• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سلف صالحین سے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ثبوت

شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
اصل کتابوں سے باحوالہ و باسند یہ جروح پیش کریں
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
تهذيب التهذيب (10 / 380):
"من اسمه مؤمل"
682- "خت قد ت س ق - مؤمل" بن إسماعيل العدوي مولى آل الخطاب وقيل مولى بني بكر أبو عبد الرحمن البصري نزيل مكة روى عن عكرمة بن عمار وأبي هلال الراسبي ونافع بن عمر الجمحي وشعبة والحمادين والسفيانين وغيرهم وعنه أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه وعلي بن المديني وأبو موسى وبندار وأبو كريب وأبو الجوزاء أحمد بن عثمان النوفلي وعلي بن سهل الرملي ومحمود بن غيلان وأحمد بن نصر الفراء وآخرون قال ابن أبي خيثمة عن بن معين ثقة وقال عثمان الدارمي قلت لابن معين أي شيء حاله فقال ثقة قلت هو أحب إليك أو عبيد الله يعني بن موسى فلم يفضل وقال أبو حاتم صدوق شديد في السنة كثير الخطأ وقال البخاري منكر الحديث وقال الآجري سألت أبا داود عنه فعظمه ورفع من شأنه إلا أنه يهم في الشيء وذكره ابن حبان في الثقات وقال مات سنة ست ومائتين وفيها أرخه أبو القاسم بن مندة وزاد في رمضان وقال البخاري مات سنة خمس أو ست وقال غيره دفن كتبه فكان يحدث من حفظه فكثر خطأه قلت قال بن حبان في الثقات ربما أخطأ. مات يوم الأحد لسبع عشرة ليلة خلت من شهر رمضان سنة ست ومائتين وهكذا أرخه البخاري عن ابن أبي بزة قال البخاري أما ابنه فقال نحن من صلبية كنانة قال وحدثني من أثق به أنه مولى لبني بكر وقال يعقوب بن سفيان مؤمل أبو عبد الرحمن شيخ جليل سني سمعت سليمان بن حرب يحسن الثناء كان مشيختنا يوصون به الا أن حديثه لا يشبه حديث أصحابه وقد يجب على أهل العلم أن يقفوا عن حديثه فإنه يروي المناكير عن ثقات شيوخه وهذا أشد فلو كانت هذه المناكير عن الضعفاء لكنا نجعل له عذرا وقال الساجي صدوق كثير الخطأ وله أوهام يطول ذكرها وقال ابن سعد ثقة كثير الغلط وقال بن قانع صالح يخطئ وقال الدارقطني ثقة كثير الخطأ وقال إسحاق بن راهويه حدثنا مؤمل بن إسماعيل ثقة وقال محمد بن نصر المروزي المؤمل إذا انفرد بحديث وجب أن يتوقف ويثبت فيه لأنه كان سيء الحفظ كثير الغلط.
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
ہمارا کام ہے سمجھانا دل میں اتارنا اللہ تعالٰی کا کام ہے۔
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
مومل بن اسماعیل رحمہ اللہ مشہور و معروف راوی ہیں اور یہ عند الجمہور ثقہ ہیں۔ ان پر بعض محدثین نے جرح کی ہے لیکن وہ جرح جمہور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہیں ۔

(1) امام أحمد بن حنبل رحمه الله (المتوفى241):
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل رحمہ اللہ سے کہیں مقامات پر روایت لی ہے
[دیکھیے مسند أحمد ط الرسالہ 256/1، 343/1، 369/1، 210/2، 150/3، 64/4، 232/4، 248/4 ]
نیز اور بہت سارے مقامات پر امام احمد بن حنبل نے ان سے روایت لی ہے۔
امام احمد بن حنبل کے بارے میں یہ قائدہ ہے کہ جس راوی سے وہ روایت کرتے ہیں وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔
چنانچہ عبد الله بن أحمد بن حنبل رحمه الله نے کہا:
كان أبي إذا رضي عن إنسان وكان عنده ثقة حدث عنه
میرے والد جب کسی انسان سے راضی ہوتے اوروہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا تو اس سے روایت کرتے تھے
[دیکھیے العلل ومعرفة الرجال لأحمد: 1/ 238]
تو ثابت ہوا کہ امام احمد بن حنبل اپنے نزدیک ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں۔ جیسا کہ ان کے بیٹے نے وضاحت کر دی۔
نیز امام ہیثمی رحمہ اللہ نے ایک راوی کے بارے میں کہا:
روى عنه أحمد، وشيوخه ثقات
ان سے امام احمد نے روایت کیا ہے اور امام احمد کے تمام اساتذہ ثقہ ہیں
[دیکھیے مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 1/ 199]

