• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٤٣٣- قال ابْنُ عَدِيٍّ: حَدَّثَنَا مُحَمد بْنُ مُحَمد الْجَهْنِيُّ حَدَّثَنا عَلِيُّ بْنُ بِشْرِ بْنِ هِلالٍ بِصَنْعَاءَ حَدَّثَنا «إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الطَّبَرِيُّ» حَدَّثَنا مَرَوَانُ الْفَزَارِيُّ عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ عَن أَنَس قَال قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُدْعَى النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأُمَّهَاتِهِمْ سِتْرًا مِنَ اللّٰهِ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِمْ»

ترجمہ: قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کے ناموں سے بلایا جائے گا یہ اللہ کی طرف سے ان ( کے عیوب) پر پردے کے طور پر ہوگا۔
تخريج: الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ١٧٣- إسحاق بن إبراهيم الطبري) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي عن عَائِشَة (٥٥١) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ الموضوعات لابن الجوزي (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ (موضوع)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ابن عدی کہتے ہیں یہ حدیث اس سند سے منکر ہے، اسحاق بن ابراہیم منکر الحدیث ہے۔
ابن حبان کہتے ہیں کہ "وہ ابن عیینہ اور فضل بن عیاض سے روایت کرتا ہے، سخت منکر الحدیث ہے اور ثقہ راویوں سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے، سوائے بطورِ تعجب کے اس کی احادیث لکھنا جائز نہیں ہے"۔ حاکم رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں وہ فضیل اور ابن عیینہ سے موضوع احادیث روایت کرتا ہے۔ ابن جوزی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو اپنی کتاب موضوعات میں ابن عدی کی سند سے روایت کرنے کے بعد کہا ہے "یہ حدیث صحیح نہیں ہے، اسحاق منکر الحدیث ہے"۔ سیوطی نے " اللآليء " میں ان کا تعقب کرتے ہوئے کہا ہے کہ طبرانی رحمہ اللّٰہ کی المعجم الکبیر میں یہ روایت دوسری سند سے بھی مروی ہے، سیوطی رحمہ اللّٰہ کی مراد اس کے بعد والی حدیث (حدیث نمبر: ٤٣٤) ہے حالانکہ اِس روایت اور اِس کے بعد والی روایت میں محل شاہد الگ ہیں اِس میں "بأمهاتهم" ( ان کی ماؤں کے ناموں سے) ہے اور اُس میں "بأسمائهم" ( ان کے ناموں سے) ہے۔ ابن عراق رحمہ اللّٰہ نے سیوطی کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ روایت ابو حذیفہ اسحاق بن بشر کی سند سے ہے اس لئے شاہد کے طور پر ٹھیک نہیں ہے۔
میں ( البانی) کہتا ہوں کسی سند کے شاہد ہونے کے لئے شرط یہ ہے کہ اس کا ضعف شدید نہ ہو اور اسحاق بن بشر کی روایت ایسی نہیں ہے ( بلکہ ضعف سخت ہے) کیونکہ وہ ان لوگوں میں سے ہے جو حدیث گھڑتے ہیں جیسا کہ حدیث نمبر: ٢٢٣ میں گزر چکا ہے۔
اس حدیث کے خلاف ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ کی ایک روایت سنن ابو داود میں جید سند سے مرفوعا ثابت ہے جیسا کہ امام نووی رحمہ اللّٰہ نے "الأذكار" میں کہا ہے:
«إِنَّكُمْ تُدْعَوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِأَسْمَائِكُمْ، وَأَسْمَاءِ آبَائِكُمْ، فَأَحْسِنُوا أَسْمَاءَكُمْ» ( سنن أبي داود: ٤٩٤٨)
ترجمہ: قیامت کے دن تم اپنے اور اپنے باپ دادا کے ناموں کے ساتھ پکارے جاؤ گے، اس لئے اپنے نام اچھے رکھا کرو۔
اور صحیح (مسلم) میں عمر رضی اللّٰہ عنہ سے مرفوعاً مروی ہے: «إِذَا جَمَعَ اللهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، يُرْفَعُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ، فَقِيلَ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ» ( مسلم: ١٧٣٥)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام اگلوں اور پچھلوں کو جمع کرے گا تو ہر ایک غدّار عہد توڑنے والے کے لئے جھنڈا اونچا کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: یہ فلاں بن فلاں کی دغا بازی ہے"۔ و اللّٰہ اعلم
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ کی روایت کی سند انقطاع کی وجہ سے صحیح نہیں ہے یہ علت خود ابو داود رحمہ اللّٰہ نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے: ابن ابی زکریا نے ابو درداء رضی اللّٰہ عنہ کو نہیں پایا۔ اس حدیث کی تخریج حدیث نمبر: ٥٤٦٠ پر آئے گی۔
اس کی یہی علت محدثین کی ایک جماعت جیسے بیہقی، منذری اور عسقلانی رحمہم اللّٰہ نے بیان کی ہے۔ اس کی علت معلوم ہونے کے بعد امام نووی رحمہ اللّٰہ اور ان کی اتباع کرنے والوں کے قول سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ مزید معلومات کے لیے فیض القدیر دیکھیں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٤٠٠١- قال ابن المقرئ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبَوْ زُرْعَةُ الرَّازِيُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَامِرِيُّ حَدَّثَنَا «مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ اللَّيْثِيُّ» حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِتْنَةُ الْقَبْرِ فِيَّ، فَإِذَا سُئِلْتُمْ عَنِّي فَلَا تَشَكُّوا»
ترجمہ: قبر کا فتنہ میرے متعلق ہوگا، جب تمہیں (قبر میں) میرے متعلق سوال کیا جائے تو شک میں نہ پڑنا۔
تخريج: المعجم لابن المقرئ (١٠٧١) (المتوفى: ٣٨١هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (٣٤٤١) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٤٣٩٣) (المتوفى: ٥٠٩هـ) (ضعيف جداً)

