• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سفرنامہ ابن بطوطہ کی ایک حکایت اور ابن تیمیہ کے موقف کی وضاحت

شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
مولانا عطاء اللہ بھوجیانی نے حیات ابن تیمیہ از ابو زہرہ کے آخر میں بطور ضمیمہ ( ص نمبر 793 تا 798 )اس پر ایک تحریر لکھی ہے ، جس کا عنوان ہے :
ابن بطوطہ سیاح کی ایک غلط فہمی اور اس کی تحقیق
چند صفحات میں سمندر سمودیا ہے ، اس وقت جب کمپیوٹر پر انٹرنیٹ اور شاملہ وغیرہ کا نام نشان نہیں تھا ، اس انداز سے جامع اور مختصر مضمون مکمل حوالہ جات کے ساتھ ترتیب دے دینا ، اس بات کی دلیل ہے کہ مولانا جس موضوع پر لکھتے ،مصادر و مراجع میں موجود اس کے مالہ و ما علیہ مولانا کی نظر میں ہوتے تھے ، جیسا کہ شیخ عزیر شمس صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے ۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ نے بھی اس بات کا رد اپنے دروس ترمذی میں فرمایا ہے:
وہ رقمطراز ہیں:
"اب یہاں علامہ ابن تیمیہ رحمتہ اللہ علیہ کے موقف کو بھی سمجھ لینا ضروری ہے یہ بات بہت مشہور ہوگئی ہے کے وہ (معاذ اللہ) تشبیہ کے قائل یا کم از کم اس کے قریب پہنچ گئے ہیں- اور یہ قصہ بھی مشہور ہے کے انہوں نے ایک مرتبہ جامع دمشق کے منبر پر تقریر کرتے ہوئے حدیث باب کی شرح کی اور اس تشریح کے دوران خود منبر سے دوسیڑھیاں اتر کر کہا کہ
ینزل کنزولی ھذا
یعنی باری تعالٰی کا نزول میرے اس نزول کی طرح ہوتا ہے۔
اگر یہ واقعہ ثابت ہوتو بلاشبہ یہ نہایت خطرناک بات ہے اور اس سے لازم آتا ہے کے علامہ ابن تیمیہ رح تشبیہ کے قائل ہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ تحقیق سے اس واقعہ کی نسبت علامہ ابن تیمیہ رح کی طرف ثابت نہیں ہوتی۔ دراصل یہ واقعہ کسی مستند طریقے سے ثابت نہیں، بلکہ یہ سب سے پہلے ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے
(جلد1 صفحہ 57) میں ذکر کیا ہے اور کہا ہے کہ میں نے خود علامہ ابن تیمیہ رح کو جامع دمشق کے منبر پر تقریر کرتے ہوئے دیکھا، وہ تقریر کے دوران منبر سے دو سیڑھیاں نیچے اترے اور کہا کہ:

“ینزل کنزولی ھذا“
لیکن محققین نے سفرنامہ ابن بطوطہ کی اس حکایت کو معتبر نہیں مانا، جس کی وجہ یہ ہے کہ اسی سفرنامے کے صفحہ 50 جلد اول پر تصریح ہے کے ابن بطوطہ جمعرات 9 رمضان 726ھ کو دمشق پہنچا ہے حالانکہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ شعبان 726ھ کے اوائل ہی میں دمشق کے قلعہ میں قید ہوچکے تھے اور اسی قید کی حالت میں 20 ذیقعدہ728ھ کو اُن کی وفات ہوگئی لہذا یہ بات تاریخی اعتبار سے ممکن نظر نہیں آتی کے وہ رمضان 726ھ میں جامع دمشق میں خطبہ دے رہے ہوں ۔
(درس ترمذی- 2\202)

ادھر سفرنامہ ابن بطوطہ خود ابن بطوطہ کا لکھا ہوا نہیں ہے، بلکہ اسے ان کے شاگرد ابن جزی الکلبی نے مرتب کیا ہے اور وہ ابن بطوطہ سے حالات زبانی سن کر انہیں اپنے الفاظ میں قلم بند کرتے تھے، اس لیے اس میں غلطیوں کا کافی امکان ہے۔
جہاں تک اس سلسلے میں علامہ ابن تیمیہ رح کے صحیح مؤقف کا تعلق ہے اس موضوع پر ان کی ایک مستقل کتاب ہے جو "شرح حدیث النزول" کے نام سے شائع ہوچکی ہے اور اس میں علامہ ابن تیمیہ رح نے تشبیہ کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی ہے مثلا صفحہ58 پر لکھتے ہیں۔

ولیس نزولہ کنزول اجسام بنی آدم من السطح الی الارض بحث یبقی السقف فوقھم بل اللہ منزہ عن ذلک۔
(درس ترمذی- 2\203)
 
Last edited:

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
بہت عمدہ اور معلومات. محققانہ طرز اور نقطہ نظر. جزاک اللہ خیرا
 