(2) إسحاق بن ابن راهوية (المتوفی 238):
امام اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ:
كان ثقة
آپ (مومل بن اسماعیل) ثقہ ہیں۔
[دیکھیے المزكيات لابی اسحاق صفحہ 82]

(3) امام بخاری (المتوفی 256):
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان سے صحیح بخاری میں تعلیقا روایت لی ہے یعنی ان سے استشہاد کیا ہے۔
[دیکھیے صحیح بخاری حدیث 2700]
نیز امام مزی رحمہ اللہ نے کہا:
استشهدبه البخاري.
امام بخاری نے ان سے استشہادا روایت لی ہے
[دیکھیے تهذيب الكمال للمزي: 29/ 179]
اورامام بخاری رحمہ اللہ جس سے استشہادا روایت لیں وہ عمومی طور پر ثقہ ہوتا ہے۔
محمد بن طاهر ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى507) ایک راوی حماد بن سلمہ کے متعلق کہتے ہیں کہ:
بل استشھد بہ فی مواضع لیبین انه ثقہ
امام بخاری رحمہ اللہ نے ان (حمادبن سلمہ ) سے کئی مقامات پر استشہادا روایت کیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ یہ ثقہ ہیں
[دیکھیے شروط الأئمة الستة صفحہ 18]
معلوم ہوا کہ امام بخاری جس سے تعلیقا روایت لیتے ہیں وہ ان کے نزدیک ثقہ ہوتا ہے۔

(4) امام یحیی بن معین رحمہ اللہ (المتوفی 233):
امام یحیی بن معین رحمہ اللہ مؤمل بن اسماعیل کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
" کان ثقة"
آپ ثقہ تھے
[ دیکھیے تاریخ ابن معین رواية الدوري: 3/ 60]
نیز ایک جگہ ابن معین رحمہ اللہ کے شاگرد امام عثمان بن سعید الدارمي رحمه الله (المتوفى280)نے کہا:
قلت ليحيى بن معين أي شيء حال المؤمل في سفيان فقال هو ثقة قلت هو ثقة قلت هو أحب إليك أو عبيد الله فلم يفضل أحدا على الآخر
میں نے امام یحیی بن معین رحمہ اللہ سے کہا: سفیان ثوری کی حدیث میں مؤمل کی حالت کیسی ہے تو امام ابن معین رحمہ اللہ نے کہا: وہ ثقہ ہیں ۔ میں نے کہا: وہ ثقہ ہیں تو یہ بتائیں کہ آپ کے نزدیک وہ زیادہ محبوب ہیں یا عبیداللہ؟ تو امام ابن معین نے ان دونوں میں کسی کو بھی دوسرے پر فضیلت نہیں دی
[دیکھیے الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 8/ 374 واسنادہ صحیح]
اس روایت کے راوی یعقوب بن اسحاق الھروی ہیں ان پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ مجہول ہیں۔
اس راوی کا ترجمہ تاریخ الاسلام للذھبی (666/7 ) پر موجود ہے۔
اس راوی سے امام ابن ابی حاتم رحمہ اللہ (ثقه امام) اور محمد بن العباس الضبی العصمی (ثقہ ثبت) نے روایت کیا ہے۔
امام عبدالرحمن بن حاتم نے ان سے روایت کیا ہے
[دیکھیے الجرح والتعدیل 374/8]
اسی طرح محمد بن العباس بن أحمد الضبی العصمی نے بھی ان سے روایت لی ہے
[دیکھیے تاریخ دمشق 422/62]

امام ابن ابی حاتم تو بالاجماع ثقہ ہیں
اور محمد بن العباس الضبی العصمی بھی ثقہ راوی ہیں
چنانچہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
" ثبت ثقة"
[ دیکھیے تاریخ بغداد 336/3 ]

امام ذھبی ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ:
"الحافظ المتقن"
[ دیکھیے تذکرۃ الحفاظ 141/3]

