نماز چونکہ تعبدی امر ہے اور رات ودن میں پانچ وقت فرض ہے ، ان کے علاوہ بہت ساری سنن و نوافل ہیں ۔ اس لئے احادیث میں نماز کی مکمل تفصیلات ملتی ہیں۔ قیام ، رکوع، سجود کے مسائل بالکل واضح ہیں ۔کہیں کہیں فہم نصوص میں اختلاف کے سبب بعض مسائل میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جیساکہ سجدے کی حالت میں قدموں کو ملانے اور نہ ملانے کا مسئلہ ہے ۔
سجدے کی حالت میں پیر ملانے کے متعلق اہل علم کے درمیان دو رائیں پائی جاتی ہیں ۔
(1)ایک تو یہ ہے کہ دونوں پیر ملاکے رکھنا چاہئے ۔
(2)دوسری یہ کہ دونوں پیر کو جدا رکھنا چاہئے ۔
کیفیت نماز خصوصا ًصف بندی اور سجدے کے مسائل کا جب احادیث کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سجدے کی حالت میں دونوں پیر کو جدا جدا رکھنا ہی مسنون ہے ۔ اس کے مختلف دلائل ہیں ۔
(1) نماز کی اس قدر اہمیت وفضیلت اوردن ورات میں باربار نماز آنے کی وجہ سے صحابہ کرام نے نبی ﷺ کی نماز کی مکمل کیفیت بتلائی ہیں جن میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ آپ ﷺ نماز میں سجدے کی حالت میں دونوں پیر ملاکے رکھا کرتے تھے ۔
(2) جس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ سجدے میں دونوں پیر ملانا چاہئے اس میں پیر ملانے والے الفاظ کی زیادتی راوی کی طرف سے ہے جو ناقابل استدلال ہے۔
(3) نماز میں قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملانے والی احادیث دلالت کرتی ہیں کہ سجدے کی حالت میں پیر جدا جدا رکھا جائے، حدیث دیکھیں ۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا :
أقيموا صفوفكم ثلاثا والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم قال فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه(صحيح أبي داود: 662)
ترجمہ: اپنی صفیں برابر کر لو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا ۔ قسم اللہ کی ! ( ضرور ایسا ہو گا کہ ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا ۔ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا ۔
یہ حدیث تقاضہ کرتی ہے کہ نمازی جس طرح قیام میں قدم کو الگ الگ رکھا تھا اسی طرح رکوع میں بھی الگ الگ رکھے لہذا سجدہ میں بھی یہی کیفیت رہے گی کیونکہ سجدے میں الگ سے کوئی حکم نہیں ہے ۔
(4) سجدے کی سنت میں سے ہے کہ دونوں بازو پہلو سے الگ رہے ، پیٹ رانوں سے الگ رہے اور دونوں ہاتھوں کے درمیان کشادگی رہے جو پہلو اور ران سے الگ ہو۔ اس سے لازم آتا ہے کہ دونوں قدم بھی جدا جدا رہے ۔
بخاری شریف کی حدیث ہے :
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا سَجَدَ فَرَّجَ بين يَدَيهِ حتى نَرَى إبْطَيْهِ.(صحيح البخاري: 3564)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے بازوؤں کے درمیان اس قدر کشادگی کر دیتے کہ دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی تھی۔
عباس بن سہل ساعدی نے سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی اور کہا:
وإذا سجدَ فرَّجَ بينَ فخِذيْهِ غيرَ حامِلٍ بطنَهُ على شيءٍ من فخذيْه(ابوداؤد: 735)
ترجمہ: جب سجدہ کیا تو اپنی رانوں کو کشادہ رکھا اور پیٹ کو رانوں سے نہ لگایا ۔
گوکہ یہ حدیث ضعیف ہے مگرسجدے میں دونوں رانوں کو الگ الگ اور پیٹ سے جدا رکھنا مسنون ہے ،اس سنت پہ شوکانی رحمہ اللہ نے اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے ۔
علامہ شوکانی نے کہا ہے "فرَّجَ بين فخذيه" یعنی دونوں رانوں ، دونوں گھٹنوں اور دونوں قدموں کے درمیان تفریق کرے ۔ اور اصحاب شافعی نے کہا کہ دونوں پیر کے درمیان ایک بالشت جدائی رکھے۔ (نيل الأوطار:2/297) .
