• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سبعۃ اَحرف سے کیا مراد ہے؟

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سبعۃ اَحرف سے کیا مراد ہے؟

ڈاکٹر ابومجاہد عبدالعزیز القاری
مترجم: ڈاکٹر حافظ حسن مدنی​
گزشتہ شمارے میں حدیث سبعۃ أحرف کے ضمن میں ہم نے تین تحریریں شائع کی تھیں۔ اس حدیث کا مفہوم چونکہ اُمت میں معرکۃ الآراء مسائل میں سے ہے، چنانچہ ادارے کا احساس ہے کہ اس باب میں اُردو زبان میں بھرپور مواد کو بھی منتقل کیا جائے اورسبعۃ أحرف کے مفہوم کی تعیین کی کوشش بھی بروئے کار لائی جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے کہ زیر نظر شمارہ میں اس سلسلہ میں ہم مزیدچھ تحریریں شائع کررہے ہیں، جن میں سبعۃ أحرف کے مفہوم کو خصوصاً زیر بحث لایا گیا ہے۔ ان تحریروں میں سے جناب ڈاکٹر قاری حمزہ مدنی﷾ کی تحریر کو اس کے عمومی موضوع کے اعتبار سے اگرچہ ’’مباحث قراء ا ت‘‘ کے ذیلی عنوان کے تحت شائع کیا گیا ہے، لیکن اُس تحریر کا اکثر حصہ اِس موضوع سے متعلقہ ہے۔ ہم مکرراً عرض کرتے ہیں کہ ان تمام مضامین کے آخر میں اِدارہ کلِّیۃ القرآن الکریم کے اَرباب ِدانش کی رائے پر مبنی ایک مستقل مضمون بھی ہدیہ قارئین کیا جائے گا، جس میں شائع شدہ تمام مضامین میں پیش کردہ افکار کا خلاصہ و موازنہ پیش کرتے ہوئے سبعۃ أحرف کے مفہوم کے سلسلہ میں راجح موقف کی تعیین کی کوشش کی جائے گی۔
زیر نظر تحریر میں فاضل مضمون نگار نے بڑے دیانتدارانہ طریقے سے ’سبعہ احرف‘ سے مراد کے تعین کی کوشش کی ہے اور بظاہر اس دقیق بحث کواپنے آسان طرزِ بیان سے انہوں نے بڑی حد تک سہل کردیا ہے۔ اُسلوب نگارش بڑا ہی منطقی اور اُصولی ہے۔اس تفصیلی مضمون کی پہلی قسط ڈاکٹر حافظ حسن مدنی﷾کے سلیس ترجمہ کے ساتھ اس سے قبل پچھلے شمارے میں بھی شائع ہوچکی ہے، جواپنے مقام پر ایک مستقل حیثیت کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اس بحث سے بھی گہراتعلق رکھتی ہے،کیونکہ انہی احادیث کی روشنی میں، جوکہ تفصیل سے گزشتہ شمارے میں ذکر ہوئیں، سبعۃ أحرف کی مراد کا تعین کیا گیا ہے، چنانچہ اس مضمون میں بھی قارئین کو جابجا گزشتہ قسط کے حوالے نظر آئیں گے۔ مکمل استفادے کے خواہش مند حضرات اس قسط کوبھی سامنے رکھیں۔ (ادارہ)
’سبعۂ احرف‘کامفہوم کیاہے اس کے بارے میں علماء کے مابین بہت اختلاف ہے حتیٰ کہ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ’الاتقان‘ میں علماء کے ۴۰؍اَقوال ذکرکئے ہیں۔(الاتقان:ص۱۳۱) ،لیکن اقوال کی یہ کثرت قاری کے لیے باعث خوف اور وجۂ مشقت نہیں ہے،کیونکہ اکثر اَقوال ایسے ہیں جو دلیل و نظر کی کسوٹی پرپورے نہیں اُترتے۔بغور جائزہ لینے پرایسے اَقوال بہت کم ہیں جن میں صحیح ہونے کی گنجائش ہے۔ ان میں سے چھ اَقوال کو ہم یہاں ذکرکرتے ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پہلا قول
