اشماریہ
سینئر رکن
- شمولیت
- دسمبر 15، 2013
- پیغامات
- 2,682
- ری ایکشن اسکور
- 752
- پوائنٹ
- 290
سعودی حکومت کا دور تاسیس اور امام ابن تیمیہؒ کا دفاع۔ خود ہی کڑیاں ملا لیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے شیخ زاہد الکوثریؒ امام ابو حنیفہؒ کے دفاع میں ثقہ رواۃ کو بھی رگڑا لگا جائیں۔أحمد بن إبراهيم بن عيسى (1253 - 1327 ھ ) جو مشہور" الکافیۃ الشافیۃ " کی شرح " توضیح المقاصد " کے مصنف ہیں ؛
وہ لکھتے ہیں :
قال الشيخ أحمد بن إبراهيم بن حمد رحمه الله في رده على ابن بطوطة :
" وا غوثاه بِاللَّه من هَذَا الكذب الَّذِي لم يَخَفِ اللهَ كاذبُه ، وَلم يستحِ مفتريه وَفِي الحَدِيث : (إِذا لم تستح فَاصْنَعْ مَا شِئْت) ووضوح هَذَا الْكَذِب أظهر من أَن يحْتَاج الى الإطناب، وَالله حسيب هَذَا المفتري الْكذَّاب ، فإنه ذكر أَنه دخل دمشق في 9 رَمَضَان سنة 726 ، وَشَيخ الإسلام ابْن تَيْمِية إذ ذَاك قد حبس فِي القلعة ، كَمَا ذكر ذَلِك الْعلمَاء الثِّقَات كتلميذه الْحَافِظ مُحَمَّد بن أَحْمد بن عبد الْهَادِي والحافظ أبي الْفرج عبد الرَّحْمَن بن أَحْمد بن رَجَب ، قَالَ في تَرْجَمَة الشَّيْخ : مكث الشَّيْخ فِي القلعة من شعْبَان سنة سِتّ وَعشْرين إلى ذِي الْقعدَة سنة ثَمَان وَعشْرين. وَزَاد ابْن عبد الْهَادِي أنه دَخلهَا فِي سادس شعْبَان .
فَانْظُر إلى هَذَا المفتري يذكر أنه حَضَره وَهُوَ يعظ النَّاس على مِنْبَر الْجَامِع، فيا ليت شعري هَل انْتقل مِنْبَر الْجَامِع إلى دَاخل قلعة دمشق ؟
وَالْحَال أَن الشَّيْخ رَحمَه الله لما دخل القلعة الْمَذْكُورَة فِي التَّارِيخ الْمَذْكُور لم يخرج مِنْهَا إلا على النعش، وَكَذَا ذكر الْحَافِظ عماد الدّين ابن كثير فِي تَارِيخه
انتهى من " توضيح المقاصد" (1/ 498) .
توضیح المقاصد کو مکتبہ شاملہ کیلئے ڈاؤن کریں
اس عبارت میں شیخ رحمہ اللہ نے ابن بطوطہ کو : کاذب ، کذاب ، مفتری ، بے حیا ، قرار دیا ہے ، "
اور یقیناً شیخ رحمہ اللہ جھوٹ اور غلطی کا فرق سمجھتے ہوں گے ، کیونکہ وہ دین کے عالم ہونے کے ساتھ قاضی بھی تھے ،
ابن بطوطہ کا ذکر حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے الدرر الکامنہ میں اور علامہ زبیدیؒ نے تاج العروس میں کیا ہے۔ حافظؒ نے ابن الجزی پر بلقینیؒ کی جرح کا ذکر کر کے ابن مرزوق سے ان کی براءت کا ذکر کیا ہے لیکن ابن بطوطہ پر کسی قسم کا کذب کا اتہام نہیں لگایا۔ بلکہ یوں کہیے کہ بلقینیؒ نے بھی ابن الجزی پر کذب کا الزام لگایا ہے لیکن ابن بطوطہ کو کچھ نہیں کہا۔ زبیدیؒ نے ابن بطوطہ کو اچھے الفاظ سے یاد کیا ہے اور کہا ہے الامام المؤرخ الرحال۔ جھوٹا اور کذاب انہوں نے بھی نہیں سمجھا۔
ماضی قریب میں علامہ زرکلی نے ابن بطوطہ اور اس کے اسفار کا ذکر کیا ہے لیکن جھوٹ کی تہمت نہیں لگائی۔ اسی طرح ڈاکٹر زکی محمد الحسن نے الرحالۃ المسلمون میں نہ صرف ابن بطوطہ کا ذکر کیا ہے بلکہ ان پر لگنے والے بعض الزامات کا دفاع بھی کیا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ کذب کا تو الزام ہی نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ابن بطوطہ کو اتنی اہمیت بھی نہیں دینی چاہیے کہ اس کی بات کی بناء پر ہم مسلمانوں کے ایک نامی گرامی عالم اور ایک عظیم شخص پر جرح کرنے لگ جائیں کیوں کہ ابن بطوطہ اس حیثیت کے آدمی نہیں ہیں۔ وہ ایک سیاح اور ایک عام سے مورخ ہیں اگرچہ وہ خود بھی کچھ عرصہ قاضی رہے ہیں لیکن پھر بھی ان کی حیثیت ایک سیاح کی سی ہے۔ دوسری جانب ان کی ایک غلطی کی بنا پر انہیں اتنا بھی نہیں گرانا چاہیے کہ بالکل کذاب اور مفتری کے مرتبے تک جا پہنچائیں۔ یہ کام کرنا ہوتا تو ابن حجرؒ اور زبیدیؒ پہلے کر لیتے۔ ہر شخص اور ہر چیز کو اس کے مرتبے میں رکھنا چاہیے۔
اگر امام ابن تیمیہؒ کا اس موضوع پر ایک لفظ بھی نہ ہوتا تب بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں ابن بطوطہ جیسے شخص کی بات پر مجروح نہیں کیا جا سکتا۔ ابن بطوطہ ایک سیاح تھے۔ لاتعداد اسفار اور بے شمار ملک اور نام ان کے ذہن میں بھرے ہوئے تھے۔ ایسے شخص سے اس قسم کی باتوں میں غلطی بآسانی ممکن ہے۔ جب ایک جانب اکابر علماء کرام ایک شخص کی تعریف کر رہے ہوں اور دوسری جانب ایسا ایک سیاح ہو تو ظاہر ہے کہ علماء کرام کی بات کو ترجیح ہوگی۔ابن بطوطہ نے جس مسئلہ پر شیخ الاسلام پر افترا کیا وہ ہے روزانہ رات اللہ رب العزت کا نزول
امام صاحب کا عقیدہ و موقف اس مسئلہ پر سمجھنے ،جاننے کیلئے خود انہی کی کتاب سب سے بہترین ذریعہ ہے
کتاب کا نام ہے شرح حدیث النزول ۔۔ جو یہاں سے ڈاؤن لوڈ کریں