• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
الدُّبَّاءِ يُكْثِرُ الدِّمَاغَ وَ يَزِيدُ فِي الْعَقْلِ وَ يَشُدُّ قَلْبَ الْحَزِينِ
کدّو دماغ کو بڑھاتا، عقل میں اضافہ کرتا، اور غمگین کے دل کو مضبوط کرتا ہے۔


١٦٠٨- قال أبو الشيخ الأصبهاني: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أُسَيْدٍ الثَّقَفِيُّ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَنْبَسَةَ حَدَّثَنَا «نَصْرُ بْنُ حَمَّادٍ» حَدَّثَنَا «يَحْيَى بْنُ الْعَلَاءِ» عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ سَمِعْتُ أَنَسًا قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ مِنْ أَكْلِ الدُّبَّاءِ، فَقُلْتُ يَارَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ تُكْثِرُ مِنْ أَكْلِ الدُّبَّاءِ قَالَ: «إِنَّهُ يُكْثِرُ الدِّمَاغَ وَ يَزِيدُ فِي الْعَقْلِ»

ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کدو بہت زیادہ کھاتے تھے تو میں نے کہا: اے اللہ کے رسول ﷺ ( کیا وجہ ہے) آپ کدو بہت زیادہ کھاتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دماغ کو بڑھاتا ہے اور عقل میں اضافہ کرتا ہے۔

تخريج: أخلاق النبي وآدابه لأبِي الشيخ الأصبهاني (٦٧٠) (المتوفى: ٣٦٩هـ)؛ (موضوع)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند موضوع ہے، اس کی علت نصر بن حماد اور یحیٰی بن علاء ہیں، دونوں کذاب ہیں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٥١٠- قال الطبراني: حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ حَدَّثَنَا «عَمْرُو بْنُ الْحُصَيْنِ» حَدَّثَنَا «مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُلَاثَةَ» عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ وَاثِلَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«عَلَيْكُمْ بِالْقَرْعِ فَإِنَّهُ يَزِيدُ فِي الدِّمَاغِ، وَعَلَيْكُمْ بِالْعَدَسِ فَإِنَّهُ قُدِّسَ عَلَى لِسَانِ سَبْعِينَ نَبِيًّا»
ترجمہ: تم کدو کو لازم پکڑو کیونکہ یہ دماغ کو بڑھاتا ہے، اور مسور کو لازم پکڑو کیونکہ اس کی پاکی ستر (٧٠) انبیاء کی زبان سے بیان کی گئی ہے۔
تخريج: المعجم الكبير و مسند الشاميين (٤٥٧، ٣٤٠٠) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ الطب النبوي لأبي نعيم الأصبهاني (٦٦٨، ٦٨٧) (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ جزء من الأمالي لأبي موسى المديني (المتوفى: ٥٨١ھ)؛ (موضوع)

یہ سند موضوع ہے، عمرو بن حصین کذاب اور اس کا شیخ ابن علاثہ ضعیف ہے جیسا کہ کئی مرتبہ گزر چکا ہے۔ آخری مرتبہ حدیث نمبر: ٤٢٥ کے تحت گزر چکا ہے۔
سیوطی نے اس حدیث کو " الجامع الصغير " میں ذکر کر کے ٹھیک نہیں کیا جیسا کہ اس پر حدیث نمبر: ٤٠ کے تحت تنبیہ گزر چکی ہے۔ الغرض یہاں کلام پہلے جملے پر کرنا ہے، یعنی «عَلَيْكُمْ بِالْقَرْعِ فَإِنَّهُ يَزِيدُ فِي الدِّمَاغِ»
سیوطی نے اس حدیث کو بیہقی کی مرسل روایت کی طرف منسوب کیا ہے، ان کا تعقب مناوی رحمہ اللّٰہ نے کیا ہے اور کہا ہے کہ "بیہقی کی سند میں مخلد بن قریش کا تعارف لسان المیزان میں ہے اور ابن حبان نے "الثقات" میں کہا ہے کہ وہ غلطی کرتا تھا
شیخ البانی: اگر یہ سند مرسل نہیں بھی ہوتی تو یہ ضعیف تو ہے، اور دل اس کے متن کے موضوع ہونے کی طرف بھی مائل ہو رہا ہے۔ و اللہ اعلم
پھر جب ہمیں شعب الایمان میں موجود اس کی سند کا علم ہوا تو معلوم ہوا کہ اس میں ایک دوسری علت بھی ہے، شعب الایمان (حدیث نمبر: ٥٥٤٧) کی روایت درج ذیل ہے:
قال البيهقي: أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الْحَافِظُ وَمُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى قَالَا حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ هُوَ الْأَصَمُّ أَخْبَرَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ حَدَّثَنَا «مَخْلَدُ بْنُ قُرَيْشٍ» أَخْبَرَنَا «عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ دَلْهَمٍ» عَنْ عَطَاءٍ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «عَلَيْكُمْ بِالْقَرْعِ فَإِنَّهُ يَزِيدُ فِي الْعَقْلِ وَ يُكَبِّرُ الدِّمَاغَ»

