• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سجدے کی حالت میں دونوں پیرکو ہٹائے رکھناسنت ہے

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
جو کہ بالکل غیر مقبول استدلال ہے اور مسنون کہنا محل نظر ہے
اگر کہا جائے کہ امام شافعی سمیت ائمہ اربعہ کا یہی موقف ہے تو کیا کہیں گے؟

اسی طرح راوی یحی بن ایوب پر جرح کیئے بغیر روایت رد کر دینا اور شاذ کہنا مؤجب حیرت ہے۔
اور اگر کہا جائے کہ امام حاکم نے بھی اسے شاذ قرار دیا ہے۔ شیخ ابن باز اور شیخ بکر ابو زید وغیرہم بھی ان بھائی سے پہلے یہ کہہ چکے ہیں، تو کیا کہیں گے؟
اور بات بھی دراصل یہی صحیح ہے۔
یحیی بن ایوب پر آپ نے اتنی واضح جروح نقل کر کے اس معاملے کو اور سیدھا بنا دیا ہے، کیونکہ شذوذ کا تعلق راوی کی ثقاہت یا ضعف سے ہر گز نہیں ہوتا بلکہ اس کی مخالفت ونکارت سے ہوتا ہے اور اسی لئے راوی اگر شعبہ اور سفیان جیسے ثقہ ائمہ بھی کیوں نہ ہوں ان کی بھی بعض روایات شاذ قرار پاتی ہیں! اور یحیی بن ایوب پر تو پھر صراحتا نکارت اور کثرتِ خطاء کا الزام ہے۔ ان کی مخالفت والی روایت تو بدرجہ اولی شاذ بلکہ منکر قرار پائے گی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
دوسری بات: آپکا کوئی اشکال تھا تو وہیں اسی تھریڈ میں ذکر کرنا چاہیۓ تھا.
محترم تابش صاحب نے شیخ مقبول صاحب کے مضمون پر تبصرہ نقل کیا ، اسے بھی یہیں منتقل کردیا گیا ہے ، تاکہ دونوں موقف ایک ہی تھریڈ میں قارئین کے سامنے ہوں ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
کبھی کبھی مصروف ہوجاتا ہوں ، کچھ تاخیر سے یہ سب تبصرے دیکھے ، اللہ تعالی آپ سب کو خوش رکھے ۔ میں نے اپنی بساط بھر مسئلہ واضح کرنے کی کوشش کی ۔ تحریر آپ کے سامنے ہے ۔ محسن علی صاحب نے بھی اپنے علم کی حد تک اپنا موقف بیان کرنے کی کوشش کی ۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے ۔ یہاں مسئلہ کسی کی تائید یا تردید کا نہیں بلکہ نصوص کی روشنی میں صحیح موقف تک پہنچنے کا ہے اس کام کے لئے ہمارا اسلوب بھی صحیح ہونا چاہئے ۔ محترم عمر اثری سلمہ اللہ نے اس کی طرف اشارہ کردیا ہے ۔
محسن صاحب نے جن باتوں کو اٹھایاہے ، برادرم رضا میاں صاحب نے بہت ہی اختصار سے اتنا صحیح دیا دے دیا ہے کہ مزید جواب دینے کی ضرورت نہیں لگتی۔
اللہ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔ آمین
 
