• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سسر کا اپنی بہو کے ساتھ زنا کرنے سے نکاح کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
سسر کا اپنی بہو کے ساتھ زنا کرنے سے نکاح کا حکم

مقبول احمد سلفی


فقہ حنفی کی شرع مخالف تعلیمات نے ملت اسلامیہ اور اس کے افراد کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ امت کا اختلاف وانتشار ، آپسی تنازع، ایک دوسرے کی تکفیروتذلیل اور مسلمانوں کے درمیان فساد اسی نقصان کاپیش خیمہ ہے ۔ آج بھی مسلمان ایک ہوسکتے ہیں ، ہماری بکھری ہوئی طاقت یکجا ہوسکتی ہے ، عظمت رفتہ پھر سے بحال ہوسکتی ہے اور چہار دانگ عالم میں اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا ہوسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ امت کو خالص کتاب وسنت کی تعلیم دی جائے، علماء کے اقوال اور ائمہ کے اجتہادات کو نصوص شرعیہ پر ترجیح نہ دی جائے اور عقائدواعمال صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے فرامین سے لئے جائیں ۔
فقہ حنفی کے شرع مخالف مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر سسر شہوت سے بہو کو چھو لے یا اس سے زنا کرلے تو بہو اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے ۔
سسر اور بہو یا داماد اور ساس کا رشتہ برصغیر میں بہت ہی مقدس مانا جاتاہے ، اسی تقدس کے تئیں ساس وسسر کو ابو امی کہہ کر لوگ پکارتے ہیں ۔ اپنے ذہن میں ایک طرف یہ تقدس رکھیں اور دوسری طرف یہ دیکھیں کہ ہمارے یہاں عموما فیملیاں مشترکہ طور پر رہتی ہیں ، اور آج کے پرفتن دور میں مشترکہ فیملی کے برے اثرات کسی کے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ساس، سسربہوئیں، بیٹے، نندیں، جیٹھ، دیورسب ایک ساتھ ایک جگہ رہتے سہتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مشترکہ خاندانی نظام بہت سارے جرائم ومعاصی کا سبب ہے اس وجہ سے شادی کے بعد والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو الگ الگ کردے ۔ یہاں ایک بات یہ بھی جان لی جائے کہ سسر اپنی بہو کے لئے محرمات میں سے ہے اس لئے بہو اپنے سسر کے سامنے چہرہ کھول سکتی ہے ، خلوت(خلوت) کرسکتی ہے حتی کے اس کے ساتھ مصافحہ کرنا اورسفر کرنا بھی جائز ہے ۔
مذکورہ بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا یہ خیال کریں کہ اگر سسر اپنی بہو کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے تو وہ کس درجے کا مسلمان رہ جاتا ہوگا؟
زنا ایک سنگین جرم اور گھناؤنا عمل ہے ، اس سے ایمان کا جنازہ نکل جاتا ہے اور زناکار ایمان سے محروم ہوکر قہر الہی کا مستحق ہوجاتا ہے قہر الہی کے ساتھ دنیا میں بھی اس کی عبرت ناک سزا ہے جسے دیکھ کر پھر کسی میں احساس زنا باقی نہیں رہ سکے گا ۔ اے کاش ! دنیا میں زنا کی بابت شرعی قانون نافذ ہوجائے تو سماج وسوسائٹی کی سب سے بڑی گندگی دور ہوجائے۔ سماج سے اگر یہ گندگی دور ہوجائے تو بہت ساری سماجی خرابیاں آپ خود دور ہوجائیں۔
اسلام میں زنا کے متعلق یہی پتہ چلتا ہے کہ اس کا گناہ اور اثراس کے سر ہے جس نے اس کا ارتکاب کیا ہے ۔ اگر سسر نے زبردستی اپنی بہو کے ساتھ زنا کیا ہے تو اس کا مکمل گناہ ووبال سسر کے سر ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى(فاطر:18)
ترجمہ: کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔
قرآن کا یہ اصول ہرقسم کے گناہ کے سلسلے میں ہے خواہ قتل کا معاملہ ہو یا زنا کا اور زنا سسر وبہو کے درمیان ہو یا ان کے علاوہ کے درمیان ۔ یہی اصول دنیاوی علالتوں اور سماجی معاملوں میں بھی برتے جاتے ہیں کہ جس کی غلطی اسی کو سزا ۔ ایسا نہیں ہے کہ قاتل ابن زیاد ہو اور مجرم یزید ٹھہرے ۔
اور اگر زنا میں سسر کے ساتھ بہو کی بھی رضامندی تھی تو سسروبہو دونوں گنہگار ہیں اور دونوں رجم کے قابل ہیں لیکن اس کی سزا شوہر کو نہیں ملے گی وہ اس معاملے میں معصوم ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی سسر جبرا یا بہو کی رضامندی سے زنا کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اس سے وہ عورت اپنے شوہر پر حرام نہیں ہوگی کیونکہ حرام کا ارتکاب کرنے سے کوئی حلال کام حرام نہیں ہوجائے گا۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ حرام کام کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتا (ابن ماجہ: 2015) گوکہ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے مگر کئی آثار سے یہ بات منقول ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی صحیح اثر میں مذکور ہے :
عنِ ابنِ عباسٍ أنَّ وطءَ الحرامِ لا يُحرِّمُ۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حرام وطی (مباشرت) سے (کوئی حلال چیز) حرام نہیں ہوجاتی ۔
اس اثر کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے۔ (إرواء الغليل:1881)
یہی مسلک حق ہے اور اسی کے قائل مالکیہ وشافعیہ ہیں لیکن احناف اور شوافع کے یہاں زنا سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ ان کا استدلال ہے کہ جس طرح ربیبہ (بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکی) سے نکاح اس وقت حرام ہوجاتا ہے جب مرد اس کی ماں سے جماع کرلے یعنی یہاں وطی سے حرمت ثابت ہورہی ہےٹھیک اسی طرح زنا سے جو لڑکی پیدا ہو وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی کے حکم میں ہے اور بیٹی سے نکاح حرام ہے۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ(النساء:23).
ترجمہ: اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں ،تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ،ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ۔
یہ استدلال بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں نکاح کا ذکرہے ،اللہ کا فرمان ہے:ولاتنکحوا مانکح آباؤکم من النساء الا ما قد سلف یعنی تم ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمارے باپوں نے نکاح کیا ہےمگر جو گزرچکا۔
اور نکاح کو زنا پر کیسے قیاس کیا جائے گا؟ اگر کوئی رشتہ نکاح کی وجہ سے حرام ہورہاہے تو زنا کرنے سے کوئی رشتہ کیسے حرام ہوجائے گا؟ دونوں دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ نکاح سے بعض رشتے کی حرمت کا ثبوت موجود ہے جبکہ زنا سے رشتے کی حرمت کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
احناف کا یہ فتوی جہاں خلاف شریعت ہے وہیں اس فتوی پر سختی قابل مذمت اور حددرجہ افسوس ناک ہے ۔ اگر کسی کے یہاں سسر وبہو کے زنا کا واقعہ رونما ہوجائے تو سماج والے زبردستی میاں بیو ی میں تفریق کردیتے ہیں ۔ جس طرح سختی سے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں عورتوں کا جبرا حلالہ بلفظ دیگر زنا کروایا جاتا ہے اسی طرح سختی سے اس معاملہ میں بھی بے قصور شوہر کو بیوی سے الگ کردیا جاتا ہے۔
اس بات پر مجھے جس قدر حیرت ہے اس سے کہیں زیادہ اس بات پر حیرانی ہے کہ جب احناف کو اپنے فتوی کا اتنا ہی پاس ولحاظ ہے تو پھر جو چیز شرعا ثابت ہے اور جسے احناف بھی مانتے ہیں کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے گا تو پھر اس معاملے میں خاموشی کیوں ،اسے کیوں نافذ نہیں کرتے؟ ۔ خودساختہ فتوی پر اس قدر سختی اور ثابت شدہ مسئلہ میں اس قدر غفلت ؟ شتان بین یزیدین
جس طرح زنا کی بابت سسر وبہو کا مسئلہ فقہ حنفی میں درج ہے اسی طرح ساس وداماد کا بھی مسئلہ ہے ۔داماد نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اپنی بیوی حرام ہوگئی ۔ یہ مسئلہ بالکل خلاف شریعت ہے اس لئے عوام سے میری درخواست ہے کہ آج کے علمی اور ترقی یافتہ دورمیں اندھے بہرے ہوکر کسی فتوی پر عمل نہ کریں ۔ پہلے صاحب علم وبصیرت سے مسئلہ کو دلائل کی روشنی میں جانیں پھر عمل کریں ۔ آج علم کا حصول اورمسئلے کی دریافت پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہے، اکثر مراجع ومصادراور دین کی اہم کتابیں انٹرنیٹ پر موجود ہیں ، بڑے سے بڑے علماء سے رابطہ آسان ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہوں پھر صحیح بات کی جانکاری کے لئے سستی کیوں ؟ یہ تو دین و شریعت کا معاملہ ہے نہ دنیا کا ۔ آپ دین پر اس لئے عمل کرتے ہیں کہ اللہ آپ سے راضی ہو اور اس کے بدلےآخرت میں اس کی توفیق سے جنت ملے، نہ کہ اس لئے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یا دنیا کا کوئی عالم و مفتی آپ سے خوش ہو۔ہرکس وناکس کو میرا یہ پیغام ہے کہ صحیح دین کو پہچانیں ، سنت کے مطابق عمل کریں اور ہرعمل میں اللہ کی رضا تلاش کریں ۔ ایک مسلمان کی زندگی کا یہی مطلوب ومقصود ہونا چاہئے۔