نووی رحمہ اللہ نے کہا : امام شافعی اور اصحاب شافعی نے کہا کہ سجدہ کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ دونوں گھٹنوں اور دونوں قدموں کے درمیان جدائی کرے ۔ قاضی ابوالطیب نے اپنی تعلیق میں کہا : ہمارے اصحاب نے کہا کہ دونوں قدم کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہے ۔ (المجموع : 3/407)
(5) نبی ﷺ نے سجدہ میں اعتدال کا حکم دیا ہے ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اعْتَدِلوا في السُّجودِ، ولا يَبسُطْ أحَدُكم ذِراعَيهِ انبِساطَ الكَلبِ .(صحيح البخاري:822)
ترجمہ: سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے بازو کتوں کی طرح نہ پھیلایا کرو۔
یہ اعتدال پیر سے پیر ملانے پر نہیں پیدا ہوگا بلکہ جس طرح قیام ورکوع میں تھا اسی طرح باقی رہنے پر ہوگا۔
قدم ملانے والی حدیث کا جواب
سجدہ کی حالت میں دونوں پاؤں کو ملا کررکھنے والی ایک حدیث ملتی ہے اس کے الفاظ اس طرح سے ہیں ۔
فوجَدْتُه ساجدًا راصًّا عقِبَيْه مستقبِلًا بأطرافِ أصابعِه للقِبلةِ۔
ترجمہ: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدے کی حالت میں اس طرح پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایڑیوں کو ملانے والے اور اپنی انگلیوں کے سروں کو قبلہ رخ کرنے والے تھے ۔
اس حدیث امام ابن خزیمہ ، امام حاکم ، امام بیہقی اور امام ابن حبان نے روایت کیا ہے ۔
اولا: یہ حدیث صحیح احادیث کے مخالف ہے ،شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث محل نظر ہے ، بظاہر یہ شاذ اور صحیح احادیث کے مخالف ہے۔(فتاوى نور على الدرب لابن باز: 8/294)
یہی وجہ ہے کہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے مگر قدم ملانے کی زیادتی نہیں ہے ۔ روایت دیکھیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
فقدتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم ليلةً من الفراشِ فالتمستُه فوقعتْ يدي على بطنِ قدميْه وهو في المسجدِ وهما منصوبتانِ وهو يقول:" اللهم أعوذُ برضاك من سخطِك, وبمعافاتِك من عقوبتِك , وأعوذُ بك منك لا أُحْصى ثناءً عليك أنت كما أثنيتَ على نفسِك " .(صحيح مسلم:486)
ترجمہ: ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ نہ پایا تو میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو تلاش کرنا شروع کر دیا، چنانچہ میرا ہاتھ آپ کے پاؤں کو لگا جو سیدھے کھڑے تھے، جب کہ آپ سجدے میں تھے اور پڑھ رہے تھے"اللهم أعوذُ برضاك من سخطِك, وبمعافاتِك من عقوبتِك , وأعوذُ بك منك لا أُحْصى ثناءً عليك أنت كما أثنيتَ على نفسِك"۔
ثانیا : ان ساری روایت میں یحی بن ایوب ضعیف راوی ہیں جن سے کافی منکرات مروی ہیں، لہذا یہ قابل حجت نہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سجدے کی حالت میں دونوں پیر کو الگ الگ رکھا جائے ، یہی مسنون عمل ہے ۔
مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک سنٹر -طائف
السلام عليكم و رحمت الله و بركاته
اميد كرتا هو شيخ خيريت سے ہوگے۔
راص العقبتین والی روایت مے یحیی بن آیوب ہے جو مختلف فیہ ہے اور انکی متابعت نہی پائی جاتی۔
اور آپ میرے عزیز محترم نے دلائل سے استدلال پیش کیا ہے، اس مسألہ مے صریح دلیل بھی یحیی بن آیوب کی روایت کے سوا نہی پائی جاتی۔
تو اسی بنا ایک استدلال یہ بہی بنتا ہے صحیح مسلم کے حدیث سے جسکو آپنے پیش کی ہے۔
فقدتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم ليلةً من الفراشِ فالتمستُه فوقعتْ يدي على بطنِ قدميْه وهو في المسجدِ وهما منصوبتانِ وهو يقول:" اللهم أعوذُ برضاك من سخطِك, وبمعافاتِك من عقوبتِك , وأعوذُ بك منك لا أُحْصى ثناءً عليك أنت كما أثنيتَ على نفسِك " .(صحيح مسلم:486)
ترجمہ: ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ نہ پایا تو میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو تلاش کرنا شروع کر دیا، چنانچہ میرا ہاتھ آپ کے پاؤں کو لگا جو سیدھے کھڑے تھے، جب کہ آپ سجدے میں تھے اور پڑھ رہے تھے"اللهم أعوذُ برضاك من سخطِك, وبمعافاتِك من عقوبتِك , وأعوذُ بك منك لا أُحْصى ثناءً عليك أنت كما أثنيتَ على نفسِك"۔
مای عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہے: فالتمستُه فوقعتْ يدي على بطنِ قدميْه وهو في المسجدِ وهما منصوبتانِ
یعنی آپ کا ایک ہاتہ نبی صل اللہ علیہ وسلم کے دونو قدمو کے بطن پر لگا اور اپکے دونو قدم مبارک کہڈے ہوے تہے۔
ایسا ہونا تب ہی درست معلوم ہوتا ہے جب دونو قدم ملے ہوے ہو یا قریب ہو۔ اگر آپ علیہ سلام کے قدمو کے درمیان فاصلہ ہوتا تو مای دونو قدم کا ذکر نہ کرتی یا قدمو مے فاصلہ ہوتا تو اس ترہ الفاظ ہوتے کہ پہلے ایک قدم پر ہاتہ لگا پہر دوسرے پر پر روایت مے ایسا نہی جس سے استدلال نکلتا ہے کہ آپ علیہ سلام کہ پیر جڈے ہوے تہے یا کافی قریب تہے۔
واللہ اعلم بالثواب۔