لہذا ثابت ہوا کہ کہ دو ثقہ راویوں نے یعقوب بن اسحاق الھروی سے روایت کیا ہے۔
اور یہ علم حدیث کا مشہور اصول ہے کی جس راوی سے دو یا دو سے زیادہ ثقہ راوی روایت کریں تو وہ راوی مجہول نہیں رہتا یعنی اس کی جہالت رفع ہو جاتی ہے
چنانچہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ کھتے ہیں کہ :
"وأقل ما ترفع به الجهالة أن يروي عن الرجل اثنان فصاعدا من المشهورين "
اور راوی کی جہالت کم از کم اس وقت ختم ہو جاتی ہے کہ اس سے علم کے ساتھ مشہور (یعنی ثقہ) دو یا زیادہ راوی بیان کریں ۔
[ دیکھیے الکفاية للخطيب صفحہ 88]
امام حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
"ومن روي عنه عدلان و عيناه فقد ارتفعت عنه هذه الجهالة"
اور جس سے دو ثقہ روایت کریں اور اس کا تعیین کر دیں تو اس سے یہ جہالت ختم ہو جاتی ہے
[ دیکھیے مقدمة ابن الصلاح صفحہ 112]

نیز اور بھی کہیں علماء نے اس چیز کی وضاحت کی ہے کہ دو یا دو سے زائد ثقہ راوی جس سے روایت کریں وہ مجھول نہیں رہتا
لہذا یعقوب بن اسحاق الھروی مجہول نہیں ہیں کیوں کہ ان سے دو ثقہ راوی نے روایت بیان کی ہے جیسا کہ ہم گذشتہ سطور میں یہ بات واضح کر آئے ہیں
لہذا اس روایت پر اعتراض باطل ہے جس میں امام یحیی بن معین نے مومل کو سفیان کی روایت میں ثقہ کہا ہے

نیز امام ابن معین کے اس قول کو امام ابن رجب نے بھی امام عثمان بن سعید الدارمی رحمہ اللہ کی کتاب سے نقل کیا ہے
[ دیکھیے شرح العلل الترمذی لابن رجب 541/2]

بلکہ اس روایت کا معنوی شاہد تاریخ الدمشق لابن عساکر میں بھی موجود ہے۔

چنانچہ امام ابن عساکر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ:
أخبرنا أبو القاسم الواسطي نا أبو بكر الخطيب لفظا أنا أبو بكر أحمد بن محمد بن إبراهيم بن حميد قال سمعت أحمد بن عبدوس قال سمعت عثمان بن سعيد الدارمى قلت ليحيي بن معين فعبد الرزاق في سفيان فقال مثلهم يعني ثقة كالمؤمل بن إسماعيل و عبيدالله بن موسى وابن يمان وقبيصة والفريابي
امام عثمان بن سعید الدارمی کہتے ہیں کہ میں نے امام یحیی بن معین سے کہا کہ عبدالرزاق سفیان سے روایت کرنے میں کیسا ہے تو انہوں نے فرمایا ان لوگوں کی طرح ہے یعنی مؤمل بن اسماعیل، عبیداللہ بن موسی ، ابن یمان، قبیصہ اور فریابی کے جیسے (سفیان سے روایت کرنے میں) ثقہ ہیں۔
[دیکھیے تاریخ دمشق 171/36 واسنادہ صحیح]
معلوم ہوا کہ امام یحیی بن معین امام مومل بن اسماعیل کو سفیان ثوری کی روایت میں ثقہ مانتے تھے جس طرح دیگر رواۃ کو مانتے تھے۔ جن میں عبدالرزاق وغیرہ ہیں

(5) امام علي بن المدينی رحمه الله (المتوفى234):
آپ نے مؤمل سے روایت لی ہے
[التاريخ الكبير للبخاري 1/ 288 ]
اور امام ابن المدینی صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں [دیکھئے تهذيب التهذيب لابن حجر 9/ 114]

(6) امام ذھبی رحمہ اللہ (المتوفی 748ھ)
امام ذھبی رحمہ اللہ مومل بن اسماعیل کے بارے میں کہتے ہیں کہ:
كان من ثقات البصريين
یہ بصرہ کے ثقہ لوگوں میں سے تھے
[دیکھیے العبر في خبر من غبر 274/1]