 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
مضمون نگار لگ رہاہے کہ خود انتشار ذہنی کے شکار ہیں
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
فقہ حنفی کی شرع مخالف تعلیمات نے ملت اسلامیہ اور اس کے افراد کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ امت کا اختلاف وانتشار ، آپسی تنازع، ایک دوسرے کی تکفیروتذلیل اور مسلمانوں کے درمیان فساد اسی نقصان کاپیش خیمہ ہے
جب غزل کا مطلع اتنا زور دار ہوگا تو بقیہ غزل میں کیسی آتش فشانی اور گھن گرج ہوگی ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے، غیرمقلدین سے جب کہاجاتاہے کہ وہ فقہ حنفی سے نفرت رکھتے ہیں تواس وقت وہ تقیہ کرتے ہیں اور جب تقیہ کی ضرورت نہیں رہتی تو پھر تبرا پر اترآتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ بیشتر سلفیوں کے دل ودماغ فقہ حنفی اورامام ابوحنیفہ کی نفرت سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن اس نفرت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ڈرلگتاہے،اوریہ نفرت اس لئے ہے کہ شروع سے ان کے دل ودماغ میں یہی بات بٹھائی جارہی ہے تو جوطالب علم دس بارہ سال فقہ حنفی کے خلاف باتیں سن کر اورپڑھ کر بڑاہوگا، اس سے یہ توقع تونہیں رکھنی چاہئے کہ وہ کسی غیرجانبدار نقطہ نظرکااظہار کرے گا، ویسے بھی ببول کے درخت پر گلاب کب اگاہے؟
یہ نام نہاد شیخ تو خدا کے یہاں اپنی اس بیان بازی کیلئے جواب دہ ہوں گے لیکن دنیا میں بھی کچھ حساب کتاب توہوناچاہئے،لہذا اسی مد میں اس تحریر کو رکھاجائے۔
فقہ حنفی پر چاہے جتنی بھی خاک اڑائی جائے، وہ آخر کار خاک اڑانے والے منہ پر آکر گرتی ہے،کیونکہ چاند پر تھوکنے سے چاند کا کب کچھ بگڑاہے،ہاں تھوکنے والے پر تھوک ضرور لوٹتاہے،فقہ حنفی یادوسرے لفظوں میں ہم کہیں کہ جب تک امت تقلید واجتہاد کے معاملہ میں نظم وضبط پر قائم تھی، اس وقت تک امت میں فکری انتشار نہیں تھا، نہ کہیں کوئی قادیانی گروہ تھا، نہ کوئی جدیدیت کا علمبردار اورنہ کوئی تجدد پسند،جب سے ایک فرقہ انگلش عہد مین اجتہاد کا نعرہ لے کر کھڑا ہوا، ہر گزرے دن کے ساتھ ایک نیا فرقہ وجود میں آتاہے اورنیا اجتہاد کرتاہے۔جتناعلمی وفکری انتشار انگریزی حکومت کے قیام اورغیرمقلدین کے وجود کے بعد ہواہے اتناتوشاید چودہ صدیوں میں بھی نہیں ہواہوگا۔
حنفیوں نے ہی اسلام کو سربلند کیاہے اوردنیا کے کونے کونے میں پہنچایاہے اوراسلام کی سربلندی عملی طورپر قائم کی ہے، چاہے وہ بغداد کی خلافت عباسی ہو،سلجوقی حکمراں ہوں، خلاف عثمانی ہو یاپھر ہندوستان میں مختلف خاندانوں کی حکومتیں ہوں،فقہ حنفی نے کیاکام اورکارنامے انجام دیئے، ان کی تفصیل تو سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے مصداق ہے ،شیخ صاحب یہ بتائیں کہ ان کی جماعت نے کون سے جھنڈے گاڑے ہیں، سوائے اختلافی مسائل اچھالنے کےاور افراد امت کو ایک دوسرے سے دست بگریباں کرنے کے۔
آج بھی مسلمان ایک ہوسکتے ہیں ، ہماری بکھری ہوئی طاقت یکجا ہوسکتی ہے ، عظمت رفتہ پھر سے بحال ہوسکتی ہے اور چہار دانگ عالم میں اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا ہوسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ امت کو خالص کتاب وسنت کی تعلیم دی جائے، علماء کے اقوال اور ائمہ کے اجتہادات کو نصوص شرعیہ پر ترجیح نہ دی جائے اور عقائدواعمال صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے فرامین سے لئے جائیں ۔
خالص کتاب وسنت کیاچیز ہوتی ہے،میری سمجھ سے توباہر ہے، انسان چاہے کتنابھی غیرجانبدار ہو، کچھ نہ کچھ حالات وظروف کااثر ہوتاہی ہے، پھر خود اس کی اپنی سمجھ ،فہم اوراس کی گہرائی یااتھلاپن اسے خالص کہاں رہنے دیتی ہے،خالص کتاب وسنت سے مراد محض احادیث کی ورق گردانی ہے تو یہ ہوسکتی ہے لیکن اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے، مسائل کے حل کیلئے جب اجتہاد کیاجائے تو اس میں فقہ ،فہم سمجھ اور دیگر چیزیں شامل ہوں گی اور پھر خلوص میں کچھ نہ کچھ ملاوٹ ہوہی جائے گی۔
ویسے حیرت ہے کہ ان بزرگ نے کتنی آسانی سے صدیوں کے علمائے کرام، فقہاومحدثین کی محنت پر یہ کہہ کرپانی پھیردیاکہ انہوں نے امت کے سامنے خالص کتاب وسنت کی تعلیم پیش نہیں کی، یہ شرف اللہ نے صرف انگریزی عہد حکومت میں قائم ایک مخصوص گروہ کیلئے خاص کررکھاتھاکہ وہ وجود میں آئے اور لوگوں کو ’’خالص کتاب وسنت ‘‘کی تعلیم دے۔
یہ لوگ فقہ حنفی کی مخالفت مین اتنے عقل وفہم کے دشمن بن جاتے ہیں کہ فقہ حنفی کے ساتھ ساتھ بے چارے حنابلہ مالکیہ اورشوافع کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں کہ خالص کتاب وسنت کی تعلیم ان کے بھی پاس نہیں ہے۔
فقہ حنفی کے شرع مخالف مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر سسر شہوت سے بہو کو چھو لے یا اس سے زنا کرلے تو بہو اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے ۔
اس کو شرع مخالف مسئلہ کہنے سے پہلے ہمارے یہ نام نہاد شیخ اگرایک مرتبہ اس پر نظرڈال لیتے کہ یہ کن اکابر تابعین کا بھی قول ہے تو شاید اس کو شرع مخالف کہنے سے کچھ شرماجاتے،ان حضرات کے اسماء گرامی مضمون کے آخر میں لکھوں گا۔
مشترکہ خاندانی نظام بہت سارے جرائم ومعاصی کا سبب ہے اس وجہ سے شادی کے بعد والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو الگ الگ کردے ۔
پتہ نہیں اس پر ہمارے سلفی مہربانوں کی نگاہ پڑی یانہیں پڑی اورپتہ نہیں اب تک انہوں نے مشترکہ خاندانی نظام سے توبہ کیایانہیں کیا؟لیکن اس سے پتہ چلتاہے کہ شیخ موصوف ایک طرفہ سوچ کے عادی ہیں، بس جس بات کی پچ لے کر اڑے ہیں، اس پر جمے رہناہے اورا سکی تائید میں الٹی سیدھی دلیل لانی ہے،فریق مخالف کے دلائل پر سنجیدگی سے اور ٹھنڈے دل ودماغ سے غوروفکر سے شیخ موصوف عاری ہیں۔
جوائنٹ فیملی ہو یانیوکلیر فیملی، دونوں کے اپنے نقصانات اورفائدے ہیں، نہ خیر مطلق یہ ہے اورنہ شر مطلق وہ ہے، اوراس میں سب سے اہم ذمہ داری ہوتی ہے کہ گھر کے سربراہ اورذمہ دار کی،اگراس کا گھر کے افراد پر کنٹرول ہو تو کوئی خرابی پیدانہیں ہوتی، خرابی پیداتبھی ہوتی ہے جب گھر کے سربراہ کا افراد پر کنٹرول نہ ہو۔
