٤٣٣- قال ابْنُ عَدِيٍّ: حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ مُحَمد الْجَهْنِيُّ حَدَّثَنا عَلِيُّ بْنُ بِشْرِ بْنِ هِلالٍ بِصَنْعَاءَ حَدَّثَنا «إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الطَّبَرِيُّ» حَدَّثَنا مَرَوَانُ الْفَزَارِيُّ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَن أَنَس قَال قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُدْعَى النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأُمَّهَاتِهِمْ سِتْرًا مِنَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِمْ»
ترجمہ: قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے ناموں سے بلایا جائے گا یہ اللہ کی طرف سے ان ( کے عیوب) پر پردے کے طور پر ہوگا۔
تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ١٧٣- إسحاق بن إبراهيم الطبري) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي عن عَائِشَة (٥٥١) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ (موضوع)
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ابن عدی کہتے ہیں یہ حدیث اس سند سے منکر ہے، اسحاق بن ابراہیم منکر الحدیث ہے۔
ابن حبان کہتے ہیں کہ "وہ ابن عیینہ اور فضل بن عیاض سے روایت کرتا ہے، سخت منکر الحدیث ہے اور ثقہ راویوں سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے، سوائے بطورِ تعجب کے اس کی احادیث لکھنا جائز نہیں ہے"۔ حاکم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں وہ فضیل اور ابن عیینہ سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب موضوعات میں ابن عدی کی سند سے روایت کرنے کے بعد کہا ہے "یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اسحاق منکر الحدیث ہے"۔ سیوطی نے " اللآليء " میں ان کا تعقب کرتے ہوئے کہا ہے کہ طبرانی رحمہ اللّٰہ کی المعجم الکبیر میں یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے، سیوطی رحمہ اللّٰہ کی مراد اس کے بعد والی حدیث (حدیث نمبر: ٤٣٤) ہے حالانکہ اِس روایت اور اِس کے بعد والی روایت میں محل شاہد الگ ہیں اِس میں "بأمهاتهم" ( ان کی ماؤں کے ناموں سے) ہے اور اُس میں "بأسمائهم" ( ان کے ناموں سے) ہے۔ ابن عراق رحمہ اللّٰہ نے سیوطی کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ روایت ابو حذیفہ اسحاق بن بشر کی سند سے ہے اس لئے شاہد کے طور پر ٹھیک نہیں ہے۔
میں ( البانی) کہتا ہوں کسی سند کے شاہد ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کا ضعف شدید نہ ہو اور اسحاق بن بشر کی روایت ایسی نہیں ہے ( بلکہ ضعف سخت ہے) کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو حدیث گھڑتے ہیں جیسا کہ حدیث نمبر: ٢٢٣ میں گزر چکا ہے۔
اس حدیث کے خلاف ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ کی ایک روایت سنن ابو داود میں جید سند سے مرفوعا ثابت ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللّٰہ نے "الأذكار" میں کہا ہے:
«إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ، وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ» ( سنن أبي داود: ٤٩٤٨)
ترجمہ: قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ دادا کے ناموں کے ساتھ پکارے جاؤ گے، اس لئے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔
اور صحیح (مسلم) میں عمر رضی اللّٰہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: «إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُرْفَعُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ، فَقِيلَ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ» ( مسلم: ١٧٣٥)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلوں اور پچھلوں کو جمع کرے گا تو ہر ایک غدّار عہد توڑنے والے کے لئے جھنڈا اونچا کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی ہے"۔ و اللّٰہ اعلم
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ کی روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے صحیح نہیں ہے یہ علت خود ابو داود رحمہ اللّٰہ نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ابن ابی زکریا نے ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ کو نہیں پایا۔ اس حدیث کی تخریج حدیث نمبر: ٥٤٦٠ پر آئے گی۔