MD. Muqimkhan

رکن
شمولیت
اگست 04، 2015
پیغامات
248
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
70
پہلے تو مجهے کهٹکا کہ اس طرح عمومی طور پر کیسے ابن بطوطہ کو رد کررہے ہیں. دراصل بہت سے لوگ اس کے محیرالعقول واقعات کی بنا پر اس کو بری طرح رد کیا ہے. اس سے تاریخ ہند کے بیان میں بهی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن وہاں جہاں وہ سنی سنائی باتوں پر اکتفا کرلیتا ہے. بہر حال آپ نے اس کے ایک بیان کو جس دقت طلبی اور محققانہ طرز پت رد کیا ہے وہ قابل ستائش ہے. اور اس کی ضرورت بهی تهی. ابهی حال ہی میں مجهے اس واقعہ کے بارے میں سننے کو ملا تها. لیکن اس کی اصل کا علم نہیں تها بہر حال آپ کی تحریر سے بڑی تشفی ہوئی ہے اور علمی پیاس بهی بجهی. اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
پہلے تو مجهے کهٹکا کہ اس طرح عمومی طور پر کیسے ابن بطوطہ کو رد کررہے ہیں. دراصل بہت سے لوگ اس کے محیرالعقول واقعات کی بنا پر اس کو بری طرح رد کیا ہے. اس سے تاریخ ہند کے بیان میں بهی بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں لیکن وہاں جہاں وہ سنی سنائی باتوں پر اکتفا کرلیتا ہے. بہر حال آپ نے اس کے ایک بیان کو جس دقت طلبی اور محققانہ طرز پت رد کیا ہے وہ قابل ستائش ہے. اور اس کی ضرورت بهی تهی. ابهی حال ہی میں مجهے اس واقعہ کے بارے میں سننے کو ملا تها. لیکن اس کی اصل کا علم نہیں تها بہر حال آپ کی تحریر سے بڑی تشفی ہوئی ہے اور علمی پیاس بهی بجهی. اللہ آپ کو جزائے خیر سے نوازے
الحمد للہ ۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
ابن بطوطہ نے یہ سفر نامہ خود نہیں لکھا ،اس سفرنامے کو جمع کرنے اور لکھنے والا ابو عبداللہ الجزی الکلبی ہے ،جس پرامام بلقینی نے کذاب اور وضاع ہونے کا حکم لگایا ہے۔
فار دی ریکارڈ:
اور ابن مرزوق نے انہیں اس کذب سے بری قرار دیا ہے۔ (اسی عبارت میں آگے مذکور ہے)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
سفر نامہ کو مرتب کرنے والے ابن الجزی الکلبی کے جھوٹا ہونے کے علاوہ خود ابن طوطہ کے جھوٹا ہونے کا ثبوت خود اسی سفر نامہ میں موجودہے ،
ابن بطوطہ دمشق میں جمعرات کے دن رمضان المبارک کی 9 تاریخ کو 726ہجری میں داخل ہوا ہے ۔ (رحلۃ ابن بطوطہ ص 297)جبکہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسی سال ایک مہینہ قبل شعبان کے شروع میں قید ہوچکے تھے اور تقریبا دو سال تک اسی قید میں رہے (أعیان العصر للصفدی ج 1 ص 238 )حتی کہ 728 ہجری کو ذو القعدہ کی بیس تاریخ کو سوموار کی رات وفات پا گئے ۔(معجم الشیوخ للذہبی ج 1 ص 56 )
ابن بطوطہ نے کس طرح ان کو جامع دمشق میں وعظ کرتے ہوئے دیکھ لیا ؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
سفر نامہ کو مرتب کرنے والے ابن الجزی الکلبی کے جھوٹا ہونے کے علاوہ خود ابن طوطہ کے جھوٹا ہونے کا ثبوت خود اسی سفر نامہ میں موجودہے ،
ایک تو ہمارے پاکستان میں "جھوٹ کے الزام" سے کم پر راضی ہی نہیں ہوا جاتا۔ (ابتسامہ)
غلطی بھی کسی چیز کو کہتے ہیں بھائی۔ ابن بطوطہ نے اپنا سفرنامہ بیان کیا ہے۔ بے شمار شہر، ان گنت واقعات، لاکھوں افراد اور کئی تاریخیں اس کے سفر میں موجود ہیں۔ ایسے میں کسی تاریخ کے بھول چوک جانے یا آگے پیچھے ہو جانے کا امکان نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ نیز پھر لکھنے والا ابن الجزی اپنے الفاظ میں لکھ رہا ہے تو اس کی تحریر میں بھی چھوٹی موٹی غلطیوں یا تبدیلیوں سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
کیا ثقہ رواۃ کو حدیث کی روایت میں غلطیاں نہیں لگتی تھیں؟ غلطی غلطی ہوتی ہے۔ جھوٹ ایک تو عمداً بولا جاتا ہے اور دوسرا جب کوئی شخص بار بار جھوٹ بولے تب اس پر جھوٹا ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے۔