قرآن کا یہ اصول ہرقسم کے گناہ کے سلسلے میں ہے خواہ قتل کا معاملہ ہو یا زنا کا اور زنا سسر وبہو کے درمیان ہو یا ان کے علاوہ کے درمیان ، یہی اصول دنیاوی علالتوں اور سماجی معاملوں میں بھی برتے جاتے ہیں کہ جس کی غلطی اسی کو سزا ۔ ایسا نہیں ہے کہ قاتل ابن زیاد ہو اور مجرم یزید ٹھہرے ۔
شیخ موصوف سے سوال یہ ہے کہ اگرمطلقا ایساہی ہے تو پھر ان کی نگاہوں میں توقابیل بہت بے چارہ ہے کہ حدیث کی ہر رو سے ہرقتل پر چاہے قیامت تک جو بھی ہو، اس کے کھاتہ میں گناہ لکھاجارہاہے،اس بے چارہ کی بے چارگی پر بھی شیخ مقبول سلفی کچھ حمایت میں لکھیں، بے چارہ جہنم سے بھلے آزاد نہ ہو لیکن دنیا کچھ توجان لے گی کہ قابیل پر بہت ظلم ہورہاہے۔استغفراللہ ،شیخ موصوف کچھ سوچ سمجھ کربھی تولکھتے۔
چونکہ شیخ موصوف کو فقہ حنفی کے ساتھ انتہائی کد اورضد ہے اوراسی کا نتیجہ ہے کہ شاید فقہ سے بھی شیخ موصوف کو کوئی خاص مس نہیں ہے، ورنہ کتب فقہ میں ایک انتہائی اہم بحث ’’سد ذریعہ‘‘کی بھی ہوتی ہے کہ کوئی فعل خود اپنے آپ میں جائز ہوتاہے لیکن فتنہ کی بنیاد پر اس سے منع کردیاجاتاہے،اوراس کی ڈھیڑوں مثالیں ہیں، سب سے بڑی مثال خود حضرت عائشہ کا عورتوں کو نماز کیلئے مسجد جانے سے منع کرنے کا ہے۔
آخر میں موصوف نے ابن زیاد اور یزید کا تقابل پیش کیاہے،میرے خیال میں ابن زیاد کا بھی قصور نہیں تھااس نے مملکت کو بغاوت سے محفوظ کرنے کی خاطر جو مناسب سمجھاکیا، بالفاظ دیگراس نے اجتہاد کیا اوراس معاملہ میں اس کا اجتہاد یہی ہواجو اس نے کرکے دنیا کو بتایا(یہ غیرمقلدوں کے نقطہ نظر سے لکھاگیاہے)ویسے یزید سے دور حاضر کے غیرمقلدوں کی ہمدردی واقعتاقابل تعریف ہے،اتنی ہمدردی ان کودیگرمسالک کے علماء اورامت کے ساتھ بھی ہوجائے،اس کیلئے ہم دعا گو ہیں(ابتسامہ)
یہی مسلک حق ہے اور اسی کے قائل مالکیہ وشافعیہ ہیں لیکن احناف اور شوافع کے یہاں زنا سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔
شوافع کا انہوں نے دوقول نقل کردیاہے ایک میں وہ مالکیہ کے ساتھ ہیں اور دوسرے میں احناف کے ساتھ، شاید احناف کے ساتھ اس مسلک میں حنابلہ ہیں۔
اور نکاح کو زنا پر کیسے قیاس کیا جائے گا؟ اگر کوئی رشتہ نکاح کی وجہ سے حرام ہورہاہے تو زنا کرنے سے کوئی رشتہ کیسے حرام ہوجائے گا؟ دونوں دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ نکاح سے بعض رشتے کی حرمت کا ثبوت موجود ہے جبکہ زنا سے رشتے کی حرمت کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
یہ بعینہ وہی سوچ ہے جس پر مزید آگے چل کر امام شافعی پہنچے تھے،اورجو ان کے تفردات اورقبیح مسائل میں شمار ہوتاہے کہ ایک شیخ نے زناکیا،اس سے اس کی بیٹی ہوئ، وہ بیٹی جوان ہوگئی تواب اس کیلئے اس لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہے،کیونکہ دلیل وہی ہے جو شیخ موصوف نے یہاں پر پیش کیا ہے کہ زنا سے رشتے کی حرمت کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ شیخ موصوف واضح فرمائیں کہ کیا وہ بھی یہی سوچتے ہیں کہ زنا سے پیداشدہ لڑکی سے نکاح جائز ہے؟
اس بات پر مجھے جس قدر حیرت ہے اس سے کہیں زیادہ اس بات پر حیرانی ہے کہ جب احناف کو اپنے فتوی کا اتنا ہی پاس ولحاظ ہے تو پھر جو چیز شرعا ثابت ہے اور جسے احناف بھی مانتے ہیں کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے گا تو پھر اس معاملے میں خاموشی کیوں ،اسے کیوں نافذ نہیں کرتے؟ ۔ خودساختہ فتوی پر اس قدر سختی اور ثابت شدہ مسئلہ میں اس قدر غفلت ؟ شتان بین یزیدین
یہ پیراگراف پورے مضمون کا بیت الغزل ہے، یعنی سب سے زوردار شعر یا پیراگراف، ایسالگتاہے کہ احناف تو مانتے ہیں کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیاجائے لیکن اہل حدیث نہیں مانتے ،اسی لئے انہوں نے اس کی پوری ذمہ داری احناف پر ڈال دی ہے،اولاتو شیخ موصوف یہ بتائیں کہ کیا وہ شادی شدہ زانی کیلئے رجم کی سزا کے قائل ہیں اوراگرہاں توانہوں نے خوداس کیلئے کتنی کوشش کی ہے؟ان کی جماعت نے کیاکوشش کی ہے؟چونکہ یہ تو صریح نص سے ثابت ہے اور قرآن وسنت کا نعرہ لگانے والے اس مسئلہ پر خاموش کیوں ہیں؟کیایہ نعرہ صرف زبانی ہے اورلوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کیلئے حقیقت سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں جیسے مختار بن عبید ثقفی کا اہل بیت سے محبت کرنا صرف لوگوں کو مائل کرنے کیلئے تھا، حقیقت میں وہ ان کا ہمدرد نہیں تھا
پہلے صاحب علم وبصیرت سے مسئلہ کو دلائل کی روشنی میں جانیں پھر عمل کریں ۔
خواہ مخواہ اتنی زحمت فرمائی ،اگر لکھ دیتے کہ کسی سے نہ پوچھو صرف ان سے پوچھوجن کے نام کے آگے سلفی ،اثری،محمدی وغیرذلک من الالقاب لگاہواہو، یاجو ہماری جماعت کے علماہوں یا جو کم سے کم ہمارے درسگاہوں سے فارغ ہو۔اس سے آپ کوبھی آسانی ہوتی اور قاری کا بھی دماغ روشن ہوتاکہ کس سے پوچھناہے اورکس سے نہیں پوچھناہے ،اب وہ کہاں صاحب علم وبصیرت ڈھونڈتاپھرے گا، بہت مشکل سے اگربے چارے نے ڈھونڈابھی توآپ کہہ دیں گے کہ وہ تو مالکی ہے، حنفی ہے قابل اعتبار نہیں ہے،وہ شرع مخالف تعلیمات کا قائل ہے، بے چارے کی ساری محنت ضائع ہوجائے گی،صاف سیدھاکہہ دیاکریں کہ صرف ہم سے پوچھو،ہمارے جماعت والوں سے پوچھو ،کسی دوسرے سے نہ پوچھو۔
آپ دین پر اس لئے عمل کرتے ہیں کہ اللہ آپ سے راضی ہو اور اس کے بدلےآخرت میں اس کی توفیق سے جنت ملے، نہ کہ اس لئے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یا دنیا کا کوئی عالم و مفتی آپ سے خوش ہو۔
غیرمقلدوں کا کوئی مضمون ہو اوراس مین امام ابوحنیفہ کا ذکر نہ آئے، ایسابمشکل ہی ہوتاہے، شاعرمشرق نے شاعروں کے بارے میں کہاتھا
آہ بے چاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار
لیکن غیرمقلدوں کے اعصاب پر امام ابوحنیفہ سوار رہتے ہیں، کوئی بحث ہو ،کوئی موقع ہو، امام ابوحنیفہ کے ذکر خیر کے بغیر نہ وہ بحث مکمل ہوتی ہے اور نہ ان کی مجلس رنگین ہوتی ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
ویسے میں اس قسم کی ہفوات کا جواب دینے سے گریز کرتا ہوں لیکن نام نہاد کی رٹ لگاکر منہ کی کھانے والا غالی مقلد جب کسی سلفی عالم سے حساب وکتاب کی بات کرے تو پھرکچھ تو حساب کرنا ہی پڑے گا۔

