• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلفیت مشعل راہ (پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا): شیخ صلاح الدین مقبول احمد مدنی

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
اس موضوع پر پہلے اس لنک پر بات ہو چکی ہے۔
 
شمولیت
فروری 06، 2016
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
4
حضرت مولانا صلاح مقبول کی تحریر سے اس قدر بوکھلاہٹ ..رحمانی ...صاحب.....
شیخ صلاح کتنے بڑے ہیں یہ جاننے کیلئے بھی بڑا بننا ضروری ہے .....ہر کسی کے بس کی بات نہیں ....
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
حضرت مولانا صلاح مقبول کی تحریر سے اس قدر بوکھلاہٹ ..رحمانی ...صاحب.....
میری تحریر میں اس کا کوئی عنصر ہو تو واضح کریں،اورحقیقت پسند قاری بخوبی جانتاہے کہ کون بوکھلاہٹ میں ہے،کون خوفزدہ ہے اور کون شوروشغب کررہاہے؟اس پر زیادہ بات کرنےکی ضرورت نہیں، قارئین خود فیصلہ کرلیں گے۔
شیخ صلاح کتنے بڑے ہیں یہ جاننے کیلئے بھی بڑا بننا ضروری ہے .....ہر کسی کے بس کی بات نہیں ....
صلاح الدین مقبول کی بڑائی جاننے کیلئے بڑابننے کی ضرورت ہے لیکن امام ابوحنیفہ سے لے کر تاایں دم کے فقہاء،صوفیاء پر تنقید کیلئے اورجبال علم وعمل پرنشترزنی کیلئے بھی بڑابننے کی ضرورت ہے یانہیں، کاش یہ نصیحت کبھی اپنے ہم مسلک افراد کو کرسکیں(جس کی امید اگرچہ نہیں ہے)
صلاح الدین مقبول کتنے پہنچے ہوئے ہیں، ہمیں بخوبی معلوم ہے،ہمیں ان کے فضائل ومناقب بتانے کی ضرورت نہیں ہے،بات صرف ان کی تحریر کی حد تک ہے ،اسی تک محدود رہیں،
ورنہ آپ کااپنافورم ہے، صلاح الدین مقبول کے فضائل ومناقب پر صفحات یاتھریڈز سیاہ کریں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
رحمانی صاحب کی عادت ہے صلب موضوع سے توجہ ہٹانے کے لیے چیخ و پکار کرتے رہتے ہیں ۔
سلمان ندوی صاحب نے سلفیت کے خلاف اپنے مافی الضمیر کا اظہار کیا ہے ، تو سلفیوں کو بھی دفاع کا پورا حق ہے ۔
اس پر اس قدر چیں بہ چیں ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
چیخ وپکار تو غیرمقلدوں کی صفت ثانیہ بن چکی ہے، براہ کرم دوسروں کو شوروشغب کا طعنہ تو نہ دیں کہ چھلنی کسی کو چھید کا کیاطعنہ دینے کا حق رکھتی ہے۔میراکہناشروع سے یہی ہے کہ غیرمقلداسی بات پر تو مشتعل ہیں کہ انہوں نے سلفیت کے خلاف کچھ کیوں لکھا تو یہ سلفی گزشتہ صدی ونصف صدی سے جواحناف کے خلاف جاوبےجا ،رواوناروا لکھتے رہے، اس کو کیوں بھول جاتے ہیں۔اگرآپ کو حق ہےکہ آپ کسی دوسرے گروہ پر دن رات ،شب وروز تنقید کی مشین گین چلاتے رہیں تودوسرے کو بھی تنقیدی فائرنگ کا حق حاصل ہے اوراسی حق کا استعمال مولانا سلمان صاحب نے کیاہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
چیخ وپکار تو غیرمقلدوں کی صفت ثانیہ بن چکی ہے، براہ کرم دوسروں کو شوروشغب کا طعنہ تو نہ دیں کہ چھلنی کسی کو چھید کا کیاطعنہ دینے کا حق رکھتی ہے۔میراکہناشروع سے یہی ہے کہ غیرمقلداسی بات پر تو مشتعل ہیں کہ انہوں نے سلفیت کے خلاف کچھ کیوں لکھا تو یہ سلفی گزشتہ صدی ونصف صدی سے جواحناف کے خلاف جاوبےجا ،رواوناروا لکھتے رہے، اس کو کیوں بھول جاتے ہیں۔اگرآپ کو حق ہےکہ آپ کسی دوسرے گروہ پر دن رات ،شب وروز تنقید کی مشین گین چلاتے رہیں تودوسرے کو بھی تنقیدی فائرنگ کا حق حاصل ہے اوراسی حق کا استعمال مولانا سلمان صاحب نے کیاہے۔
محترم رد و قدح کا یہ سلسلہ جب معمول کی بات ہے تو ہر کسی کو لکھنے کا حق ہے ، اس لیے افکار و نظریات پر نقد کریں ، صرف یہ طعنہ دینا کہ فلاں شور مچارہا ہے ، فلاں نہیں مچارہا یہ کوئی سمجھدار بات نہیں ، اگر سلمان صاحب نے ایک بات کی ابتدا کی ہے تو اس کے رد عمل پر ناک بھوں چڑھانا سمجھ سے باہر ہے ،
( آپ کے الفاظ میں : سلمان صاحب نے شور و شغب شروع کیا ہے تو اب رد عمل کے اظہار پر دوسروں کو تو اس کا طعنہ نہ دیں )
اگر آپ کو کرنے کے لیے کوئی بات نہیں ملتی تو کم از کم خاموش تو ہوسکتے ہیں ۔
 