نیز امام ذھبی نے مومل بن اسماعیل سے مروی ایک روایت کو صحیح الاسناد کہا ہے۔
[ دیکھیے مستدرک للحاکم مع تلخیص 141/1 حدیث 241]

(7) امام ترمذي رحمه الله (المتوفى279):
آپ نے مؤمل کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
حسن صحيح
یہ حدیث حسن صحیح ہے[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 274 رقم 415]
معلوم ہوا کہ مومل امام ترمذی کے نزدیک صحیح الحدیث یا کم از کم حسن الحدیث تو ہیں۔

اور یہ اصول ہے کہ کسی راوی کی روایت کی تصحیح یا تحسین اس کی سند کی راویوں کی توثیق ہوتی ہے

(8) امام ابن جرير الطبري رحمه الله (المتوفى310):
امام طبری نے سرخی بنا کر ایک باب باندھا ہے کہ:
" ذکر ما صح عندنا سندہ "
ان احادیث کا ذکر جن کی سند ہمارے نزدیک صحیح ہے
[ دیکھیے تھذیب الآثار مسند عمر 8/1]
اور اس باب کے اندر وہ مؤمل بن اسماعیل سے مروی ایک روایت لے کر آئے ہیں
[ دیکھیے تھذیب الآثار مسند عمر 21/1 ]

معلوم ہوا کہ مومل بن اسماعیل امام طبری کے نزدیک ثقہ ہیں کیوں کہ جن احادیث کی سند کو امام طبری نے صحیح کہا ان میں مومل بن اسماعیل بھی ہیں گویا امام طبری کے نزدیک مومل صحیح الحدیث ہیں۔

(9) امام بغوي رحمه الله (المتوفى317):
آپ نے مؤمل کی حدیث کے بارے میں کہا:
صحيح
[دیکھیے شرح السنة للبغوي 6/ 377، 443/3، 346/9،]
گویا کہ مومل بن اسماعیل امام بغوی کے نزدیک ثقہ و صحیح الحدیث ہیں۔ کیوں کہ جن حدیث کو انہوں نے صحیح کہا اس کی سند میں مؤمل ہیں

(10) امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311):
امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اس کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے کیوں کہ انہوں نے اس کی روایت کو اپنی صحیح میں ذکر کیا ہے۔
[ دیکھیے صحیح ابن خزیمہ حدیث 479]
نیز اور بہت ساری احادیث مومل بن اسماعیل سے انہوں نے صحیح ابن خزیمہ میں نقل کیں ہیں۔
یاد رہے صحیح ابن خزیمہ ان کتابوں میں سے ہے جن کے مصنفوں نے صحت کا التزام کیا ہے۔ یعنی وہ احادیث جو انہوں نے اپنی صحیح میں نقل کیں ہیں وہ ان کے نزدیک صحیح ہیں۔

چناچہ امام ابن کثیر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ
وكتب اخر التزم أصحابها صحتها كابن خزيمة و ابن حبان
وہ کتب جن کے مصنفین نے صحت (حدیث صحیح ہونے) کا التزام کیا ہے جیسے امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان۔
[دیکھیے الباعث الحیثیت الی اختصار علوم الحدیث صفحہ 27]

اسی طرح حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ صحیح ابن خزیمہ سے ایک روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ
وصححه ابن خزیمة أيضا لذكره إياه في صحيحه
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے کیوں کہ انہوں نے اسے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے۔
[ دیکھیے البدر المنیر 619/1]
معلوم ہوا کہ امام ابن خزیمہ کا صرف حدیث کو صحیح میں ذکر کرنے کا یہیں مطلب ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک صحیح ہے جیسا کہ امام حافظ ابن الملقن رحمہ اللہ نے کہا۔
لہذا ثابت ہوا کہ امام ابن خزیمہ نے مؤمل بن اسماعیل کی حدیث کو صحیح کہا جو کہ ان کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل کےصحیح الحدیث ہونے کی دلیل ہے۔

(11) امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354):
آپ نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے
[دیکھیے الثقات لابن حبان 9/ 187]
امام ابن حبان نے مؤمل کی حدیث کو صحیح بھی قرار دیا ہے
[دیکھیے صحیح ابن حبان 38/3 حدیث 738]
معلوم ہوا کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ کے نزدیک مؤمل ثقہ راوی ہیں کیوں کہ انہوں نے انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔

(12) امام أبو بكر الإسماعيلي (المتوفی371):
امام اسماعیلی نے مستخرج علی صحیح البخاری میں مؤمل کی روایت درج کی ہے
[دیکھیے فتح الباري لابن حجر 13/ 33]
اور مستخرج الاسماعیلی بھی ان کتابوں میں سے ہے جن میں صحت کا التزام کیا گیا ہے۔

امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
وقد خرجت كتب كثيرة على الصحيحين يؤخذ منها زيادات مفيدة وأسانيد جيدة كصحيح أبي عوانة وأبي بكر الإسماعيلي
بہت ساری کتب ایسی ہیں جو صحیحین پر بطور تخریج لکھی گئی ہیں جیسے صحیح ابو عوانہ اور (مستخرج) أبی بکر الاسماعیلی ان کے اندر بے حد مفید اور جید (صحیح) سندیں پائی جاتی ہیں
[ دیکھیے الباعث الحثیت الی اختصار علوم الحدیث صفحہ نمبر 27]

(13) امام ابو عوانہ (المتوفی 316)
امام ابو عوانہ رحمہ اللہ نے مؤمل سے اپنی صحیح (مستخرج علی صحیح مسلم) میں روایت لی ہے۔
[دیکھیے مستخرج ابی عوانه حدیث 962، 2635، 3096، 3233، 3237، 7041]
نیز مستخرج ابو عوانہ بھی ان کتابوں میں سے ہے جس میں صحت کا التزام کیا گیا ہے۔
[دیکھیے فقرہ نمبر 12]

(14) امام دار قطنی رحمہ اللہ (المتوفی 385)
امام دار قطنی رحمہ اللہ مؤمل بن اسماعیل کی سفیان ثوری سے ایک روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ
"اسنادہ صحیح"
[دیکھیے سنن دار قطنی 158/3 حدیث 2284]

امام دار قطنی نے مومل بن اسماعیل کی روایت کے بارے میں اسنادہ صحیح کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ مومل امام دار قطنی کے نزدیک صحیح الحدیث ہیں کیوں کہ جس حدیث کی سند کو امام دار قطنی نے صحیح کہا اس میں مومل بن اسماعیل موجود ہیں۔
لیکن یاد رہے امام دار قطنی نے مؤمل بن اسماعیل پر جرح بھی کی ہے۔
چنانچہ امام دار قطنی رحمہ اللہ مؤمل بن اسماعیل کے متعلق فرماتے ہیں کہ
" صدوق كثير الخطأ "
یہ سچے ہیں زیادہ غلطیاں کرنے والے ہیں
[ سؤالات الحاکم عن دارقطنی صفحہ 276 رقم 492 ]
لیکن یہ جرح عمومی ہے کیوں کہ جس روایت کی سند کو امام دار قطنی نے صحیح کہا وہ مؤمل عن سفیان والی ہے
لہذا ان کے اقول میں تطبیق دی جائے تو اس طرح ہو گی کہ مؤمل بن اسماعیل امام دارقطنی کے نزدیک صحیح الحدیث ہیں جب سفیان ثوری سے روایت کریں علاوہ ازیں عام حالات میں امام دارقطنی کے نزدیک وہ کثیر الخطا ہیں لیکن مومل عن سفیان والی سند امام دار قطنی کے نزدیک صحیح ہے جیسا کہ امام دار قطنی کی تصحیح سے واضح ہوتا ہے۔ غالباً یہیں وجہ ہے کہ امام دارقطنی نے مؤمل کو اپنی کتاب الضعفاء میں نقل نہیں کیا کیوں کہ وہ ان کے نزدیک علی الاطلاق ضعیف نہیں تھے۔ اگر یہ تطبیق نا دی جائے تو امام دارقطنی کے کلام میں واضح تعارض ہو گا اور ان کے اسی کلام کو ترجیح ہو گی جو جمہور کے موافق ہے۔ لیکن جب تطبیق کی صورت ممکن ہے تو تطبیق ہی دی جائے۔