(مترجم: محمد بن عبداللہ لیثی کا پورا نام محمد بن عبداللہ بن عبید بن عمیر لیثی مکی ہے جیسا کہ مستدرک حاکم کی سند میں ہے اور امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں ذکر کیا ہے)
حاکم رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، ذہبی رحمہ اللّٰہ نے ان کا رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ محمد بن عبداللہ کے ضعیف ہونے پر اجماع ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: وہ بہت زیادہ ضعیف ہے، امام بخاری نے اسے منکر الحدیث اور نسائی اور دار قطنی نے متروک کہا ہے۔ بعض نے اسے کذاب کہا ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٢٠٩- قال محمد بن وضاح القرطبي: حَدَّثَنَا أَسَدٌ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰهِ بْنُ خَالِدٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ السَّلَامِ قَالَ سَمِعْتُ بَكْرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزْنِيَّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «حَلَّتْ شَفَاعَتِي لِأُمَّتِي إِلَّا صَاحِبَ بِدْعَةٍ»

ترجمہ: میری شفاعت سوائے بدعتی کے میرے ہر امتی کے لیے ہے۔

تخريج: البدع والنهي عنها لمحمد بن وضاح القرطبي (٨٥) (المتوفى: ٢٨٦هـ)؛ (منكر)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند مرسل ہے، بکر بن عبداللہ تابعی ہیں انہوں نے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو نہیں پایا، مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ سند بکر بن عبداللہ تک ضعیف بھی ہے کیونکہ ابو عبدالسلام صالح بن رستم ہاشمی ہے اور وہ مجہول ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کہا ہے۔
سند کے ضعف کے ساتھ اس کا متن نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قول
«شفاعتي لأهل الكبائر من أمتي» ( میری شفاعت میری امت میں کبیرہ گناہ والوں کے لئے ہے ) کے ظاہری معنی کے خلاف بھی ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے، ان لوگوں کے قول کے خلاف جو یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ ضعیف ہے، اپنی رائے پر غرور کرتے ہیں اور اپنی خواہشات کی اتباع کرتے ہیں۔

اس حدیث کی تخریج ہم نے ظلال الجنة " (٨٣٠ ـ ٨٣٢)، الروض النضير (٣، ٦٥) اور المشكاة (٥٥٩٨) میں کی ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
النِّسَاءُ لُعَبٌ
عورتیں کھلونا ہیں
٤٦١- قَالَ الْحَاكِم فِي تَارِيخه: حَدَّثَنَا أَبُو الطّيب مُحَمَّد بْن أَحْمَد الْمُذكر حَدَّثَنَا مُحَمَّد بْن رومي حَدثنَا أَبُو الْأَزْهَر حَدَّثَنَا زُهَيْر بْن عُبَاد حَدَّثَنَا ابْن لَهِيعَة عَنِ الأحوص بْن حَكِيم عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ مَرْفُوعًا:
« النِّسَاءُ لُعَبٌ فَتَخَيَّرُوا»