ابن سعدان نحوی رحمہ اللہ کے بقول حدیث سبعہ اَحرف کا شمار ایسی اَحادیث میں ہوتاہے جواپنے مفہوم ومدعامیں صریح نہیں بلکہ متشابہ ہیں۔(محمد بن سعدان الضریر الکوفی النحوی المقری ابوجعفر(م ۲۳۱) ،بغیۃ الوعاۃ ۱؍۱۱۱) یعنی ان کامقصد و مراد مخفی ہے۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ’الحرف‘ ایسا لفظ ہے جومتعدد معانی پربولا جاتا ہے جبکہ اَحادیث میں کسی ایک کا تعین نہیں کیا گیا، لہٰذا اس کے مفہوم کا تعین مشکل ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
دوسرا قول
سبعہ اَحرف میں سبعہ کے لفظ سے حقیقتاً عدد مراد نہیں بلکہ یہ لفظ کثرت کے مفہوم میں استعمال کیا گیاہے اور عربی زبان میں یہ عام طریقہ ہے کہ’سبعہ‘کا لفظ بول کر اکائیوںمیں کسی شے کا کثر التعداد ہونا مراد لیا جاتاہے۔جس طرح ’سبعین‘ کا لفظ بول کر دہائیوں میں کثرت مراد ہوتی ہے۔لہٰذا اس حدیث کا مدعا یہ ہے کہ صحابہ yکو کھلی رخصت دی گئی ہے کہ جس لغت کے مطابق چاہیں قرآن کی تلاوت کرلیں۔یہ قول قاضی عیاض رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے۔ (ابوالفضل عیاض بن موسیٰ الیحصبی(م ۵۴۴)،الدیباج :۲؍۴۶) اور اس کو مان لینے سے اس نظریہ کی بھی تائید ہوجاتی ہے کہ قرآن کی بالمعنی قراء ت مشروع ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
تیسرا قول
سبعہ اَحرف سے اَحکام و معانی کی سات اَصناف مراد ہیں جو یہ ہیں:
٭حلال و حرام ٭ امر ٭ توبیخ ٭ محکم ٭ متشابہ اور٭ امثال
چوتھا قول
سبعہ اَحرف سے اہل عرب کی فصیح لغات میں سے ایسی سات لغات مراد ہیں جن پر قرآن نازل ہواہے۔یہ سات لغات آپس میں بھی مختلف ہیں جن میں سے بعض لغات دوسری لغات کی بہ نسبت قرآن میں زیادہ بھی استعمال ہوئی ہیں۔یہ قول ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ کا ہے اور امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی شعب الایمان میں اس کی تائید کی ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
پانچواں قول
یہ سات لغات ایک کلمہ میں اور ایک ہی حرف میں بایں صورت ہیں کہ الفاظ میں تبدیلی کے باوجود معنی میں تبدیلی نہ آنے پائے۔جس طرح کوئی شخص ’ادھر آؤ‘ کے مفہوم کے لیے ’ھلم‘ کی جگہ ’تعال، إلی، قصدی،نحوی اور قربی‘ جیسے دیگر الفاظ استعمال کرتاہے جو کہ الفاظ میں مختلف ہونے کے باوجود معنی میں یکساں ہیں۔یہ قول ابن جریر طبری رحمہ اللہ کا ہے۔
