• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سفرنامہ ابن بطوطہ کی ایک حکایت اور ابن تیمیہ کے موقف کی وضاحت

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
ابن بطوطہ نے یہ سفر نامہ خود نہیں لکھا ،اس سفرنامے کو جمع کرنے اور لکھنے والا ابو عبداللہ الجزی الکلبی ہے ،جس پرامام بلقینی نے کذاب اور وضاع ہونے کا حکم لگایا ہے۔ (الدررالکامنہ فی اعیان الما ئة الثامنة: جلد 5 / صفحہ 227 / ناشر: مجلس دائرة المعارف العثمانیة)۔
کاتب ابن جزی نے یہ سفر نامہ ابن بطوطہ سے براہ راست سن کر مرتب کیا ہے ۔ البتہ اپنی طرف سے اس میں اضافے بھی کیے ہیں ۔
ابن بطوطہ کا سفرنامہ ملک فأس ابو عنان المرینی کے کاتب خاص ابن جزی نے ابن بطوطہ سے براہ راست تمام تفصیلات سن کر مرتب کیا ہے ( أزہار الریاض ج3 ص 195 ) ۔ ابن جزی چونکہ بذات خود شاعر او رصاحب طرز ادیب تھا لہذا اس نے موقعہ کی مناسبت سے اپنی طرف سے بھی اضافات کیے ہیں اور کئی چیزیں ابن جبیر کے رحلہ سے نقل کی ہیں ۔ ایک مہم جو مسافر کی بیان کردہ حکایات اور صاحب ذوق ادیب و شاعر کی ملمع کاریوں نے اس سفرنامے کو بڑا مقام عطا کیا ہے لہذا یورپ میں ابن بطوطہ کو دنیائے سیاحت کا رئیس تصور کیا جاتا ہے ۔
آپ کا یہ مضمون کچھ دیر پہلے پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا ۔ ماشاء اللہ عمدہ ہے ۔ لیکن جب میں نے یہ تحریر مرتب کی تھی اس وقت نظروں سے نہیں گزرا ورنہ آپ سے استفادہ ضرور کرتے ۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
شیخ کفایت نے بھی اس موضوع پر یہاں فورم پر لکھا ہے