ترجمہ: عورتیں کھلونا ہیں پس تم اچھی عورتوں کا انتخاب کرو۔
تخريج: تاريخ نيسابور للحاكم (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٦٩٢٢) (المتوفى: ٥٠٩هـ) ( منكر)
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: اس حدیث کو سیوطی نے "اللآليء" میں علی رضی اللّٰہ عنہ کی حدیث کے معنی کے شاہد کے طور پر ذکر کیا ہے، ابن جوزی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: سیوطی نے اپنی عام عادت کے مطابق اس شاہد پر سکوت اختیار کیا ہے، یہ حدیث بہت زیادہ ضعیف ہے، اس میں تین علتیں ہیں: ابن لہیعہ کا ضعف مشہور ہے، احوص کے متعلق ابن معین اور ابن مدینی کہتے ہیں "ليس بشيء" ( اس کی روایت کی کوئی حیثیت نہیں ہے)، اور اس کی سند احوص اور عمرو کے درمیان منقطع ہے اس لئے ابن عراق نے اس کی سند کو ضعیف کہا ہے۔
اس حدیث کی نکارت پر نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی درج ذیل صحیح حدیث بھی دلالت کرتی ہے:
"إنما النساء شقائق الرجال" ( ابو داود: ٢٣٦)
ترجمہ: عورتیں ( احکامِ شریعت میں ) مردوں ہی کی طرح ہیں۔
معلوم ہوا کہ یہ بات بہت زیادہ بعید ہے کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے عورتوں کو کھلونا کہا ہو۔ ( یہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہے).
اس موضوع پر اس سے لمبی حدیث مروی ہے لیکن وہ بھی ضعیف ہے ( اس کے بعد والی حدیث)۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
عَرْضُ أَعْمَالِ الْأَحْيَاءِ عَلَى الْأَمْوَاتِ
زندوں کے اعمال کا مُردوں پر پیش کیا جانا

٤٤٣- قال ابن أبي الدنيا: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ رِزْقِ اللَّهِ الْكَلْوَذَانِيُّ وَهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ قَالَا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ صَالِحٍ الْوُحَاظِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا «أَبُو إِسْمَاعِيلَ السَّكُونِيُّ» سَمِعْتُ «مَالِكَ بْنَ أُدَيٍّ (أَدَّا)» يَقُولُ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَقُولُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«أَلَا إِنَّهُ لَمْ يَبْقَ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مِثْلُ الذُّبَابِ تَمُورُ فِي جَوِّهَا فَاللَّهَ اللَّهَ فِي إِخْوَانِكُمْ مِنْ أَهْلِ الْقُبُورِ فَإِنَّ أَعْمَالَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيْهِمْ»
ترجمہ: خبردار دنیا میں کچھ بھی باقی نہیں ہے سوائے اس مکھی کے مثل جو اپنے گھر کے اندر باہر ہوتی رہتی ہے۔ پس تم اللہ تعالیٰ سے اپنے ان بھائیوں کے متعلق خوفزدہ رہو جو قبرستان میں ہیں اس لئے کہ تمہارے اعمال ان پر پیش کئے جاتے ہیں۔
تخريج: التاريخ الكبير للبخاري (في ترجمة ٤٧ - أبو اسمعيل السَّكُونِيُّ) (المتوفى: ٢٥٦هـ)؛ المنامات لابن أبي الدنيا (١) (المتوفى: ٢٨١ھ)؛ الكنى و الأسماء للدولابي (٥١٩) (المتوفى: ٣١٠ھ)؛ الأمثال في الحديث لأبي الشيخ الأصبهاني (٣١٤) (المتوفى: ٣٦٩ھ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (٧٨٤٩) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ شعب الإيمان للبيهقي (٩٧٦١) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ (ضعيف)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: حاکم رحمہ اللّٰہ نے اس کو صحیح الاسناد کہا ہے، امام ذہبی نے ان کا رد کرتے ہوئے کہا کہ اس سند میں دو مجہول راوی ہیں۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: وہ دو مجہول راوی مالک بن ادی اور ابو اسماعیل سکونی ہیں جیسا کہ امام ذہبی نے میزان الاعتدال میں "الجرح والتعديل" کی اتباع کرتے ہوئے کہا ہے اور امام ذہبی نے یہ بھی کہا ہے "وثق" ( ان کی توثیق کی گئی ہے)، اس سے ذہبی کا ابن حبان کا ان دونوں کی توثیق پر عدم اعتماد کی طرف اشارہ ہے کیونکہ وہ مجہول راوی کی توثیق میں متساہل ہیں۔
[مترجم: الكنى و الأسماء میں تَمُورُ کی جگہ يَهْوِي ہے اور أمثال الحديث میں يَمُرُّ ہے۔ دولابی اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد اپنی سند سے کہتے ہیں کہ "یحیٰی بن معین نے کہا محمد بن ابی اسماعیل میں ابو اسماعیل کا نام راشد ہے"۔ میں کہتا ہوں کہ اس سند میں جو ابو اسماعیل ہے یہ وہ نہیں ہے، محمد بن ابو اسماعیل کا ذکر مزی رحمہ اللّٰہ نے تہذیب الکمال میں کیا ہے اور وہ مسلم، ابو داود اور نسائی کے راوی ہیں]۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٥٣١٩- قَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: أَخْبَرَنَا «أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ الْغَسَّانِيُّ» عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا، وَتَمَنَّى عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ»


