میری معلموت کے مطابق ابتداء اسلام میں سجدہ کے وقت رفع الیدین ہوتا تھا لیکن بعد میں منسوخ ہوگیا تھا۔ کیا وہ احاديث مل سکتی ہیں جس میں سجدہ والا رفع الیدین کی منسوخی کا حکم ہو ۔
آپکی یہ معلومات ہی غلط ہیں !
پہلے یا بعد کبھی بھی سجدوں کے درمیان یا سجدہ جاتے یا اٹھتے ہوئے رفع الیدین ثانبت نہیں۔
وہ کون سے نصوص ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شروع اسلام میں سجدہ کا رفع الیدین ہوتا تھا؟
معلوم لفظ واحد سے معلومات لفظ جمع کا استعمال تو یہ بتلاتا ہے کہ تلمیذ بھائی کے پاس سجدوں میں رفع الیدین کرنے کے متعلق کثیر معلومات ہیں۔ جو انہوں نے معلوم کی ہوئی ہیں۔ہم ان ڈھیر ساری معلومات میں سے ایک معلوم یہاں پیش کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔تاکہ ہماری کم معلومات میں اضافہ ہو۔!
مذکورہ مشارکات میں سے اگر کوئی بھی آپ کے دل کو نہ لگے تو گزارش ہے کہ
جب آپ کے نزدیک سجدوں میں رفع الیدین ثابت ہے اور منسوخ بھی نہیں ہے تو جناب کر لیا کریں ۔ لیکن اس طرح امام صاحب کی تقلید سے چھٹی ہو جائے گی ۔
امام البانی نےرفع الیدین بین السجدتین کی احادیث کے بارے کہاہے۔
روى هذا الرفع عنه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عشرة من الصحابة رضي الله عنهم، وقد سقت أحاديثهم وتكلمت عليها، وخرجتها في " التعليقات الجياد على زاد المعاد " حديثاً حديثاً، وبينت ما يصح إسناده منها، وما لا يصح، ولكنه يقوى في الشواهد؛ بحيث إن الواقف على هذه الأحاديث كلها يجزم جزماً قاطعاً بثبوته عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بل وبتواتره عنه.
تفصیل کے لیے دیکھیے اصل صفۃ صلاۃ النبی جلد دوم ص
علامہ البانی رحمہ اللہ کا یہ قول باطل ہے !
سجدوں والے رفع الیدین کی بہت سی احادیث کو تو انہوں نے خود ہی ضعیف الاسناد قرار دیا ہے ۔ اور جو روایت صحیح الاسناد ہےوہ شاذ ہونے کی بناء پر ضعیف ہے !
شیخ زبیر علی زئی نے نور العینین فی مسئلۃ رفع الیدین میں سجدوں کے رفع الیدین والی روایات پر تفصیل سے بحث کی ہے اور ساری روایات کو غیر ثابت قرار دیا ہے ۔ صفحہ نمبر ١٨٩ دیکھیں ۔
شیخ آمین اللہ پشاور صاحب اس (رفع الیدین بین السجدتین) کے بارے میں یہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ زیادہ تر احادیث ترک کے بارے میں صحیح اور قوی ہیں ، لیکن کرنے کے بارے میں کئ ضعیف اور شاذ روایات کو چھوڑ کر ایک روایت دو صحیح بھی موجود ہیں ، اس کی تطبیق یہ کی جاسکتی ہے کہ کبھی کبھار یعنی احیاناً کرنی چاہئیے مگر اکثر اوقات میں نہیں کرنی چاہئیے ۔ جس صحابی رضی اللہ عنہ نے جیسا دیکھا ویسے ہی آگے اپنا مشاہدہ بیان کیا ۔ فتویٰ الدین الخالص میں انھوں نے یہ روایتیں جمع کی ہیں ۔
قارئین کرام!