مضمون نگار لگ رہاہے کہ خود انتشار ذہنی کے شکار ہیں
اس مضمون پر ہفوات بکنے والا ہی انشار کا شکار ہوگا اور ایسا ہی ہے کہ کوئی رحمانی نام کا مجہول الحال نام نہاد مقلد اس فورم کے کتاب وسنت سے مزین اور مبنی برحق مضامین پر جابجا اپنے ذہنی انشار کا اظہار کیا ہے ۔ تقلید ہے ہی انتشار کا نام ، بھلا چار امام کی تقلید انتشار نہیں تو اتحاد ہے ؟ دراصل جب سے مقلدوں کا وجود ہے امت میں تب سے انتشار ہی انتشار ہے ۔ سلفیت اتحاد کا نام ہے اور جب سے اہل الحدیث ہیں تب سے اتحاد کی تعلیم دے رہے ہیں ۔ حرم کے چار فقہی مصلوں کو کتاب وسنت کے حامل شاہ عبدالعزیز نے ختم کرکے امت کے لئے اتحاد کا نمونہ پیش کیا اور دنیا سے اسی طرح تقلید کے چاروں مصلے ختم ہوجائیں تو امت میں اتحاد کی فضا ہموار ہوسکتی ہے۔

فقہ حنفی کی شرع مخالف تعلیمات نے ملت اسلامیہ اور اس کے افراد کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ امت کا اختلاف وانتشار ، آپسی تنازع، ایک دوسرے کی تکفیروتذلیل اور مسلمانوں کے درمیان فساد اسی نقصان کاپیش خیمہ ہے ۔ آج بھی مسلمان ایک ہوسکتے ہیں ، ہماری بکھری ہوئی طاقت یکجا ہوسکتی ہے ، عظمت رفتہ پھر سے بحال ہوسکتی ہے اور چہار دانگ عالم میں اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا ہوسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ امت کو خالص کتاب وسنت کی تعلیم دی جائے، علماء کے اقوال اور ائمہ کے اجتہادات کو نصوص شرعیہ پر ترجیح نہ دی جائے اور عقائدواعمال صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے فرامین سے لئے جائیں ۔
اگر یہی ایک پیراگراف سمجھ لیتے تو ہفوات درہفوات کی شاید ضرورت نہیں پڑتی مگر جہاں دل ودماغ پہ تقلیدی گردوغبار ہو وہاں حق بات کا گزر محال ہے ۔ تقلید اندھاپن ہے حق دکھائی نہیں دیتا، تقلید نری جہالت ہے دلیل و برہان سے کوئی واسطہ نہیں ۔
جب غزل کا مطلع اتنا زور دار ہوگا تو بقیہ غزل میں کیسی آتش فشانی اور گھن گرج ہوگی ، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے، غیرمقلدین سے جب کہاجاتاہے کہ وہ فقہ حنفی سے نفرت رکھتے ہیں تواس وقت وہ تقیہ کرتے ہیں اور جب تقیہ کی ضرورت نہیں رہتی تو پھر تبرا پر اترآتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ بیشتر سلفیوں کے دل ودماغ فقہ حنفی اورامام ابوحنیفہ کی نفرت سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن اس نفرت کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں ڈرلگتاہے،اوریہ نفرت اس لئے ہے کہ شروع سے ان کے دل ودماغ میں یہی بات بٹھائی جارہی ہے تو جوطالب علم دس بارہ سال فقہ حنفی کے خلاف باتیں سن کر اورپڑھ کر بڑاہوگا، اس سے یہ توقع تونہیں رکھنی چاہئے کہ وہ کسی غیرجانبدار نقطہ نظرکااظہار کرے گا، ویسے بھی ببول کے درخت پر گلاب کب اگاہے؟
یہ نام نہاد شیخ تو خدا کے یہاں اپنی اس بیان بازی کیلئے جواب دہ ہوں گے لیکن دنیا میں بھی کچھ حساب کتاب توہوناچاہئے،لہذا اسی مد میں اس تحریر کو رکھاجائے۔
فقہ حنفی پر چاہے جتنی بھی خاک اڑائی جائے، وہ آخر کار خاک اڑانے والے منہ پر آکر گرتی ہے،کیونکہ چاند پر تھوکنے سے چاند کا کب کچھ بگڑاہے،ہاں تھوکنے والے پر تھوک ضرور لوٹتاہے،فقہ حنفی یادوسرے لفظوں میں ہم کہیں کہ جب تک امت تقلید واجتہاد کے معاملہ میں نظم وضبط پر قائم تھی، اس وقت تک امت میں فکری انتشار نہیں تھا، نہ کہیں کوئی قادیانی گروہ تھا، نہ کوئی جدیدیت کا علمبردار اورنہ کوئی تجدد پسند،جب سے ایک فرقہ انگلش عہد مین اجتہاد کا نعرہ لے کر کھڑا ہوا، ہر گزرے دن کے ساتھ ایک نیا فرقہ وجود میں آتاہے اورنیا اجتہاد کرتاہے۔جتناعلمی وفکری انتشار انگریزی حکومت کے قیام اورغیرمقلدین کے وجود کے بعد ہواہے اتناتوشاید چودہ صدیوں میں بھی نہیں ہواہوگا۔
حنفیوں نے ہی اسلام کو سربلند کیاہے اوردنیا کے کونے کونے میں پہنچایاہے اوراسلام کی سربلندی عملی طورپر قائم کی ہے، چاہے وہ بغداد کی خلافت عباسی ہو،سلجوقی حکمراں ہوں، خلاف عثمانی ہو یاپھر ہندوستان میں مختلف خاندانوں کی حکومتیں ہوں،فقہ حنفی نے کیاکام اورکارنامے انجام دیئے، ان کی تفصیل تو سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے مصداق ہے ،شیخ صاحب یہ بتائیں کہ ان کی جماعت نے کون سے جھنڈے گاڑے ہیں، سوائے اختلافی مسائل اچھالنے کےاور افراد امت کو ایک دوسرے سے دست بگریباں کرنے کے۔
جہالت اور غلط بیانی سے پر اس اقتباس پہ احناف کی حیلہ سازی، زنا کے چور دروازے، دجل وفریب کے ہتھکنڈے اور عیوب ونقائص کے انبار بیان کردئے جائیں مگر اسلاف کی روش ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی ۔ تاہم ایک ربط دیتا ہوں اسے ملاحظہ فرمالیں ۔
ربط
کچھ نہ کچھ ملاوٹ ہوہی جائے گی۔
دین میں ملاوٹ کانام بے دینی ہے اور تقلید میں واقعی ملاوٹ ہے ، اس ملاوٹ کو فقہ حنفی سے نکال دیں اور صرف کتاب وسنت پر مبنی احکام لے لیں یہی میرا مقصود ہے۔
ویسے حیرت ہے کہ ان بزرگ نے کتنی آسانی سے صدیوں کے علمائے کرام، فقہاومحدثین کی محنت پر یہ کہہ کرپانی پھیردیاکہ انہوں نے امت کے سامنے خالص کتاب وسنت کی تعلیم پیش نہیں کی، یہ شرف اللہ نے صرف انگریزی عہد حکومت میں قائم ایک مخصوص گروہ کیلئے خاص کررکھاتھاکہ وہ وجود میں آئے اور لوگوں کو ’’خالص کتاب وسنت ‘‘کی تعلیم دے۔
اگر سمجھ ہوتی تو تقلید نہیں کرتے ناسمجھی کا نام ہی تقلید ہے ۔ میرے مضمون کے کسی جملے سے صدیوں کے علماء ومحدثین کی محنتوں پر پانی نہیں پھرتا بلکہ اقتباس مذکور سے تو پتہ چلتا ہے قرون اولی کے علماء، فقہاء اور محدثین کے کارناموں سے اسلام کا بول بالا تھا جو اب تقلیدی کی نقصانات کی وجہ سے کم ہوگیا ہے ۔ مسلمانوں کی پہلی سی شان وشوکت کے لئے پھر سے کتاب وسنت کی طرف لوٹنا ہوگا۔
باربارانگریز کے ذکر پہ کہنا چاہوں گا کہ ذرا حنفیت کی پیدائش کی تاریخ ، جائے پیدائش اور پیداکرنے والے افراد پہ نظر کرم فرمالیں۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی
اس کو شرع مخالف مسئلہ کہنے سے پہلے ہمارے یہ نام نہاد شیخ اگرایک مرتبہ اس پر نظرڈال لیتے کہ یہ کن اکابر تابعین کا بھی قول ہے تو شاید اس کو شرع مخالف کہنے سے کچھ شرماجاتے،ان حضرات کے اسماء گرامی مضمون کے آخر میں لکھوں گا۔
نام نہاد شیخ کا بدل یہاں نام نہاد مقلد ہی ہوگااسی نام نہاد سے مخاطب ہوں کہ مجتہد کا اجتہاد اگر غلط ہوجائے تو بھی ایک اجر ہے لیکن اگر کسی کو مجتہد کا اجتہاد غلط ہونے کا علم ہو تو اس پر عمل کرنا یا اس کی دعوت دینا باعث گناہ ہے ۔ آپ کے امام اعظم کا فرمان ہے کہ ہے جوصحیح حدیث ہو وہی میرا مذہب ہے یعنی ان کا جو اجتہاد قرآن وحدیث کے خلاف ہو اسےچھوڑ دنیا چاہئے اور صحیح حدیث پر عمل کرنا چاہئے ۔ اسی بات کی تو ہم دعوت دیتے ہیں ۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ فقہ حنفی کی تمامتر باتیں امام ابوحنیفہ سے ثابت ہیں؟ اگر نہیں تو مجہول السند مسائل کی تعلیم وتقلید کیسے ؟
کیا فقہ حنفی کی تمام باتیں قرآن وحدیث کے عین مطابق ہیں ؟ عین مطابق کیسے ہوگا؟ امام وشاگرد میں بہت اختلاف ہے ، علمائے احناف میں بھی اختلاف ہے حتی کہ کئی فرقے ہیں تو پھر شرع مخالف فقہ احناف کی تعلیم، عمل، دعوت، تقلیدکیسے ؟ کیوں نہ ایسی کتاب پر عمل کیا جائے جس میں خطا نہیں وہ ہے قرآن وحدیث اور ہم اہل حدیث انہیں پر عمل کرتے ہیں اور دوسروں کی انہیں کی دعوت دیتے ہیں ۔
پتہ نہیں اس پر ہمارے سلفی مہربانوں کی نگاہ پڑی یانہیں پڑی اورپتہ نہیں اب تک انہوں نے مشترکہ خاندانی نظام سے توبہ کیایانہیں کیا؟لیکن اس سے پتہ چلتاہے کہ شیخ موصوف ایک طرفہ سوچ کے عادی ہیں، بس جس بات کی پچ لے کر اڑے ہیں، اس پر جمے رہناہے اورا سکی تائید میں الٹی سیدھی دلیل لانی ہے،فریق مخالف کے دلائل پر سنجیدگی سے اور ٹھنڈے دل ودماغ سے غوروفکر سے شیخ موصوف عاری ہیں۔
جوائنٹ فیملی ہو یانیوکلیر فیملی، دونوں کے اپنے نقصانات اورفائدے ہیں، نہ خیر مطلق یہ ہے اورنہ شر مطلق وہ ہے، اوراس میں سب سے اہم ذمہ داری ہوتی ہے کہ گھر کے سربراہ اورذمہ دار کی،اگراس کا گھر کے افراد پر کنٹرول ہو تو کوئی خرابی پیدانہیں ہوتی، خرابی پیداتبھی ہوتی ہے جب گھر کے سربراہ کا افراد پر کنٹرول نہ ہو۔
اس پہ میرا مضمون ملاحظہ فرمالیں ۔
شیخ موصوف سے سوال یہ ہے کہ اگرمطلقا ایساہی ہے تو پھر ان کی نگاہوں میں توقابیل بہت بے چارہ ہے کہ حدیث کی ہر رو سے ہرقتل پر چاہے قیامت تک جو بھی ہو، اس کے کھاتہ میں گناہ لکھاجارہاہے،اس بے چارہ کی بے چارگی پر بھی شیخ مقبول سلفی کچھ حمایت میں لکھیں، بے چارہ جہنم سے بھلے آزاد نہ ہو لیکن دنیا کچھ توجان لے گی کہ قابیل پر بہت ظلم ہورہاہے۔استغفراللہ ،شیخ موصوف کچھ سوچ سمجھ کربھی تولکھتے۔
اس کے لئے دین میں جو برا رستہ ایجاد کرے ۔۔۔ الحدیث کا مطالعہ فرمالیں ۔
چونکہ شیخ موصوف کو فقہ حنفی کے ساتھ انتہائی کد اورضد ہے اوراسی کا نتیجہ ہے کہ شاید فقہ سے بھی شیخ موصوف کو کوئی خاص مس نہیں ہے، ورنہ کتب فقہ میں ایک انتہائی اہم بحث ’’سد ذریعہ‘‘کی بھی ہوتی ہے کہ کوئی فعل خود اپنے آپ میں جائز ہوتاہے لیکن فتنہ کی بنیاد پر اس سے منع کردیاجاتاہے،اوراس کی ڈھیڑوں مثالیں ہیں، سب سے بڑی مثال خود حضرت عائشہ کا عورتوں کو نماز کیلئے مسجد جانے سے منع کرنے کا ہے۔
عورتوں کا نماز کے لئے مسجد جانا آج بھی جائز ہے اور الحمد للہ ہماری وجہ سے احناف کی عورتوں کو حرمین کی مساجد میں اس سنت پر عمل کرنے کا موقع نصیب ہوتا ہے ۔ فاعتبروا یااولی الالباب
شوافع کا انہوں نے دوقول نقل کردیاہے ایک میں وہ مالکیہ کے ساتھ ہیں اور دوسرے میں احناف کے ساتھ، شاید احناف کے ساتھ اس مسلک میں حنابلہ ہیں۔
تبصرہ نگار چونکہ مقلد ہیں جو دلیل وبرہان سے عاری ہوتے ہیں اس لئے تبصرہ نگاری میں صرف جملے بازی سے ہی کام لئے ہیں جبکہ حق یہ تھا کہ موضوع اگر قرآن وسنت کے خلاف ہے تو قرآن وحدیث سے سسر کا بہو سے زنا کرنے پر اپنے شوہر کے لئے حرام ہونا ثابت کیا جاتا ۔
آخر میں موصوف نے ابن زیاد اور یزید کا تقابل پیش کیاہے،میرے خیال میں ابن زیاد کا بھی قصور نہیں تھااس نے مملکت کو بغاوت سے محفوظ کرنے کی خاطر جو مناسب سمجھاکیا، بالفاظ دیگراس نے اجتہاد کیا اوراس معاملہ میں اس کا اجتہاد یہی ہواجو اس نے کرکے دنیا کو بتایا(یہ غیرمقلدوں کے نقطہ نظر سے لکھاگیاہے)ویسے یزید سے دور حاضر کے غیرمقلدوں کی ہمدردی واقعتاقابل تعریف ہے،اتنی ہمدردی ان کودیگرمسالک کے علماء اورامت کے ساتھ بھی ہوجائے،اس کیلئے ہم دعا گو ہیں(ابتسامہ)
یزید پہ شیخ کفایت اللہ سنابلی صاحب کی کتاب کا مطالعہ صحیح معلومات حاصل کرنے کی نیت کرکے فرمالیں اللہ سے میں دعا کردیتا ہوں کہ وہ حق کی سمجھ عطا فرمائے۔

