سیدنا ابودردا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا : ”ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گنہگار کو بخش دے ، ماسوائے اس کے جو شرک کی حالت میں مرا یا وہ مومن جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کیا ۔“ سلسلہ صحیحہ 511
قال الشيخ الألباني رحمه الله:
والحديث في ظاهره مخالف لقوله تعالى:
* (إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء) * لأن القتل دون
الشرك قطعا فكيف لا يغفره الله وقد وفق المناوي تبعا لغيره بحمل الحديث على ما إذا استحل وإلا فهو تهويل وتغليظ.
(وخير منه قول السندي في حاشيته على النسائي: " وكأن المراد كل ذنب ترجى مغفرته ابتداء إلا قتل المؤمن، فإنه لا يغفر بلا سبق عقوبة وإلا الكفر، فإنه لا يغفر أصلا ولو حمل على القتل مستحلا لا يبقى المقابلة بينه وبين الكفر (يعني لأن الاستحلال كفر ولا فرق بين استحلال القتل أو غيره من الذنوب، إذ كل ذلك كفر).
ثم لابد من حمله على ما إذا لم يتب وإلا فالتائب من الذنب كمن لا ذنب له كيف وقد يدخل القاتل والمقتول الجنة معا كما إذا قتله وهو كافر ثم آمن وقتل ".
شیخ البانی رحمہ اللّٰہ اس حدیث کی تخریج کے بعد لکھتے ہیں:
یہ حدیث ظاہری طور پر اللّٰہ تعالٰی کے اس قول [
(إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِۦ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٲلِكَ لِمَن يَشَآءُۚ وَمَن يُشْرِكْ بِٱللَّهِ فَقَدِ ٱفْتَرَىٰٓ إِثْمًا عَظِيمًا
یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک مقرر کرے اس نے بہت بڑا گناه اور بہتان باندھا(سورہ آل عمران، آیت 48)]
کے مخالف لگتی ہے، کیونکہ (مومن کا) قتل شرک سے مطلق طور پر کم گناہ کا کام ہے تو کیسے اللّٰہ تعالی قتل کو معاف نہیں کرے گا؟؟ اس لئے مناوی رحمہ اللّٰہ نے دوسروں کی پیروی کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ یہ اس وقت ہے جب کوئی مومن کے قتل کو حلال سمجھے ورنہ یہ حدیث گناہ کی سنگینی پر دلالت کرتی ہے۔
اس سے اچھا قول سندی رحمہ اللّٰہ کا سنن نسائی کی شرح میں ہے کہ اصل میں ہر گناہ کی مغفرت کی امید ہے سوائے کفر اور مومن کے قتل کے، کیونکہ
قتلِ مومن بغیر سزا اور عذاب کے معاف نہیں کیا جائے گا، کیونکہ وہ اصل میں معاف ہی نہیں کیا جائے گا اور اگر قتل کو جائز سمجھنے پر محمول کیا جائے تو قتلِ مومن اور کفر میں کوئی فرق ہی باقی نہیں رہے گا(یعنی قتل کو جائز سمجھنا کفر ہے اور قتل کو جائز سمجھنے اور دوسرے گناہوں کو جائز سمجھنے میں کوئی فرق نہیں ہے، کیونکہ یہ ساری چیزیں کفر ہی ہونگی)۔
پھر اس حدیث کو اس شخص پر محمول کرنا بھی ضروری ہے
جو توبہ نہیں کرتا کیونکہ جو شخص توبہ کرتا ہے وہ ایسا ہی ہے جیسے اس نے گناہ ہی نہیں کیا (اور تائب شخص جہنم میں کیسے جا سکتا ہے) حالانکہ قاتل اور مقتول دونوں ایک ساتھ جنت میں جائیں گے جب کہ وہ کفر کی حالت میں مسلم کو قتل کرے پھر ایمان لائے اور پھر قتل کر دیا جائے۔(و اللّٰہ اعلم)