ترجمہ: عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے، اور عاجز و بیوقوف وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات پر لگا دے، پھر اللہ تعالیٰ سے تمنائیں کرے۔

تخريج: الزهد والرقائق لابن المبارك (١٧١) (المتوفى: ١٨١هـ)؛ مسند الطيالسي (١٢١٨) (المتوفى: ٢٠٤ھ)؛ مسند أحمد (١٧١٢٣) الزهد (٢٠٦) (المتوفى: ٢٤١ھ)؛ محاسبة النفس لابن أبي الدنيا (١) (المتوفى: ٢٨١ھ)؛ سنن ابن ماجه (٤٢٦٠) (المتوفى: ٢٧٣ھ)؛ سنن الترمذي (٢٤٥٩) (المتوفى: ٢٧٩ھ)؛ زيادات الزهد لعبد الله بن أحمد (٢٣٣٦)(المتوفى: ٢٩٠ھ)؛ مسند البزار (٣٤٨٩) (المتوفى: ٢٩٢ھ)؛ فوائد أبي بكر الزبيري (٣١) (المتوفى: ٣٣٢ھ)؛ مصنفات أبي العباس الأصم (١٩٠) (المتوفى: ٣٤٦ھ)؛ المعجم الكبير (٧١٤٣) و مسند الشاميين (١٤٨٥) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠ھ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ٢٧٧- أَبُو بَكْر بْن عَبد اللَّهِ بْن أَبِي مريم) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ مستدرك الحاكم (١٩١، ٧٦٣٩) (المتوفى: ٤٠٥ھ)؛ حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبي نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ حديث السكن بن جميع (٣) (المتوفى: ٤٣٧ھ)؛ مسند الشهاب للقضاعي (١٨٥) (المتوفى: ٤٥٤ھ)؛ السنن الكبرى (٦٥١٤) و شعب الإيمان (١٠٠٦٢، ١٠٥٤٦) و الآداب للبيهقي (٨١٢، ٩٩١) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ ستة مجالس لأبي يعلى الفراء (٧٣) (المتوفى: ٤٥٨ھ)؛ تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (المتوفى: ٤٦٣ھ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب (٤٩٣٠) (المتوفى: ٥٠٩ھ)؛ شرح السنة (٤١١٦ ،٤١١٧) و التفسير للبغوي (٩٤٩) (المتوفى: ٥١٦ھ)؛ تاريخ دمشق ( في ترجمة ٧٧٤١ - موسى بن عمران) و معجم ابن عساكر (٣٥٤) (المتوفى: ٥٧١ھ)؛ جزء أبي الحسن العبدي (١٤) (المتوفى: ٥٩٩ھ)؛ الدينار من حديث المشائخ الكبار للذهبي (١٧) (المتوفى: ٧٤٨ھ) (ضعيف) من طرق أبي بكر بن أبي مريم