(15) امام ابن شاهين رحمه الله (المتوفى385):
امام ابن شاہین نے مومل بن اسماعیل کو ثقات (ثقہ راویوں) میں ذکر کیا اور کہا کہ
مؤمل المكی ثقة قاله يحيى
مؤمل مکی ثقہ ہے امام ابن معین نے یہی کہا
[تاريخ أسماء الثقات لابن ابن شاهين صفحہ 231]

(16) امام حاکم رحمہ اللہ (المتوفى405):
امام حاکم رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل کی ایک روایت کے بارے میں کہا کہ
" هذا حديث صحيح الإسناد "
[ دیکھیے مستدرک للحاکم 141/1 حدیث 241 ]
نیز اور بھی کہیں احادیث کو صحیح الاسناد کہا ہے۔
[جیسے دیکھیے مستدرک للحاکم 451/1 حدیث 1157]

(17) امام ابن حزم رحمه الله (المتوفى456):
امام ابن حزم رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل کی روایت سے حجت پکڑی ہے
[ دیکھیے المحلی لابن حزم 74/4 ]
اور امام ابن حزم نے کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ
وليعلم من قرأ كتابنا هذا أننا لم نحتج إلا بخبر صحيح من رواية الثقات
ہماری یہ کتاب پڑھنے والا جان لے کہ ہم نے صرف ثقہ رواۃ کی صحیح روایت سے ہی حجت پکڑی ہے
[المحلى لابن حزم: 1/ 21]
لہذا معلوم ہوا کہ امام ابن حزم کے نزدیک مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہیں۔

(18) امام ابن القطان رحمه الله (المتوفى628):
آپ نے مؤمل کی حدیث کے بارے میں کہا:
وإسناده حسن
اس کی سند حسن ہے
[ دیکھیے بيان الوهم والإيهام في كتاب الأحكام 5/ 84]

(19) امام ضیاء المقدسی رحمہ اللہ (المتوفی 643)
امام ضیاء المقدسی رحمہ اللہ نے مؤمل کی روایت اپنی کتاب المختارہ میں نقل کی ہے
[دیکھیے کتاب المختارۃ للمقدسی 388/2 حدیث 774]
امام ضیاء المقدسی نے اپنی اس کتاب میں صحیح احادیث کی شرط رکھی ہیں۔
چنانچہ امام مقدسی رحمہ اللہ اپنی کتاب المختارہ کے مقدمہ میں فرماتے ہیں کہ
"فهذه الأحاديث اخترتها مما ليس في البخاري و مسلم إلا أننی ربما ذكرت بعض ما أورده البخاري معلقاً وربما ذكرنا أحاديث بأسانيد جياد لها علة فنذكر بيان علتها حتى يعرف ذلك "
میں نے اس کتاب میں بخاری و مسلم کے علاوہ دیگر صحیح احادیث کا انتخاب کیا ہے البتہ بعض دفعہ بخاری کی معلق روایات کو ذکر کیا ہے اسی طرح بعض دفعہ ایسی روایات جن کی اسانید صحیح ہیں لیکن (اگر) ان کے اندر علت پائی جاتی ہے ، کو ذکر کیا گیا ہے تاکہ اس کی علت کی وضاحت ہوجائے
[ دیکھیے کتاب المختارہ 69/1]

لہذا امام ضیاء المقدسی کے نزدیک مؤمل ثقہ ہیں کیوں کہ انہوں نے اس کتاب میں ان روایات کو ذکر کیا ہے جو صحیح الاسناد ہیں۔

(20) امام منذری رحمہ اللہ (المتوفی 656):
امام منذری رحمہ اللہ نے مسند بزار سے مؤمل بن اسماعیل کی ایک حدیث نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ
رواہ البزار بإسنادحسن
اسے بزار نے حسن سند سے روایت کیا
[ دیکھیے الترغيب والترهيب 118/4]
امام منذری نے مسند بزار سے اس روایت کو نقل کیا اور اس روایت کی سند کو حسن کہا
اور مسند بزار میں اس روایت کی سند میں مؤمل بن اسماعیل موجود ہیں
[دیکھیے مسند بزار 352/13 حدیث 6987 ]
یعنی جس روایت کی سند کو امام منذری نے حسن کہا اس میں مؤمل بن اسماعیل موجود ہیں گویا کہ مؤمل بن اسماعیل ان کے نزدیک حسن حدیث ہے۔