یہ پیراگراف پورے مضمون کا بیت الغزل ہے، یعنی سب سے زوردار شعر یا پیراگراف، ایسالگتاہے کہ احناف تو مانتے ہیں کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیاجائے لیکن اہل حدیث نہیں مانتے ،اسی لئے انہوں نے اس کی پوری ذمہ داری احناف پر ڈال دی ہے،اولاتو شیخ موصوف یہ بتائیں کہ کیا وہ شادی شدہ زانی کیلئے رجم کی سزا کے قائل ہیں اوراگرہاں توانہوں نے خوداس کیلئے کتنی کوشش کی ہے؟ان کی جماعت نے کیاکوشش کی ہے؟چونکہ یہ تو صریح نص سے ثابت ہے اور قرآن وسنت کا نعرہ لگانے والے اس مسئلہ پر خاموش کیوں ہیں؟کیایہ نعرہ صرف زبانی ہے اورلوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کیلئے حقیقت سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں جیسے مختار بن عبید ثقفی کا اہل بیت سے محبت کرنا صرف لوگوں کو مائل کرنے کیلئے تھا، حقیقت میں وہ ان کا ہمدرد نہیں تھا
اپنی ذمہ داری کو ہمارے اوپر تھوپنے جیسا ہے جب سسر نے بہو کے ساتھ زنا کیا تو جبرا بہو کو شوہر سے الگ کیا جاتا ہے شوہرنامدار اس معاملہ میں جس قدر گہار لگالے ، چیخے چلائے، بچوں کو واسطہ دے، اپناجرم پوچھے اس کی نہیں سنی جاتی تو پھر اسی جبر کے ساتھ زنا کی سزا کیوں نہیں نافذ کی جاتی ؟ نفاذ کا سوال ہم سے کیوں ؟ اپنوں سے کیوں نہیں ؟
خواہ مخواہ اتنی زحمت فرمائی ،اگر لکھ دیتے کہ کسی سے نہ پوچھو صرف ان سے پوچھوجن کے نام کے آگے سلفی ،اثری،محمدی وغیرذلک من الالقاب لگاہواہو، یاجو ہماری جماعت کے علماہوں یا جو کم سے کم ہمارے درسگاہوں سے فارغ ہو۔اس سے آپ کوبھی آسانی ہوتی اور قاری کا بھی دماغ روشن ہوتاکہ کس سے پوچھناہے اورکس سے نہیں پوچھناہے ،اب وہ کہاں صاحب علم وبصیرت ڈھونڈتاپھرے گا، بہت مشکل سے اگربے چارے نے ڈھونڈابھی توآپ کہہ دیں گے کہ وہ تو مالکی ہے، حنفی ہے قابل اعتبار نہیں ہے،وہ شرع مخالف تعلیمات کا قائل ہے، بے چارے کی ساری محنت ضائع ہوجائے گی،صاف سیدھاکہہ دیاکریں کہ صرف ہم سے پوچھو،ہمارے جماعت والوں سے پوچھو ،کسی دوسرے سے نہ پوچھو۔
یہ ہماری تعلیم نہیں ہے مقلدوں کو تقلید کے حصار میں بندھے رکھنے کے لئے یہ تعلیم احناف اپنے ماننے والوں کو دیتے ہیں تاکہ کسی سلفی عالم سے فتوی پوچھ کر قرآن وحدیث کا قائل نہ ہوجائے ۔ ہم تو قرآن و حدیث کی تعلیم دینے والے ہیں فاسئلوا اھل الذکر پر عمل کرتے ہیں ۔
غیرمقلدوں کا کوئی مضمون ہو اوراس مین امام ابوحنیفہ کا ذکر نہ آئے، ایسابمشکل ہی ہوتاہے، شاعرمشرق نے شاعروں کے بارے میں کہاتھا
آہ بے چاروں کے اعصاب پر عورت ہے سوار
لیکن غیرمقلدوں کے اعصاب پر امام ابوحنیفہ سوار رہتے ہیں، کوئی بحث ہو ،کوئی موقع ہو، امام ابوحنیفہ کے ذکر خیر کے بغیر نہ وہ بحث مکمل ہوتی ہے اور نہ ان کی مجلس رنگین ہوتی ہے۔
امام ابوحنیفہ کی تقلید کرنے والے کے لیل ونہار ان کے ذکر میں گزرتے ہیں کیونکہ لیل ونہار گزارنے میں صرف اور صرف امام ابوحنیفہ کی تقلید درکار ہے ۔ صورت حال ایسی ہے تو تمہارے اعصاب پرامام ابوحنیفہ نہیں سوار ہے تو کیا عورت سوار ہے جیساکہ شعر میں مذکور ہے ؟
سچائی تو آنجناب کے تقلیدی زبان سے نکل گئی جبکہ اس کی امید نہیں تھی ۔
کوئی بحث ہو ،کوئی موقع ہو، امام ابوحنیفہ کے ذکر خیر کے بغیر نہ وہ بحث مکمل ہوتی ہے
واقعی اگر ہم امام ابوحنیفہ کا ذکر کرتے ہیں تو ذکر خیرکرتے ہیں ورنہ علماء نے امام ابوحنیفہ کو کیا کیا نہ کہاان سب باتوں کے ذکر سے ہم گریز کرتے ہیں ، زنا کے اسی مسئلے سے وابستہ کئی زنا پہ فتاوی ملے مگر ہم اصلاح چاہتے ہیں، انتشار سے امت کو بچانا چاہتے ہیں اور عوام کی آنکھیں کھولنا چاہتے ہیں اس لئے قصدا ایسے فتاوے سے گزیر کرگئے اور غیر مقلد کی اصطلاح پہ احناف کی مسلم دشمنی، فریب کاری، جعلی اصطلاح سازی اور اپنے عیوب کی پردہ پوشی پہ حیلہ سازی پہ تحریر لکھتا ہوں۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
دراصل جب سے مقلدوں کا وجود ہے امت میں تب سے انتشار ہی انتشار ہے ۔ سلفیت اتحاد کا نام ہے اور جب سے اہل الحدیث ہیں تب سے اتحاد کی تعلیم دے رہے ہیں ۔ حرم کے چار فقہی مصلوں کو کتاب وسنت کے حامل شاہ عبدالعزیز نے ختم کرکے امت کے لئے اتحاد کا نمونہ پیش کیا اور دنیا سے اسی طرح تقلید کے چاروں مصلے ختم ہوجائیں تو امت میں اتحاد کی فضا ہموار ہوسکتی ہے۔
اب اسی کتاب وسنت کے حامل کے بیٹے سلمان اوران کے پوتے محمد بن سلمان جوکچھ کررہے ہیں، وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں، اور آگے آگے جوکچھ ہوگا، دیکھتے رہیں گے، وظیفہ خواروں کو کیا لگتاہے،بس شاہ کی لمبی عمر کیلئے دعاکرتے رہیں، چاہے دنیا میں کچھ بھی ہورہاہو
غالب وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہوں میں​
دین میں ملاوٹ کانام بے دینی ہے اور تقلید میں واقعی ملاوٹ ہے ،
جھنجھلاہٹ میں شیخ سیاق وسباق بھول گئے،خالص عقل کا سوائے انبیاکے کہیں وجود نہیں ہے، حالات ،ماحول ،اساتذہ ،تربیت کنندگان سب کا اثر ہوتاہے،اورکسی بھی انسان کیلئے ان اثرات سے بچنا ممکن نہیں ہے، ہاں انسان ایک حد تک کوشش کرسکتاہے،انجمن ترقی اردو ہندسے بہت پہلے ایک یوروپی فلسفی مانوئل کانٹ کی کتاب اردو میں ترجمہ ہوکر شائع ہوئی تھی، کہیں سے ملے توپڑھ لیں ،کافی افاقہ ہوگا۔
واقعی اگر ہم امام ابوحنیفہ کا ذکر کرتے ہیں تو ذکر خیرکرتے ہیں ورنہ علماء نے امام ابوحنیفہ کو کیا کیا نہ کہاان سب باتوں کے ذکر سے ہم گریز کرتے ہیں ، زنا کے اسی مسئلے سے وابستہ کئی زنا پہ فتاوی ملے مگر ہم اصلاح چاہتے ہیں، انتشار سے امت کو بچانا چاہتے ہیں اور عوام کی آنکھیں کھولنا چاہتے ہیں اس لئے قصدا ایسے فتاوے سے گزیر کرگئے اور غیر مقلد کی اصطلاح پہ احناف کی مسلم دشمنی، فریب کاری، جعلی اصطلاح سازی اور اپنے عیوب کی پردہ پوشی پہ حیلہ سازی پہ تحریر لکھتا ہوں۔
سوال یہ ہے کہ پھر امام ابوحنیفہ پر طعن وتشنیع کرنے والے لوگ کون ہیں، یہ انٹرنیٹ پر ،فورمز پر ،اورکتابوں میں امام ابوحنیفہ پر تبرا پڑھنے والے کون ہیں، وہ بھی توخود کو سلفی اوراثری ہی کہتے ہیں، اب ایساتونہیں کرسکتے کہ آپ کے سلفی ہونے کو ہم قبول کرلیں اوران کے سلفیت کے دعوے کو رد کردیں ، (اگرچہ دونوں کو محض دعویٰ کی حد تک ہی سلفی مانتے ہیں)کیونکہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ اسلاف کی اورکوئی علامت توپائی نہیں جاتی۔
گزشتہ سے پیوستہ

مقبول سلفی صاحب نے حرمت مصاہرت کے تعلق سے ایک مضمون لکھا اور مضمون کی ابتداہی میں گلفشانی شروع کی،اس مضمون کے سلسلے میں جب ان پر اعتراض کیاگیاتومزید گلفشانی بلکہ آتش فشانی ہوئی،یہ آتش فشانی حیرت اورتعجب کی بات نہیں، بلکہ یہ پٹروڈالر کی خاصیت اوراثر ہے،یہ پٹروڈالر جہاں کہیں پہنچاہے،وہاں اس نے آگ لگائی ہے،پوری دنیا میں اس کا مشاہدہ کیاجاسکتاہے ،آگ چاہے ظاہری لگی ہویاباطنی حسی ہو یامعنوی ؛لیکن اس نے آگ ہرجگہ لگائی ہے۔
انہوں نے مضمون کو شروع ہی اس طرح کیاہے جیسے احناف کا اس بارے میں جو مسلک ہے ،وہ نص قطعی کے مخالف ہے اوریہی وجہ ہے کہ اس کو شرع مخالف تعلیمات کے ابتدائیہ سے ہمارے نام نہاد شیخ نے شروع کیاہے،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ اجتہادی مسئلہ ہے،اس مسئلے میں سرے سے کوئی نص ہی موجود نہیں ہے،ایک اجتہادی مسئلہ کے کسی جانب کو شرع مخالف مسئلہ سے تعبیر کرنا علمی کم مائیگی یاہوش پر جوش کا غلبہ ہے۔امیر صنعانی جو غیرمقلد ہیں اورکسی مذہب ومسلک کے مقلد نہیں اور فیض القدیر کے مصنف علامہ مناوی جو شافعی ہیں، وہ اس بارے میں صراحت سے اعتراف کرتے ہیں کہ اس مسئلہ میں نہ ہمارے پاس نص ہے اورنہ فریق مخالف کے پاس نص ہے۔

"لا يحرم الحرام الحلال. (هـ) عن ابن عمر بن الخطاب (هق) عن عائشة".
لا يحرم الحرام الحلال) فلو زنا بامرأة لم تحرم عليه أمها وبنتها وعليه جماهير الشافعية، وقيل: تحرم وإليه ذهبت الحنفية، قال الشارح: وهي مسألة عظيمة في الخلاف ليس فيها خبر صحيح لا لنا ولا لهم.
)التنوير شرح الجامع الصغير (11/ 178(
(لا يحرم الحرام الحلال) فلو زنى بامرأة لم تحرم عليه أمها وبنتها وإلى هذا ذهب الشافعي كالجمهور فقالوا الزنا لا يثبت حرمة المصاهرة وأثبتها به الحنفية قال بعضهم: وهي مسألة عظيمة في الخلاف ليس فيها خبر صحيح من جانبنا ولا من جانبهم
فيض القدير (6/ 447)

اب جب کہ یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ مسئلہ اجتہادی مسئلہ ہے اوراس بارے میں کسی فریق کے پاس کوئی نص نہیں ہے تواس کو شرع مخالف سے تعبیر کرنا کس حد تک درست ہوسکتاہے،اس کا فیصلہ قارئین خود کریں اورسمجھیں کہ شیخ موصوف علمی مسائل میں غیرجانبدارانہ بلکہ جانبدارنہ نقطہ نظررکھتے ہیں اگرچہ زبانی جمع خرچ ان کا یہی ہوتاہے کہ وہ غیرجانبدارانہ نقطہ نظررکھتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہےکہ اس مسئلہ میں صحابہ کرامؓ ،کبار تابعین اور ائمہ وفقہاء دونوں جانب ہیں، ایسے میں کسی ایک پہلو کو شرع مخالف سے تعبیر کرنا کس درجہ دیدہ دلیرہ اورجسارت بے جا بلکہ اہل علم کی توہین کی بات ہے،وہ محتاج وضاحت نہیں ہے،ذیل میں کچھ حوالے دیئے جارہے ہیں:
مَسْأَلَةٌ: قَالَ: (وَوَطْءُ الْحَرَامِ مُحَرِّمٌ كَمَا يُحَرِّمُ وَطْءُ الْحَلَالِ وَالشُّبْهَةِ) يَعْنِي أَنَّهُ يَثْبُتُ بِهِ تَحْرِيمُ الْمُصَاهَرَةِ، فَإِذَا زَنَى بِامْرَأَةٍ حَرُمَتْ عَلَى أَبِيهِ وَابْنِهِ، وَحَرُمَتْ عَلَيْهِ أُمُّهَا وَابْنَتُهَا، كَمَا لَوْ وَطِئَهَا بِشُبْهَةٍ أَوْ حَلَالًا وَلَوْ وَطِئَ أُمَّ امْرَأَتِهِ أَوْ بِنْتَهَا حَرُمَتْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ نَصَّ أَحْمَدُ عَلَى هَذَا، فِي رِوَايَةِ جَمَاعَةٍ وَرُوِيَ نَحْوُ ذَلِكَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَبِهِ قَالَ الْحَسَنُ وَعَطَاءٌ، وَطَاوُسٌ، وَمُجَاهِدٌ، وَالشَّعْبِيُّ وَالنَّخَعِيُّ، وَالثَّوْرِيُّ، وَإِسْحَاقُ وَأَصْحَابُ الرَّأْيِ،
وَرَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ الْوَطْءَ الْحَرَامَ لَا يُحَرِّمُ. وَبِهِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ وَيَحْيَى بْنُ يَعْمُرَ، وَعُرْوَةُ، وَالزُّهْرِيُّ، وَمَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَبُو ثَوْرٍ وَابْنُ الْمُنْذِرِ(المغني لابن قدامة (7/ 117)