سند میں ابو بکر بن ابی مریم غسانی ضعیف ہے۔
طبرانی رحمہ اللّٰہ نے اس حدیث کو درج ذیل سند سے بھی روایت کیا ہے:

قال الطبراني: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ السَّلَامِ الْبَيْرُوتِيُّ مَكْحُولٌ حَدَّثَنَا «إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَمْرِو بْنِ بَكْرٍ السَّكْسَكِيُّ» قَالَ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ وَغَالِبِ بْنِ عَبْدِ اللهِ عَنْ مَكْحُولٍ عَنِ ابْنِ غَنْمٍ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ، وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا، وَتَمَنَّى عَلَى اللهِ»

تخريج: المعجم الكبير (٧١٤١) و المعجم الصغير (٨٦٣) مسند الشاميين (٤٦٣) للطبراني (المتوفى: ٣٦٠ھ)

اس سند میں ابراہیم بن عمرو بن بکر سکسکی، ابو بکر بن ابی مریم غسانی سے زیادہ ضعیف ہے، دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے اسے متروک کہا ہے، ابن حبان کہتے ہیں کہ وہ اپنے والد سے موضوعات روایت کرتا ہے اور اس کے والد کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے (وأبوه أيضاً لا شيء)۔
معلوم ہوا کہ یہ سند سخت ضعیف ہونے کی وجہ سے ابن ابی مریم کی سند کو تقویت نہیں دے سکتی۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٢٧٨١- قال الخطيب البغدادي: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ رِزْقٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مَكِّيُّ بْنُ بُنْدَارِ بْنِ مَكِّيِّ بْنِ عَاصِمٍ الزَّنْجَانِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ زَنْجَوَيْهِ بْنِ عَلِيٍّ الْمَعْنِيُّ بِقَزْوِينَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو الْفَضْلِ أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْمُثَنَّى التَّمِيمِيُّ بِقَزْوِينَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ قَالَ حَدَّثَنَا «أَبُو دَاوُدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ضِرَارِ بْنِ عَمْرٍو» عَنْ «أَبِيهِ» عَنْ «يَزِيدَ الرَّقَاشِيِّ» عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«أَشَدُّ الْحُزْنِ النِّسَاءُ، وَأَبْعَدُ اللِّقَاءِ الْمَوْتُ، وَأَشَدُّ مِنْهُمَا الْحَاجَةُ إِلَى النَّاسِ»