لکھنوی صاحب نے تو بدتمیزی اوربے حیائی کے سارے حدود پارکرتے ہوئے ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے متعلق واضح طور پر من گھڑت اورجھوٹی باتوں تک کو نقل کردیا ہے ،مثلا ابن بطوطہ کذاب کی بات نقل کرتے ہوئے لغوطراز ہیں:
وقال المورخ المغربي ابو عبد الله محمد الشهير بان بطوطة في رحلته المسماة بتحفة النظار في غرغائب المصار عند ذكر معالم دمشق وفصلائه وكان بدمشق الفقهاء الحنابلة تقي الدين ابن تيمية كبير الشام يتكلم في الفنون الا ان في عقله شيئاً وكان اهل دمشق يعظمونه اشد التعظيم ويعظهم على المنبر انتهى ثم ذكر بعض مقالته وأنه حضر مجلس وعظم يوم الجمعة فقال في وعظه ان الله ينزل الى سماء الدنيا كنزولي هذا ونزل درجه من درج المنبر فانكر عليه ذلك [إمام الكلام في القراءة خلف الإمام 3/ 14]
عرض ہے کہ ابن بطوطہ کے حوالہ سے موصف نے یہ حوالہ نقل کرکے بہت بری خیانت کا ثبوت دیا ہے ۔
یادرہے کہ ابن بطوطہ کی محولہ کتاب پوری کی پوری غیر معتبرہے اس کتاب کو ابن بطوطہ نے خود نہیں لکھا بلکہ اس کا مصنف ایک دوسرا شخص ہے اوراسے کذاب کہا گیا ہے :
حافظ ابن حجررحمہ اللہ کہتے ہیں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابو عبد الله ابن بطوطة ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قال شيخنا ابو البركات ابن البلفيقي حدثنا بغرائب مما رآه فمن ذلك انه زعم انه دخل القسطنطينيه فرآى في كنيستها اثني عشر الف اسقف ثم انتقل الى العدوة ودخل بلاد السودان ثم استدعاه صاحب فاس وامره بتدوين رحلته - انتهى وقرأت بخط ابن مرزوق ان ابا عبد الله بن جزي نمقها وحررها بامر السلطان ابي عنان[الدرر الكامنة لابن حجر: 5/ 227]۔
معلوم ہوا کہ اس سفرنامہ کو لکھنے والا ابن بطوطہ نہیں بلکہ ''ابوعبداللہ بن جزی '' ہے ۔
اوراس شخص کو کذاب کہا گیا ہے ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقرأت بخط ابن مرزوق ان ابا عبد الله بن جزي نمقها وحررها بامر السلطان ابي عنان وكان البلفيقي رماه بالكذب فبرأه ابن مرزوق [الدرر الكامنة لابن حجر: 5/ 227]۔
جرح و تعدیل میں تعارض ہو توجرح کو مقدم کیا جاتاہے ابن زجی کو کذاب کہی جانے والی بات جرح ہونے کے ساتھ ساتھ مفسربھی ہے لہٰذا یہی مقدم ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ یہ پوری کتاب ہی غیر معتبر ہے ۔
نیز خود ابن بطوطہ کو بھی کذاب کہا گیا ہے ۔
علامہ ابن خلدون الإشبيلي (المتوفى: 808)نے کہا:
فتناحى النّاس بتكذيبه ولقيت أيّامئذ وزير السّلطان فارس بن وردار البعيد الصّيت ففاوضته في هذا الشّأن وأريته إنكار أخبار ذلك الرّجل لما استفاض في النّاس من تكذيبه[تاريخ ابن خلدون 1/ 228]۔
ابن بطوطہ کی مذکورہ بکواس بھی اس کے کذاب ہونے کی دلیل ہے کیونکہ :
ابن بطوطہ نو رمضان ٧٢٦ ھ كو جمعرات كے دن دمشق پہنچا تھا جیساکہ اس نے خود بیان کیا ہے:
وخرجت منها بالغد لفرط اشتياقي إلى دمشق. وصلت يوم الخميس التاسع من شهر رمضان المعظم عام ستة وعشرين إلى مدينة الشام فنزلت منها بمدرسة المالكية المعروفة بالشرابشية ودمشق هي التي تفضل جميع البلاد حسنا وتقدمها جمالا [رحلة ابن بطوطة ط دار الشرق العربي 1/ 62]۔
اور امام ابن تيميہ اس سے ایک ماہ قبل 6 شعبان ، 726 ھ كو قلعهء دمشق ميں مجبوس ہو چکے تھے ۔ اور اسى قيد ميں ان كا انتقال ہوا ، دیکھئے طبقات الحنابلة 2/ 405 البداية والنهاية 14/ 123 العقود الدرية 329. ۔
اب سوال یہ ہے کہ جب دمشق میں ابن بطوطہ کے ورود سے ایک ماہ قبل ہی ابن تیمیہ رحمہ اللہ قید میں محبوس ہوگئے اوراسی حالات میں فوت بھی ہوگئے تو ابن بطوطہ نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو خطبہ دیتے ہوئے کیسے دیکھا لیا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
کیا یہ بیان ابن بطوطہ کے کذاب ہونے کی دلیل نہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
نیز کہاجاتا ہے کہ ابن بطوطہ سے پہلے '' أبو علي ، عمر بن محمد بن حمد بن خليل السكوني (المتوفی 717)'' نے بھی مذکورہ بات ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کی ہے ، واللہ اعلم۔
عبد العزيز بن محمد بن علي آل عبد اللطيف لکھتے ہیں:
وقد اشتهرت هذه المقولة عن ابن بطوطة (متوفی ٧٧٩)، وهي تنسب - أيضاً - إلى أبي علي السكوني ، وأنه نسبها إلى ابن تيمية عزّ وجل قبل ابن بطوطة (متوفی ٧٧٩).[ دعاوى المناوئين لشيخ الإسلام ابن تيمية (1/ 140)]۔
لگتاہے کہ یہ جھوٹ سب سے پہلے أبو علي السكوني (المتوفی 717) نے بولا۔
پھر ابن بطوطہ (المتوفى: 779 ) نے اس کی تائید میں اپنا ایک مشاہدہ گڑھ لیا اوراپنے سفرنامہ میں بیان کردیا۔
پھر ابو عبد الله بن جزي نے بھی بغیر کسی تدبر کے اسے تحریر کردیا۔
اورپھر مولوی لکنوی جیسے لوگوں نے بھی ان کذابین کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اسے بیان کرنا اپنا فرض سمجھا۔
گویا کہ مذکورہ بات کو ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرنے میں کئی کذابین نے حصہ لیا ہے اوراسی کذب بیانی میں مولوی لکھنوی نے بھی ان کا ساتھ دیا ہے ، { لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ } [آل عمران: 61]
ابن بطوطہ کی اس بکواس کے بارے میں جاننے کے لئے درج ذیل موضوعات بھی دیکھ لیں۔
امام ابن تيميہ رحمہ اللہ پر ايک افترا والا قصہ - URDU MAJLIS FORUM
امام ابن تيمیہ (رح) پر لگائے گئے ايك بہتان كى حقيقت - URDU MAJLIS FORUM
http://forum.mohaddis.com/threads/کیا-شیخ-الاسلام-ابن-تیمہ-رحمہ-اللہ-کے-مزاج-میں-شدت-تھی-؟.9011/page-5
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اصل میں یہ تحریر ایک طویل مضمون (جو شاید قیامت تک مکمل ہوجائے ۔ مسکراہٹ ) کا حصہ ہے جو مولانا سعید احمد پالن پوری کی ایک تقریر ’’ اصلی سلفی اور آج کے سلفی ‘‘ (تحریری شکل میں موجود ہے ۔ ) کا جائزہ لینے کے لیے شروع کیا تھا ۔
کفایت اللہ بھائی کی ابن تیمیہ کی حدت یا شدت والے عنوان کے تحت تقریبا ساری شراکتیں میں پڑھتا رہا ہوں اور غالبا اس کے بعد ہی میں نے یہ تحریر لکھی ہے ۔ لیکن اس وقت لکھنے کے شوق اور تحقیق کے ذوق میں کچھ یاد نہیں رہا اس لیے کافی محنت کرنا پڑی تھی ۔ اگر یہ تحاریر ذہن میں ہوتیں تو یقینا بہت سارا وقت بچ جاتا اور شاید یہ تحریر لکھنے کی نوبت نہ آتی ۔
لیکن الحمد للہ یہ ہوا ہے کہ اس واقعہ کے تعلق سے میری تحریر میں کچھ باتیں نئی آگئی ہیں جو پہلی تحاریر میں موجود نہیں ۔
 