ترجمہ: کدو کو لازم کر لو کیونکہ وہ عقل بڑھاتا اور دماغ کو بڑا کرتا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: جتنی میرے پاس کتب ہیں ان میں مجھے عبدالرحمن بن دلہم کا تعارف نہیں ملا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٦٩٣٥- قال أبو بكر الشافعي: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْأَنْمَاطِيُّ حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ عَلِيٍّ النَّوْفَلِيُّ حَدَّثَنَا «عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ قُدَامَةَ» حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَائِشَةُ، إِذَا طَبَخْتِ فَأَكْثِرِي فِيهِ الدُّبَّاءَ، فَإِنَّهُ يَشُدُّ قَلْبَ الْحَزِينِ»

ترجمہ: اے عائشہ! جب تو (سالن) پکا تو اس میں کدو زیادہ ڈال کیونکہ وہ پریشان دل کو تقویت پہنچاتا ہے۔

تخريج: كتاب الفوائد (الغيلانيات) لأبي بكر الشافعي (٩٥٦، ٩٥٧) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: سند میں عبداللّٰہ بن محمد بن قدامہ ہے، اس راوی کی نسبت ابن قدامہ صحیح نہیں ہے، کہا گیا ہے کہ ان کا نام عبداللّٰہ بن محمد بن علی بن نفیل ابو جعفر نفیلی حرانی ہے اور وہ ثقہ، ابو داود رحمہ اللّٰہ کے شیوخ میں سے ہے، ابو داود رحمہ اللّٰہ نے ان سے بہت ساری احادیث روایت کی ہیں، ان کا تعارف " الإكمال " میں موجود ہے اور اس میں ہے کہ ان سے بخاری اور سنن اربعہ کے مؤلفین نے روایت کی ہے لیکن جب ان سے روایت کرنے والوں کے نام گنائے ہیں تو اس میں امام بخاری کا ذکر نہیں کیا، لیکن صالح بن علی نوفلی جو اس سند میں ہے ان کا ذکر کیا ہے۔
شیخ البانی: میرے پاس موجود کتب میں مجھے عبداللہ بن محمد بن قدامہ کا تعارف نہیں ملا۔
حافظ عراقی " تخريج الإحياء " میں کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ابو بکر شافعی نے فوائد میں روایت کیا ہے اور یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
اس حدیث کو ابو بکر شافعی نے اور دو سندوں سے روایت کیا ہے:

قال أبو بكر الشافعي: حَدَّثَنِي ابْنُ يَاسِينَ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ وَاقِدٍ أَبُو مُسْلِمٍ الْوَاقِدِيُّ حَدَّثَنَا «يَحْيَى بْنُ عُقْبَةَ» عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ
وَ حَدَّثَنِي ابْنُ يَاسِينَ قَالَ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْخَبَّازِ حَدَّثَنَا عَمَّارُ بْنُ نَصْرٍ أَبُو يَاسِرٍ حَدَّثَنَا «بَقِيَّةُ بْنُ الْوَلِيدِ» عَنْ «يَعْقُوبَ بْنِ يُوسُفَ بْنِ صَدَقَةَ» عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ جَمِيعًا قَالَا: عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ وَهَذَا اللَّفْظُ لِلْوَاقِدِيِّ قَالَتْ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا عَائِشَةُ إِذَا طَبَخْتُمْ قِدْرًا، فَأَكْثِرُوا فِيهَا مِنَ الدُّبَّاءِ، فَإِنَّهُ يَشُدُّ قَلْبَ الْحَزِينِ»