(21) امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751):
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل کی ایک حدیث کو سنن ابن ماجہ سے نقل کرنے کے بعد فرمایا کہ:
رواه ابن ماجه بإسناد حسن
اسے ابن ماجہ نے حسن سند سے روایت کیا ہے
[دیکھیے اغاثة اللهفان 1/ 342]
اور سنن ابن ماجہ میں اس روایت کی سند میں مؤمل بن اسماعیل موجود ہیں
[دیکھیے سنن ابن ماجہ 650/1 حدیث 2017 ]

(22) امام ابن الملقن رحمہ اللہ (المتوفی 804)
امام ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
مؤمل بن إسماعيل صدوق وقد تكلم فيه
مؤمل بن اسماعیل صدوق ہے اور ان کے بارے میں کلام کیا گیاہے
[البدر المنير لابن الملقن 4/ 652]
امام ابن ملقن نے مؤمل کو صدوق کہا ہے جس کا تقاضہ یہ ہے کہ مؤمل ان کے نزدیک ثقہ ہیں
اور آگے جو متکلم فیہ کہا ہے اس سے تو محض یہ لازم آتا ہے کہ بعض نے ان کے اوپر جرح کی ہے
بھلا اس سے راوی کا ضعیف ہونا تھوڑی لازم آتا ہے بلکہ اس سے تو ان کا ثقہ متکلم فیہ ہونا لازم آتا ہے۔ جو ہم بھی مانتے ہیں۔
بہر حال مؤمل امام ابن المقن کے نزدیک ثقہ ہیں۔

(23) امام بوصيري رحمه الله (المتوفى840):
آپ نے مؤمل کی ایک حدیث کے بارے میں کہا:
هذا إسناد حسن
یہ سند حسن ہے
[اتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة 493/6]

نیز ایک روایت کے بارے میں فرمایا کہ
ھذا اسناد صحیح
یہ سند صحیح ہے
[ دیکھیے اتحاف الخيرة المهرة بزوائد المسانيد العشرة 11/5 ]
لہذا ثابت ہوا کہ مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہیں امام بوصیری کے نزدیک

(24) امام ابن کثیر (المتوفی 774)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے مؤمل کی ایک روایت نقل کر کے فرمایا کہ
" وھذا ایضاً اسناد صحیح "
اور اسی طرح یہ والی سند صحیح ہے
[ دیکھیے تفسیر ابن کثیر ط دار الطیبہ 52/3]

(25) امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
امام ھیثمی رحمہ اللہ نے مؤمل کی حدیث کے بارے میں فرمایا کہ
مؤمل بن إسماعيل، وهو ثقة وفيه ضعف
مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہیں اوران میں ضعف ہے
[دیکھیے مجمع الزوائد 183/8 ]
نیز ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
مؤمل بن اسماعیل وھو ثقة
وہ مؤمل بن اسماعیل ثقہ ہیں
[دیکھیے مجمع الزوائد 119/2 ]

(26) امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (المتوفی 852):
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے مؤمل کی ایک روایت کے بارے میں فرمایا کہ
رجال ھذا الاسناد لاباس بھم
اس سند کے رجال میں کوئی حرج نہیں
[دیکھیے الأمالی حلبية صفحہ 41]
نیز امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ایک جگہ مؤمل کے بارے میں فرمایا کہ
" صدوق سيءالحفظ"
یہ سچا اور سیءالحفظ تھا
[دیکھیے تقریب التہذیب رقم 7029]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے نزدیک سیءالحفظ راوی عام حالات میں حسن الحدیث ہوتا ہے
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ایک راوی ابن عقیل کے متعلق کہتے ہیں کہ
ابن عقیل سيءالحفظ يصلح حديثه للمتابعات فأما إذا انفرد فيحسن
ابن عقیل سیءالحفظ ہیں ا کی احادیث متابعات کے قابل ہوں گی اور جب یہ منفر ہوں گے تو ان کی حدیث حسن ہو گی۔
[دیکھیے التلخیص الحبیر ط دار العلمیہ 255/2]
معلوم ہوا کہ حافظ ابن حجر کے نزدیک مؤمل حسن الحدیث ہیں۔

(27) امام عبد الحي بن احمد بن محمد ابن العماد رحمہ اللہ (المتوفی 1089 ):
امام عبدالحي ابن العماد رحمہ اللہ نے مؤمل بن اسماعیل کے بارے میں فرمایا کہ:
کان من ثقات البصرین
آپ بصرہ کے ثقہ لوگوں میں سے تھے
[دیکھیے شذرات الذھب 33/3]