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
83
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امام حاکم کی طرف شاذ کی نسبت درست نہیں انہوں نے تفرد کا ذکر کیا ہے۔ اور ہر تفرد شاذ نہیں ہوتا۔ اس سے اگلی روایت بھی منفرد ہے اسے امام حاکم اور امام ذہبی دونوں نے تفرد کے باوجود صحیح کہا ہے۔ آخری اور فیصلہ کن بات صھیح مسلم کی اسی حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں جس کے خلاف بتاتے ہیں۔ الفاظ یہ ہیں: صحيح مسلم نسخہ فواد عبد الباقی(1/ 352)
(486) عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى بَطْنِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میرا ہاتھ آپ ﷺ کے قدموں پر پڑا۔ یہی الفاظ موطا وغیرہ میں بھی ہیں: موطأ مالك ت عبد الباقي (1/ 214)
أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: كُنْتُ نَائِمَةً إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَفَقَدْتُهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَلَمَسْتُهُ بِيَدِي، فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَى قَدَمَيْهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ۔ ترمذی: سنن الترمذي ت شاكر (5/ 524)
3493 - أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ نَائِمَةً إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفَقَدْتُهُ مِنَ اللَّيْلِ فَلَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى قَدَمَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ ۔ نسائی: سنن النسائي (1/ 102)
169۔عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: فَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَجَعَلْتُ أَطْلُبُهُ بِيَدِي فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى قَدَمَيْهِ وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَهُوَ سَاجِدٌ ۔ سنن النسائي (8/ 283)
5534 - عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: طَلَبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي فِرَاشِي، فَلَمْ أُصِبْهُ، فَضَرَبْتُ بِيَدِي عَلَى رَأْسِ الْفِرَاشِ، فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ، فَإِذَا هُوَ سَاجِدٌ. اس کے علاوہ بھی بہت سی کتب میں یہ الفاظ ہیں۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ جب دونوں پاؤں الگ الگ ہیں تو ایک ہی ہاتھ دونوں قدموں کو کیسے لگ سکتا ہے۔ متقدمین ومتاخرین بہت سے محدثین کے مقبلے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا اس حدیث کو شاذ کہنا بذات خود شاذ ہے۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ امام حاکم کی طرف شاذ کی نسبت درست نہیں انہوں نے تفرد کا ذکر کیا ہے۔ اور ہر تفرد شاذ نہیں ہوتا۔ اس سے اگلی روایت بھی منفرد ہے اسے امام حاکم اور امام ذہبی دونوں نے تفرد کے باوجود صحیح کہا ہے۔ آخری اور فیصلہ کن بات صھیح مسلم کی اسی حدیث مبارکہ کے الفاظ ہیں جس کے خلاف بتاتے ہیں۔ الفاظ یہ ہیں: صحيح مسلم نسخہ فواد عبد الباقی(1/ 352)
(486) عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: فَقَدْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ الْفِرَاشِ فَالْتَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى بَطْنِ قَدَمَيْهِ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی میرا ہاتھ آپ ﷺ کے قدموں پر پڑا۔ یہی الفاظ موطا وغیرہ میں بھی ہیں: موطأ مالك ت عبد الباقي (1/ 214)
أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ قَالَتْ: كُنْتُ نَائِمَةً إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَفَقَدْتُهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَلَمَسْتُهُ بِيَدِي، فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَى قَدَمَيْهِ، وَهُوَ سَاجِدٌ۔ ترمذی: سنن الترمذي ت شاكر (5/ 524)
3493 - أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ نَائِمَةً إِلَى جَنْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفَقَدْتُهُ مِنَ اللَّيْلِ فَلَمَسْتُهُ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى قَدَمَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ ۔ نسائی: سنن النسائي (1/ 102)
169۔عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: فَقَدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَجَعَلْتُ أَطْلُبُهُ بِيَدِي فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى قَدَمَيْهِ وَهُمَا مَنْصُوبَتَانِ وَهُوَ سَاجِدٌ ۔ سنن النسائي (8/ 283)
5534 - عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: طَلَبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ فِي فِرَاشِي، فَلَمْ أُصِبْهُ، فَضَرَبْتُ بِيَدِي عَلَى رَأْسِ الْفِرَاشِ، فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَى أَخْمَصِ قَدَمَيْهِ، فَإِذَا هُوَ سَاجِدٌ. اس کے علاوہ بھی بہت سی کتب میں یہ الفاظ ہیں۔ اب میرا سوال یہ ہے کہ جب دونوں پاؤں الگ الگ ہیں تو ایک ہی ہاتھ دونوں قدموں کو کیسے لگ سکتا ہے۔ متقدمین ومتاخرین بہت سے محدثین کے مقبلے میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا اس حدیث کو شاذ کہنا بذات خود شاذ ہے۔ هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ محترم بھائی
تفرد اور چیز ہے اور کسی لفظ یا جملے کو باقی رواۃ کے مخالف منفرد ذکر کرنا اور چیز ہے۔ اور امام حاکم نے اس روایت میں اسی طرف اشارہ کیا ہے۔ خیر اگر محدثین کا زیادت راوی پر موقف کا مطالعہ کریں تو یہ بات بڑی واضح ہو جائے گی۔ اور پھر اگر امام حاکم اسے شاذ نہ بھی کہتے تو اصولا یہ شاذ ہے۔
جہاں تک آپ کے صحیح مسلم کی اس روایت سے استدلال کا تعلق ہے تو یہ ایک بہت ہی بعید استدلال ہے۔ کیا اس روایت میں آپ یہ الفاظ دکھا سکتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے ایک ہی بار ہاتھ رکھا اور وہ دونوں قدموں پر پڑے؟ عموما اندھیرے میں انسان کا ہاتھ کسی چیز پر پڑتا ہے تو وہ ایک دو بار ادھر اُدھر گھما کر اس چیز کا اندازہ لگا لیتا ہے کہ وہ کیا ہے وغیرہ۔ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ ایک بار لگا اور انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ قدم ہیں۔ اور انہوں نے دوسری بار ہاتھ رکھا ہی نہیں!
الٹا یہ حدیث واضح طور پر اس اضافے کے شاذ ومنکر ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہے، کیونکہ کسی بھی روایت میں عائشہ نے وہ الفاظ نہیں کہے جو یحیی بن ایوب نے بیان کیے ہیں حالانکہ سند ایک ہے واقعہ بھی ایک ہے اور قول بھی ایک ہے اور پھر راوی کا حافظہ بھی کچھ کمزور ہے۔
 
