ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
دوسرے قول میں بیان ہونے والے نظریہ کی مزید تردید حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول سے بھی ہوتی ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرمﷺتمہیں حکم دیتے ہیں کہ ’’ویسے پڑھو جیسے سکھائے گئے ہو۔‘‘( (رشد، قراء ات نمبر، حصہ اول:ص۱۰۷)) حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فرمان سے بالصراحت ثابت ہوتا ہے کہ قرآن کی کوئی بھی قراء ت جائز نہیں إلایہ کہ نبی اکرمﷺسے اس کا منقول ہوناثابت ہواور آپﷺسے سنی گئی ہو۔ چنانچہ ابن مسعودرضی اللہ عنہ کے قول کو بھی اسی تاویل پرمحمول کیاجائے گا۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول ’’فَاقْرَئُ وْا کَمَا عُلِّمْتُمْ‘‘ میں ثابت ہونے والی دلیل سے ثابت ہوتاہے۔ مزید برآں رسول اللہﷺنے اپنے بعض اَقوال میں فرمایاکہ جبریل علیہ السلام نے انہیں کہاکہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو حکم فرماتے ہیں کہ اپنی اُمت کو سات حروف پر قرآن پڑھایئے۔‘‘ یہ دلیل بھی اس بات کوصراحتاً ثابت کرتی ہے کہ جس قراء ت کو نبی اکرمﷺنے تلاوت نہیں کیااور اُمت کونہیں سکھلایا، اس کو احرف سبعہ کے ضمن میں نہیں لایا جاسکتا لہٰذا اصحاب کرام کے جو واقعات اَحادیث میں مذکور ہیں کہ انہوں نے قراء ت میں اختلاف کیااور ابتداء امر میں بعض پراس کی قراء ت کاانکار کیا تو ان سب واقعات میں کسی سے بھی یہ منقول نہیں کہ کسی صحابی نے اپنی طرف سے کچھ پڑھا ہو بلکہ ہر ایک کا یہ کہنا ہے کہ’’مجھے اس طرح نبی اکرمﷺنے پڑھایا ہے۔‘‘
ان دلائل سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ سبعہ حروف کے ذریعے کلمات و حروف کو تبدیل کرکے پڑھنے کی رخصت عام نہیں بلکہ اس بات سے مقید ہے کہ جو آپﷺ پرنازل ہوا اور آپ نے آگے سکھلایا اُس پر ہی تلاوت جائز ہے۔ کسی صحابی کے لیے یا بعدمیں اُمت کے کسی بھی فرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی ایسی قراء ت کی تلاوت کرے جو نبی اکرمﷺنے امت کونہیں سکھائی الغرض قرآن میں کسی بھی لفظ کاہم معنی متبادل لفظ اپنی طرف سے تلاوت نہیں کیا جاسکتا۔
اگر یہ کہا جائے کہ :
’’سبعہ احرف سے درحقیقت عدد مراد نہیں بلکہ یہ کثرت کے مفہوم کے لیے استعمال ہوا ہے جس طرح کہ اکثر اہل عرب کی عادت ہے۔‘‘
تو اس اشکال کی بھی حقیقت یہ ہے کہ امر واقعہ ایسے نہیں،کیونکہ واضح نصوص (جن کا ذکر تفصیل سے ہوچکا ہے) عدد کو ثابت کرتے ہیں اور حروف کی حد بندی پردال ہیں اور کسی بھی جگہ پرسبعہ کے علاوہ کوئی اور عدد استعمال نہیں ہوا، اس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ سبعہ سے خاص عدد ہی مراد ہے۔ (مزید تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیں)
ان دلائل سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ سبعہ حروف کے ذریعے کلمات و حروف کو تبدیل کرکے پڑھنے کی رخصت عام نہیں بلکہ اس بات سے مقید ہے کہ جو آپﷺ پرنازل ہوا اور آپ نے آگے سکھلایا اُس پر ہی تلاوت جائز ہے۔ کسی صحابی کے لیے یا بعدمیں اُمت کے کسی بھی فرد کے لیے یہ جائز نہیں کہ کسی ایسی قراء ت کی تلاوت کرے جو نبی اکرمﷺنے امت کونہیں سکھائی الغرض قرآن میں کسی بھی لفظ کاہم معنی متبادل لفظ اپنی طرف سے تلاوت نہیں کیا جاسکتا۔
اگر یہ کہا جائے کہ :
’’سبعہ احرف سے درحقیقت عدد مراد نہیں بلکہ یہ کثرت کے مفہوم کے لیے استعمال ہوا ہے جس طرح کہ اکثر اہل عرب کی عادت ہے۔‘‘
تو اس اشکال کی بھی حقیقت یہ ہے کہ امر واقعہ ایسے نہیں،کیونکہ واضح نصوص (جن کا ذکر تفصیل سے ہوچکا ہے) عدد کو ثابت کرتے ہیں اور حروف کی حد بندی پردال ہیں اور کسی بھی جگہ پرسبعہ کے علاوہ کوئی اور عدد استعمال نہیں ہوا، اس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ سبعہ سے خاص عدد ہی مراد ہے۔ (مزید تفصیل آگے ملاحظہ فرمائیں)