Urdu

رکن
شمولیت
مئی 14، 2011
پیغامات
199
ری ایکشن اسکور
341
پوائنٹ
76
اصل میں یہ تحریر ایک طویل مضمون (جو شاید قیامت تک مکمل ہوجائے ۔ مسکراہٹ ) کا حصہ ہے جو مولانا سعید احمد پالن پوری کی ایک تقریر '' اصلی سلفی اور آج کے سلفی '' (تحریری شکل میں موجود ہے ۔ ) کا جائزہ لینے کے لیے شروع کیا تھا ۔
یہی مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب ،دارلعلوم دیوبندمیں مشہور علمی شخصیت اور سلفی عالم دین فضیلتہ الشیخ حافظ جلال الدین قاسمی حفظہ اللہ کے بخاری ،ترمذی اور طحاوی کے استاذ رہ چکے ہیں۔
(معاف کیجیے گا میں سوئے اتفاق کا لفظ استعمال نہیں کر سکتا،کیونکہ ابھی حال ہی میں مجھے پتہ چلا ہے کہ اسطرح کہنا صحیح نہیں ہے۔)
محترم خضر صاحب ،آپکی تحقیقی تحاریر بیشک پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔اور ہمارے علم میں اضافہ کیا کرتی ہیں۔اللہ آپکی کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے اور آپکو اس کا بہتر اجر دے۔ آمین
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
محترم خضر صاحب ،آپکی تحقیقی تحاریر بیشک پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔اور ہمارے علم میں اضافہ کیا کرتی ہیں۔اللہ آپکی کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے اور آپکو اس کا بہتر اجر دے۔ آمین
شكرا و جزاكم الله خيرا ۔