ترجمہ: سب سے زیادہ غم اور دکھ عورتوں کا ہوتا ہے ، سب سے دور کی ملاقات موت ہوتی ہے ،اور ان دونوں سے مشکل لوگوں کے محتاج ہونا ہے۔
۩تخريج: تاريخ بغداد للخطيب البغدادي (في ترجمة ٧٠٥٤ - مكي بن بندار بن مكي بن عاصم أبو عبد الله الزنجاني ) (المتوفى: ٤٦٣هـ)؛ العلل المتناهية في الأحاديث الواهية لابن الجوزي (٨٢٧) (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ التدوين في أخبار قزوين لعبد الكريم الرافعي (المتوفى: ٦٢٣هـ)؛ (ضعيف جدا)
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: یہ سند بہت زیادہ ضعیف ہے، مسلسل ضعیف راوی ہیں، یزید رقاشی، اور ابو داود عبداللّٰہ بن ضرار دونوں ضعیف ہیں اور ان دونوں کے درمیان کا راوی (ضرار بن عمرو) دونوں سے زیادہ ضعیف ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں "ضرار فيه نظر" ( یہ امام بخاری کے نزدیک بہت سخت جرح ہے) اور ابو نعیم کہتے ہیں ضرار کی (عن يزيد الرقاشي عن أنس عن تميم) کی سند سے منکر روایت ہے۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٨٠- قَالَ الدَّارَقُطْنِيُّ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْهَاشِمِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا «مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الْقُرَشِيُّ» قَالَ حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«الْمَهْدِيُّ مِنْ وَلَدِ الْعَبَّاسِ عَمِّي»
ترجمہ: مہدی میرے چچا عباس کی اولاد میں سے ہوگا‌۔
۩تخريج: الثاني من الأفراد للدارقطني (٢٦) (المتوفى: ٣٨٥هـ)؛ الفردوس بمأثور الخطاب للديلمي (٦٦٦٦) (المتوفى: ٥٠٩هـ)؛ العلل المتناهية في الأحاديث الواهية لابن الجوزي (١٤٣١) (المتوفى: ٥٩٧هـ)؛ (موضوع)
دار قطنی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اس کو صرف محمد بن ولید نے روایت کیا ہے۔
شیخ البانی کہتے ہیں کہ محمد بن ولید متہم بالکذب (اس پر جھوٹ بولنے کا الزام) ہے، ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے کہا ہے کہ وہ احادیث گڑھتا تھا اور ابو عروبہ نے اس کو کذاب کہا ہے، اور مناوی رحمہ اللّٰہ نے بھی یہی علت ابن جوزی رحمہ اللّٰہ سے فیض القدیر میں نقل کی ہے۔ اس سے سیوطی رحمہ اللّٰہ کی غلطی واضح ہوئی کیونکہ انہوں نے اس حدیث کو الجامع الصغير میں ذکر کیا ہے ( حالانکہ انہوں نے اپنی کتاب کے شروع میں کہا ہے کہ میں اس میں کسی کذاب کی روایت نقل نہیں کروں گا)۔
شیخ البانی کہتے ہیں یہ حدیث جھوٹی ہے کیونکہ یہ ابو داود وغیرہ کی درج ذیل صحیح حدیث کے مخالف ہے
قال أبو داود: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ حَدَّثَنَا أَبُو الْمَلِيحِ الْحَسَنُ بْنُ عُمَرَ عَنْ «زِيَادِ بْنِ بَيَانٍ» عَنْ عَلِيِّ بْنِ نُفَيْلٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:
«الْمَهْدِيُّ مِنْ عِتْرَتِي مِنْ وَلَدِ فَاطِمَةَ»
۩تخريج: التاريخ الكبير للبخاري (في ترجمة ١١٧١- زِياد بْن بَيان) (المتوفى: ٢٥٦هـ)؛ سنن ابن ماجه (٤٠٨٦) (المتوفى: ٢٧٣هـ)؛ سنن أبي داود (٤٢٨٤) (المتوفى: ٢٧٥هـ)؛ الضعفاء الكبير للعقيلي (المتوفى: ٣٢٢هـ)؛ المعجم الكبير للطبراني (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ٦٩٧- زياد بْن بيان) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ المستدرك على الصحيحين للحاكم (٨٦٧٢) (المتوفى: ٤٠٥هـ)؛ السنن الواردة في الفتن وغوائلها والساعة وأشراطها لأبي عمرو الداني (٥٦٥، ٥٧٥، ٥٨١) (المتوفى: ٤٤٤هـ)؛ تهذيب الكمال في أسماء الرجال للمزي (في ترجمة ٢٠٢٦-زياد بن بيان الرَّقِّي) (المتوفى: ٧٤٢هـ)
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ یہ سند جید (اچھی) ہے اس کے تمام راوی ثقہ ہیں، اور اس حدیث کے بہت سارے شواہد ہیں اس لیے یہ حدیث اوپر کی ضعیف حدیث کے مردود ہونے کی واضح دلیل ہے۔