وَاخْتَلَفُوا فِي الرَّجُلِ يَزْنِي بِالْمَرْأَةِ هَلْ يَحِلُّ لَهُ نِكَاحُ ابْنَتِهَا وَأُمِّهَا وَكَذَلِكَ لَوْ زَنَا بِالْمَرْأَةِ هَلْ يَنْكِحُهَا ابْنُهُ أَوْ يَنْكِحُهَا أَبُوهُ وهل الزنى فِي ذَلِكَ كُلِّهِ يُحَرِّمُ مَا يُحَرِّمُ النِّكَاحُ الصَّحِيحُ أَوِ النِّكَاحُ الْفَاسِدُ أَمْ لَا
فَقَالَ مالك في ((موطئه)) إن الزنى بِالْمَرْأَةِ لَا يُحَرِّمُ عَلَى مَنْ زَنَا بِهَا نِكَاحَ ابْنَتِهَا وَلَا نِكَاحَ أُمِّهَا وَمَنْ زَنَا بِأُمِّ امْرَأَتِهِ لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ بَلْ يقتل ولا يحرم الزنى شيئا بحرمة النكاح الحلال
وهو قول بن شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ وَرَبِيعَةَ وَإِلَيْهِ ذَهَبَ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَبُو ثَوْرٍ وَدَاوُدُ وَرُوِيَ ذَلِكَ عن بن عباس وعقال فِي ذَلِكَ لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ
وَقَالَهُ بن شِهَابٍ وَرَبِيعَةُ وَاخْتُلِفَ فِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ المسيب ومجاهد والحسن وذكر بن الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ خِلَافَ مَا فِي ((الْمُوَطَّأِ))
فَقَالَ مَنْ زَنَا بِأُمِّ امْرَأَتِهِ فَارَقَ امْرَأَتَهُ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي حُكْمِ مَنْ نَكَحَ أُمَّ امْرَأَتِهِ وَدَخَلَ بِهَاوَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ وَالثَّوْرِيِّ وَالْأَوْزَاعِيِّ كُلُّهُمْ يَقُولُونَ مَنْ زَنَا بِأُمِّ امْرَأَتِهِ حَرُمَتْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ
قَالَ سَحْنُونٌ أصحاب مالك كلهم يخالفون بن الْقَاسِمِ فِيهَا وَيَذْهَبُونَ إِلَى مَا فِي ((الْمُوَطَّأِ))
وَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي الرَّجُلِ يَزْنِي بِالْمَرْأَةِ إِنْ شَاءَ تَزَوَّجَ ابْنَتَهَا قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لَا نَأْخُذُ بِهِ وَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ عَطَاءٍ أَنَّهُ كَانَ يُفَسِّرُ قول بن عَبَّاسٍ لَا يُحَرِّمُ حَرَامٌ حَلَالًا أَنَّهُ الرَّجُلُ يَزْنِي بِالْمَرْأَةِ فَلَا يُحَرِّمُ عَلَيْهِ نِكَاحَهَا زِنَاهُ بِهَا وَقَالَ اللَّيْثُ إِنْ وَطِئَهَا وَهُوَ يَتَوَهَّمُ جَارِيَتَهُ لَمْ يُحَرِّمْهَا ذَلِكَ عَلَى ابْنِهِ
قَالَ الطَّحَاوِيُّ وَهَذَا خِلَافُ قَوْلِ الْجَمِيعِ إِلَّا شَيْئًا رُوِيَ عَنْ قَتَادَةَ وَرُوِيَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ فِي رَجُلٍ زَنَا بِأُمِّ امْرَأَتِهِ قَالَ قَدْ حَرُمَتْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ قَالَ أَبُو عُمَرَ قد خالفه بن عَبَّاسٍ فِي ذَلِكَ فَقَالَ لَا تَحْرُمُ عَلَيْهِ

(الاستذكار (5/ 463)
اس کے علاوہ مزید حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں، لیکن ان دوحوالوں سے ہی واضح ہے کہ دونوں جانب صحابہ کرام اور اکابر تابعین واجلہ فقہاء ہیں، بالخصوص اگرہم ائمہ اربعہ کی بات کریں توزناسے حرمت مصاہرت کے قائل امام ابوحنیفہ،امام احمد ،اورمدونہ کی روایت کے مطابق امام مالک بھی ہیں اورامام شافعی اکیلےرہ جاتے ہیں،توکیا ان حالات میں حرمت مصاہر ت کے قول کو خلاف شرع تعلیمات کہنا ان ائمہ کی کتنی بڑی توہین اورتنقیص ہے ،وہ کسی سے مخفی نہیں ، اس موقع پر مجھے امام شافعی کی وہ بات یاد آرہی ہے ،جس میں انہوں نے اکابر کے تعلق سے ادب اور ان کے مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی ہے۔
حدثنا أبو ثور، قال: سمعت الشافعي، يقول: قلت لبشر المريسي: ما تقول في رجل قتل وله أولياء صغار وكبار، هل للأكابر أن يقتلوا دون الأصاغر؟ فقال: لا، فقلت له: فقد قتل الحسن بن علي بن أبي طالب ابن ملجم، ولعلي أولاد صغار؟ فقال: أخطأ الحسن بن علي، فقلت: أما كان جواب أحسن من هذا اللفظ؟ قال: وهجرته من يومئذ.( تاريخ بغداد ت بشار (7/ 531)
امام شافعی اور بشرمریسی کا اس بارے میں مباحثہ ہوا کہ اگر مقتول کے کچھ بچے نابالغ ہوں اورکچھ بالغ ہوں توکیا بالغ لڑکوں کو حق ہے کہ وہ قاتل کو قتل کردیں ،بشرمریسی نے کہاکہ بالغ لڑکوں کو قاتل کو قتل کرنے کا حق نہیں ہے ،اس پر امام شافعی نے دلیل کے طورپر امام حسن بن علی بن ابی طالب کی نظیر پیش کی کہ انہوں نے ابن ملجم کو قتل کیا حالانکہ اس وقت حضرت علی کے کچھ نابالغ لڑکے بھی تھے،بشر مریسی نے کہاکہ حسن نے غلطی کی ہے، الفاظ ہیں، اخطا الحسن،حسن نے خطا کیا،غلطی کی، امام شافعی نے فرمایا :کیااس سے بہتر بات نہیں کہی جاسکتی تھی اوراس دن کے بعد امام شافعی نے بشرمریسی سے ملنا جلنا ترک کردیا،امام شافعی نے کیوں ملنا جلنا ترک کردیاکہ اکابر کے بارے میں احترام کا رویہ ملحوظ رکھاجائے،ان کے بارے میں کوئی ایسی بات نہ کہی جائے ،جوان کے مقام ومرتبہ سے فروتر ہو۔
اب اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے کہ امام شافعی اس دور میں اگر شیخ مقبول سلفی اوران کی جماعت کے انہی جیسے زبان وقلم کااستعمال کرنے والوں کو پاتے توان کا طرزعمل کیاہوتا۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
نام نہاد شیخ کا بدل یہاں نام نہاد مقلد ہی ہوگااسی نام نہاد سے مخاطب ہوں
ہمارے نام نہاد شیخ اس مضمون پر تقلید پر خوب گرجے برسے ہیں، لیکن اگران کی نگاہ میں،میں نام نہاد مقلد ہوں تو پھر تقلیدپر گرجنابرسناسمجھ میں نہیں آتا،ان کو خوش ہوناچاہئے کہ یہ پکے مقلد نہیں ہیں، نام نہاد مقلد ہیں، اللہ رے سمجھ اور فہم ،اے روشنی طبع تو برمن بلاشدی۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
اب اسی کتاب وسنت کے حامل کے بیٹے سلمان اوران کے پوتے محمد بن سلمان جوکچھ کررہے ہیں، وہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں، اور آگے آگے جوکچھ ہوگا، دیکھتے رہیں گے، وظیفہ خواروں کو کیا لگتاہے،بس شاہ کی لمبی عمر کیلئے دعاکرتے رہیں، چاہے دنیا میں کچھ بھی ہورہاہو
خادم الحرمین الشریفین سے بغض وعناد احناف کو وراثت میں ملتی ہے ، ان مقلدوں کو ائمہ حرمین اور خادم الحرمین کا سلفیوں سے محبت کرنا دیکھی نہیں جاتی ، یہ محبت محض کتاب وسنت سے محبت کی بنیاد پر ہے ۔ میری مانیں تو تقلید سے توبہ کریں اور کتاب وسنت پر عامل ہوجائیں آپ بھی اس لائق ہوجائیں گے ۔

جھنجھلاہٹ میں شیخ سیاق وسباق بھول گئے،خالص عقل کا سوائے انبیاکے کہیں وجود نہیں ہے، حالات ،ماحول ،اساتذہ ،تربیت کنندگان سب کا اثر ہوتاہے،اورکسی بھی انسان کیلئے ان اثرات سے بچنا ممکن نہیں ہے، ہاں انسان ایک حد تک کوشش کرسکتاہے،انجمن ترقی اردو ہندسے بہت پہلے ایک یوروپی فلسفی مانوئل کانٹ کی کتاب اردو میں ترجمہ ہوکر شائع ہوئی تھی، کہیں سے ملے توپڑھ لیں ،کافی افاقہ ہوگا۔
سیاق وسباق میں بھول گئے کہ اپنی گردن پر بھی عقل میں نقص کی تلوار لٹک گئی بلکہ انبیاء کے علاوہ ساروں کو اسی میں لپیٹ گئے حتی کہ اپنے امام اعظم کو بھی، شاید مانوئل کانٹ کی کتاب پڑھنے سے عقل کا فتور و قصور دور نہیں ہوا۔
اس کے علاوہ مزید حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں، لیکن ان دوحوالوں سے ہی واضح ہے کہ دونوں جانب صحابہ کرام اور اکابر تابعین واجلہ فقہاء ہیں، بالخصوص اگرہم ائمہ اربعہ کی بات کریں توزناسے حرمت مصاہرت کے قائل امام ابوحنیفہ،امام احمد ،اورمدونہ کی روایت کے مطابق امام مالک بھی ہیں اورامام شافعی اکیلےرہ جاتے ہیں،توکیا ان حالات میں حرمت مصاہر ت کے قول کو خلاف شرع تعلیمات کہنا ان ائمہ کی کتنی بڑی توہین اورتنقیص ہے ،وہ کسی سے مخفی نہیں ، اس موقع پر مجھے امام شافعی کی وہ بات یاد آرہی ہے ،جس میں انہوں نے اکابر کے تعلق سے ادب اور ان کے مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ پھر امام ابوحنیفہ پر طعن وتشنیع کرنے والے لوگ کون ہیں، یہ انٹرنیٹ پر ،فورمز پر ،اورکتابوں میں امام ابوحنیفہ پر تبرا پڑھنے والے کون ہیں، وہ بھی توخود کو سلفی اوراثری ہی کہتے ہیں، اب ایساتونہیں کرسکتے کہ آپ کے سلفی ہونے کو ہم قبول کرلیں اوران کے سلفیت کے دعوے کو رد کردیں ، (اگرچہ دونوں کو محض دعویٰ کی حد تک ہی سلفی مانتے ہیں)کیونکہ زبانی جمع خرچ کے علاوہ اسلاف کی اورکوئی علامت توپائی نہیں جاتی۔
امام ابوحنیفہ پہ لکھی گئی اہل حدیث علماء کی کتابیں دیکھیں امام صاحب کے متعلق ہمارا موقف معلوم ہوجائے گا ۔
انہوں نے مضمون کو شروع ہی اس طرح کیاہے جیسے احناف کا اس بارے میں جو مسلک ہے ،وہ نص قطعی کے مخالف ہے اوریہی وجہ ہے کہ اس کو شرع مخالف تعلیمات کے ابتدائیہ سے ہمارے نام نہاد شیخ نے شروع کیاہے،حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسئلہ اجتہادی مسئلہ ہے،اس مسئلے میں سرے سے کوئی نص ہی موجود نہیں ہے،ایک اجتہادی مسئلہ کے کسی جانب کو شرع مخالف مسئلہ سے تعبیر کرنا علمی کم مائیگی یاہوش پر جوش کا غلبہ ہے۔امیر صنعانی جو غیرمقلد ہیں اورکسی مذہب ومسلک کے مقلد نہیں اور فیض القدیر کے مصنف علامہ مناوی جو شافعی ہیں، وہ اس بارے میں صراحت سے اعتراف کرتے ہیں کہ اس مسئلہ میں نہ ہمارے پاس نص ہے اورنہ فریق مخالف کے پاس نص ہے۔
اگر کوئی قول دلیل سے خالی ہو یا نص کے خلاف ہو تو اسے شرع مخالف کہہ سکتے ہیں خواہ قول کسی کا ہو۔ ایک صحابی دوسرے صحابی کو سنت رسول کے خلاف بات پاتے تو اس سے منع کرتے ۔
"لا يحرم الحرام الحلال. (هـ) عن ابن عمر بن الخطاب (هق) عن عائشة".
لا يحرم الحرام الحلال) فلو زنا بامرأة لم تحرم عليه أمها وبنتها وعليه جماهير الشافعية، وقيل: تحرم وإليه ذهبت الحنفية، قال الشارح: وهي مسألة عظيمة في الخلاف ليس فيها خبر صحيح لا لنا ولا لهم.
)التنوير شرح الجامع الصغير (11/ 178(
(لا يحرم الحرام الحلال) فلو زنى بامرأة لم تحرم عليه أمها وبنتها وإلى هذا ذهب الشافعي كالجمهور فقالوا الزنا لا يثبت حرمة المصاهرة وأثبتها به الحنفية قال بعضهم: وهي مسألة عظيمة في الخلاف ليس فيها خبر صحيح من جانبنا ولا من جانبهم
فيض القدير (6/ 447)