اس کے بعد حافظ ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اب یہ تمام لغات باقی نہیں ہیں بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے تمام مسلمانوں کو ایک حرف اورایک ہی مصحف پر جمع کردیا اور باقی جملہ مصاحف کو ضائع کردینے کا حکم دے دیا،ماسوائے اس مصحف کے جس کو آپ نے خود جمع فرمایا، اس کے علاوہ ہر اس شخص پرجس کے پاس کوئی مصحف ہو آپ نے لازمی کردیا کہ اس کو اپنے پاس نہ رکھے اور ضائع کردے۔ لہٰذا اُمت مسلمہ نے اس سلسلے میں بالاتفاق آپ کی اِطاعت کی، اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جو کچھ آپ قرآن کے بارے میں کررہے ہیں، مبنی برحق اور درست ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خلیفۂ عادل کی اِطاعت کرتے ہوئے اور اپنی اور اپنے بعد آنے والے سارے اہل ملت کی خیر و بھلائی کومدنظر رکھتے ہوئے باقی چھ حروف کو ترک کردیا۔جس کانتیجہ یہ نکلا کہ حروف کی معرفت ختم ہوتی چلی گئی اور اس کے اثرات و نشانات معدوم ہوگئے۔چنانچہ آج ان حروف پر قراء ت کی کوئی صورت نہیں۔‘‘ (تفسیر ابن جریر:۱؍۵۷۔۶۴)
اس قول میں اَحرف کی تفسیرجن سات لغات کے ساتھ کی گئی ہے ان کی تعیین میں علماء کا اختلاف ہے۔
(١) ابوعبیدرحمہ اللہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بسند’’سعید ابن عروبۃ عن قتادۃ عمن سمع ابن عباس‘‘ نقل کرتے ہیں کہ قرآن دوکعب(یعنی کعبِ قریش اور کعب ِ خزاعہ)کی لغتوں میں نازل ہوا۔آپ رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ یہ کیسے ممکن ہے؟(کہ بیک وقت دو لغتوں میں قرآن نازل ہوا) تو آپ نے کہا، کیونکہ دونوں کاگھر اور جائے اصل ایک ہی ہے۔ پھر ابوعبید نے ’’بروایت کلبی عن أبی صالح عن ابن عباس‘‘یہ قول نقل کیا ہے کہ قرآن سات لغات پر نازل ہوا جن میں پانچ لغات قبیلہ ہوازن کے عجز کی ہیں۔ ابوعبید کہ انہیں’’ہوازن علیا‘‘بھی کہا جاتا ہے جو یہ ہیں: سعد بن بکر، جثم بن بکر، نصر بن معاویہ اور ثقیف۔
(٢) بقول ابو حاتم سجستانی رحمہ اللہ (سھل بن محمدبن عثمان بن القاسم ابوحاتم السجستانی (م۲۵۰)بغیۃ الوعاۃ: ۲؍۶۰۶) ان سات لغات سے مرادقریش، ہذیل، تمیم، ازد، ربیعہ، ہوازن اور قبیلہ سعد بن بکر کی لغات ہیں۔
(٣) ابوعلی الاہوازی رحمہ اللہ( الحسن بن علی بن ابراہیم بن یزداد بن ھرمز الاستاذ ابوعلی الاھوازی شیخ القراء بالشام فی عصرہ(م۴۴۶) ۱؍۲۲۰) کارجحان اس طرف ہے کہ یہ سب لغات دراصل قریش کے بطون میں ہی ہیں۔
(٤) بعض کے قول کے مطابق یہ سب ’مضر‘ قبیلہ میں سے ہیں۔
(٥) ابن عبدالبررحمہ اللہ نے بعض اصحاب علم سے اس قول کو بھی نقل کیاہے کہ یہ سات لغات: ’’ہذیل، کنانہ، قیس، ضبط، تیم الرباب، اسد بن خزیمہ اور قریش ‘‘ کی ہیں۔ (الاتقان:۱؍۱۳۵)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
چھٹاقول