شمولیت
اپریل 24، 2014
پیغامات
158
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
77
بابری مسجد اور مولانا سلمان ندوی کا فارمولہ
___________​
اس وقت مسلمانان عالم بالعموم اور مسلمانان ہند بالخصوص بڑے آزمائشی دور سے گذر رہے ہیں۔ داخلی وخارجی دونوں سطح پر مختلف قسم کے چیلنجوں کا انھیں سامنا ہے۔ ہندوستان میں مرکزی اور ریاستی فرقہ پرست حکومتیں اور ان کے کارندے پوری جارحیت کے ساتھ میدان میں اتر پڑے ہیں۔ اس ناگفتہ بہ صورت حال سے صرف مسلمان ہی نہیں انصاف پسند غیر مسلم زعماء ومفکرین بھی فکرمند ہیں۔ قابل اطمینان بات یہ تھی کہ تمام گروہ بندیوں کے باوجود مسلمانان ہند ملی مسائل میں بالعموم اجتماعیت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں آپس کے شدید اختلاف کے باوجود تمام مکاتب فکر حکومت کے سامنے ایک موقف پر جمے رہے۔ بابری مسجد کے تعلق سے چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے سے پوری امت کی آواز ایک رہی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ تمام اسلامیان ہند کا ایسا متحدہ پلیٹ فارم تھا جس نے مسلمانوں کے مذہبی تشخص کی حفاظت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ لیکن افسوس کہ مولانا سلمان ندوی کی شرمناک حرکتوں نے مسلمانوں کی اجتماعیت پر شب خون ماردیا۔ بابری مسجد کے تعلق سے پوری ملت کے جذبات واحساسات سے کھلواڑ کرتے ہوئے اللہ کے اس گھر کی سودہ بازی پر اتر آئے۔ پوری قوم سکتے میں آگئی اور ایک معروف عالم دین کے اس حیرت ناک موقف پر انگشت بدنداں ہوگئی۔
بابری مسجد کا مسئلہ کسی ایک فرد، ایک مکتب فکر یا ایک جماعت وتنظیم کا نہیں بلکہ ہندوستان کے ۲۰؍کروڑ مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ بلکہ اپنی حساسیت اور نزاکت کی وجہ سے اس کی ایک عالمی شناخت بن چکی ہے اور پوری دنیا کے مسلمان اس تاریخی قضیہ سے واقفیت اور دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں کوئی ایک فرد چاہے وہ بزعم خویش جتنا بڑا بھی عالم وقائد ہو اس کے بارے میں کوئی فیصلہ لینے کا مجاز کیسے ہوسکتا ہے، وہ بھی ایسا فیصلہ جو سراسر نا انصافی، رسوائی، ہزیمت اور یاس وقنوط سے عبارت ہو، جس کی رو سے ایک اللہ کی عبادت کے لیے اس کے مخصوص گھر کو بت پرستی اور شرک وکفر کے اڈے میں تبدیل کرنے کا سرٹیفکٹ دیا جارہا ہو۔ (تکاد السموات یتفطرن منہ وتنشق الأرض وتخر الجبال ھدا) ایک عالم دین ایسی سطحیت پر اتر آئے گا ایسی کسی کو توقع نہ تھی، لیکن (أضلہ اللہ علی علم) اور (فانسلخ منہا فأتبعہ الشیطان فکان من الغاوین) کا مصداق بھی تو بننا تھا۔
موصوف کی جو تھیوری ہے اس کی رو سے تو مسلمانوں کا کوئی مسئلہ، مسئلہ ہی نہیں رہ جائے گا، بکتے جاؤ مسائل حل ہوتے جائیں گے۔ اب تو فلسطین اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کا مسئلہ بھی اسی تھیوری سے حل کرنے کا موصوف مشورہ دیں گے، اور مشورہ کیا دینا آپ صرف ملکی قائد نہیں عالمی قائد بننے کے لیے بھی ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں، کیا عجب کہ مصالحت کا فارمولہ لے کر نیتن یاہو کے دربار میں پہنچ جائیں۔ اس موقع سے عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانی کا وہ سخت موقف شدت سے یاد آرہا ہے جب یہودیوں نے فلسطین میں اپنا قدم جمانے اور وہاں کی کچھ اراضی کی ملکیت حاصل کرنے کی غرض سے عثمانی خلیفہ کو راضی کرنے کی کوشش کی، خلیفہ نے انھیں سختی سے روکا اور اس تعلق سے کئی سخت فیصلے کیے۔ یہودیوں نے انھیں خریدنے کی کوشش کی، لاکھوں ڈالر ان کی جیب خاص کے لیے اور لاکھوں حکومت کے لیے لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بھی بہت ساری پیشکش کی۔ ایک اسلامی یونیورسٹی بھی فلسطین میں اپنی طرف سے قائم کرنے کی بات کہی (جس طرح اس وقت کہا جارہا ہے) لیکن قربان جائیے اس عثمانی مرد مومن پر اس نے ایسا جواب دیا جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ سلطان عبد الحمید ثانی نے پوری ایمانی غیرت اور مومنانہ فراست سے جواب دیا کہ سن لو! میں فلسطین کی ایک بالشت زمین سے بھی دست بردار نہیں ہوسکتا، وہ میری ذاتی ملکیت نہیں ہے، پوری قوم مسلم کی ملکیت ہے۔۔۔۔ اس موقف کی انھیں کیا قیمت چکانی پڑی اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ جس کے مولانا سلمان صاحب عرصہ سے ممبر ہیں اسی بورڈ کے خلاف انہوں نے محاذ کھول دیا او ر اس کے ذمہ داران کو سب وشتم کا نشانہ بنانے لگے۔ لیکن اس میں کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں تھی۔ مولانا کی طبیعت اور ان کے مزاج سے ایک دنیا واقف ہے۔ لعن طعن، سب وشتم، تکفیر وتفسیق، اتہام بازی اور الزام تراشی یہ سب ان کی زبان وقلم کی نوک پر رہتے ہیں۔ ان خصائل میں وہ عالمی چیمپیئن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مباہلہ کے لیے تال ٹھونکتے رہتے ہیں۔ اگر دوسروں کو نہیں پاتے تو اپنوں پر ہی پل پڑتے ہیں۔
وأحیانا علی بکر أخینا
إذا ما لم نجد إلا أخانا​
مولانا نے اپنی زبان وقلم سے اب تک بہت سی شخصیات، جماعات حتی کہ ممالک کو ایذا پہنچائی، یہ کوئی الزام نہیں، ایک عالَم اس سے واقف ہے اور سب کچھ آن ریکارڈ ہے۔ لیکن اس بار آں موصوف نے پورے اسلامیان ہند کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہر شخص دم بخود ہے، دشمن تالیاں بجا رہے ہیں، جشن منا رہے ہیں، پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے، علماء وزعماء سب حیران ہیں۔ پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر سب کے تردیدی اور مذمتی بیان آتے جارہے ہیں، ان کے مزعومہ دلائل کتنے بے وزن ہیں اسے واضح کیا جارہا ہے، ان کے فارمولے کے عواقب ومضمرات سے پردہ اٹھایا جارہا ہے۔ بعض لوگ جذبات میں آکر ناشائستہ لب ولہجہ بھی اپنا لیتے ہیں جس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ ان کی طرف سے پوری قوم غم وغصے میں مبتلا ہے۔ کچھ لوگ توجیہ وتاویل میں بھلے لگے ہیں لیکن چونکہ معاملہ توحید وشرک کا، ایمان اور کفر کا، حق اور باطل کا ہے اس لیے لوگوں کا غصہ بھڑکتا ہی جارہا ہے۔
چونکہ بابری مسجد کا مسئلہ فی الحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور فیصلہ کن موڑ پر آچکا ہے، دلائل وشواہد مسلمانوں کے حق میں جارہے ہیں، مسلمان اپنے حق میں مثبت فیصلے کے لیے پرامید ہیں۔ مخالف خیمے میں مایوسی ہے، شکست کا خوف کھائے جارہا ہے، اس لیے یہ سب ڈرامہ بازی پوری پلاننگ کے ساتھ کرائی جارہی ہے۔ لیکن اللہ نے اپنے اول گھر کو ابرہہ اور اس کے لشکر سے کیسے بچایا تھا اسے کون نہیں جانتا۔ کاش کہ ہم اپنے ایمان وعمل سے اس لائق ہوتے کہ نصرت الٰہی کے مستحق بن جاتے۔
________

  • اسعد اعظمی
۱۳؍۲؍۲۰۱۸ء
 
Top