اب جب کہ یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ مسئلہ اجتہادی مسئلہ ہے اوراس بارے میں کسی فریق کے پاس کوئی نص نہیں ہے تواس کو شرع مخالف سے تعبیر کرنا کس حد تک درست ہوسکتاہے،اس کا فیصلہ قارئین خود کریں اورسمجھیں کہ شیخ موصوف علمی مسائل میں غیرجانبدارانہ بلکہ جانبدارنہ نقطہ نظررکھتے ہیں اگرچہ زبانی جمع خرچ ان کا یہی ہوتاہے کہ وہ غیرجانبدارانہ نقطہ نظررکھتے ہیں۔
دوسری بات یہ ہےکہ اس مسئلہ میں صحابہ کرامؓ ،کبار تابعین اور ائمہ وفقہاء دونوں جانب ہیں، ایسے میں کسی ایک پہلو کو شرع مخالف سے تعبیر کرنا کس درجہ دیدہ دلیرہ اورجسارت بے جا بلکہ اہل علم کی توہین کی بات ہے،وہ محتاج وضاحت نہیں ہے،ذیل میں کچھ حوالے دیئے جارہے ہیں:
مَسْأَلَةٌ: قَالَ: (وَوَطْءُ الْحَرَامِ مُحَرِّمٌ كَمَا يُحَرِّمُ وَطْءُ الْحَلَالِ وَالشُّبْهَةِ) يَعْنِي أَنَّهُ يَثْبُتُ بِهِ تَحْرِيمُ الْمُصَاهَرَةِ، فَإِذَا زَنَى بِامْرَأَةٍ حَرُمَتْ عَلَى أَبِيهِ وَابْنِهِ، وَحَرُمَتْ عَلَيْهِ أُمُّهَا وَابْنَتُهَا، كَمَا لَوْ وَطِئَهَا بِشُبْهَةٍ أَوْ حَلَالًا وَلَوْ وَطِئَ أُمَّ امْرَأَتِهِ أَوْ بِنْتَهَا حَرُمَتْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ نَصَّ أَحْمَدُ عَلَى هَذَا، فِي رِوَايَةِ جَمَاعَةٍ وَرُوِيَ نَحْوُ ذَلِكَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ وَبِهِ قَالَ الْحَسَنُ وَعَطَاءٌ، وَطَاوُسٌ، وَمُجَاهِدٌ، وَالشَّعْبِيُّ وَالنَّخَعِيُّ، وَالثَّوْرِيُّ، وَإِسْحَاقُ وَأَصْحَابُ الرَّأْيِ،
وَرَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ الْوَطْءَ الْحَرَامَ لَا يُحَرِّمُ. وَبِهِ قَالَ سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ وَيَحْيَى بْنُ يَعْمُرَ، وَعُرْوَةُ، وَالزُّهْرِيُّ، وَمَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَبُو ثَوْرٍ وَابْنُ الْمُنْذِرِ(المغني لابن قدامة (7/ 117)

وَاخْتَلَفُوا فِي الرَّجُلِ يَزْنِي بِالْمَرْأَةِ هَلْ يَحِلُّ لَهُ نِكَاحُ ابْنَتِهَا وَأُمِّهَا وَكَذَلِكَ لَوْ زَنَا بِالْمَرْأَةِ هَلْ يَنْكِحُهَا ابْنُهُ أَوْ يَنْكِحُهَا أَبُوهُ وهل الزنى فِي ذَلِكَ كُلِّهِ يُحَرِّمُ مَا يُحَرِّمُ النِّكَاحُ الصَّحِيحُ أَوِ النِّكَاحُ الْفَاسِدُ أَمْ لَا
فَقَالَ مالك في ((موطئه)) إن الزنى بِالْمَرْأَةِ لَا يُحَرِّمُ عَلَى مَنْ زَنَا بِهَا نِكَاحَ ابْنَتِهَا وَلَا نِكَاحَ أُمِّهَا وَمَنْ زَنَا بِأُمِّ امْرَأَتِهِ لَمْ تَحْرُمْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ بَلْ يقتل ولا يحرم الزنى شيئا بحرمة النكاح الحلال
وهو قول بن شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ وَرَبِيعَةَ وَإِلَيْهِ ذَهَبَ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ وَالشَّافِعِيُّ وَأَبُو ثَوْرٍ وَدَاوُدُ وَرُوِيَ ذَلِكَ عن بن عباس وعقال فِي ذَلِكَ لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ
وَقَالَهُ بن شِهَابٍ وَرَبِيعَةُ وَاخْتُلِفَ فِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ المسيب ومجاهد والحسن وذكر بن الْقَاسِمِ عَنْ مَالِكٍ خِلَافَ مَا فِي ((الْمُوَطَّأِ))
فَقَالَ مَنْ زَنَا بِأُمِّ امْرَأَتِهِ فَارَقَ امْرَأَتَهُ وَهُوَ عِنْدَهُ فِي حُكْمِ مَنْ نَكَحَ أُمَّ امْرَأَتِهِ وَدَخَلَ بِهَاوَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ وَالثَّوْرِيِّ وَالْأَوْزَاعِيِّ كُلُّهُمْ يَقُولُونَ مَنْ زَنَا بِأُمِّ امْرَأَتِهِ حَرُمَتْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ
قَالَ سَحْنُونٌ أصحاب مالك كلهم يخالفون بن الْقَاسِمِ فِيهَا وَيَذْهَبُونَ إِلَى مَا فِي ((الْمُوَطَّأِ))
وَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ عَنِ الزُّهْرِيِّ فِي الرَّجُلِ يَزْنِي بِالْمَرْأَةِ إِنْ شَاءَ تَزَوَّجَ ابْنَتَهَا قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ لَا نَأْخُذُ بِهِ وَقَالَ الْأَوْزَاعِيُّ عَنْ عَطَاءٍ أَنَّهُ كَانَ يُفَسِّرُ قول بن عَبَّاسٍ لَا يُحَرِّمُ حَرَامٌ حَلَالًا أَنَّهُ الرَّجُلُ يَزْنِي بِالْمَرْأَةِ فَلَا يُحَرِّمُ عَلَيْهِ نِكَاحَهَا زِنَاهُ بِهَا وَقَالَ اللَّيْثُ إِنْ وَطِئَهَا وَهُوَ يَتَوَهَّمُ جَارِيَتَهُ لَمْ يُحَرِّمْهَا ذَلِكَ عَلَى ابْنِهِ
قَالَ الطَّحَاوِيُّ وَهَذَا خِلَافُ قَوْلِ الْجَمِيعِ إِلَّا شَيْئًا رُوِيَ عَنْ قَتَادَةَ وَرُوِيَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ فِي رَجُلٍ زَنَا بِأُمِّ امْرَأَتِهِ قَالَ قَدْ حَرُمَتْ عَلَيْهِ امْرَأَتُهُ قَالَ أَبُو عُمَرَ قد خالفه بن عَبَّاسٍ فِي ذَلِكَ فَقَالَ لَا تَحْرُمُ عَلَيْهِ

(الاستذكار (5/ 463)
مذکورہ اقوال میں بھی پلہ میرے موقف کا ہی بھاری ہے غور کرلیں۔
اس کے علاوہ مزید حوالے پیش کئے جاسکتے ہیں، لیکن ان دوحوالوں سے ہی واضح ہے کہ دونوں جانب صحابہ کرام اور اکابر تابعین واجلہ فقہاء ہیں، بالخصوص اگرہم ائمہ اربعہ کی بات کریں توزناسے حرمت مصاہرت کے قائل امام ابوحنیفہ،امام احمد ،اورمدونہ کی روایت کے مطابق امام مالک بھی ہیں اورامام شافعی اکیلےرہ جاتے ہیں،توکیا ان حالات میں حرمت مصاہر ت کے قول کو خلاف شرع تعلیمات کہنا ان ائمہ کی کتنی بڑی توہین اورتنقیص ہے ،وہ کسی سے مخفی نہیں ، اس موقع پر مجھے امام شافعی کی وہ بات یاد آرہی ہے ،جس میں انہوں نے اکابر کے تعلق سے ادب اور ان کے مقام ومرتبہ کا لحاظ رکھنے کی تاکید کی ہے۔
مقلدوں کا اہل حدیث دشمنی، بلادحرمین دشمنی اور مسلکی دشمنی تو جگ ظاہر ہے وہ ہمیں ادب سکھائیں ۔
کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی؟
جب رفع یدین کی تردید کرتے ہیں اس وقت شافعی و احمد کی شان بھول جاتے ہیں ، یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ائمہ اربعہ کی تقلید ہربات میں ضروری ہے ۔ اور رسول اللہ ﷺ کی شان تو تقلید کی ابتداء سے ہی بھول جاتے ہیں ۔ تبلیغی جماعت والوں کے اکرام مسلم کا درس بس روایتی ہے اہل حدیث کی مساجد پر قبضہ کرنا تک نہیں چھوڑتے گر موقع ملے،اکرام مسلم تو درکنار۔ یہاں صرف اکرام دیوبندی و تبلیغی ہوتا ہے ، بچپن سے اس کا مشاہدہ ہے۔
خود را فضیحت دیگراں را نصیحت

پکے مقلد نہیں ہیں، نام نہاد مقلد ہیں
مقلد کچا ہو یا پکا تقلید کا زہر ختم نہیں ہوتا ، اپنے زہر سے سماج کا قتل ہی کرتا ہے اور اپنے جہل سے انتشار پھیلاتا ہے ۔ تقلید انتشار ہی انتشار ہے ، امت کو تقلید سے اس طرح تقسیم کیا گیا کہ مقلدین تقسیم در تقسیم ہوکر بھی خوش ہیں ۔
كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
سسر کا اپنی بہو کے ساتھ زنا کرنے سے نکاح کا حکم
اصل موضوع یہی ہے ۔ لہذا دونوں طرف گزارش ہے کہ
کوشش کریں ، دو دو پوسٹیں کریں ، ایک میں نفس مسئلہ پر بحث ، دوسری پر بقیہ حساب کتاب ۔ ابتسامہ
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
چونکہ یہ موضوع مقبول صاحب نے شروع کیاہے،لہذا ان کو ہی پہلے اپنی بات رکھنی چاہئے،اس میں چند نکات کا خیال رکھناضروری ہے
اولا:یہ مسئلہ منصوص ہے یاپھر اجتہادی ہے
ثانیا:اجماعی ہے یااختلافی ہے
ثالثا:دلائل کی نوعیت کیاہے،نصوص ہیں، یاپھر محض صحابہ وتابعین کے آثار ہیں؟
رابعا:کیاکسی فریق کو اس مسئلہ میں شرع مخالف تعلیمات سے متصف کرنا ازروئے قواعد شرعیہ درست ہے؟
اگران نکات پر گفتگو ہوگی تو یہ مسئلہ منقح اور واضح ہوکر سامنے آئے گا۔
 