(پہلی سند میں) یحیٰی بن عقبہ ( ابن ابی عیزار) کے متعلق ابو حاتم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں وہ حدیث گھڑتا تھا، اس کی روایت سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ حدیث ضعیف ہی رہے گی جیسا کہ عراقی رحمہ اللّٰہ نے تصریح کی ہے۔

[مترجم: دوسری سند کے متعلق ابو بکر شافعی کی کتاب کے محقق دکتور مرزوق کہتے ہیں کہ اس میں بقیہ بن ولید کثیر التدلیس ہے اور یعقوب بن یوسف بن صدقہ کو میں نہیں جانتا]۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: اس تخریج کو مؤلف نے اپنی بیٹی ام عبداللہ کو ١٧ رمضان ١٤١٨ هـ کے دن اپنی سخت بیماری میں املا کروایا ہے اور اللہ سے امید ہے کہ وہ مؤلف کو مکمل عافیت دے اور ان کی بہترین علمی نشاط جو پہلے تھی پھر سے لوٹائے۔
اگر آپ اس املے میں کوئی علمی غلطی پائیں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، کیونکہ معاملہ ویسا ہی ہے جیسا کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: "كل بني آدم خطاء ... " ہر بنی آدم خطاکار ہے..." جب کہ املا کروانے والا اپنے شدید مرض میں ہے، اور اللہ تعالیٰ کہتا ہے: {لَّيْسَ عَلَى ٱلْأَعْمَىٰ حَرَجٌ۬ وَلَا عَلَى ٱلْأَعْرَجِ حَرَجٌ۬ وَلَا عَلَى ٱلْمَرِيضِ حَرَجٌ۬..... } ﴿ سورہ نور: ٦١﴾ ( اندھے پر کوئی حرج نہیں اور نہ ہی لنگڑے اور مریض پر کوئی حرج ہے)۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
بَابُ ثَلَاثٍ مَنِ ادَّانَ فِيهِنَّ قَضَى اللَّهُ عَنْهُ
جو ان تین وجوہات سے مقروض ہو جائے اللہ تعالیٰ اس کا قرض ادا کر دے گا۔


٥٤٨٣- قال ابن راهويه: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ أَخْبَرَنَا «الْإِفْرِيقِيُّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زِيَادِ بْنِ أَنْعَمَ» عَنْ «عِمْرَانَ بْنِ عَبْدٍ الْمَعَافِرِيِّ» عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِنَّ الدَّيْنَ يُقْبَضُ مِنْ صَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا مَاتَ وَلَمْ يَقْضِهِ إِلَّا مَنْ يَدِينُ فِي ثَلَاثٍ: رَجُلٌ تَذْهَبُ قُوَّتُهُ فَيَدِينُ مَا يُنْفِقُ بِهِ عَلَى عَدُوِّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ فَمَاتَ وَلَمْ يَقْضِهِ، وَرَجُلٌ مَاتَ عِنْدَهُ مُسْلِمٌ فَلَمْ يَجِدْ مَا يُكَفِّنُهُ إِلَّا بِدَيْنٍ فَمَاتَ وَلَمْ يَقْضِهِ، وَرَجُلٌ خَافَ عَلَى نَفْسِهِ الْعُزْبَةَ وَلَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ مَا يَتَزَوَّجُ فَاسْتَدَانَ فَتَزَوَّجَ لِيُعِفَّ نَفْسَهُ خَشْيَةً عَلَى دِينِهِ فَاللَّهُ يَقْضِي عَنْ هَؤُلَاءِ الدَّيْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»