(28) علامہ عینی حنفی رحمہ اللہ
امام عینی حنفی نے مؤمل بن اسماعیل کی سینے پر ہاتھ باندھنے والی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔
[البناية شرح الهداية 182/2]
یعنی مومل امام عینی حنفی کے نزدیک ثقہ صحیح الحدیث ہیں۔
 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
وقال البخاري منكر الحديث
امام بخاریؒ کا مؤمل بن اسماعیل کو منکر الحدیث کہنا ثابت نہیں۔کیا آپ امام بخاری ؒ کی کسی کتاب سے ثابت کر سکتے ہیں؟یا باسند کسی اور کتاب سے ؟؟؟
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
اسماء الرجال کی دو معتبر کتب تہذیب الکمال اور تہذیب التہذیب میں اس راوی پر شدید جرح ہے۔

تهذيب الكمال في أسماء الرجال (29 / 178):
وَقَال أَبُو حاتم (الجرح والتعديل: 8 / الترجمة 1709) : صدوق، شديد فِي السنة، كثير الخطأ .
وقَال البُخارِيُّ: منكر الحديث.
وَقَال أَبُو عُبَيد الأجري (سؤالاته: 5 / الورقة 12) : سألت أبا داود عن مؤمل بن إِسماعيل، فعظمه ورفع من شأنه إلا أنه يهم في الشئ.
تهذيب التهذيب (10 / 381):
وقال البخاري منكر الحديث
وقال الآجري سألت أبا داود عنه فعظمه ورفع من شأنه إلا أنه يهم في الشيء
وقال البخاري
مات سنة خمس أو ست وقال غيره دفن كتبه فكان يحدث من حفظه فكثر خطأه
قلت قال بن حبان في الثقات ربما أخطأ.
 
شمولیت
جولائی 22، 2018
پیغامات
637
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
62
ایک طرف اس راوی کی روایات اور دوسری طرف یہ روایت جس کے کسی راوی پر کوئی جرح نہیں۔
مگر اس پر دور حاجر کے لوگ لایعنی جرحیں کرتے اور ہر ممکن طریقہ سے حدیث کو جھٹلانے کی کلوشش کرتے ہیں۔
سنن الترمذي (2 / 43):
257 - حَدَّثَنَا هَنَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الأَسْوَدِ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: «أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَصَلَّى، فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ».
وَفِي البَابِ عَنْ البَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ.
حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ العِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالتَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الكُوفَةِ
__________
[حكم الألباني] : صحيح

عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (بہت سے افراد کی موجودگی میں) فرمایا کہ کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سی نماز نا پڑھاؤں؟ پھر انہوں نے نماز پڑھائی اور سوائے تکبیر تحریمہ کے اور کہیں بھی رفع الیدین نا کی۔
باب میں براء بن عازب سے (بھی یہی حدیث ہے)۔
(امام ترمذی) فرماتے ہیں کہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ والی حدیث ’’حسن‘‘ ہے، یہی بہت سے ’’اہل علم صحابہ کرام‘‘ اور اہل علم تابعین کہتے ہیں، اور یہی قول سفیان الثوری اور اہل کوفہ کا ہے۔
البانی کے ہاں یہ حدیث صحیح ہے۔​

 
شمولیت
جون 13، 2018
پیغامات
109
ری ایکشن اسکور
12
پوائنٹ
44
کسی راوی پر جرح ہونا کیا اس کے واقعی ضعیف ہونے کی دلیل ہے؟
امام بخاری رح کا مؤمل بن اسماعیل کو منکر الحدیث کہنا کسی سند بھی پیش کیا ہے آپ نے؟
نیز مؤمل بن اسماعیل کی اس حدیث پر کئیے جانے والے اعتراضات کے جوابات دے دئیے ہیں
اب جواب نہیں بنا تو رفع یدین کی حدیث لے آئے
تو میں پوچھوں گا کہ یہ پوسٹ رفع یدین پرہے؟
کیا اسلاف میں کوئی رفع یدین کرنے کا قائل نہیں؟

یہ الزامی جواب ہے
موضوع پر رہئیے
 
Top