شمولیت
اپریل 18، 2020
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
40
سسر کا اپنی بہو کے ساتھ زنا کرنے سے نکاح کا حکم

مقبول احمد سلفی

فقہ حنفی کی شرع مخالف تعلیمات نے ملت اسلامیہ اور اس کے افراد کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ امت کا اختلاف وانتشار ، آپسی تنازع، ایک دوسرے کی تکفیروتذلیل اور مسلمانوں کے درمیان فساد اسی نقصان کاپیش خیمہ ہے ۔ آج بھی مسلمان ایک ہوسکتے ہیں ، ہماری بکھری ہوئی طاقت یکجا ہوسکتی ہے ، عظمت رفتہ پھر سے بحال ہوسکتی ہے اور چہار دانگ عالم میں اسلام اور مسلمانوں کا بول بالا ہوسکتا ہے اس شرط کے ساتھ کہ امت کو خالص کتاب وسنت کی تعلیم دی جائے، علماء کے اقوال اور ائمہ کے اجتہادات کو نصوص شرعیہ پر ترجیح نہ دی جائے اور عقائدواعمال صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول کے فرامین سے لئے جائیں ۔
فقہ حنفی کے شرع مخالف مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اگر سسر شہوت سے بہو کو چھو لے یا اس سے زنا کرلے تو بہو اپنے شوہر پر حرام ہوجاتی ہے ۔
سسر اور بہو یا داماد اور ساس کا رشتہ برصغیر میں بہت ہی مقدس مانا جاتاہے ، اسی تقدس کے تئیں ساس وسسر کو ابو امی کہہ کر لوگ پکارتے ہیں ۔ اپنے ذہن میں ایک طرف یہ تقدس رکھیں اور دوسری طرف یہ دیکھیں کہ ہمارے یہاں عموما فیملیاں مشترکہ طور پر رہتی ہیں ، اور آج کے پرفتن دور میں مشترکہ فیملی کے برے اثرات کسی کے ڈھکے چھپے نہیں ہیں ۔ساس، سسربہوئیں، بیٹے، نندیں، جیٹھ، دیورسب ایک ساتھ ایک جگہ رہتے سہتے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا۔ مشترکہ خاندانی نظام بہت سارے جرائم ومعاصی کا سبب ہے اس وجہ سے شادی کے بعد والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کو الگ الگ کردے ۔ یہاں ایک بات یہ بھی جان لی جائے کہ سسر اپنی بہو کے لئے محرمات میں سے ہے اس لئے بہو اپنے سسر کے سامنے چہرہ کھول سکتی ہے ، خلوت(خلوت) کرسکتی ہے حتی کے اس کے ساتھ مصافحہ کرنا اورسفر کرنا بھی جائز ہے ۔
مذکورہ بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ذرا یہ خیال کریں کہ اگر سسر اپنی بہو کے ساتھ بدفعلی کرتا ہے تو وہ کس درجے کا مسلمان رہ جاتا ہوگا؟
زنا ایک سنگین جرم اور گھناؤنا عمل ہے ، اس سے ایمان کا جنازہ نکل جاتا ہے اور زناکار ایمان سے محروم ہوکر قہر الہی کا مستحق ہوجاتا ہے قہر الہی کے ساتھ دنیا میں بھی اس کی عبرت ناک سزا ہے جسے دیکھ کر پھر کسی میں احساس زنا باقی نہیں رہ سکے گا ۔ اے کاش ! دنیا میں زنا کی بابت شرعی قانون نافذ ہوجائے تو سماج وسوسائٹی کی سب سے بڑی گندگی دور ہوجائے۔ سماج سے اگر یہ گندگی دور ہوجائے تو بہت ساری سماجی خرابیاں آپ خود دور ہوجائیں۔
اسلام میں زنا کے متعلق یہی پتہ چلتا ہے کہ اس کا گناہ اور اثراس کے سر ہے جس نے اس کا ارتکاب کیا ہے ۔ اگر سسر نے زبردستی اپنی بہو کے ساتھ زنا کیا ہے تو اس کا مکمل گناہ ووبال سسر کے سر ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى(فاطر:18)
ترجمہ: کوئی جان کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔
قرآن کا یہ اصول ہرقسم کے گناہ کے سلسلے میں ہے خواہ قتل کا معاملہ ہو یا زنا کا اور زنا سسر وبہو کے درمیان ہو یا ان کے علاوہ کے درمیان ۔ یہی اصول دنیاوی علالتوں اور سماجی معاملوں میں بھی برتے جاتے ہیں کہ جس کی غلطی اسی کو سزا ۔ ایسا نہیں ہے کہ قاتل ابن زیاد ہو اور مجرم یزید ٹھہرے ۔
اور اگر زنا میں سسر کے ساتھ بہو کی بھی رضامندی تھی تو سسروبہو دونوں گنہگار ہیں اور دونوں رجم کے قابل ہیں لیکن اس کی سزا شوہر کو نہیں ملے گی وہ اس معاملے میں معصوم ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی سسر جبرا یا بہو کی رضامندی سے زنا کا ارتکاب کر لیتا ہے تو اس سے وہ عورت اپنے شوہر پر حرام نہیں ہوگی کیونکہ حرام کا ارتکاب کرنے سے کوئی حلال کام حرام نہیں ہوجائے گا۔ ایک حدیث میں وارد ہے کہ حرام کام کسی حلال کو حرام نہیں کرسکتا (ابن ماجہ: 2015) گوکہ اس حدیث کو شیخ البانی نے ضعیف کہا ہے مگر کئی آثار سے یہ بات منقول ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی صحیح اثر میں مذکور ہے :
عنِ ابنِ عباسٍ أنَّ وطءَ الحرامِ لا يُحرِّمُ۔
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حرام وطی (مباشرت) سے (کوئی حلال چیز) حرام نہیں ہوجاتی ۔
اس اثر کو شیخ البانی نے صحیح کہا ہے۔ (إرواء الغليل:1881)
یہی مسلک حق ہے اور اسی کے قائل مالکیہ وشافعیہ ہیں لیکن احناف اور شوافع کے یہاں زنا سے حرمت ثابت ہوجاتی ہے ۔ ان کا استدلال ہے کہ جس طرح ربیبہ (بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکی) سے نکاح اس وقت حرام ہوجاتا ہے جب مرد اس کی ماں سے جماع کرلے یعنی یہاں وطی سے حرمت ثابت ہورہی ہےٹھیک اسی طرح زنا سے جو لڑکی پیدا ہو وہ بھی اس زانی پر حرام ہے کیونکہ یہ بھی بیٹی کے حکم میں ہے اور بیٹی سے نکاح حرام ہے۔
اللہ کا فرمان ہے :
وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ(النساء:23).
ترجمہ: اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہیں ،تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ،ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ۔
یہ استدلال بالکل صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں نکاح کا ذکرہے ،اللہ کا فرمان ہے:ولاتنکحوا مانکح آباؤکم من النساء الا ما قد سلف یعنی تم ان عورتوں سے نکاح نہ کرو جن سے تمارے باپوں نے نکاح کیا ہےمگر جو گزرچکا۔
اور نکاح کو زنا پر کیسے قیاس کیا جائے گا؟ اگر کوئی رشتہ نکاح کی وجہ سے حرام ہورہاہے تو زنا کرنے سے کوئی رشتہ کیسے حرام ہوجائے گا؟ دونوں دو الگ الگ چیزیں ہیں ۔ نکاح سے بعض رشتے کی حرمت کا ثبوت موجود ہے جبکہ زنا سے رشتے کی حرمت کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
احناف کا یہ فتوی جہاں خلاف شریعت ہے وہیں اس فتوی پر سختی قابل مذمت اور حددرجہ افسوس ناک ہے ۔ اگر کسی کے یہاں سسر وبہو کے زنا کا واقعہ رونما ہوجائے تو سماج والے زبردستی میاں بیو ی میں تفریق کردیتے ہیں ۔ جس طرح سختی سے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں عورتوں کا جبرا حلالہ بلفظ دیگر زنا کروایا جاتا ہے اسی طرح سختی سے اس معاملہ میں بھی بے قصور شوہر کو بیوی سے الگ کردیا جاتا ہے۔
اس بات پر مجھے جس قدر حیرت ہے اس سے کہیں زیادہ اس بات پر حیرانی ہے کہ جب احناف کو اپنے فتوی کا اتنا ہی پاس ولحاظ ہے تو پھر جو چیز شرعا ثابت ہے اور جسے احناف بھی مانتے ہیں کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے گا تو پھر اس معاملے میں خاموشی کیوں ،اسے کیوں نافذ نہیں کرتے؟ ۔ خودساختہ فتوی پر اس قدر سختی اور ثابت شدہ مسئلہ میں اس قدر غفلت ؟ شتان بین یزیدین
جس طرح زنا کی بابت سسر وبہو کا مسئلہ فقہ حنفی میں درج ہے اسی طرح ساس وداماد کا بھی مسئلہ ہے ۔داماد نے اپنی ساس سے زنا کیا تو اپنی بیوی حرام ہوگئی ۔ یہ مسئلہ بالکل خلاف شریعت ہے اس لئے عوام سے میری درخواست ہے کہ آج کے علمی اور ترقی یافتہ دورمیں اندھے بہرے ہوکر کسی فتوی پر عمل نہ کریں ۔ پہلے صاحب علم وبصیرت سے مسئلہ کو دلائل کی روشنی میں جانیں پھر عمل کریں ۔ آج علم کا حصول اورمسئلے کی دریافت پہلے سے کہیں زیادہ آسان ہے، اکثر مراجع ومصادراور دین کی اہم کتابیں انٹرنیٹ پر موجود ہیں ، بڑے سے بڑے علماء سے رابطہ آسان ہے خواہ وہ دنیا کے کسی کونے میں ہوں پھر صحیح بات کی جانکاری کے لئے سستی کیوں ؟ یہ تو دین و شریعت کا معاملہ ہے نہ دنیا کا ۔ آپ دین پر اس لئے عمل کرتے ہیں کہ اللہ آپ سے راضی ہو اور اس کے بدلےآخرت میں اس کی توفیق سے جنت ملے، نہ کہ اس لئے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ یا دنیا کا کوئی عالم و مفتی آپ سے خوش ہو۔ہرکس وناکس کو میرا یہ پیغام ہے کہ صحیح دین کو پہچانیں ، سنت کے مطابق عمل کریں اور ہرعمل میں اللہ کی رضا تلاش کریں ۔ ایک مسلمان کی زندگی کا یہی مطلوب ومقصود ہونا چاہئے۔
اگر ایک شخص زنا کرے تو اس سے اس کے ہاں بیٹی پیدا ہو تو اس سے نکاح کیسے جائز ہوسکتا ہے؟؟؟
کچھ تو خیال کریں۔
زنا بلاشبہ حرام ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ زنا سے ہونے والی اولاد سے نکاح جائز ہو جائے۔
 
Top