ترجمہ: جب مقروض مر جائے تو قیامت کے دن اس سے قرض کی ادائیگی ضرور کرائی جائے گی سوائے اس کے کہ اس نے تین باتوں میں سے کسی وجہ سے قرض لیا ہو،
ایک وہ جس کی قوت چلی جائے تو وہ قرض لے جس میں سے وہ اللہ اور اس کے رسول کے دشمن کے خلاف خرچ کر سکے، یہاں تک کہ وہ فوت ہو جائے اور قرض ادا نہ کر سکے۔ دوسرا ایسا شخص جس کے پاس کوئی مسلم مر جائے اس کے پاس سوائے قرض لے کر اسے دفن کرنے کے کوئی راستہ نہ ہو ( قرض لینے کے بعد) مر جائے اور قرض ادا نہ کر سکے۔ تیسرا ایسا شخص جو مجرد ( بغیر شادی کے) رہنے سے ( گناہ میں پڑنے سے) ڈرتا ہو اور اس کے پاس نکاح کے لئے کچھ نہ ہو تو وہ قرض لے کر نکاح کر لے تا کہ اپنے نفس کو گناہ سے بچا سکے۔ ان تین قسم کے لوگوں کا قرض اللہ تعالیٰ قیامت کے دن خود ادا کرے گا۔
تخريج: مسند إسحاق بن راهويه (١٠٦٤) (المتوفى: ٢٣٨هـ)؛ المنتخب من مسند عبد بن حُميد (٣٤٩) (المتوفى: ٢٤٩ھ)؛ سنن ابن ماجه (٢٤٣٥) (المتوفى: ٢٧٣ھ)؛ المعرفة والتاريخ ليعقوب الفسوي (المتوفى: ٢٧٧هـ)؛ كشف الأستار عن زوائد البزار (١٣٤٠) (المتوفى: ٢٩٢ھ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (٥١٧٠، ٥١٧١) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ (ضعيف)

[مترجم: شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو مسند ابی یعلیٰ کی طرف بھی منسوب کیا ہے لیکن مجھے یہ مسند ابی یعلیٰ میں نہیں ملی]۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند افریقی اور اس کے شیخ عمران کی وجہ سے ضعیف ہے، عمران کو ابن معین نے ضعیف کہا ہے اور ان کی متابعت حافظ ابن حجر نے کی ہے اور فسوی کی توثیق کی طرف التفات نہیں کیا۔ اسی طرح ذہبی رحمہ اللّٰہ نے بھی "الكاشف" میں اسے لین الحدیث کہا ہے۔
ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے مسند بزار کی روایت کی علت صرف افریقی کو بتایا ہے۔ یہ واضح تقصیر ہے جس کی تقلید شیخ حبیب الرحمن اعظمی نے کشف الاستار پر اپنی تعلیق میں کی ہے جیسا کہ ان کی عادت ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
١٩٨٥- قال الإمام أحمد: حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ عَنْ «ثُوَيْرٍ» عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:
«إِنَّ أَدْنَى أَهْلِ الْجَنَّةِ مَنْزِلَةً الَّذِي يَنْظُرُ إِلَى جِنَانِهِ وَنَعِيمِهِ وَخَدَمِهِ وَسُرُرِهِ مِنْ مَسِيرَةِ أَلْفِ سَنَةٍ، وَإِنَّ أَكْرَمَهُمْ عَلَى اللهِ مَنْ يَنْظُرُ إِلَى وَجْهِهِ غُدْوَةً وَعَشِيَّةً، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} [القيامة: ٢٣]
ترجمہ: سب سے کم تر درجے کا جنتی وہ ہو گا جو اپنے باغات، بیویوں، نعمتوں، خادموں اور تختوں کی طرف ایک ہزار سال کی مسافت سے دیکھے گا، اور اللہ کے پاس سب سے مکرم وہ ہو گا جو اللہ کے چہرے کی طرف صبح و شام دیکھے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی {وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَاضِرَةٌ إِلَى رَبِّهَا نَاظِرَةٌ} ”اس دن بہت سے چہرے تر و تازہ اور بارونق ہوں گے، اپنے رب کی طرف دیکھتے ہوں گے“ ( القیامۃ: ۲۲، ۲۳ )۔
۩تخريج: مسند أحمد (٥٣١٧) (المتوفى: ٢٤١هـ)؛ المنتخب من مسند عبد بن حميد (٨١٩) (المتوفى: ٢٤٩هـ)؛ سنن الترمذي (٢٥٥٣، ٣٣٣٠) (المتوفى: ٢٧٩هـ)؛ صفة الجنة لابن أبي الدنيا (٩٣) (المتوفى: ٢٨١هـ)؛ مسند أبو يعلى (٥٧١٢) (المتوفى: ٣٠٧هـ)؛ تفسير الطبري (المتوفى: ٣١٠هـ)؛ الشريعة للآجُرِّيّ (٦٢٠) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ مستدرك الحاكم (٣٨٨٠) (المتوفى: ٤٠٥ھ)؛ رؤية الله لابن النحاس (١٠) (المتوفى: ٤١٦هـ)؛ موضح أوهام الجمع والتفريق للخطيب البغدادي (في ترجمة ١٠٥ - ثُوَيْر بن أبي فَاخِتَة الْكُوفِي) (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ البعث والنشور للبيهقي (٤٣٢) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ شرح السنة (٤٣٩٥، ٤٣٩٦) و تفسير البغوي (المتوفى: ٥١٦هـ)؛ (ضعيف)