اوپر دئے گئے اقتباسات پر اس کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے یہ غیر مقلدین لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔
رفیق طاھرصاحب فرماتے ہیں؛
’’آپکی یہ معلومات ہی غلط ہیں !‘‘
انس صاحب فرماتے ہیں؛
’’وہ کون سے نصوص ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ شروع اسلام میں سجدہ کا رفع الیدین ہوتا تھا‘‘
گڈمسلم صاحب فرماتے ہیں؛
’’معلوم لفظ واحد سے معلومات لفظ جمع کا استعمال تو یہ بتلاتا ہے کہ تلمیذ بھائی کے پاس سجدوں میں رفع الیدین کرنے کے متعلق کثیر معلومات ہیں۔ جو انہوں نے معلوم کی ہوئی ہیں۔ہم ان ڈھیر ساری معلومات میں سے ایک معلوم یہاں پیش کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔تاکہ ہماری کم معلومات میں اضافہ ہو‘‘
عبداللہ حیدر صاحب فرماتے ہیں؛
’’امام البانی نےرفع الیدین بین السجدتین کی احادیث کے بارے کہاہے‘‘
رفیق طاھر صاحب پہلے شائد مدہوشی میں تھے جب انہیں انہی کے ساتھی نے البانی کی وساطت سے کچھ نصوص کا عندیہ دیا تو فرماتے ہیں؛
’’علامہ البانی رحمہ اللہ کا یہ قول باطل ہے ! سجدوں والے رفع الیدین کی بہت سی احادیث کو تو انہوں نے خود ہی ضعیف الاسناد قرار دیا ہے ۔ اور جو روایت صحیح الاسناد ہےوہ شاذ ہونے کی بناء پر ضعیف ہے‘‘
قائین کرام ! غیر مقلدین کا طریقہ واردات ملاحظہ فرمائیں کہ کس طرح دجل و فریب سے کام لیتے ہیں۔ خیر حنفیوں کو ’تقلید‘ کا طعنہ دینے والے خود کیسے اندھی تقلید کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں؛
سرفراز فیضی صاحب اندھی تقلید کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛
’’شیخ زبیر علی زئی نے نور العینین فی مسئلۃ رفع الیدین میں سجدوں کے رفع الیدین والی روایات پر تفصیل سے بحث کی ہے اور ساری روایات کو غیر ثابت قرار دیا ہے‘‘
’’گل مکّی قصہ ختم‘‘ جب ان کے ’’شیخ‘‘ نے فرما دیا تو پھر بس آنکھیں بند کرکے اسے مان لو! شائد یہ لوگ لفظ ’حدیث‘ کو لغوی معنیٰ میں اپنے شیوخ کی بات کو ہی لیتے ہوں!!!!!! خیر دیکھتے جائیں؛
مون لائیٹ آفریدی صاحب میدان میں کودے اندھی تقلید کے نشے میں فرمایا؛
’’شیخ آمین اللہ پشاور صاحب اس (رفع الیدین بین السجدتین) کے بارے میں یہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ زیادہ تر احادیث ترک کے بارے میں صحیح اور قوی ہیں ، لیکن کرنے کے بارے میں کئ ضعیف اور شاذ روایات کو چھوڑ کر ایک روایت دو صحیح بھی موجود ہیں‘‘
مون لائیٹ آفریدی صاحب اپنا علم جھاڑتے ہوئے فرماتے ہیں؛
’’اس کی تطبیق یہ کی جاسکتی ہے کہ کبھی کبھار یعنی احیاناً کرنی چاہئیے مگر اکثر اوقات میں نہیں کرنی چاہئیے ‘‘
جناب مون لائٹ صاحب آپ کی اس بات کو آپ کے ’علمی نگراں‘ پسند نہیں فرما رہے ملاحظہ فرمائیں؛
خضر حیات صاحب فرماتے ہیں؛
’’مذکورہ مشارکات میں سے اگر کوئی بھی آپ کے دل کو نہ لگے تو گزارش ہے کہ جب آپ کے نزدیک سجدوں میں رفع الیدین ثابت ہے اور منسوخ بھی نہیں ہے تو جناب کر لیا کریں‘‘
دیکھئے کہ غیر مقلدین اس ’’مردہ سنت‘‘ کو زندہ کرکے کتنے شہیدوں کا ثواب کمائیں گے۔ رفع الیدین میں ایک اگلی کے عوض جو ثواب ملتا ہے یہ اتنے ڈھیر سارے ثواب کو کب حاصل کرنا شروع کریں گے۔
قارئین کرام! غیر مقلدین کے ہاں نماز کی رفع الیدین منسوخ نہیں ہے۔
والسلام