ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
(١) جس میں لفظ مختلف ہوجائیں اور معنی ایک رہے، اس صورت کو لغت میں ’الترادف‘سے موسوم کیاجاتاہے، مثلاً ’ھلم‘ کی جگہ ’تعال‘ اور ’أقبل‘
(٢) جس میں معنی اور لفظ دونوں مختلف ہوجائیں،لیکن یہ اختلاف تضاد کی نوعیت کا نہ ہو، تنوع کی قبیل سے ہو۔ جس طرح قٰلَ اور قُلْ،بٰعِدْ اور بٰعَدَ ، مٰلِکِ اور مَلِکِ، أَوْصَی اور وَصّٰی
(٣) لہجات میں اختلاف، یعنی کسی لفظ کی اَدا میں تبدیلی اصل لفظ اورمعنی کی بقا کے ساتھ۔ مثال کے طور پر کسی کو جھکا کر یاسیدھا پڑھنا، مد اور قصر، ادغام اور عدم ادغام اسی طرح نرمی سے یا جھٹکادے کر پڑھنا۔
یہاں اختلاف کی ایک قسم اوربھی ہوسکتی ہے کہ بعض اَوقات کسی کلام میں تبدیلی لفظ اور معنی کے اختلاف کے ساتھ ساتھ تناقض اور تضاد کی قبیل سے ہوتی ہے۔ سو یہ صورت قرآن کریم میں نہیں پائی جاتی، کیونکہ ان کی موجودگی قرآن میں خلل اور اضطراب و شک کو لازم کرتی ہے حالانکہ قرآن اس سے یکسر منزہ ہے۔
(٢) جس میں معنی اور لفظ دونوں مختلف ہوجائیں،لیکن یہ اختلاف تضاد کی نوعیت کا نہ ہو، تنوع کی قبیل سے ہو۔ جس طرح قٰلَ اور قُلْ،بٰعِدْ اور بٰعَدَ ، مٰلِکِ اور مَلِکِ، أَوْصَی اور وَصّٰی
(٣) لہجات میں اختلاف، یعنی کسی لفظ کی اَدا میں تبدیلی اصل لفظ اورمعنی کی بقا کے ساتھ۔ مثال کے طور پر کسی کو جھکا کر یاسیدھا پڑھنا، مد اور قصر، ادغام اور عدم ادغام اسی طرح نرمی سے یا جھٹکادے کر پڑھنا۔
یہاں اختلاف کی ایک قسم اوربھی ہوسکتی ہے کہ بعض اَوقات کسی کلام میں تبدیلی لفظ اور معنی کے اختلاف کے ساتھ ساتھ تناقض اور تضاد کی قبیل سے ہوتی ہے۔ سو یہ صورت قرآن کریم میں نہیں پائی جاتی، کیونکہ ان کی موجودگی قرآن میں خلل اور اضطراب و شک کو لازم کرتی ہے حالانکہ قرآن اس سے یکسر منزہ ہے۔