حديث عبد الله القطان عن الحسن بن عرفة؛ الرؤية لابن الأعرابي؛ الفوائد المنتقاة لأبي بكر بن سلمان الفقيه [شیخ البانی نے ان کتب کا بھی ذکر کیا ہے لیکن مجھے یہ کتب نہیں ملی]
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: امام حاکم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث بدعتوں پر رد کے لئے واضح دلیل ہے، راوی ثویر سے اگرچہ شیخین نے روایت نہیں کی لیکن اس پر سوائے تشیع کے اور کوئی الزام نہیں ہے۔ امام ذہبی نے امام حاکم کا تعقب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ثویر "واہی الحدیث" ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں اس حدیث کو عبدالملک بن ابجر نے ثویر کے واسطہ سے ابن عمر سے موقوفاً روایت کیا ہے، اور عبیداللہ بن اشجعی نے سفیان سے، سفیان نے ثویر سے، ثویر نے مجاہد سے اور مجاہد نے ابن عمر سے ان کے اپنے قول کی حیثیت سے اسے غیر مرفوع روایت کیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: مسند احمد کی مرفوع سند میں ثویر ضعیف ہے جیسا کہ تقریب التہذیب میں ہے، اس لئے یہ حدیث نہ تو مرفوعاً صحیح ہے اور نہ ہی موقوفا صحیح ہے۔
بیہقی رحمہ اللّٰہ کی البعث و النشور میں یہ الفاظ زیادہ ہیں:
«وَإِنَّ أَفْضَلَهُمْ مَنْزِلَةً لَمَنْ يَنْظُرُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِي وَجْهِهِ فِي كُلِّ يَوْمٍ مَرَّتَيْنِ»
ترجمہ: جنتیوں میں سب سے اونچے درجے والا وہ ہے جو ہر دن اللہ تعالیٰ کے چہرے کی طرف دو مرتبہ دیکھے گا۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
فضل التسمية بمحمد و أحمد
محمد اور احمد نام رکھنے کی فضیلت


٢٣٦٧- قال ابن سعد: أَخْبَرَنَا مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْيَسَارِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا «مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُمَرِيُّ» عَنْ «أَبِيهِ» قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلّى الله عليه وسلم: «مَا ضَرَّ أَحَدَكُمْ لَوْ كَانَ فِي بَيْتِهِ مُحَمَّدٌ وَمُحَمَّدَانِ وَثَلَاثَةٌ»
ترجمہ: تم میں سے کسی کو کیا نقصان ہو گا اگر اس کے گھر میں محمد نام کے ایک، دو یا تین آدمی ہوں۔
تخريج: الطبقات الكبرى لابن سعد (المتوفى: ٢٣٠ھ)؛ (ضعيف)
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند ضعیف ہے، محمد بن عثمان عمری اور اس کے والد کو دونوں کو میں نہیں جانتا، مجھے یہ روایت مرسل لگ رہی ہے۔
مناوی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس کا والد "عثمان بن واقد بن محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر عمری مدنی ہے، ابن حجر رحمہ اللّٰہ نے تقریب التہذیب میں کہا ہے، صدوق راوی ہے، کبھی کبھی اسے شک ہو جاتا ہے"۔
مجھے مناوی کا یہ قول صحیح نہیں لگتا کیونکہ اس کے تعارف میں اس سے روایت کرنے والوں میں اس کے بیٹے کا ذکر نہیں کیا گیا۔ و اللہ اعلم
[مترجم: یہ حدیث حسین صیرفی (المتوفى: ٣٨٨هـ) کی کتاب "فضائل التسمية بأحمد ومحمد" میں بھی مروی ہے، اس کتاب کے محقق ابو مریم مجدی فتحی السید نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے، اس میں مبہم اور ضعیف رواۃ ہیں۔ اس کتاب کے مؤلف حسین صیرفی نے محمد اور احمد نام کے فضائل پر ٣٠ کے قریب احادیث جمع کی ہیں اس کے محقق نے اس کتاب کی تمام احادیث کو ضعیف یا موضوع قرار دیا ہے۔
اس حدیث کو ابن بشکوال (المتوفى: ٥٧٨ھ) نے اپنی کتاب "الآثار المروية في الأطعمة السرية" میں تعلیقًا ( بغیر مکمل سند کے) روایت کیا ہے]۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
مَا ضَحِكَ مِيكَائِيلُ مُنْذُ خُلِقَتِ النَّارُ
جب سے جہنم پیدا کی گئی میکائیل علیہ السلام کبھی نہیں ہنسے


