ہیں۔ اب یہ کیسی مشکل ہے کہ اگر ایک جگہ کسی چیز کو مفرد یا جمع پڑھا جائے تو کوئی مشکل نہیں ہے جبکہ دوسری جگہ اس میں مشکل پیدا ہوگئی، جس کی آسانی کے لیے باقاعدہ ایک حرف اتارنا پڑھا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
اسی طرح دوسری وجہ’افعال میں اختلاف‘ کو لیجئے۔ جس کی مثال الزرقانی نے وَلاَ یُضَآرُّ اور وَلاَ یُضَآرَّ دی ہے۔ اب یہ مشکل ہے کہ قاری یا عرب کی بوڑھی عور ت یابوڑھا آدمی یضار کی را پر پیش تو پڑھ سکتا ہے لیکن زیر پڑھنا اس کے لیے دشوارہے یاپھر قرآن میں ایک جگہ یعلمون غیب کے ساتھ پڑھنادشوار ہے۔ اگرچہ اس کو بیسوں جگہ غیب سے پڑھاہو۔اسی پر ایک حرف نازل کردیاگیاہو۔ اسی طرح تقدیم و تاخیر اور نقص زیادت کا مسئلہ ہے کہ آدمی فیقتلون و یقتلون میں پہلے حرف کو معروف اور دوسرے کو مجہول تو پڑھ سکتا ہے لیکن اگر پہلے مجہول آجائے تو دشواری پیدا ہوجائے۔ اسی طرح قرآن میں دسیوں مقامات پر من تحتھا الأنھر پڑھناممکن ہے لیکن سورۃ التوبہ میں ممکن نہیں لہٰذا اس کے لیے باقاعدہ ایک حرف کو نازل کیاجائے۔ وعلیٰ ہذا القیاس۔ البتہ امام رازی رحمہ اللہ کی ذکر کردہ صرف ایک وجہ ایسی ہے جس میں واقعی دشواری تھی اور یہی حقیقی دشواری نزولِ احرف کا سبب ہے کہ لہجات اور لغات کااختلاف جس کو سوائے امام رازی رحمہ اللہ کے کسی شیخ نے ذکر نہیں کیا۔لہٰذا سبعہ اَحرف کا مصداق مذکورہ قول کو ٹھہرانا قرین قیاس نہیں ہے۔
اب مناسب ہوگا شیخ عبدالعظیم الزرقانی رحمہ اللہ اور مولانا تقی عثمانی ﷾ کی پیش کردہ وجوہ ترجیح کا بھی جائزہ پیش کردیاجائے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
علامہ زرقانی رحمہ اللہ کی وجوہ ترجیح
(١) اس مذہب کی تائید سبعہ َاحرف کے سلسلہ میں وارد شدہ احادیث سے ہوتی ہے۔
علامہ زرقانی رحمہ اللہ کایہ کہنا کہ اس مذہب کی تائید سبعہ اَحرف کے سلسلہ میں وارد شدہ اَحادیث سے ہوتی ہے۔ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جو دلیل کی بنیاد کے بغیر کیاگیا ہے ہم نے تو مذکورہ بالا بحث سے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ مؤقف سبعہ اَحرف کے سلسلہ میں وار شدہ اَحادیث تو کیا سبعہ اَحرف کے نزول کی بنیادی حکمت سے ہی متصادم ہے اور بجائے اس کے کہ حکمت سبعہ اَحرف کو سامنے رکھ کر اس کو سمجھنے کی سعی کی جاتی اُسے یکسر نظر اَنداز کردیاگیا ہے۔
(٢) اس رائے میں کامل استقراء پر اعتماد کیاگیا، جس نے جمع اختلافات قراء ات کا اِحاطہ کرلیاہے۔
سب سے پہلے تو یہ بات ہی قابل بحث ہے کہ کیا نصوصِ شرعیہ کی تاویل منطقی اِستقراء ات پرکی جائے گی یااس کا اَنداز کچھ اور ہے، کیونکہ استقراء کی کیا حقیقت کہ ایک استقراء دوسرے استقراء کوردّ کردے اور پھر وہ استقراء بھی ایسا جس میں مطلق حکمت شرعیہ کو نظر انداز کردیاگیا ہو اور ویسے بھی استقراء کے ذریعہ ان وجوہ کو سات تک پہچانا بہت بڑا تکلف ہے، کیونکہ اس سے کم یا زیادہ میں بھی وجوہ کا احاطہ ممکن ہے، جیسا کہ اعتراض ثالث میں ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسرا اس استقراء کایہ فائدہ تو ہوسکتا ہے کہ یہ بتایا جائے کہ اختلاف قراء ات کیا کیاہیں ،نص شرعی کو یہ معنی پہنانا بعیداَز فہم ہے۔
(٣) اس قول سے کوئی نقصان لازم نہیں آتا۔
یہ بھی ایک دعویٰ ہے، اس سے جو نقصانات لازم آتے ہیں وہ ہم نے ذکر کردیئے ہیں۔ باقی اگر اس سے یہ نقصان مراد ہے کہ موجودہ قراء ات کا اِنکار وغیرہ لازم آتا ہے تو وہ کسی قول کوبھی اختیارکرنے پر لازم نہیں آتا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
مولانا تقی عثمانی﷾ کی وجوہ ترجیح
مولانا تقی عثمانی﷾ کے مؤقف میں ہمیں جو بنیادی کمی نظر آئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے حدیث سبعہ اَحرف کو بجائے اس کے کہ نص کی علل و حکم کو سامنے رکھتے ہوئے سمجھا جائے اور اسی کی روشنی میں سلف کے مؤقف کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، انہوں نے اسے صرف ابن جریر طبری رحمہ اللہ کے مؤقف کے تناظر میں سمجھا ہے اور ابن جریررحمہ اللہ کے مؤقف میں چند ایسے بنیادی نقائص موجود ہیں جن کی بناء پرانہوں نے ابن جزری وغیرہ کے مؤقف کو راجح قرار دیا ہے اور اس کی بھرپور تائید کی ہے۔
ان کی وجوہ راجحہ کو سبعہ اَحرف کی راجح تشریح کے طور پر لینا تو مشکل ہے۔ البتہ ابن جریررحمہ اللہ کے مقابلہ میں جو انہوں نے وجوہ ترجیح ذکر کی ہیں،ان کے بارے میں مناسب یہی لگتا ہے کہ ابن جریررحمہ اللہ کا مؤقف، جو ہم دلائل کی روشنی میں سمجھے ہیں، ذکر کرنے کے بعد ہی جائزہ لیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,379
پوائنٹ
635
قول ثانی
سبعہ اَحرف بمعنی أوجہ مقروء ۃ لا تزید عن السبع
مذکورہ مؤقف کے مطابق سبعہ اَحرف کا مصداق کسی چیز کو قرار نہیں دیا گیاکہ’اوجہ‘سے مراد کیا ہے۔ نہ ہی انہوں نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد سبعہ لغات ہیں اور نہ ہی یہ حضرات سبعہ وجوہ کے قائلین ہیں جیسا کہ جزری رحمہ اللہ وغیرہ نے کہا ہے۔ لہٰذا یہ قول بنیادی طور پہ ایک ناقص اور نامکمل مؤقف ہے۔ اس کے رد سے پہلے قول کی وضاحت ضروری ہے جو کہ قائلین نے نہیں کی۔
 
Top