ابو محمدعبداللہ بن مسلم بن قتیبہ رحمہ اللہ، ابوالفضل الرازی المری رحمہ اللہ اور محمد بن الجزری المقری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ الأحرف السبعۃسے’کلماتِ قرآنیہ میں اختلاف اور تغایر‘ کی سات قسمیں مراد ہیں۔ یعنی سبعہ حروف کے ذریعے کلماتِ قرآنی میں ہونے والی تبدیلی ’اختلاف کی سات قسموں‘ سے خالی نہیں ہوسکتی۔ چنانچہ ان تغیرات اور اختلافات کی تعداد کے سات ہونے پر تو سب کا اتفاق ہے، لیکن ان کے تعین اور وضاحت کے ضمن میں اختلاف ہے۔
٭ابن قتیبہ رحمہ اللہ کہتے ہیں(تاویل مشکل القرآن:ص۲۸)کہ میں قرآن میں سبعہ حروف کے ذریعے ہونے والی تبدیلیوں پر غوروفکر کرتا رہا جس کے نتیجے میں مجھے اختلاف کی سات صورتیں معلوم ہوئیں:
(١) تغیر کی پہلی صورت یہ ہے کہ کسی کلمہ کے اعراب اور حرکت میں ایسی تبدیلی ہو جو نہ ان کے معنی میں تغیر کرے نہ صورت خطی میں۔ جس طرح کہ فرمانِ الٰہی ’’ھٰؤُلَائِ بَنَاتِیْ ھُنَّ اَطْھَرُ‘‘ میں ’’ھُنَّ اَطْھَرَ‘‘ یعنی راء پر پیش کے بجائے زبر۔
(٢) کسی کلمہ کے اعراب یا حرکت میں ایسی تبدیلی واقع ہو جو اس کے مفہوم و معنی کو تبدیل کردے لیکن صورت خطی برقرار رہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’رَبَّنَا بٰعِدْ بَیْنَ اَسْفَارِنَا‘‘ میں ’’رَبُّنَا‘‘ یعنی باء کے ضمہ کے ساتھ۔
(٣) کلمہ کے اعراب میں تبدیلی کی بجائے اس کے حروف میں ایسی تبدیلی ہو جس سے معنی تومتغیر ہوجائے، لیکن صورت خطی برقراررہے۔ مثلاً ’’وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا‘‘ کی بجائے’’نَنْشِزُھَا‘‘
(٤) اختلاف کی چوتھی صورت یہ ہے کہ کسی کلمہ میں تغیر اس کی صورت خطی یعنی صورت و ہیئت پر تو اثر انداز ہو، لیکن معنی میں کوئی فرق نہ آئے۔ مثلاً ’’إنْ کَانَتْ اِلَّا صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً‘‘ کی جگہ ’’اِلَّا زَقْیَہً‘‘
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) تبدیلی اس طور ہو کہ کلمہ کی شکل و صورت کے ساتھ معنی بھی تبدیل ہوجائیں جیسے ’’طَلْحٍ مَّنْضُوْدٍ‘‘ کی جگہ ’’طَلْعٍ مَّنْضُوْدٍ‘‘
(٦) اختلاف کی نوعیت تقدیم و تاخیر کی قبیل سے ہو مثال کے طور پر’’وَجَائَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ‘‘ کی بجائے ’’وَجَائَ تْ سَکْرَۃُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ‘‘پڑھا جائے۔
(٧) کلمات میں زیادتی یا نقص۔مثلاً ’’وَمَا عَمِلَتْہُ اَیْدِیْھِمْ‘‘ کی بجائے ’’وَمَا عَمِلَتْ اَیْدِیْھِمْ‘‘ اور ’’إنَّ اﷲَ ھُوَ الْغَنِّیُ الْحَمِیْدُ‘‘کی بجائے ’’ إنَّ اﷲَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ‘‘
٭ ابوالفضل الرازی رحمہ اللہ کے مطابق تغیرات کی سات قسمیں یہ ہیں: ( اس قول کو سیوطی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے اوررازی رحمہ اللہ کی کتاب اللوائح کی طرف اس کی نسبت کی ہے، الاتقان (ابوالفضل بن ابراہیم رحمہ اللہ جس کے طابع ہیں) میں’اللوائح‘ یعنی ہمزہ کے ساتھ ہے جبکہ اصل میں اس کتاب کا نام ’اللوامح‘ بالمیم ہے۔)