[مترجم: بخاری رحمہ اللّٰہ نے التاریخ الکبیر میں "زیاد بن بیان" کے تعارف میں اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد کہا ہے "فِي إِسْنَادِهِ نَظَرٌ"۔
عقیلی رحمہ اللّٰہ نے زیاد بن بیان کے تعارف میں اس حدیث کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے ‌ "فِي إِسْنَادِهِ نَظَرٌ" جیسا کہ امام بخاری نے کہا ہے۔ پھر کہا ہے کہ صحیح بات یہی ہے کہ "الْمهْدي من ولد فَاطِمَة" سعید بن مسیب رحمہ اللّٰہ کا قول ہے اور یہ صحیح سند سے نبی ﷺ سے ثابت نہیں ہے۔
ابن عدی رحمہ اللّٰہ نے "الكامل في الضعفاء" میں امام بخاری کا قول نقل کرنے کے بعد کہا ہے کہ امام بخاری نے زیاد بن بیان کی اس حدیث کو منکر کہا ہے۔
امام ذہبی نے "المغني في الضعفاء" میں کہا ہے کہ زیاد بن بیان کی حدیث "الْمهْدي من ولد فَاطِمَة" صحیح نہیں ہے]۔ و اللّٰہ اعلم
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
٨٢- قال أبو نعيم: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُظَفَّرِ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدٍ الْأُمَوِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحٍ الْعَدَوِيُّ حَدَّثَنَا «لَاهِزُ بْنُ جَعْفَرٍ التَّمِيمِيُّ» حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْعَمِّيُّ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ زَيْدِ بْنِ جُدْعَانَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَلَقَّاهُ الْعَبَّاسُ فَقَالَ: «أَلَا أُبَشِّرُكَ يَا أَبَا الْفَضْلِ؟» قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: «إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَتَحَ بِي هَذَا الْأَمْرَ وَ بِذُرِّيَّتِكَ يَخْتِمُهُ»
ترجمہ: ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نکلے تو آپ کو عباس رضی اللّٰہ عنہ ملے آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابو فضل کیا میں تمہیں خوش خبری نہ دوں؟ عباس رضی اللّٰہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں اے اللّٰہ کے رسول ( ضرور دیں)، نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے اس معاملے ( اسلام) کی شروعات مجھ سے کی ہے اور آپ کی ذریت کے ذریعے اسے ختم کرے گا۔
۩تخريج: حلية الأولياء وطبقات الأصفياء لأبو نعيم (المتوفى: ٤٣٠هـ)؛ (موضوع)
شیخ البانی کہتے ہیں کہ لاہز بن جعفر تمیمی متہم بالکذب ہے، ابن عدی اس کے متعلق کہتے ہیں: بغدادی، مجہول ہے ثقہ راویوں سے مناکیر روایت کرتا ہے، پھر اس کی سند سے علی رضی اللّٰہ عنہ کی فضیلت میں ایک روایت ذکر کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے۔
امام ذہبی کہتے ہیں اللہ کی قسم یہ روایت بڑی موضوعات میں سے ہے، علی رضی اللّٰہ عنہ سے جو محبت نہیں کرتا اللہ اس پر لعنت کرے۔
تنبیہ: جب آپ کو اس حدیث اور اس سے پہلے والی حدیث کے ضعف کا حال معلوم ہوا تو ان احادیث اور صحیح حدیث "المهدي من ولد فاطمة" پر اختلاف کی بنیاد رکھنا صحیح نہیں ہے، اور کے درمیان تطبیق پیدا کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے جیسا کہ بعض متقدمین اور استاد مودودی رحمہ اللّٰہ نے اپنی کتاب بیانات میں کی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہی صالح کام کی توفیق دینے والا ہے اس کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں۔
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
بَابُ: الزِّنَا لَا يُحَرِّمُ النِّكَاحَ، لَا يُحَرِّمُ الْحَرَامُ الْحَلَالَ
باب: زنا نکاح کو حرام نہیں کرتا، حرام حلال کو حرام نہیں کرتا۔