شمولیت
اپریل 17، 2014
پیغامات
92
ری ایکشن اسکور
39
پوائنٹ
83
میرے بہت ہی عزیز برادرز!
فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا جائے اب...
محترم @مقبول احمد سلفی
میرے لئے بہت قابل عزت و احترام ہیں اور اچھے محقق بھی.
اگر میرے الفاظ میں کوئی سختی ہو تو معذرت آپ انڈینز سے.

" اللهم أرنا الحق حقا وارزقنا اتباعه وأرنا الباطل باطلا وارزقنا اجتنابه ولا تجعله ملتبسا علينا فنضل واجعلنا للمتقين إماما "
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
نماز چونکہ تعبدی امر ہے اور رات ودن میں پانچ وقت فرض ہے ، ان کے علاوہ بہت ساری سنن و نوافل ہیں ۔ اس لئے احادیث میں نماز کی مکمل تفصیلات ملتی ہیں۔ قیام ، رکوع، سجود کے مسائل بالکل واضح ہیں ۔کہیں کہیں فہم نصوص میں اختلاف کے سبب بعض مسائل میں اہل علم کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے جیساکہ سجدے کی حالت میں قدموں کو ملانے اور نہ ملانے کا مسئلہ ہے ۔
سجدے کی حالت میں پیر ملانے کے متعلق اہل علم کے درمیان دو رائیں پائی جاتی ہیں ۔
(1)ایک تو یہ ہے کہ دونوں پیر ملاکے رکھنا چاہئے ۔
(2)دوسری یہ کہ دونوں پیر کو جدا رکھنا چاہئے ۔

