بابری مسجد اور مولانا سلمان ندوی کا فارمولہ
___________
اس وقت مسلمانان عالم بالعموم اور مسلمانان ہند بالخصوص بڑے آزمائشی دور سے گذر رہے ہیں۔ داخلی وخارجی دونوں سطح پر مختلف قسم کے چیلنجوں کا انھیں سامنا ہے۔ ہندوستان میں مرکزی اور ریاستی فرقہ پرست حکومتیں اور ان کے کارندے پوری جارحیت کے ساتھ میدان میں اتر پڑے ہیں۔ اس ناگفتہ بہ صورت حال سے صرف مسلمان ہی نہیں انصاف پسند غیر مسلم زعماء ومفکرین بھی فکرمند ہیں۔ قابل اطمینان بات یہ تھی کہ تمام گروہ بندیوں کے باوجود مسلمانان ہند ملی مسائل میں بالعموم اجتماعیت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ طلاق ثلاثہ کے مسئلہ میں آپس کے شدید اختلاف کے باوجود تمام مکاتب فکر حکومت کے سامنے ایک موقف پر جمے رہے۔ بابری مسجد کے تعلق سے چوتھائی صدی سے زیادہ عرصے سے پوری امت کی آواز ایک رہی۔ مسلم پرسنل لا بورڈ تمام اسلامیان ہند کا ایسا متحدہ پلیٹ فارم تھا جس نے مسلمانوں کے مذہبی تشخص کی حفاظت میں نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ لیکن افسوس کہ مولانا سلمان ندوی کی شرمناک حرکتوں نے مسلمانوں کی اجتماعیت پر شب خون ماردیا۔ بابری مسجد کے تعلق سے پوری ملت کے جذبات واحساسات سے کھلواڑ کرتے ہوئے اللہ کے اس گھر کی سودہ بازی پر اتر آئے۔ پوری قوم سکتے میں آگئی اور ایک معروف عالم دین کے اس حیرت ناک موقف پر انگشت بدنداں ہوگئی۔
بابری مسجد کا مسئلہ کسی ایک فرد، ایک مکتب فکر یا ایک جماعت وتنظیم کا نہیں بلکہ ہندوستان کے ۲۰؍کروڑ مسلمانوں کا مسئلہ ہے۔ بلکہ اپنی حساسیت اور نزاکت کی وجہ سے اس کی ایک عالمی شناخت بن چکی ہے اور پوری دنیا کے مسلمان اس تاریخی قضیہ سے واقفیت اور دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایسی صورت میں کوئی ایک فرد چاہے وہ بزعم خویش جتنا بڑا بھی عالم وقائد ہو اس کے بارے میں کوئی فیصلہ لینے کا مجاز کیسے ہوسکتا ہے، وہ بھی ایسا فیصلہ جو سراسر نا انصافی، رسوائی، ہزیمت اور یاس وقنوط سے عبارت ہو، جس کی رو سے ایک اللہ کی عبادت کے لیے اس کے مخصوص گھر کو بت پرستی اور شرک وکفر کے اڈے میں تبدیل کرنے کا سرٹیفکٹ دیا جارہا ہو۔ (تکاد السموات یتفطرن منہ وتنشق الأرض وتخر الجبال ھدا) ایک عالم دین ایسی سطحیت پر اتر آئے گا ایسی کسی کو توقع نہ تھی، لیکن (أضلہ اللہ علی علم) اور (فانسلخ منہا فأتبعہ الشیطان فکان من الغاوین) کا مصداق بھی تو بننا تھا۔
موصوف کی جو تھیوری ہے اس کی رو سے تو مسلمانوں کا کوئی مسئلہ، مسئلہ ہی نہیں رہ جائے گا، بکتے جاؤ مسائل حل ہوتے جائیں گے۔ اب تو فلسطین اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس) کا مسئلہ بھی اسی تھیوری سے حل کرنے کا موصوف مشورہ دیں گے، اور مشورہ کیا دینا آپ صرف ملکی قائد نہیں عالمی قائد بننے کے لیے بھی ہاتھ پیر مارتے رہتے ہیں، کیا عجب کہ مصالحت کا فارمولہ لے کر نیتن یاہو کے دربار میں پہنچ جائیں۔ اس موقع سے عثمانی خلیفہ سلطان عبد الحمید ثانی کا وہ سخت موقف شدت سے یاد آرہا ہے جب یہودیوں نے فلسطین میں اپنا قدم جمانے اور وہاں کی کچھ اراضی کی ملکیت حاصل کرنے کی غرض سے عثمانی خلیفہ کو راضی کرنے کی کوشش کی، خلیفہ نے انھیں سختی سے روکا اور اس تعلق سے کئی سخت فیصلے کیے۔ یہودیوں نے انھیں خریدنے کی کوشش کی، لاکھوں ڈالر ان کی جیب خاص کے لیے اور لاکھوں حکومت کے لیے لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بھی بہت ساری پیشکش کی۔ ایک اسلامی یونیورسٹی بھی فلسطین میں اپنی طرف سے قائم کرنے کی بات کہی (جس طرح اس وقت کہا جارہا ہے) لیکن قربان جائیے اس عثمانی مرد مومن پر اس نے ایسا جواب دیا جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہے۔ سلطان عبد الحمید ثانی نے پوری ایمانی غیرت اور مومنانہ فراست سے جواب دیا کہ سن لو! میں فلسطین کی ایک بالشت زمین سے بھی دست بردار نہیں ہوسکتا، وہ میری ذاتی ملکیت نہیں ہے، پوری قوم مسلم کی ملکیت ہے۔۔۔۔ اس موقف کی انھیں کیا قیمت چکانی پڑی اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
مسلم پرسنل لا بورڈ جس کے مولانا سلمان صاحب عرصہ سے ممبر ہیں اسی بورڈ کے خلاف انہوں نے محاذ کھول دیا او ر اس کے ذمہ داران کو سب وشتم کا نشانہ بنانے لگے۔ لیکن اس میں کوئی زیادہ تعجب کی بات نہیں تھی۔ مولانا کی طبیعت اور ان کے مزاج سے ایک دنیا واقف ہے۔ لعن طعن، سب وشتم، تکفیر وتفسیق، اتہام بازی اور الزام تراشی یہ سب ان کی زبان وقلم کی نوک پر رہتے ہیں۔ ان خصائل میں وہ عالمی چیمپیئن کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مباہلہ کے لیے تال ٹھونکتے رہتے ہیں۔ اگر دوسروں کو نہیں پاتے تو اپنوں پر ہی پل پڑتے ہیں۔
وأحیانا علی بکر أخینا
إذا ما لم نجد إلا أخانا
مولانا نے اپنی زبان وقلم سے اب تک بہت سی شخصیات، جماعات حتی کہ ممالک کو ایذا پہنچائی، یہ کوئی الزام نہیں، ایک عالَم اس سے واقف ہے اور سب کچھ آن ریکارڈ ہے۔ لیکن اس بار آں موصوف نے پورے اسلامیان ہند کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہر شخص دم بخود ہے، دشمن تالیاں بجا رہے ہیں، جشن منا رہے ہیں، پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے، علماء وزعماء سب حیران ہیں۔ پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا پر سب کے تردیدی اور مذمتی بیان آتے جارہے ہیں، ان کے مزعومہ دلائل کتنے بے وزن ہیں اسے واضح کیا جارہا ہے، ان کے فارمولے کے عواقب ومضمرات سے پردہ اٹھایا جارہا ہے۔ بعض لوگ جذبات میں آکر ناشائستہ لب ولہجہ بھی اپنا لیتے ہیں جس سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن اتنی بات واضح ہے کہ ان کی طرف سے پوری قوم غم وغصے میں مبتلا ہے۔ کچھ لوگ توجیہ وتاویل میں بھلے لگے ہیں لیکن چونکہ معاملہ توحید وشرک کا، ایمان اور کفر کا، حق اور باطل کا ہے اس لیے لوگوں کا غصہ بھڑکتا ہی جارہا ہے۔
چونکہ بابری مسجد کا مسئلہ فی الحال سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور فیصلہ کن موڑ پر آچکا ہے، دلائل وشواہد مسلمانوں کے حق میں جارہے ہیں، مسلمان اپنے حق میں مثبت فیصلے کے لیے پرامید ہیں۔ مخالف خیمے میں مایوسی ہے، شکست کا خوف کھائے جارہا ہے، اس لیے یہ سب ڈرامہ بازی پوری پلاننگ کے ساتھ کرائی جارہی ہے۔ لیکن اللہ نے اپنے اول گھر کو ابرہہ اور اس کے لشکر سے کیسے بچایا تھا اسے کون نہیں جانتا۔ کاش کہ ہم اپنے ایمان وعمل سے اس لائق ہوتے کہ نصرت الٰہی کے مستحق بن جاتے۔
________
۱۳؍۲؍۲۰۱۸ء