٣٨٨- قال ابن حبان: أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ سُفْيَانَ قَالَ حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بُهْلُولٍ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ قَالَ حَدَّثَنَا «الْمُغِيرَةُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَيُّوبَ بْنِ سَلَمَةَ» عَنْ «عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ» عَنِ بن شِهَابٍ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهَا قَالَتْ سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرَّجُلِ يَتْبَعُ الْمَرْأَةَ حَرَامًا أَ يَنْكِحُ ابْنَتَهَا أَوْ يَنْكِحُ الابْنَةَ حَرَامًا أَيَنْكِحُ أُمَّهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
«لَا يُحَرِّمُ الْحَلالَ الْحَرَامُ إِنَّمَا يَحْرُمُ مَا كَانَ بِنِكَاحٍ حَلَالٍ»


ترجمہ: عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو کسی عورت کا پیچھا حرام طریقے سے کرتا ہے ( یعنی زنا کرتا ہے ) کیا وہ اس عورت کی ماں سے نکاح کر سکتا ہے یا کسی کی بیٹی سےحرام طریقے سے نکاح ( یعنی زنا ) کرتا ہے تو کیا وہ اس کی ماں سے نکاح کر سکتا ہے؟ تو نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: حرام حلال کو حرام نہیں کرتا، وہی حرام ہوتا ہے جو نکاحِ حلال کی وجہ سے ہو۔

تخريج: المجروحين من المحدثين والضعفاء والمتروكين لابن حبان (في ترجمة ٦٦٦ - عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْوَقَّاصِيِّ الزُّهْرِي ) (المتوفى: ٣٥٤هـ)؛ المعجم الأوسط للطبراني (٤٨٠٣، ٧٢٢٤) (المتوفى: ٣٦٠هـ)؛ الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي (في ترجمة ١٣٢١- عُثْمَان بْن عَبد الرَّحْمَنِ بْن عُمَر بْن سعد بْن أبي وقاص أَبُو عَمْرو الوقاصي الزُّهْري) (المتوفى: ٣٦٥هـ)؛ سنن الدارقطني ( ٣٦٧٧- ٣٦٨٠) (المتوفى: ٣٨٥هـ)؛ السنن الكبرى للبيهقي (١٣٩٦٦) (المتوفى: ٤٥٨هـ)؛ العلل المتناهية في الأحاديث الواهية لابن الجوزي (١٠٣١)؛ (باطل)

شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: بیہقی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو صرف عثمان بن عبدالرحمن وقاصی ہی نے روایت کی ہے اور وہ ضعیف ہے یہ بات یحیٰی بن معین وغیرہ آئمہ حدیث نے کہی ہے۔
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ: بلکہ وہ کذاب ہے، ابن حبان کہتے ہیں کہ وہ ثقہ راویوں سے موضوعات روایت کرتا ہے ایک روایت کے مطابق ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے، عبدالحق اشبیلی نے "الأحكام الوسطى" میں اور ہیثمی رحمہ اللّٰہ نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ وہ متروک ہے اسی طرح حافظ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں کہا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ ابن معین نے اسے کذاب کہا ہے۔
شیخ البانی: عثمان بن عبدالرحمن سے روایت کرنے والا مغیرہ بن اسماعیل مجہول ہے جیسا کہ امام ذہبی نے کہا ہے۔

اس حدیث کو ابن ابی حاتم رحمہ اللّٰہ نے علل الحدیث میں درج ذیل سند سے بیان کیا ہے:
رَوَاهُ مُعَاوِيَةُ بْنُ عبد الله اللَّيْثي المَديني قال حدَّثني عبد الله بْنُ نَافِعٍ عَنِ «الْمُغِيرَةِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ» عَنْ «عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ الزُّهْري» عَنِ ابْنِ شِهَاب عَنْ عُرْوَة عن عائِشَة:
پھر کہتے ہیں کہ میرے والد نے کہا کہ یہ حدیث باطل ہے، مغیرہ بن اسماعیل اور عمر بن محمد دونوں مجہول ہیں۔

شیخ البانی: علل الحدیث میں اسی طرح عثمان بن عبدالرحمن زہری کی جگہ عمر بن محمد زہری ہے، مجھے نہیں معلوم کہ ابن ابی حاتم کی روایت میں ایسا ہی ہے یا لکھنے والے اور نشر کرنے والے سے غلطی ہوئی ہے۔

اس حدیث سے شافعیہ وغیرہم نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ آدمی کے لئے اپنی زنا سے ہونے والی بیٹی سے نکاح کرنا جائز ہے، اور آپ کو یہ معلوم ہو گیا کہ یہ حدیث ضعیف ہے اس سے استدلال کی گنجائش نہیں ہے۔
اس مسئلے میں سلف میں اختلاف رہا ہے لیکن فریقین میں کسی کے پاس نص نہیں ہے، اور گہری بصیرت اس کے حرام ہونے کا ہی تقاضا کرتی ہے، یہی موقف امام احمد وغیرہ کا ہے اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اسی قول کو ترجیح دی ہے، ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ کے اس قول کو آپ ان کی کتاب "الاختيارات" میں دیکھ سکتے ہیں اور ہماری کتاب "تحذير الساجد من اتخاذ القبور مساجد" کی تعلیق میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
 
Top