٤٤٥٤- قال الإمام أحمد: حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ حَدَّثَنَا ابْنُ عَيَّاشٍ عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ سَمِعَ «حُمَيْدَ بْنَ عُبَيْدٍ مَوْلَى بَنِي الْمُعَلَّى» يَقُولُ سَمِعْتُ ثَابِتًا الْبُنَانِيَّ يُحَدِّثُ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ لِجِبْرِيلَ:
«مَا لِي لَمْ أَرَ مِيكَائِيلَ ضَاحِكًا قَطُّ؟ قَالَ مَا ضَحِكَ مِيكَائِيلُ مُنْذُ خُلِقَتِ النَّارُ»

ترجمہ: انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے جبرائیل سے پوچھا کیا بات ہے میں نے میکائیل کو کبھی ہنستے نہیں دیکھا؟ جبرائیل نے کہا: جب سے جہنم پیدا کی گئی میکائیل کبھی نہیں ہنسے۔

تخريج: مسند أحمد (١٣٣٤٣) و الزهد للإمام أحمد (٣٥٩) (المتوفى: ٢٤١ھ)؛ الرقة و البكاء (٤٠٨) و صفة النار ( ٢١٥، ٢١٩) لابن أبي الدنيا (المتوفى: ٢٨١ھ)؛ الشريعة للآجري (٩٣٢) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ العظمة لأبي الشيخ الأصبهاني (٣٨٤) (المتوفى: ٣٦٩ھ)؛ التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد لابن عبد البر (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٤٦٦١) (المتوفى: ٥٠٩ھ)؛ ذكر النار أجارنا الله منها لعبد الغني المقدسي (١٠٧، ١٠٨) (المتوفى: ٦٠٠ھ)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند ضعیف ہے، اس میں دو علتیں ہیں:
پہلی علت: حُمید مجہول ہے، تعجیل المنفعۃ میں ابن حجر رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں "لَا يدرى من هُوَ قلت هُوَ مدنِي من موَالِي الْأَنْصَار" (وہ نہیں جانتے کہ وہ کون ہے، میں کہتا ہوں کہ وہ مدنی، انصار کے موالی میں سے ہے)۔( یعنی ابن حجر نے اس کتاب میں جس کا تتبع کیا ہے وہ نہیں جانتے، لیکن حافظ ابن حجر کے قول سے کوئی جرح یا تعدیل ثابت نہیں ہوتی اس لئے حمید بن عبید مجہول ہی ہیں)۔

دوسری علت: اسماعیل بن عیاش کی مدنی شیوخ سے روایات میں ضعف ہے، اور یہ انہیں روایات میں سے ایک ہے۔

[مترجم: تخریج میں بیان کردہ تمام کتب کی اسانید کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عمارہ بن غزیہ انصاری سے تین راویوں ( مسند احمد وغیرہ کی سند میں) اسماعیل بن عیاش، (الرقة و البكاء لابن أبي الدنيا کی سند میں) یحیٰی بن ایوب اور ابن لہیعہ نے روایت کی ہے۔ عمارہ بن غزیہ انصاری نے حُمید سے روایت کی ہے، اکثر روایات میں حمید بن عبید مولیٰ بنی معلی ہے اور کچھ میں حمید الطویل ہے، جس میں حمید بن عبید ہے اس سند میں حمید نے ثابت بنانی سے روایت کی ہے اور جس سند میں حمید الطویل ہے اس میں انہوں نے بلا واسطہ انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ سے روایت کی ہے۔
معلوم ہوا کہ اسماعیل بن عیاش اس حدیث کو عمارہ بن غزیہ انصاری سے روایت کرنے میں منفرد نہیں ہے بلکہ ان کی متابعت یحیٰی بن ایوب اور ابن لہیعہ نے کی ہے۔ اس لئے اس سند کی علت صرف حمید کا مجہول ہونا ہی ہے۔ و اللہ اعلم

دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے "علل" میں اس حدیث کی سند کے اختلاف کو بیان کیا ہے، اگر آپ چاہیں تو وہاں دیکھ سکتے ہیں].