(١) واحد،تثنیہ، جمع اورتذکیر ومبالغہ جیسے اسماء کے اوزان کا مختلف ہونا(یعنی واحد کی جگہ تثنیہ یا مذکر کی بجائے مؤنث۔
(٢) افعال(ماضی،مضارع،امر،نہی)کاایک دوسرے سے تبدیل ہوجانا، اس طرح وہ اسماء جن کی طرف فعل کی نسبت ہوتی ہے۔ (مثلاًمذکر، مونث، متکلم، مخاطب اور فاعل و مفعول)کا مختلف ہونا۔
(٣) اعراب کی مختلف وجوہ کے ذریعے وجود میں آنے والی تبدیلی۔
(٤) کمی اور زیادتی کی قسم سے وجود میں آنے والی تبدیلی۔
(٥) تقدیم و تاخیر کی قبیل سے ہونے والی تبدیلیاں۔
(٦) ایک کلمہ کے حروف کاقلب … یا ایک کلمہ کا دوسرے کلمہ سے تبادلہ یا دوسرے حروف سے تبادلہ۔
(٧) مختلف لغات کے ضمن میں ہونے والی تبدیلیاں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابن جزری رحمہ اللہ کہتے ہیں(النشر:۱؍۲۶)کہ میں نے صحیح ، شاذ، منکر اور ضعیف یعنی قراء ت کی ہر قسم کا بغور جائزہ لیا ہے۔ جس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچاہوں کہ جملہ حروف کا باہمی اختلاف ان سات صورتوں سے خالی نہیں۔
(١) معنی اور شکل و صورت میں تبدیلی کی بجائے کسی کلمہ کی حرکات میں تغیر ہو، جس طرح کہ ’’البُخْل‘‘ میں چار قسم کی حرکات اور’’یَحْسِبُ‘‘ میں دو قسم کی حرکات پڑھنا جائز ہے۔
(٢) معانی میں تغیر ہو فقط ! جیسے ’’فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍ فَتَابَ اِلَیْہِ‘‘ میں’’کَلِمَتٍ فَتَابَ اِلَیْہِ‘‘اور ’’وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ‘‘کی بجائے ’’وَادَّکَرَ بَعْدَ اَمَہٍ‘‘
(٣) معنی میں تغیر کے ساتھ ساتھ حروف میں بھی تبدیلی ہوجائے، لیکن صورت خطی تبدیل نہ ہو۔مثلاً ’’تَبْلُوْا‘‘ کو’’تَتْلُوْا‘‘ اور ’’نُنَجِّیْکَ‘‘کو ’’ نُنْحِیْکَ‘‘ یعنی حاء کے ساتھ۔
(٤) حروف میں تغیرکے باوجود معنی میں تبدیلی نہ ہو جب کہ صورت تبدیل ہوجائے۔ جیسے’’بَصْطَۃً‘‘کی بجائے’’بَسْطَہ‘‘ً اور ’’ اَلِّصَراطَ‘‘ کی جگہ ’’اَلسِّرَاطَ‘‘
(٥) معنی اور صورت دونوں تبدیلی ہوجائے جیسے ’’اَشَدَّ مِنْکُمْ‘‘اور’’مِنْھُمْ‘‘’’یَاتَلِ‘‘اور’’یَتَاَلَّ‘‘’’فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲ ِ‘‘ کی جگہ ’’فَامْضَوْا اِلٰی ذِکْرِ اﷲِ‘‘
(٦) تبدیلی تقدیم و تاخیر کی قبیل سے ہو، مثلاً ’’فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ‘‘کی جگہ ’’فَیُقْتَلُوْنَ وَیَقْتُلُوْنَ‘‘ اور’’جَائَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ‘‘کی بجائے ’’جَائَ تْ سَکْرَۃُ الْحَقِّ بِالْمَوْتِ‘‘
