السلام علیکم :
اس تھریڈ میں فورم کے فضلاء کے ساتھ اس فقیر کو ٹیگ کیا گیا ہے ،اصل جواب تو مذکورہ اہل علم ہی دیں گے ،ان شاء اللہ
البتہ موضوع کے تعارف و نوعیت پر چند باتیں عرض ہیں ،
سب سے پہلے تو یہ بات واضح رہےکہ یہ موضوع یعنی ۔(افتراق امت ،اور اس کی تاریخ و تفصیل )بہت بڑا ،اور حساس موضوع ہے ،
قدیم علماء نے اس موضوع پر بڑا تفصیلی اور قیمتی کام کیا ہوا ہے ۔ متقدمین اور متاخرین کی ۔عقائد کی کتب۔میں اس موضوع پر مستقل
ابواب کے ساتھ ساتھ،علیحدہ مستقل اسی موضوع پر جامع کتب لکھی گئیں ،جن میں میری معلومات کے مطابق
(۱) الرد على الجهمية والزنادقة۔المؤلف: أبو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241 ھ)
(۲) الرد على الجهمية ۔المؤلف: أبو سعيد عثمان بن سعيد بن خالد بن سعيد الدارمي السجستاني (المتوفى: 280ھ)
اور گو کہ یہ دو کتابیں صرف ایک دو فرقوں کے بارے ہیں ۔تاہم اہل حدیث کے عظیم ائمہ کی تصنیف ہونے کے سبب اولیں مقام رکھتی ہیں؛
پھر اس کے بعد کئی مفید چھوٹی ، بڑی کتب اس ضمن میں منظر عام پر آئیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اہم بات جو اس ضمن میں مد نظر رکھنی ضروری ہے ،کہ افتراق اور اختلاف کا چولی ،دامن کا تعلق ہے ،ہرفرقہ کسی نہ کسی اختلاف کے
نتیجے میں وجود میں آیا ۔
لیکن اختلاف کی ایک نوعیت اس سے علیحدہ بھی موجود ہے ،جہاں اختلاف تو کیا گیا ،لیکن فرقہ نہیں بنا ،
جیسے دور صحابہ میں چند مسائل پر اختلاف ،یا ائمہ اہل حدیث کا کچھ فروعی مسائل میں مختلف ہونا ۔
((
الفرق بين الافتراق والاختلاف أمر مهم جدًا، وينبغي أن يعنى به أهل العلم؛ لأن كثيرًا من الناس خاصة بعض الدعاة وبعض طلاب العلم الذين لم يكتمل فقههم في الدين، لا يفرقون بين مسائل الخلاف ومسائل الافتراق، ومن هنا قد يرتب بعضهم على مسائل الاختلاف أحكام الافتراق، وهذا خطأ فاحش أصله الجهل بأصول الخ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افتراق و اختلاف کا اصطلاحی مفہوم کیا ہے ؟
ڈاکٹر ناصر العقل لکھتے ہیں :
الافتراق في اللغة: من المفارقة وهي المباينة والمفاصلة والانقطاع، والافتراق أيضًا مأخوذ من الانشعاب والشذوذ ومنه الخروج عن الأصل، والخروج عن الجادة، والخروج عن الجماعة.
وفي الاصطلاح: الافتراق هو الخروج عن السنة والجماعة في أصل أو أكثر من أصول الدين القطعية، سواءً كانت الأصول الاعتقادية، أو الأصول العملية المتعلقة بالقطعيات،
یعنی افتراق ،کا معنی علیحدگی اور جدائی اختیار کرنا ،قطع تعلق کرنا
اور افتراق ،انشعاب یعنی شاخوں میں ہونا پہلے ایک ’’تنا تھا ‘‘ پھر اس کی کئی شاخیں نکل پڑیں،اور شاذ یعنی ،تنہا منفرد اورالگ تھلگ ہونا
اور کسی چیز یا بندہ کا ۔اپنی اصل سے خارج ہونا ،یا متعین راہ سے ہٹنا اور جماعۃ سے نکلنا‘‘
اور اصطلاحاً :افتراق کا مطلب ہے ۔قرآن و سنت اور جماعت صحابہ سے کسی اصل یعنی بنیادی اور عقیدہ کی بات میں خروج،یا اکثر مسائل قطعیہ میں ان کے راستے سے ہٹ جانا ۔مسائل خواہ اعتقادی،یا قطعیات سے ثابت عملی مسائل ہوں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام میں سب سے پہلا فرقہ جو سامنے آیا ،وہ ہے خوارج کا فرقہ۔اگر چہ عبد اللہ بن سباء دور عثمانی میں اپنی پر اسرار سرگرمیاں شروع کرچکا تھا ،اور بلاد المسلمین میں اپنے افکار کی تخم ریزی سے خلافت عثمانی کے خلاف سبائیوں نے بڑا کام کر لیا تھا ،لیکن منظم فرقہ کی شکل میں سبائیت کے بطن سے جس تنظیم نے سر اٹھایا وہ خوارج ہی تھے
خوارج کا فرقہ جو دور صحابہ میں یعنی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت میں وجود میں میں آیا ۔لیکن یاد رہے اس میں کو ئی صحابی شامل نہیں تھا
خوارج وہی سبائی لوگ تھے ،جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر الزامات لگا کر انہیں قتل کرنے کے مرتکب ہوئے ۔
اور بعد میں جب علی رضی اللہ عنہ نے جنگ صفین میں ’‘ حکمین ‘‘کا طریقہ قبول کیا تو یہی سبائی پارٹی ’’ خوارج ‘‘ کے عنوان سے ایک فرقہ کی شکل میں سانے آئی ۔
ان کے مشہورعقائد میں : کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے ،،واجبات و فرائض کا تارک بھی کافر ،،،ایمان کم یا زیادہ نہیں ہوتا ،،
اہل اسلام کے خلاف جنگ ہوسکتی ہے۔۔
وسئل الشيخ عبد الرحمن بن صالح المحمود حفظه الله : " هل الخوارج كفار؟ " .
فأجاب :
" اختلف العلماء في كفرهم ، والصحيح أنهم لا يكفرون ؛ فقد سئل عنهم علي بن أبي طالب رضي الله عنه : أكفار هم ؟ قال : " من الكفر فروا " ، فهم وقعوا في بدعة التكفير ، فلا نقع نحن في بدعة التكفير فنكفرهم ، هذا هو القول الراجح إن شاء الله تعالى ، وإن كان يطلق على بدعهم أنها بدع كفرية " انتهى من "شرح كتاب لمعة الاعتقاد" (7 /26)
ومن جملة ما هم عليه من البدع :
- يرون أن الإيمان لا يزيد ولا ينقص .
- يكفّرون بترك الواجب .
- يكفرون بفعل الكبيرة .
- يخرجون بالسيف على مخالفيهم من أهل الإسلام .