[ضعیفہ کے حاشیہ میں کتاب کے ناشر نے لکھا ہے کہ پھر شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کو اس حدیث کی دوسری سند اور شاہد روایت ملی تو انہوں نے اس حدیث کی تخریج صحیحہ، حدیث نمبر: ٢٥١١ پر کی ہے۔
مترجم: میں کہتا ہوں کہ شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے صحیحہ میں اس حدیث کو صحیح نہیں کہا ہے بلکہ اس میں طباعت کی واضح غلطی ہے، غلطی سے اس حدیث کا متن نقل کیا گیا ہے اور حدیث کو مسند رویانی، مستدرک حاکم اور سنن کبریٰ بیہقی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ حالانکہ یہ حدیث مسند رویانی وغیرہ میں ہرگز نہیں ہے، شیخ البانی رحمہ اللّٰہ نے جس حدیث کو صحیحہ میں صحیح کہا ہے وہ یہ حدیث ہے: «أَلَا أُنَبِّئُكُمْ بِلَيْلَةٍ أَفْضَلَ مِنْ لَيْلَةِ الْقَدْرِ، حَارِسُ الْحَرَسِ فِي أَرْضِ خَوْفٍ، لَعَلَّهُ أَنْ لَا يَرْجِعَ إِلَى أَهْلِهِ»]۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
أَزْوَاجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنَّةِ
جنت میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی بیویاں ( موضوع اور منکر روایت )


سلسلة الأحاديث الضعيفة و الموضوعة ( ٨١٢، ٥٨٨٥، ٧٠٥٣)

قال العقيلي: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ السُّوسِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا «عَبْدُ النُّورِ» حَدَّثَنَا «يُونُسُ بْنُ شُعَيْبٍ» عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ زَوَّجَنِي مَرْيَمَ ابْنَةَ عِمْرَانَ، وَكُلْثُومَ أُخْتَ مُوسَى، وَامْرَأَةَ فِرْعَوْنَ» قُلْتُ: هَنِيئًا لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ.

ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے میرا نکاح مریم بنت عمران، موسیٰ علیہ السلام کی بہن کلثوم اور فرعون کی بیوی سے ( جنت میں) کر دیا ہے۔
ابو امامہ رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو خوش خبری ہو۔

تخريج: الضعفاء الكبير للعقيلي (في ترجمة ٢٠٩٠ - يُونُسُ بْنُ شُعَيْبٍ) (المتوفى: ٣٢٢هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (٨٠٠٦) (من طريق أَبُو الرَّبِيعِ خَالِدُ بْنُ يُوسُفَ السَّمْتِيُّ) (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (من طريق إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمد بن عرعرة) (في ترجمة ٢٠٨٨- يُونُس بْن شُعَيب) (المتوفى: ٣٦٥ھ)؛ طبقات المحدثين بأصبهان و الواردين عليها لِأَبِي الشَّيْخِ الْأَصْبَهَانِيِّ (المتوفى: ٣٦٩ھ)؛ تاريخ أصبهان لأبي نعيم الأصبهاني (في ترجمة ١٥٢٩ - مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَمْرِو بْنِ هِشَامٍ الْأَبْهَرِيُّ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ) (المتوفى: ٤٣٠ھ)؛ موجبات الجنة لابن الفاخر (٤١٧، ٤١٨) (المتوفى: ٥٦٤ھ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١ھ)؛ (موضوع)