(٧) بعض کلمات میں کمی کردی جائے یابعض میں زیادتی حروف ہوجائے۔جیسے وصیّٰ کی جگہ أوصٰی اور ’’وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَالْانْثٰی‘‘کی جگہ ’’وَمَا خَلْقُ الذَّکَرِ وَالاُنْثٰی‘‘ یعنی راء کے کسرہ کے ساتھ۔
ابومجاہدرحمہ اللہ(صاحب مضمون)کہتے ہیں:ایسے اقوال جن کی طرف ’سبعہ احرف‘کی توضیح کے سلسلے میں رجوع کیاجاسکتا ہے اور جوعقل و نظر کی کسوٹی پرپورا اترتے ہیں یہی مذکورہ بالا چھ اقوال ہیں۔ جن کی حقیقت اور صواب و خطاء کافیصلہ بڑی بحث و تمحیص اور دقت ِ نظر کے بعد ہی کیاجاسکتا ہے۔ سو جب ہمارے سامنے ان اقوال کے حقائق اور ان کے دلائل واضح ہوجائیں تب ہی ان میں قول ِ مختار کاحتمی فیصلہ کرنا ممکن ہوسکے گا۔
اب ہم اپنے ترتیب شدہ خاکے کی روشنی میں ان چھ اقوال کو ثابت اور متواتر قراء ات پر پیش کریں گے۔ جس میں ان پر وارد ہونے والے اعتراضات و اشکالات کو بیان کرتے ہوئے قول ِ راجح کی نشاندہی کی جستجو کی جائے گی اور اللہ کی توفیق اور خصوصی اعانت کے ساتھ اس بحث کے آخر تک ہم کسی ایسے نتیجہ پر پہنچ جائیں گے جو دلائل و براہین کے لحاظ سے مضبوط، اعتراضات سے محفوظ اور قراء ات قرآنیہ کے قریب تر ہوگا ۔ اِن شاء اللہ تعالیٰ
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
سابقہ اَقوال پربحث وتمحیص

قولِ اوّل:
جس میں حروف کے بارے میں یہ مؤقف اختیارکیا گیا ہے کہ حدیث ِسبعہ احرف دراصل معنوی لحاظ سے متشابہ ہے اور اس کے مفہوم کا اِدراک نہیں ہوسکتا۔
اگر تو یہ بات اس قول کے قائل کی اپنے بارے میں ہے کہ میرے لیے یہ حدیث متشابہ المعنی ہے اورمیں اس کے مفہوم کو نہیں سمجھ سکا، تب تو اس قول میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن اگر قائل کی مراد تمام اُمت کے لیے مطلق طور پر ہے کوئی بھی اُمتی اس کے مفہوم و حقیقت سے آشنا نہیں تو قائل کا یہ نظریہ فقط ایک غلط فہمی ہے اور اس نظریے کی تردید اس اَمر سے بخوبی ہوجاتی ہے کہ نبی اکرمﷺاپنی اُمت کوسکھانے اور تعلیم دلانے کے لیے مبعوث کئے گئے تھے جس میں آپ کو سبعہ اَحرف کی تعلیم دینے کاحکم بھی تھا۔چنانچہ آپ نے اُمت کو عملاً اس کی تعلیم دی اور انہیں ان حروف پر تلاوت کا حکم دیا۔جس کو اُمت بجا لائی(جیسا کہ اَحادیث سابقہ بھی اس پر مصرح ہیں) اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سبعہ احرف پر تلاوت کرتے رہے اور بخوبی ان کاعلم رکھتے تھے یا صحابہ کی اکثریت کے پاس ان حروف کاعلم تھا۔بعد میں صحابہ نے تابعین کو اس کی تعلیم دی اور یہ حروف ہر زمانے میں رائج رہے۔حتیٰ کہ ہم تک متصل اسانید کے ساتھ پہنچ گئے۔ ان تمام حقائق کی روشنی میں یہ کیسے کہاجاتا ہے کہ یہ سبعہ احرف متشابہ المعنی ہیں جن کے معانی و مفاہیم کا اِدراک نہیں کیاجاسکتا…؟