(معاف کیجیے گا میں سوئے اتفاق کا لفظ استعمال نہیں کر سکتا،کیونکہ ابھی حال ہی میں مجھے پتہ چلا ہے کہ اسطرح کہنا صحیح نہیں ہے۔)
ویسے مجھے ’’ حسن اتفاق ‘‘ اور ’’ سوئے اتفاق ‘‘ میں کوئی حرج ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ۔ بڑے بڑے علماء دین سے بھی سنا ہے ۔
اس بارے مزید ذرا وضاحت فرمائیے گا ۔ ممکن ہے ہمیں اپنی غلطی درست کرنے کا موقعہ مل جائے ۔
 

Urdu

رکن
شمولیت
مئی 14، 2011
پیغامات
199
ری ایکشن اسکور
341
پوائنٹ
76
میں نے شیخ قاسمی حفظہ اللہ کے حالیہ بیان میں سنا تھا۔الفاظ ٹھیک سے یاد نہیں۔میں ایک بار دوبارہ سن کر یہاں لکھنے کی جسارت کرسکوں گا۔ایک درمیانی کوالیٹی میں شیخ حفظہ اللہ کا حالیہ خطاب تفسیر سورۃ العصر دستیاب ہے۔آپ اس میں اس تعلق سے سماعت کر سکتے ہیں۔
پارٹ1
پارٹ 2
پارٹ 3
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
یہ مضمون اسی عنوان سے انڈیا کے ایک معروف ادارے جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے ماہنامہ طوبی کے مارچ ( 2016ء ) کے شمارے میں بھی چھپا ہے ۔
شاید دو سال پہلے @سرفراز فیضی صاحب نے ایک رسالے ’’ اذان ‘‘ میں چھپنے کا بھی بتایا تھا ، البتہ وہ میری نظر سے نہیں گزرا ۔
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ.
کمنٹ کرنے کے لۓ شکریہ شیخ محترم.
آپ کے کمنٹ سے الحمد للہ یہ مضمون پڑھنے کو ملا. اور پڑھ کر الحمد للہ علم میں اضافہ ھوا.
آپ نے بہت اچھے انداز میں وضاحت کی.
جزاک اللہ خیرا.
اللہ آپکو مزید توفیق عطا فرماۓ اور آپکی کوششوں اور کاوشوں کو شرف قبولیت بخشے.
والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
مولانا عطاء اللہ بھوجیانی نے حیات ابن تیمیہ از ابو زہرہ کے آخر میں بطور ضمیمہ ( ص نمبر 793 تا 798 )اس پر ایک تحریر لکھی ہے ، جس کا عنوان ہے :
ابن بطوطہ سیاح کی ایک غلط فہمی اور اس کی تحقیق
چند صفحات میں سمندر سمودیا ہے ، اس وقت جب کمپیوٹر پر انٹرنیٹ اور شاملہ وغیرہ کا نام نشان نہیں تھا ، اس انداز سے جامع اور مختصر مضمون مکمل حوالہ جات کے ساتھ ترتیب دے دینا ، اس بات کی دلیل ہے کہ مولانا جس موضوع پر لکھتے ،مصادر و مراجع میں موجود اس کے مالہ و ما علیہ مولانا کی نظر میں ہوتے تھے ، جیسا کہ شیخ عزیر شمس صاحب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے ۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
 
Last edited:
Top