کیفیت نماز خصوصا ًصف بندی اور سجدے کے مسائل کا جب احادیث کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سجدے کی حالت میں دونوں پیر کو جدا جدا رکھنا ہی مسنون ہے ۔ اس کے مختلف دلائل ہیں ۔
(1) نماز کی اس قدر اہمیت وفضیلت اوردن ورات میں باربار نماز آنے کی وجہ سے صحابہ کرام نے نبی ﷺ کی نماز کی مکمل کیفیت بتلائی ہیں جن میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ آپ ﷺ نماز میں سجدے کی حالت میں دونوں پیر ملاکے رکھا کرتے تھے ۔
(2) جس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ سجدے میں دونوں پیر ملانا چاہئے اس میں پیر ملانے والے الفاظ کی زیادتی راوی کی طرف سے ہے جو ناقابل استدلال ہے۔
(3) نماز میں قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنہ ملانے والی احادیث دلالت کرتی ہیں کہ سجدے کی حالت میں پیر جدا جدا رکھا جائے، حدیث دیکھیں ۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی طرف اپنا رخ کیا اور فرمایا :
أقيموا صفوفكم ثلاثا والله لتقيمن صفوفكم أو ليخالفن الله بين قلوبكم قال فرأيت الرجل يلزق منكبه بمنكب صاحبه وركبته بركبة صاحبه وكعبه بكعبه(صحيح أبي داود: 662)
ترجمہ: اپنی صفیں برابر کر لو ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تین بار فرمایا ۔ قسم اللہ کی ! ( ضرور ایسا ہو گا کہ ) یا تو تم اپنی صفوں کو برابر رکھو گے یا اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں مخالفت پیدا کر دے گا ۔ سیدنا نعمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے دیکھا کہ ایک آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ ، اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے کے ساتھ اور اپنے ٹخنے کو اپنے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر اور جوڑ کر کھڑا ہوتا تھا ۔
یہ حدیث تقاضہ کرتی ہے کہ نمازی جس طرح قیام میں قدم کو الگ الگ رکھا تھا اسی طرح رکوع میں بھی الگ الگ رکھے لہذا سجدہ میں بھی یہی کیفیت رہے گی کیونکہ سجدے میں الگ سے کوئی حکم نہیں ہے ۔
(4) سجدے کی سنت میں سے ہے کہ دونوں بازو پہلو سے الگ رہے ، پیٹ رانوں سے الگ رہے اور دونوں ہاتھوں کے درمیان کشادگی رہے جو پہلو اور ران سے الگ ہو۔ اس سے لازم آتا ہے کہ دونوں قدم بھی جدا جدا رہے ۔
بخاری شریف کی حدیث ہے :
كان النبيُّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إذا سَجَدَ فَرَّجَ بين يَدَيهِ حتى نَرَى إبْطَيْهِ.(صحيح البخاري: 3564)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے بازوؤں کے درمیان اس قدر کشادگی کر دیتے کہ دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی تھی۔
عباس بن سہل ساعدی نے سیدنا ابوحمید رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث روایت کی اور کہا:
وإذا سجدَ فرَّجَ بينَ فخِذيْهِ غيرَ حامِلٍ بطنَهُ على شيءٍ من فخذيْه(ابوداؤد: 735)
ترجمہ: جب سجدہ کیا تو اپنی رانوں کو کشادہ رکھا اور پیٹ کو رانوں سے نہ لگایا ۔
گوکہ یہ حدیث ضعیف ہے مگرسجدے میں دونوں رانوں کو الگ الگ اور پیٹ سے جدا رکھنا مسنون ہے ،اس سنت پہ شوکانی رحمہ اللہ نے اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے ۔