(اس کا یہ مطلب نہیں کہ ابن بطوطہ کا ابن تیمیہؒ کے بارے میں موقف صحیح ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ ابن بطوطہ کو جھوٹا قرار دینے کے لیے اس طرح کی ایک آدھ غلطی کافی نہیں ہے۔)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
ایک تو ہمارے پاکستان میں "جھوٹ کے الزام" سے کم پر راضی ہی نہیں ہوا جاتا۔ (ابتسامہ)
غلطی بھی کسی چیز کو کہتے ہیں بھائی۔ ابن بطوطہ نے اپنا سفرنامہ بیان کیا ہے۔
نہیں سائیں !
میں ابن بطوطہ کذاب کے اس کے جھوٹے بیان پر ( سبحانک ھذا بھتان عظیم ) پڑھ رہا ہوں ،
اور پاکستان میں تو برانڈڈ جھوٹوں کو بھی لوگ جھوٹا نہیں کہتے ، مذہب کے نام پر جتنا جھوٹ اس ملک میں رائج و شائع ہے الامان و الحفیظ
اسلئے اہل پاکستان کا حوالہ دیکر ابن بطوطہ کی براءت نہیں ہوسکتی ۔
سعودی حکومت کے دور تاسیس کے جید ثقہ عالم
أحمد بن إبراهيم بن عيسى (1253 - 1327 ھ ) جو مشہور" الکافیۃ الشافیۃ " کی شرح " توضیح المقاصد " کے مصنف ہیں ؛
وہ لکھتے ہیں :

قال الشيخ أحمد بن إبراهيم بن حمد رحمه الله في رده على ابن بطوطة :
" وا غوثاه بِاللَّه من هَذَا الكذب الَّذِي لم يَخَفِ اللهَ كاذبُه ، وَلم يستحِ مفتريه وَفِي الحَدِيث : (إِذا لم تستح فَاصْنَعْ مَا شِئْت) ووضوح هَذَا الْكَذِب أظهر من أَن يحْتَاج الى الإطناب، وَالله حسيب هَذَا المفتري الْكذَّاب ، فإنه ذكر أَنه دخل دمشق في 9 رَمَضَان سنة 726 ، وَشَيخ الإسلام ابْن تَيْمِية إذ ذَاك قد حبس فِي القلعة ، كَمَا ذكر ذَلِك الْعلمَاء الثِّقَات كتلميذه الْحَافِظ مُحَمَّد بن أَحْمد بن عبد الْهَادِي والحافظ أبي الْفرج عبد الرَّحْمَن بن أَحْمد بن رَجَب ، قَالَ في تَرْجَمَة الشَّيْخ : مكث الشَّيْخ فِي القلعة من شعْبَان سنة سِتّ وَعشْرين إلى ذِي الْقعدَة سنة ثَمَان وَعشْرين. وَزَاد ابْن عبد الْهَادِي أنه دَخلهَا فِي سادس شعْبَان .
فَانْظُر إلى هَذَا المفتري يذكر أنه حَضَره وَهُوَ يعظ النَّاس على مِنْبَر الْجَامِع، فيا ليت شعري هَل انْتقل مِنْبَر الْجَامِع إلى دَاخل قلعة دمشق ؟
وَالْحَال أَن الشَّيْخ رَحمَه الله لما دخل القلعة الْمَذْكُورَة فِي التَّارِيخ الْمَذْكُور لم يخرج مِنْهَا إلا على النعش، وَكَذَا ذكر الْحَافِظ عماد الدّين ابن كثير فِي تَارِيخه
انتهى من " توضيح المقاصد" (1/ 498) .

توضیح المقاصد کو مکتبہ شاملہ کیلئے ڈاؤن کریں
اس عبارت میں شیخ رحمہ اللہ نے ابن بطوطہ کو : کاذب ، کذاب ، مفتری ، بے حیا ، قرار دیا ہے ، "

اور یقیناً شیخ رحمہ اللہ جھوٹ اور غلطی کا فرق سمجھتے ہوں گے ، کیونکہ وہ دین کے عالم ہونے کے ساتھ قاضی بھی تھے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,588
پوائنٹ
791
شیخ الإسلام کی ایک مستقل کتاب ہے جس میں حدیث النزول کی شرح کی ہے
ابن بطوطہ نے جس مسئلہ پر شیخ الاسلام پر افترا کیا وہ ہے روزانہ رات اللہ رب العزت کا نزول
امام صاحب کا عقیدہ و موقف اس مسئلہ پر سمجھنے ،جاننے کیلئے خود انہی کی کتاب سب سے بہترین ذریعہ ہے
کتاب کا نام ہے شرح حدیث النزول ۔۔ جو یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں
 
شمولیت
دسمبر 02، 2012
پیغامات
477
ری ایکشن اسکور
46
پوائنٹ
86
ابن بطوطہ نے جس مسئلہ پر شیخ الاسلام پر افترا کیا وہ ہے روزانہ رات اللہ رب العزت کا نزول
امام صاحب کا عقیدہ و موقف اس مسئلہ پر سمجھنے ،جاننے کیلئے خود انہی کی کتاب سب سے بہترین ذریعہ ہے
کتاب کا نام ہے شرح حدیث النزول ۔۔ جو یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اس بات کی وضاحت مفتی تقی عثمانی حفظہ الله کے درس ترمذی کے حوالے سے پہلے ہی ہوچکی ہے۔
 
Top