اگر اس قول سے مراد یہ ہے کہ پہلی صدی ہجری کے مسلمان اس کا علم رکھتے تھے اور ان کے ساتھ قراء ت کرتے تھے، لیکن بعد میں یہ علم ختم ہوگیا اور اس کے اثرات و نشانات معدوم ہوگئے،لہٰذا آج ہم اس کی حقیقت کو نہیں جان سکتے تو اس بات کا بھی عقل و فہم سے کچھ واسطہ نہیں۔ یہ وہی بات ہے جس کو ابن جریررحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے اور اس پرتفصیلاً بحث آگے پانچویں قول کے ضمن میں آئے گی، لیکن مختصراً یہ سمجھ لینا چاہئے کہ:
قرآن کی ایسی ثابت قراء ات جو آج ہم میں موجود اور مروّج ہیں اور اپنے دامن میں الأحرف السبعۃ کو سموئے ہوئے ہیں، کے بارے میں اہل علم و تحقیق کا کبھی یہ اختلاف نہیں رہا کہ ان متواتر عشرہ قراء ات کا بڑا حصہ اَحرف سبعہ پر مشتمل ہے۔ بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بھی متفقہ بات ہے کہ عشرہ قراء ات ان تمام حروف پر مشتمل ہیں جو نبی اکرمﷺ پرسب سے آخر میںنازل کئے گئے تھے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی تاقیامت حفاظت کی ذمہ داری اپنے سر لی ہے اور ایسا ممکن نہیں کہ قرآن سے کچھ بھلا دیا گیا ہو، یا معدوم ہوگیا ہو۔ لہٰذا اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جملہ حروف جونبی اکرمﷺپر سب سے آخر میں نازل ہوئے سب کے سب محفوظ و مامون ہیں حتیٰ کہ ہر دور میں اُمت کا ان کو تلقی بالقبول حاصل رہا ہے اور یہ ہمیشہ محفوظ ہی رہیں گے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ قرآن کے اٹھا لیے جانے کاحکم دے دیں۔ اس قول کی تردید ’حدیث میں وارد شدہ صراحت‘ سے بھی ہوتی ہے کہ ان سبعہ حروف کے نزول کا مقصد اُمت کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔ کیا مجہول اورنامعلوم شے سے اُمت کے لیے آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔ علاوہ ازیں کس دلیل کی بناء پر اس رخصت اور آسانی کو فقط دورِ اوّل تک محدود کیاجاسکتا ہے؟ جبکہ حدیث میں ’امت‘ کے لفظ عام ہیں اور پوری اُمت محمدیہﷺ پردال ہیں۔
باقی رہا یہ مسئلہ کہ حرف کامفہوم قطعی نہیں اور یہ ایسا لفظ ہے جو مشترک اور کثیر معانی پر بولا جاتاہے تو یہ بات تو صحیح ہے کہ حرف کالفظ عام ہے، لیکن باوجود اس کے قرائن و آثار کی رو سے حرف کی تعیین اور مراد واضح اور حتمی ہوچکی ہے (جیسا کہ آگے تفصیل سے بیان ہوگا) چنانچہ اس تفصیل کے بعد حرف کا لفظ مشترک نہیں رہے گابلکہ احادیث سبعہ احرف میں استعمال ہونے والے حرف کا مفہوم متعین ہوجائے گا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
قول ثانی:
یہ قول کہ ’سبعہ احرف‘ کے الفاظ سے حقیقتاً عدد اور گنتی مرادنہیں بلکہ حدیث سبعہ احرف کا مفہوم و منشا یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو آپ نے قراء ت بالمعنی کی رخصت دی ہے جس میں وسعت ِ زبان کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی ہم معنی لفظ تلاوت کیا جاسکتا ہے۔