علامہ شوکانی نے کہا ہے "فرَّجَ بين فخذيه" یعنی دونوں رانوں ، دونوں گھٹنوں اور دونوں قدموں کے درمیان تفریق کرے ۔ اور اصحاب شافعی نے کہا کہ دونوں پیر کے درمیان ایک بالشت جدائی رکھے۔ (نيل الأوطار:2/297) .
نووی رحمہ اللہ نے کہا : امام شافعی اور اصحاب شافعی نے کہا کہ سجدہ کرنے والے کے لئے مستحب ہے کہ وہ دونوں گھٹنوں اور دونوں قدموں کے درمیان جدائی کرے ۔ قاضی ابوالطیب نے اپنی تعلیق میں کہا : ہمارے اصحاب نے کہا کہ دونوں قدم کے درمیان ایک بالشت کا فاصلہ رہے ۔ (المجموع : 3/407)
(5) نبی ﷺ نے سجدہ میں اعتدال کا حکم دیا ہے ، حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:
اعْتَدِلوا في السُّجودِ، ولا يَبسُطْ أحَدُكم ذِراعَيهِ انبِساطَ الكَلبِ .(صحيح البخاري:822)
ترجمہ: سجدہ میں اعتدال کو ملحوظ رکھو اور اپنے بازو کتوں کی طرح نہ پھیلایا کرو۔
یہ اعتدال پیر سے پیر ملانے پر نہیں پیدا ہوگا بلکہ جس طرح قیام ورکوع میں تھا اسی طرح باقی رہنے پر ہوگا۔
قدم ملانے والی حدیث کا جواب
سجدہ کی حالت میں دونوں پاؤں کو ملا کررکھنے والی ایک حدیث ملتی ہے اس کے الفاظ اس طرح سے ہیں ۔
فوجَدْتُه ساجدًا راصًّا عقِبَيْه مستقبِلًا بأطرافِ أصابعِه للقِبلةِ۔
ترجمہ: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدے کی حالت میں اس طرح پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ایڑیوں کو ملانے والے اور اپنی انگلیوں کے سروں کو قبلہ رخ کرنے والے تھے ۔
اس حدیث امام ابن خزیمہ ، امام حاکم ، امام بیہقی اور امام ابن حبان نے روایت کیا ہے ۔
اولا: یہ حدیث صحیح احادیث کے مخالف ہے ،شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے کہا کہ یہ حدیث محل نظر ہے ، بظاہر یہ شاذ اور صحیح احادیث کے مخالف ہے۔(فتاوى نور على الدرب لابن باز: 8/294)
یہی وجہ ہے کہ صحیح مسلم میں یہ روایت موجود ہے مگر قدم ملانے کی زیادتی نہیں ہے ۔ روایت دیکھیں ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
فقدتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم ليلةً من الفراشِ فالتمستُه فوقعتْ يدي على بطنِ قدميْه وهو في المسجدِ وهما منصوبتانِ وهو يقول:" اللهم أعوذُ برضاك من سخطِك, وبمعافاتِك من عقوبتِك , وأعوذُ بك منك لا أُحْصى ثناءً عليك أنت كما أثنيتَ على نفسِك " .(صحيح مسلم:486)
ترجمہ: ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ نہ پایا تو میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو تلاش کرنا شروع کر دیا، چنانچہ میرا ہاتھ آپ کے پاؤں کو لگا جو سیدھے کھڑے تھے، جب کہ آپ سجدے میں تھے اور پڑھ رہے تھے"اللهم أعوذُ برضاك من سخطِك, وبمعافاتِك من عقوبتِك , وأعوذُ بك منك لا أُحْصى ثناءً عليك أنت كما أثنيتَ على نفسِك"۔
ثانیا : ان ساری روایت میں یحی بن ایوب ضعیف راوی ہیں جن سے کافی منکرات مروی ہیں، لہذا یہ قابل حجت نہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سجدے کی حالت میں دونوں پیر کو الگ الگ رکھا جائے ، یہی مسنون عمل ہے ۔

مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک سنٹر -طائف

السلام عليكم و رحمت الله و بركاته

اميد كرتا هو شيخ خيريت سے ہوگے۔
راص العقبتین والی روایت مے یحیی بن آیوب ہے جو مختلف فیہ ہے اور انکی متابعت نہی پائی جاتی۔

اور آپ میرے عزیز محترم نے دلائل سے استدلال پیش کیا ہے، اس مسألہ مے صریح دلیل بھی یحیی بن آیوب کی روایت کے سوا نہی پائی جاتی۔

تو اسی بنا ایک استدلال یہ بہی بنتا ہے صحیح مسلم کے حدیث سے جسکو آپنے پیش کی ہے۔

فقدتُ رسولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم ليلةً من الفراشِ فالتمستُه فوقعتْ يدي على بطنِ قدميْه وهو في المسجدِ وهما منصوبتانِ وهو يقول:" اللهم أعوذُ برضاك من سخطِك, وبمعافاتِك من عقوبتِك , وأعوذُ بك منك لا أُحْصى ثناءً عليك أنت كما أثنيتَ على نفسِك " .(صحيح مسلم:486)
ترجمہ: ایک رات میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ساتھ نہ پایا تو میں نے اپنے ہاتھوں سے آپ کو تلاش کرنا شروع کر دیا، چنانچہ میرا ہاتھ آپ کے پاؤں کو لگا جو سیدھے کھڑے تھے، جب کہ آپ سجدے میں تھے اور پڑھ رہے تھے"اللهم أعوذُ برضاك من سخطِك, وبمعافاتِك من عقوبتِك , وأعوذُ بك منك لا أُحْصى ثناءً عليك أنت كما أثنيتَ على نفسِك"۔

مای عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہے: فالتمستُه فوقعتْ يدي على بطنِ قدميْه وهو في المسجدِ وهما منصوبتانِ

یعنی آپ کا ایک ہاتہ نبی صل اللہ علیہ وسلم کے دونو قدمو کے بطن پر لگا اور اپکے دونو قدم مبارک کہڈے ہوے تہے۔

ایسا ہونا تب ہی درست معلوم ہوتا ہے جب دونو قدم ملے ہوے ہو یا قریب ہو۔ اگر آپ علیہ سلام کے قدمو کے درمیان فاصلہ ہوتا تو مای دونو قدم کا ذکر نہ کرتی یا قدمو مے فاصلہ ہوتا تو اس ترہ الفاظ ہوتے کہ پہلے ایک قدم پر ہاتہ لگا پہر دوسرے پر پر روایت مے ایسا نہی جس سے استدلال نکلتا ہے کہ آپ علیہ سلام کہ پیر جڈے ہوے تہے یا کافی قریب تہے۔

واللہ اعلم بالثواب۔
 
Last edited:

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
ایسا ہونا تب ہی درست معلوم ہوتا ہے جب دونو قدم ملے ہوے ہو یا قریب ہو۔ اگر آپ علیہ سلام کے قدمو کے درمیان فاصلہ ہوتا تو مای دونو قدم کا ذکر نہ کرتی یا قدمو مے فاصلہ ہوتا تو اس ترہ الفاظ ہوتے کہ پہلے ایک قدم پر ہاتہ لگا پہر دوسرے پر پر روایت مے ایسا نہی جس سے استدلال نکلتا ہے کہ آپ علیہ سلام کہ پیر جڈے ہوے تہے یا کافی قریب تہے۔
یہ عجیب استدلال ہے۔
 
شمولیت
اکتوبر 16، 2016
پیغامات
51
ری ایکشن اسکور
11
پوائنٹ
46
یہ عجیب استدلال ہے۔
السلام علیکم۔
جی میرے بھائی شیخ عثیمین رحمہ اللہ نے یہی استدلال کیا ہے۔
پہلے ذکر نہی کیا آپکا نام کہ شیخ پر کوئ بات منصوب نہ کردو، پر بحمد اللہ ابھی اپکا قول ملا۔

قال الشيخ العثيمين في(صفة الصلاة) ص 147:
" ولكن الذي يظهر مِن السُّنَّة: أن القدمين تكونان مرصوصتين، يعني: يرصُّ القدمين بعضهما ببعض، كما في «الصحيح» من حديث عائشة حين فَقَدَتِ النبي صلى الله عليه وسلم فوقعت يدُها على بطن قدميه ، وهما منصوبتان، وهو ساجد . واليد الواحدة لا تقع على القدمين إلا في حال التَّراصِّ، وقد جاء ذلك أيضاً في «صحيح ابن خزيمة» في حديث عائشة المتقدِّم: «أنَّ الرسول صلى الله عليه وسلم كان رَاصًّا عقبيه .
وعلى هذا ؛ فالسُّنَّةُ في القدمين هو التَّراصُّ بخلاف الرُّكبتين واليدين
 
Top