عقیلی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں: "یونس بن شعیب کی حدیث محفوظ نہیں ہے، مجھ سے آدم نے بیان کیا کہ امام بخاری نے یونس بن شعیب کو منکر الحدیث کہا ہے"۔
ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے بھی امام بخاری کا قول نقل کیا ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یونس سے روایت کرنے والا عبد النور بن عبداللہ اسی جیسا ہے یا پھر اس سے برا ہے، امام ذہبی نے اسے کذاب کہا ہے، اور اس پر حدیث گھڑنے کا الزام لگایا ہے۔
( سند میں کذاب راوی ہونے کے باوجود) اس حدیث کو سیوطی نے "الجامع" میں نقل کیا ہے۔
طبرانی کی سند میں ابو ربیع خالد بن یوسف سمتی ضعیف ہے جیسا کہ امام ذہبی نے "المغني" کہا ہے۔
ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے اس سند کی علت صرف خالد بن یوسف کو بتا کر واضح تقصیر کی ہے، کیونکہ اس کی متابعت ابراہیم بن محمد بن عرعرہ نے کی ہے جیسا کہ عقیلی اور ابن عدی کی سند میں ہے۔
ابراہیم بن محمد بن عرعرہ ثقہ راوی ہیں، صحیح مسلم کے رجال میں سے ہیں، اس لئے اس سند کی علت صرف خالد بن یوسف سمتی بتانا صحیح نہیں ہے۔

طبرانی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو درج ذیل سند سے بھی روایت کیا ہے:

قال الطبراني: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ نَاجِيَةَ حَدَّثَنَا «مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ الْعَوْفِيُّ» حَدَّثَنَا «أَبِي» حَدَّثَنَا «عَمِّي» حَدَّثَنَا «يُونُسُ بْنُ نُفَيْعٍ» عَنْ سَعْدِ بْنِ جُنَادَةَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللهَ زَوَّجَنِي فِي الْجَنَّةِ مَرْيَمَ بِنْتَ عِمْرَانَ، وَ امْرَأَةَ فِرْعَوْنَ، وَأُخْتَ مُوسَى»

تخريج: المعجم الكبير للطبراني (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ تاريخ دمشق لابن عساكر (المتوفى: ٥٧١ھ)؛

ہیثمی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ اس سند میں چند راویوں کو میں نہیں جانتا۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: محمد بن سعد (بن محمد بن حسن بن عطیہ) بغداد کا قاضی، لین الحدیث ہے۔ اس کے والد سعد بن محمد اور یونس بن نفیع دونوں کو میں نہیں جانتا۔ محمد بن سعد کے چچا حسین بن حسن بن عطیہ کے متعلق امام ذہبی "المغنی" میں کہتے ہیں کہ محدثین نے اسے ضعیف کہا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
يُبْغِضُ اللَّهُ الشَّيْخَ الغِرْبِيْبَ
اللّٰہ تعالیٰ سیاہ خضاب لگانے والے بوڑھے کو ناپسند کرتا ہے ( ضعیف روایت)

١٤٧١- قال ابن عدي: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنُ يُونُس حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيْسَى حَدَّثَنا «رِشْدِينٌ بْنُ سَعْدٍ» عَنْ أَبِي صَخْرٍ حُمَيْدِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ يَزِيدَ بْنِ قُسَيْطٍ عَن أَبِي هُرَيْرَةَ قَال قَال رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ اللَّهَ يُبْغِضُ الشَّيْخَ الغِرْبِيْبَ»

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ سیاہ خضاب لگانے والے بوڑھے شخص کو نا پسند کرتا ہے۔
تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي ( المتوفى: ٣٦٥ھ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٥٦٠) ( المتوفى: ٥٠٩ھ)؛ (ضعيف)
[ابن عدی کہتے ہیں کہ رشدین نے کہا ہے کہ "غربیب" سیاہ خضاب لگانے والے کو کہتے ہیں، اور اس حدیث کو ان الفاظ سے رشدین ہی نے روایت کیا ہے]۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ حدیث رشدین بن سعد کے ضعف کی وجہ سے ضعیف ہے۔
دیلمی نے بھی رشدین ہی کی سند سے روایت کیا ہے، لیکن کہا ہے: عن عبد الرحمن بن عمر عن عثمان بن عبيد الله بن رافع عن أبي هريرة.
 
شمولیت
جون 16، 2011
پیغامات
100
ری ایکشن اسکور
197
پوائنٹ
97
السلام علیکم بھائی کیا یہ کتاب ورڈ میں مل سکتی ہے۔ اور یہ بھی بتا دیں کہ یہ پہلی جلد ہے اور شروع سے ہے یا درمیان وغیرہ سے۔ @عبدالمنان
 
Top