اس قول کے قائلین کو دراصل اس سلسلے میں وارد ہونے والے فرامین سے التباس پیداہوا ہے۔ جس طرح کہ ابی بن کعب، ابوہریرہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہم کی احادیث کے ظاہر الفاظ سے یہ اشکال پیداہوتا ہے جو اس طرح ہیں کہ نبی اکرمﷺنے سبعہ احرف کے فرق کوسمجھاتے ہوئے صحابہ کو مثال دی کہ تم علیماً حکیماً کی جگہ غفوراً رحیماً پڑھ سکتے ہو اور ایک روایت(دیکھئے حضرت ابی، ابوہریرہ اور ابوبکرہ رضی اللہ عنہم کی اَحادیث میں: (قراء ت نمبرحصہ اول: ص۱۰۶،۱۰۷) میں اس پر ان الفاظ کابھی منقول ہے کہ ’’تم سبعہ احرف پربلا جھجک تلاوت کرو، لیکن خیال رہے کہ عذاب کے ذکر کو رحمت اور رحمت کے ذکر کو عذاب سے مت تبدیل کرو‘‘ اسی طرح ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے موقوفاً یہ الفاظ بھی منقول ہیں کہ میں نے قراء ات کوسنا تو باہم متقارب پایا۔ لہٰذا جیسے جیسے تمہیں سکھایاگیا ہے ویسے ہی پڑھو اور اس میں شک سے بچو، کیونکہ قراء ات کا معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی ’ھلم‘ کی جگہ ’تعال‘ اور ’أقبل‘ کہہ دے۔ (دیکھیے: اَحادیث ابن مسعودرضی اللہ عنہ ص ۱۱۲)
سو انہی مذکورہ بالامرویات سے اس قول کے قائلین کو یہ نظریہ اپنانے میں تقویت ملی ہے کہ نبی اکرمﷺنے صحابہ کو اجازت دی تھی کہ قرآن کے منزل الفاظ کی بجائے کوئی اوربھی تلاوت کئے جاسکتے ہیں جب کہ درحقیقت ایسا نہیں کیونکہ ان مذکورہ نصوص سے زیادہ سے زیادہ یہی بات اخذ کی جاسکتی ہے کہ حدیث میں آنے والی مثالوں کے ساتھ نبی اکرمﷺنے صرف سبعہ اَحرف کے ذریعے وقوع پذیرہونے والے اختلاف اور تبدیلی کی نوعیت بذریعہ مثال واضح فرمانے کاارادہ کیا تھاکہ دیکھو جس طرح فلاں دو الفاظ میں ان کا باہمی تناقض وتضاد نہیں اسی طرح سبعہ احرف میں ہونے والے تغیرات بھی اسی قبیل سے ہیں تاکہ آنے والے لوگوں کو قراء ات کے استعمال سے قرآن میں اضطراب کا شائبہ نہ ہو۔ یعنی ان کے ذہن میں یہ خیال نہ آنے پائے کہ قراء ات کے استعمال سے قرآن کامفہوم و مدعابھی تبدیل ہوجاتاہے اوران کے سامنے بخوبی واضح ہوجائے کہ سبعہ احرف کے ذریعے ہونے والے اختلافات کی کیا نوعیت ہے۔چنانچہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے’ھلم،تعال‘وغیرہ اور نبی اکرمﷺنے’’عَلِیْمًا حَکِیْمًا‘‘کی بجائے ’’غَفُوْرًا رَحِیْمًا‘‘ کی سی مثالیں دے کر وضاحت فرما دی کہ یہ سب کی سب صفات الٰہی ہیں۔ اگر ایک قراء ت میں’’غَفُوْرًا رَحِیْمًا‘‘ کہہ دیا جائے اور دوسری قراء ت میں اللہ عزوجل کوعلیم و حکیم سے موصوف کردیا جائے تو اس میں کوئی معنوی تضاد نہیں۔
 
Top