اس کی یہی علت محدثین کی ایک جماعت جیسے بیہقی، منذری اور عسقلانی رحمہم اللّٰہ نے بیان کی ہے۔ اس کی علت معلوم ہونے کے بعد امام نووی رحمہ اللّٰہ اور ان کی اتباع کرنے والوں کے قول سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ مزید معلومات کے لیے فیض القدیر دیکھیں۔
ترجمہ: قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے ناموں سے بلایا جائے گا یہ اللہ کی طرف سے ان ( کے عیوب) پر پردے کے طور پر ہوگا۔
تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ١٧٣- إسحاق بن إبراهيم الطبري) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي عن عَائِشَة (٥٥١) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ (موضوع)
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ابن عدی کہتے ہیں یہ حدیث اس سند سے منکر ہے، اسحاق بن ابراہیم منکر الحدیث ہے۔
ابن حبان کہتے ہیں کہ "وہ ابن عیینہ اور فضل بن عیاض سے روایت کرتا ہے، سخت منکر الحدیث ہے اور ثقہ راویوں سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے، سوائے بطورِ تعجب کے اس کی احادیث لکھنا جائز نہیں ہے"۔ حاکم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں وہ فضیل اور ابن عیینہ سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب موضوعات میں ابن عدی کی سند سے روایت کرنے کے بعد کہا ہے "یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اسحاق منکر الحدیث ہے"۔ سیوطی نے " اللآليء " میں ان کا تعقب کرتے ہوئے کہا ہے کہ طبرانی رحمہ اللّٰہ کی المعجم الکبیر میں یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے، سیوطی رحمہ اللّٰہ کی مراد اس کے بعد والی حدیث (حدیث نمبر: ٤٣٤) ہے حالانکہ اِس روایت اور اِس کے بعد والی روایت میں محل شاہد الگ ہیں اِس میں "بأمهاتهم" ( ان کی ماؤں کے ناموں سے) ہے اور اُس میں "بأسمائهم" ( ان کے ناموں سے) ہے۔ ابن عراق رحمہ اللّٰہ نے سیوطی کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ روایت ابو حذیفہ اسحاق بن بشر کی سند سے ہے اس لئے شاہد کے طور پر ٹھیک نہیں ہے۔
میں ( البانی) کہتا ہوں کسی سند کے شاہد ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کا ضعف شدید نہ ہو اور اسحاق بن بشر کی روایت ایسی نہیں ہے ( بلکہ ضعف سخت ہے) کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو حدیث گھڑتے ہیں جیسا کہ حدیث نمبر: ٢٢٣ میں گزر چکا ہے۔
اس حدیث کے خلاف ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ کی ایک روایت سنن ابو داود میں جید سند سے مرفوعا ثابت ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللّٰہ نے "الأذكار" میں کہا ہے:
«إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ، وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ» ( سنن أبي داود: ٤٩٤٨)
ترجمہ: قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ دادا کے ناموں کے ساتھ پکارے جاؤ گے، اس لئے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔
اور صحیح (مسلم) میں عمر رضی اللّٰہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: «إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُرْفَعُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ، فَقِيلَ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ» ( مسلم: ١٧٣٥)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلوں اور پچھلوں کو جمع کرے گا تو ہر ایک غدّار عہد توڑنے والے کے لئے جھنڈا اونچا کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی ہے"۔ و اللّٰہ اعلم
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ کی روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے صحیح نہیں ہے یہ علت خود ابو داود رحمہ اللّٰہ نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ابن ابی زکریا نے ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ کو نہیں پایا۔ اس حدیث کی تخریج حدیث نمبر: ٥٤٦٠ پر آئے گی۔
اس کی یہی علت محدثین کی ایک جماعت جیسے بیہقی، منذری اور عسقلانی رحمہم اللّٰہ نے بیان کی ہے۔ اس کی علت معلوم ہونے کے بعد امام نووی رحمہ اللّٰہ اور ان کی اتباع کرنے والوں کے قول سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ مزید معلومات کے لیے فیض القدیر دیکھیں۔